زمرہ جات کے محفوظات: بائبل سٹڈی

image_pdfimage_print

خروج 20 باب (دوسرا حصہ)

ہم نے پچھلے حصے میں دس احکامات کے بارے میں  چند باتیں سیکھیں۔ اس  حصے میں ہم پہلے حکم پر غور کریں گے۔ میں  بہت زیادہ تفسیر میں نہیں جاؤنگی مگر کوشش کرونگی کہ   آپ کو اس سادہ سے حکم کو بہتر سمجھا سکوں۔ خروج 20:2 میں لکھا ہے؛

خداوند تیرا خدا جو تجھے ملکِ مصر سے اور غلامی کے گھر سے نکال لایا میں ہوں۔

آپ ان احکامات کو استثنا 5 باب میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ خروج میں جس طرح سے آیات درج ہیں وہ یہ دکھاتی ہیں کہ یہ خداوند کے منہ کے الفاظ ہیں مگر استثنا میں موسیٰ نبی ، خداوند کے حکموں کو  بنی اسرائیل کے لئے ایک دفعہ پھر سے دُہرا  رہے ہیں۔ آپ اگر میری طرح سنڈے سکول گئے تھے تو آپ کو یاد ہوگا کہ ہم نے ان احکامات کو اس طرح سے نہیں سیکھا تھا۔ ہم نے اس پہلے حکم کو جیسا کہ رومن کیتھولک  یا پروٹسٹنٹ چرچ  سکھاتے ہیں، اس طرح سے سیکھا "ایک خدا کو ماننا اور فقط اسکی بندگی اور اسی کو سجدہ کرنا۔( جیسا کہ "روزمرہ  کی عام دعائیں  ” کی کتاب میں درج ہے)  یا پھر  ” میرے حضورتو غیر معبودوں کو نہ ماننا۔” میں اگر کلام کو ذہن میں رکھتے ہوئے سوچوں تو مجھے یہ حکم صحیح لگے گا مگر اگر کوئی غیر مسیحی مجھے اس حکم کو سکھانے کی کوشش کریگا تو میرے ذہن میں پہلا سوال یہی اٹھے گا  کہ کونسے خدا کی بات ہو رہی ہے۔   خروج 20 باب (دوسرا حصہ) پڑھنا جاری رکھیں

خروج 20 باب (پہلا حصہ)

آپ کلام میں سے خروج کا 20 باب مکمل پڑھیں۔

خروج کے 20 باب میں جو احکامات درج ہیں انکو ایک عام مسیحی دس احکام سے جانتا ہے۔ میں آپ کو پہلے ہی خبردار کر دوں کہ ہم اس باب  کو تھوڑا سا گہرائی میں پڑھنے کی کوشش کریں گے  کیونکہ ہم ایک ایک حکم کے بارے میں تھوڑا سا اور سیکھیں گے کہ کیسے ہم اپنی زندگی میں ان حکموں پر عمل کر سکتے ہیں اور کیسے اپنی ناعقلی میں آسانی سے توڑ دیتے ہیں۔

عبرانی زبان میں دس احکامات کو  "عسیریت ہا-دیواریم،  עשרת הדברים Aseret Hadevarim” یا  پھر "عسیریت ہا- دیبیروت، עשרת הדברות Aseret Hadiberot ” پکارا جاتا ہے۔  اسکے معنی ہیں "دس الفاظ "یا  پھر "دس اشیا”۔  بعض یہودی دانشوروں کی رائے میں اس سے مراد  "دس حروف” ہے۔ میں نے پیدائش کے مطالعے میں شاید کہیں پر بھی ذکر نہیں کیا ہوگا کہ  پیدایش کی کتاب جس کو عبرانی زبان میں "بیریشیت בְּרֵאשִׁית Bereshit, ” کہا جاتا ہے عبرانی حروف کے دوسرے حرف "بیت ،  בְּ Beit, ” سے شروع ہوتا ہے۔ عبرانی حروف کے بارے میں اگر آپ کو تھوڑا علم ہو تو شاید آپ جانتے ہونگے کہ ہمارے پرانے عہد نامے  میں عبرانی حروف اکثر ایک بہت اہم پیغام دیتے ہیں جیسا کہ آپ میرے کچھ مطالعوں میں پڑھ چکے ہونگے۔ پیدایش کے پہلے باب کے مطالعے میں میں نے کچھ ان باتوں کو بھی بیان کیا تھا جو شاید آپ میں سے بہت سے لوگ سمجھ نہ پائے ہوں۔  عبرانی زبان میں "بیت ، בְּ” سے مراد گھر ہے۔  ہر گھر کے اپنے اپنے اصول ہوتے ہیں۔ خداوند نے ہمیں دنیا کی پیدایش میں  گھر نما تصور دکھایا ہے۔ ان احکامات کو خداوند کے گھر کے اصول سمجھیں۔ میں نے پہلے بھی کئی بار ذکر کیا ہے کہ توریت سے مراد "تعلیم یا ہدایات ” ہیں مگر اسکا ترجمہ شریعت ہر گز نہیں ہے۔ خروج 20 باب (پہلا حصہ) پڑھنا جاری رکھیں

خروج 19 باب

آپ کلام میں سے خروج کا 19 باب پورا خود پڑھیں۔ میں عموماً وہی آیات لکھتی ہوں جسکی ضرورت سمجھتی ہوں۔

ہمارا خروج کا 19 باب اس آیت سے شروع ہوتا ہے؛

اور بنی اسرائیل کو جس دن ملک مصر سے نکلے تین مہینے ہوئے اسی دن وہ سینا کے بیابان میں آئے۔

 بنی اسرائیل رفیدیم سے نکل کر بیابان میں آئے تو انھوں نے وہاں ڈیرے لگائے۔   اس آیت میں "اسی دن” سے مراد تیسرے مہینے کی 15 تاریخ نہیں ہے۔ایسا اس لئے سوچا جاتا ہے کہ بنی اسرائیل ملک مصر سے 15 نیسان کو نکل آئے تھے۔ اس آیت کے ترجمے میں تھوڑی سی مشکل درپیش ہے کیونکہ عبرانی زبان میں  جس طرح سے آیت لکھی ہے  اسکا ترجمہ وضاحت سے کرنا مشکل ہے۔ میرے پاس  انگلش میں تناخ بھی ہے   اور اس میں جس طرح سے آیت درج ہے اس سے ایسے لگتا ہے کہ تیسرے مہینے کے  "نئے چاند” والے دن کی بات ہو رہی ہے۔ یہودی لوگ پرانے عہد نامے کو تناخ کہتے ہیں۔  بہت سے علما میں بحث ہوتی ہے کہ اس آیت میں "نئے چاند” کا ذکر نہیں اسلئے   "اس دن ” سے مراد   کچھ اور ہے۔   میں  اپنی انگلش تناخ کے ترجمے سے متفق ہوں اور اسکی ایک وجہ ہے جو میں نیچے بیان کر رہی ہوں۔ خروج 19 باب پڑھنا جاری رکھیں

خروج 18 باب

آپ کلام میں سے خروج کا 18 باب خود پڑھیں میں صرف وہی آیات لکھونگی جس کی ضرورت محسوس کرونگی۔

پچھلے باب میں ہم نے پڑھا تھا کہ عمالیقیوں نے بنی اسرائیل پر حملہ کیا تھا اور خداوند نے بنی اسرائیل کو فتح بخشی تھی۔ ہمارا خروج کا 18 باب اس آیت سے شروع ہوتا ہے کہ؛

اور جو کچھ خداوند نے موسیٰ اور اپنی قوم اسرائیل کے لئے کیا اور جس طرح سے خداوند نے اسرائیل کو مصر سے نکالا سب موسیٰ کے خسر یترو نے جو مدیان کا کاہن تھا سنا۔

 شاید آپ کو یاد نہ ہو مگر خروج کے 3 باب کے مطالعے میں ہم نے پڑھا تھا کہ موسیٰ کے خسر کا نام رعوایل ہے مگر یہاں ہم پڑھ رہے ہیں کہ اسکا نام یترو ہے۔ اگر آپ کو خروج کے 3 باب کا مطالعہ یاد نہیں ہے تو میں ایک بار پھر سے بتا دیتی ہوں کہ میں نے ذکر کیا تھا کہ رعوایل ، یترو کا خطاب ہوگا کیونکہ یوسیفس کی کتاب میں رعوایل اور یترو ایک ہی شخص  کو بیان کرتے ہیں۔ یترو ، مدیان کا کاہن تھا۔ مدیان، ابرہام  کی اولاد ہی تھی  جو کہ انکی بیوی قطورہ سے تھا۔  کچھ علما کے خیال میں   یترو کو خداوند یہوواہ کا  علم تھا اور کچھ کے خیال میں یترو خداوند کا کاہن نہیں تھا اور نہ ہی اسے یہوواہ خدا کا علم تھا۔ ہمیں کلام میں نہیں ملتا کہ کب موسیٰ نے اپنی بیوی صفورہ اور بیٹوں جیرسوم اور الیعزر کو یترو کے پاس بھیجا تھا مگر بہت حد تک ممکن ہے کہ جب خداوند نے موسیٰ کو مارنے کی کوشش تھی(خروج 4)  تب شاید موسیٰ نے ایسا کیا ہو۔ خروج 18 باب پڑھنا جاری رکھیں

خروج 17 باب (دوسرا حصہ)

ہم نے پچھلے حصے میں پڑھا تھا کہ خداوند وہ چٹان ہے جس نے بنی اسرائیل کو پینے کے لئے پانی مہیا کیا۔ خروج 17:7 میں ہم پڑھتے ہیں ؛

اور اس نے اس جگہ کا نام مسہ اور مریبہ رکھا کیونکہ بنی اسرائیل نے وہاں جھگڑا کیا اور یہ کہہ کر خداوند کا امتحان کیا کہ خداوند ہمارے بیچ میں ہے یا نہیں۔

مسہ اور مریبہ عبرانی الفاظ ہیں۔ "مسہ” کا مطلب ہے "امتحان/آزمایش” اور "مریبہ” کےمعنی ہیں "جھگڑا کرنا یا بڑبڑانا”۔ بنی اسرائیل نے خداوند کو آزمایا۔ یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں تھا کہ وہ خداوند اور موسیٰ کے خلاف بڑبڑائے تھے مگر خداوند کو آزمانا۔۔۔۔، یہ انتہا درجے کی حماقت تھی۔ اسی بنا پر بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا جو ہمیں استثنا 6:16 میں لکھا ملتا ہے؛

تم خداوند اپنے خدا کو مت آزمانا جیسا تم نے اسے مسہ میں آزمایا تھا۔

زبور 95:8 سے 9 میں لکھا ہے؛

تم اپنے دل کو سخت نہ کرو جیسا مریبہ میں جیسا مساہ کے دن بیابان میں کیا تھا۔ اس وقت تمہارے باپ دادا نے مجھے آزمایا اور میرا امتحان کیا اور میرے کام کو بھی دیکھا۔

بنی اسرائیل کو خداوند نے منع کیا کہ وہ خداوند کو مت آزمائیں۔ یشوعا نے ہمیں اپنے پیچھے پیچھے چلنا کا حکم دیا ہے۔ جب شیطان یشوعا کو آزمانے آیا تھا تو اس نے یشوعا نے کہا (متی 4:6)؛

اگر تو خدا کا بیٹا ہے تو اپنے تئیں نیچے گرا دے کیونکہ لکھا ہے کہ وہ تیری بابت اپنے فرشتوں کو حکم دیگا اور وہ تجھے ہاتھوں پر اٹھا لینگے ایسا نہ ہو کہ تیرے پاؤں کو پتھر سے ٹھیس لگے۔

جواب میں یشوعا نے شیطان کو کہا (متی 4:7)؛

یسوع نے اس سے کہا یہ بھی لکھا ہے کہ تو خداوند اپنے خدا کی آزمایش نہ کر۔

میں پہلے یہ بات سمجھا چکی ہوئی ہوں کہ توریت جس کو مسیحی "شریعت” پکارتے ہیں موسیٰ کی پہلی پانچ کتابوں پر مشتمل ہے جو کہ پیدایش، خروج، احبار، گنتی اور استثنا ہیں۔ جب شیطان نے یشوعا کو کہا تھا کہ "اگر وہ خدا کا بیٹا ہے تو فرمائے کہ یہ پتھر روٹیاں بن جائیں” تو یشوعا نے جواب میں اس سے کہا تھا "کہ آدمی صرف روٹی سے جیتا نہ رہیگا بلکہ ہر بات سے جو خدا کے منہ سے نکلتی ہے۔” یشوعا نے جب شیطان کو کہا تھا "کہ تو خداوند اپنے خدا کی آزمایش نہ کر” تو وہ استثنا 6:16 کی آیت تھی۔ اور اگر آپ یشوعا کا دوسری دو آزمایشوں کا جواب بھی کلام میں سے ڈھونڈیں تو وہ بھی استثنا کی کتاب میں سے آیات پر ملے گا۔ یشوعا نے اپنے اوپر آئی ہوئی آزمایشوں کا جواب کلام میں سے دیا۔ یشوعا کو علم تھا کہ جیسا شیطان نے کہا تھا وہ ضرور پورا ہوگا مگر جانتے بوجھتے خدا کی قوت اور قدرت کو امتحان میں ڈالنا مناسب نہیں۔ صرف کسی کے کہنے پر ہمیں بھی ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ انسان پرجب مصیبت آتی ہے تو وہ خدا کے خلاف بڑبڑانا شروع کر دیتا ہے۔ اکثر مسیحی روح میں اس مقام پر آ ہی نہیں پاتے کہ شیطان کی طرف سے ان آزمایشوں کا مقابلہ "توریت” کی باتوں سے کر پائیں۔ آپ اپنے آپ کو روح میں کس مقام پر پاتے ہیں؟ کیا آپ کلام کو یعنی کہ اپنے خدا کو اتنا جانتے ہیں کہ اپنے دل کو سخت کرنے کی بجائے اور خدا کے خلاف بڑبڑانے کی بجائے یہ کہہ سکیں "کیا خداوند کے نزدیک کوئی بات مشکل ہے۔۔۔۔(پیدایش 18:14)”۔ آپ اس جملے کو اپنی صورت حال کو بیان کر کے کہہ سکتے ہیں "۔۔۔۔۔۔ کیا خداوند کے نزدیک کوئی بات مشکل ہے جو وہ میرے لئے ایسا نہ کر سکے؟ پر میں خداوند اپنے خدا کو آزما کر اسکے خلاف گناہ نہیں کرونگا/کرونگی”۔

ہم واپس اپنے خروج کے مطالعے پر آتے ہیں۔ خروج 17:8 میں درج ہے کہ رفیدیم میں عمالیقی اسرائیل سے لڑنے لگے۔ موسیٰ نے یشوع سے کہا کہ وہ بنی اسرائیل کے کچھ آدمیوں کو لے کر عمالیقیوں سے لڑے اور موسیٰ خدا کی لاٹھی اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا رہے گا۔ یشوع ، موسیٰ کے حکم کے مطابق عمالیقیوں سے لڑنے لگا مگر موسیٰ اور ہارون حور پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے۔ موسیٰ نے اپنے ہاتھ جب تک اٹھائے رکھے بنی اسرائیل عمالیقیوں پر غالب ہوتے تھے مگر جیسے ہی اسکے ہاتھ تھک کے لٹک جاتے تب عمالیقی غالب آجاتے۔ ہارون اور حور نے ایک پتھر لیکر موسیٰ کے نیچا رکھ دیا اور وہ اس پر بیٹھ گیا اور ہارون اور حور اسکے ہاتھوں کو سنبھالے رہے تاکہ نیچے نہ گریں۔ آفتاب کے غروب ہونے تک موسیٰ نے اپنے ہاتھ اٹھائے رکھے اور یشوع نے عمالیق اور اسکے لوگوں کو تلوار کی دھار سے شکست دی۔ خداوند نے موسیٰ کو اس بات کی یادگاری کے لئے کتاب میں لکھنے کو کہا کہ وہ یشوع کو سنا دے کہ عمالیق کا نام و نشان دنیا سے بالکل مٹا دونگا۔ فتح یابی کی شکرگذاری میں موسیٰ نے ایک قربان گاہ بنائی اور اس قربان گاہ کا نام "یہوواہ نسی” رکھا۔ موسیٰ نے کہا کہ خداوند نے قسم کھائی ہے ، خداوند عمالیقیوں سے نسل در نسل جنگ کرتا رہیگا۔ ان تمام باتوں میں سیکھنے اور جاننے کو بہت کچھ ہے۔ میں تمام باتوں کی تفصیل میں نہیں جاؤنگی مگر چند باتوں کو ضرور بیان کرونگی۔

سب سے پہلی اور اہم بات۔ قربانگاہ کا نام یہوواہ نسی رکھنے کے معنی یہ نہیں تھے کہ موسیٰ نے کوئی بت کھڑا کیا تھا۔ ویسے ہی جیسے کہ ہمیں کلام میں ابرہام، اضحاق اور یعقوب کا حوالہ ملتا ہے کہ انھوں نے خداوند کی شکرگذاری میں قربانگاہ بنائی ویسے ہی قربان گاہ بناتے ہوئے خداوند کی تعریف میں موسیٰ نے خداوند کو "یہوواہ نسی” پکارا ۔ میں نے اپنے "پرئیر واریر” کے آرٹیکلز میں ذکر کیا تھا کہ "نسی” کے معنی ہیں "جھنڈا”۔ نسی عبرانی لفظ ہے جس میں ہمیں عبرانی لفظ "نس” بھی نظر آتا ہے جسکے معنی "معجزہ” بھی ہے۔ ہمیں کلام میں یہوواہ نسی کے الفاظ صرف یہیں ملیں گے۔

آخر کیا وجہ تھی کہ خداوند نے قسم کھائی کہ وہ نسل در نسل عمالیقیوں سے جنگ کرتا رہیگا جب تک کہ عمالیق کا نام و نشان دنیا سے بالکل مٹ نہ جائے؟ استثنا 25:17 سے18 میں ہمیں پڑھنے کو ملتا ہے کہ ؛

یاد رکھنا کہ جب تم مصر سے نکل کر آرہے تھے تو راستہ میں عمالیقیوں نے تیرے ساتھ کیا کیا۔کیونکہ وہ راستہ میں تیرے مقابل کو آئے اور گو تو تھکا ماندہ تھاتو بھی انہوں نے انکو جو کمزور اورہ سب سے پیچھے تھے مارا اور انکو خدا کا خوف نہ آیا۔

عمالیقی قوم کے بارے میں میں نے مختصراً آستر کی کتاب کے مطالعے میں بتایا تھا کہ عمالیق، عیسو کے بیٹے الیفیز کی حرم تمنع سے پیدا ہوا تھا (پیدایش 36:12)۔ کلام عمالیقی قوم کو بزدل اور ظالم بیان کرتا ہے جو کہ کمزور پر حملہ کرتے ہیں۔ انھیں خدا کا کوئی خوف نہیں ہے۔ استثنا 25:19 میں بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ ان کے نام و نشان کو مٹا دیں مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ یہاں تک کہ بعد میں ساؤل بادشاہ نے بھی اس حکم کی نافرمانی کی۔ عمالیقی قوم کو نہ تب خدا کا خوف تھا اور نہ ہی اب۔ انکا انجام آخر کار ہلاکت ہی ہے۔

موسیٰ سے خدا نے فتح کا کوئی وعدہ نہیں کیا۔ اگر موسیٰ پہاڑ پر خدا کے لاٹھی کو ہاتھ میں پکڑے کھڑے تھے تو اسکی وجہ شاید یہی تھی کہ وہ خدا کی اس فتح یابی کو بیان کر رہے تھے جو کہ خداوند نے پہلے انھیں دکھائی تھی۔ اس پر اور بھی بات کی جا سکتی ہے مگر میں اپنے اس مطالعے کو یہیں ختم کرونگی۔ اگلی دفعہ ہم خروج کے 18 باب کا مطالعہ کریں گے۔

شابات شلوم۔ (عبرانی لفظ شابات کے معنی ہیں "سبت” اور شلوم کے معنی ہیں "سلامتی”)۔

عزرا 10 باب – دوسرا حصہ

ہم نے پچھلے حصے کے آخر میں پڑھا تھا کہ سکنیاہ بن عیلام نے کہا تھا کہ اسرائیل کے لئے ابھی بھی امید باقی ہے۔  جس جس نے بھی اجنبی عورتوں سے بیاہ کیا ہے وہ ان کو اور انکی اولاد کو دور کرنے کے لئے اپنے خدا سے عہد باندھیں۔ آپ کے خیال میں کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ ان عورتوں کو اجنبی  پکارا گیا ہے؟ روت کی کتاب پڑھیں تو معلوم پڑے گا کہ روت موآبی تھی  وہ بھی تو یہودی نہیں تھی مگر یہودیوں نے اسے قبول کیا۔ نئے عہد نامے کے مطابق اسے خدا کا فضل کہا جاتا ہے۔ کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ عزرا کی کتاب میں درج  یہ عورتیں، یہودی مردوں کے ساتھ شادی کرنے کے بعد بھی  اجنبی پکاری گئیں ،  نہ صرف وہ بلکہ انکی اولاد بھی؟ یہ بات یہودی لوگ بھی بہت اچھی طرح سے جانتے تھے کہ یہودی گھرانے میں پیدا ہونا صرف اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ کوئی یہودی ہے بلکہ یہوواہ خدا کو ماننا اور اسکے حکموں کو اپنانا، انسان کو یہودی بناتا ہے۔ استثنا 7:4 میں خداوند نے  وجہ بیان کی کہ وہ کیوں نہیں چاہتے کہ اسکے لوگ غیر قوموں  میں شادیاں کریں۔ اس میں لکھا ہے؛

کیونکہ وہ تیرے بیٹوں کو میری پیروی سے برگشتہ کردینگے تاکہ وہ اور معبودوں کی عبادت کریں۔ یوں خداوند کا غضب تم پر بھڑکیگا اور وہ تجھکو جلد ہلاک کردیگا۔ عزرا 10 باب – دوسرا حصہ پڑھنا جاری رکھیں

عزرا 10 باب – پہلا حصہ

ہم نے پچھلے حصے میں عزرا 9 باب کا مختصر سا مطالعہ کیا تھا۔ آپ کلام میں سے عزرا کا 10 باب مکمل پڑھیں۔

ہم نے پچھلے حصے میں پڑھا تھا کہ عزرا خداوند کے حضور میں بنی اسرائیل کی خاطر معافی کی دعا مانگ رہا تھا۔ اسکو دعا کرتے دیکھ کر اسرائیل میں سے مردوں اور عورتوں اور بچوں کی ایک بڑی جماعت بھی خداوند کی حضوری میں پھوٹ پھوٹ کر رونے میں شامل ہوگئی۔  اس وقت تمام بنی اسرائیل  نے تو  نہیں مگر ایک شخص نے عزرا سے یوں کہا (عزرا 10:2):

تب سکنیاہ بن یحی ایل جو بنی عیلام میں سے تھا عزرا سے کہنے لگا ہم اپنے خدا کے گنہگار تو ہوئے ہیں اور اس سرزمین کی قوموں میں سے اجنبی عورتیں بیاہ لی ہیں تو بھی اس معاملہ میں اب بھی اسرائیل کے لئے امید ہے۔

غلطی تو ہر کوئی کرتا ہے مگر  بجائے اسکے کہ صرف پچھتایا جائے اسکا آگے حل نکالنے کی ضرورت ہے۔ عزرا نے تو یہ غلطی نہیں کی تھی وہ خداوند کے حضور میں اپنے لوگوں کی خطاؤں کا ماتم کر رہا تھا یہاں تک کہ اس نے کچھ بھی کھایا پیا نہیں۔ غلطی کو دور کرنا تھا۔  میرے ذہن میں 1 سموئیل 2:25 کی آیت آ رہی ہے۔ اس میں لکھا ہے؛

اگر ایک آدمی دوسرے کا گناہ کرے تو خدا اسکا انصاف کریگا لیکن اگر وہ آدمی خداوند کا گناہ کرے تو اسکی شفاعت کون کریگا؟۔۔۔۔۔۔ عزرا 10 باب – پہلا حصہ پڑھنا جاری رکھیں

عزرا 9 باب

آپ کلام میں سے  عزرا 9 باب مکمل خود پڑھیں۔

ہم نے پچھلے باب کے آخر میں پڑھا تھا کہ  خداوند کی حضوری میں قربانیاں چڑھائی گئیں۔ اور اب ہم پڑھتے ہیں کہ ان قربانیوں کے بعد میں بنی اسرائیل کے سرداروں نے عزرا کے پاس آکر کہا کہ اسرائیل کے لوگ اور کاہن اور لاوی ان اطراف کی قوموں سے الگ نہیں رہے کیونکہ کنعانیوں، حتیوں، فرزیوں اور یبوسیوں اور عمونیوں اور موآبیوں اور مصریوں اور اموریوں کے سے نفرتی کام کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ان لوگوں نے ان قوموں کی بیٹیاں لی ہیں سو مقدس نسل ان اطراف کی قوموں کے ساتھ خلط ملط ہوگئی ہے۔ غیر قوموں سے شادی کرنے کو یہاں بدکاری پکارا گیا ہے۔  ایک عام انسان کی نظر میں تو یہ کوئی برائی نہیں مگر خدا کی نظر میں یہ اسکے حکم کی خلاف ورزی تھی اور بدکاری ہے۔ شریعت کے مطابق خداوند نے ایسا کرنے سے منع کیا تھا۔ ایک اہم بات جو میں یہاں بتاتی چلوں وہ یہ ہے کہ کاہن  اور لاویوں کا کام تھا  کہ خدا کے گھر میں خدمت کرتے اور کاہن لوگوں کو توریت کی تعلیم دیتے ۔ عزرا 9 باب پڑھنا جاری رکھیں

عزرا 8 باب

ہم نے پچھلے باب میں پڑھا تھا کہ عزرا کو ارتخششتا بادشاہ نے مقرر کیا تھا کہ وہ خداوند کے لوگوں کو شریعت سکھائے اور حاکموں اور قاضیوں کو مقرر کرے۔

ایک بار پھر سے ہمیں ان آبائی خاندانوں کے نام لکھے ملتے ہیں جو کہ عزرا کے ساتھ بابل سے نکلے۔آبائی خاندانوں کے نام درج ہیں نہ کہ افراد کے۔  فینحاس، سردار کاہن ہارون کے بیٹے الیعزر کا بیٹا تھا اور اتمر، ہارون کا چھوٹا بیٹا تھا (1 تواریخ 6:3 سے4 )۔ اسکا یہ مطلب نہیں کہ صرف دو کاہن ہی عزرا کے ساتھ واپس آئے تھے کیونکہ آگے ہم پڑھیں گے کہ عزرا نے 12کاہنوں کو چنا (عزرا 8:24)۔  میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا کہ ان درج  ناموں کی اہمیت ہے مگر چونکہ ہم عزرا کا بہت زیادہ گہرائی میں مطالعہ نہیں کر رہے اسلئے ان تمام ناموں کی تفصیل میں نہیں جائیں گے۔ عزرا کے ساتھ لگ بھگ ڈیڑھ ہزار مرد واپس آئے تھے۔ اصل تعداد زیادہ ہی ہوگی کیونکہ آبائی خاندانوں کی بات ہو رہی ہے  اور کچھ کی تعداد درج نہیں۔   عزرا 8:15 میں لکھا ہے؛

 پھر میں نے انکو اس دریا کے پاس جو اہاوا کی سمت کو بہتا ہے اکٹھا کیا اور وہاں ہم تین دن خیموں میں رہے اور میں نے لوگوں اور کاہنوں کا ملاحظہ کیا پر بنی لاوی میں سے کسی کو نہ پایا۔ عزرا 8 باب پڑھنا جاری رکھیں

عزرا 7 باب

آپ کلام میں سے عزرا کا 7 باب مکمل خود پڑھیں۔

ہمارا ساتواں باب شاہِ فارس ارتخششتا کے دورِ سلطنت سے عزرا کی کہانی کو بیان کرتا ہے۔ عزرا کے پہلے 6 ابواب میں عزرا کا نام نہیں ملتا بلکہ 7 باب  میں اسکا نام اسکے نسب نامے کے ساتھ ملتا ہے۔ میں نے پہلے ذکر کیا تھا کہ اسیری سے واپس آئے لوگ تین گروہوں میں آئے تھے۔ پہلا زربابل کی قیادت میں، دوسرا عزرا کی اور تیسرا نحمیاہ کی قیادت میں آیاتھا۔

ہمیں پہلی 6 آیات میں   عزرا کے بارے میں یہ جاننے کو ملتا ہے کہ عزرا ،  سردار کاہن ہارون جو کہ موسیٰ نبی کے بھائی تھے،  انکی نسل سے ہے۔  وہ ہارون کے بیٹے الیعزر کے بیٹے فینحاس کے خاندان  سے تھے۔ آپ کو  یہ نسب نامہ   1 تواریخ کے 6 باب میں بھی نظر آئے گا۔  سرایاہ ، عزرا کا باپ نہیں وہ شاید پردادا ہو۔ آپ کو چند نام اس نسب نامے میں نہیں نظر آئیں گے۔  میں نے پہلے بھی ذکر کیا ہے کہ کلام  میں درج نسب نامے  بعض اواقات کسی اہم بات کو اجاگر کرنے کے لئے ہوتے ہیں۔    عزرا ، ہارون کی نسل سے تھا  جن کے ذمے خداوند نے کہانت سونپی تھی اور صرف یہی بات اس نسب نامے میں اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔  عزرا 7:6 میں ہمیں لکھا ملتا ہے کہ؛ عزرا 7 باب پڑھنا جاری رکھیں