زمرہ جات کے محفوظات: بائبل سٹڈی

image_pdfimage_print

گنتی 5 باب

آپ کلام مقدس سے گنتی 5 باب مکمل خود پڑھیں میں صرف وہی آیات لکھونگی جس کی ضرورت سمجھونگی۔

ہم نے پہلے پڑھا تھا کہ کیسے خداوند نے مسکن کے گرد بنی اسرائیل کے قبیلوں کے ڈیرے جمانے کا حکم دیا تھا۔ خداوند کا مقدس انکے درمیان تھا، تین قسم کی ناپاکی کو اس لشکرگاہ سے باہر ہونا تھا۔ پہلی کوڑھ کی ناپاکی، دوسری جریان کے مریض کی اور تیسری مردہ کے سبب سے ناپاکی۔ رسمی ناپاکی کے حوالہ سے میں پہلے بھی بتا چکی ہوں کہ کوئی بھی جو ناپاکی میں ہو لازمی نہیں کہ اسکا سبب صرف گناہ ہے، ہاں مگر خداوند کے مقدس میں انکی حضوری میں، ناپاکی کی حالت میں داخل ہونا گناہ تھا۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ جب یشوعا ہیکل جاتے تھے تو کیا وہ رسمی پاکیزگی کے عمل سے نہیں گذرتے تھے؟ کیا انکے شاگردوں نے کبھی رسمی پاکیزگی کے حوالہ سے ہدایت نہیں کی؟
گلتیوں 5:19 سے 21 میں لکھا ہے؛

اب جسم کے کام تو ظاہر ہیں یعنی حرام کاری، ناپاکی، شہوت پرستی۔ بت پرستی، جادوگری، عداوتیں، جھگڑا، حسد، غصہ، تفرقے، جدائیاں، بدعتیں۔ بغض، نشہ بازی، ناچ رنگ اور اور انکی مانند۔ انکی بابت تمہیں پہلے سے کہتے دیتا ہوں جیسا کہ پیشتر جتا چکا ہوں کہ ایسے کام کرنے والے خدا کی بادشاہی کے وارث نہ ہونگے۔

یا پھر 2 کرنتھیوں 12:19 سے 21 آیات پر نظر ڈالیں جہاں لکھا ہے؛

تم ابھی یہی سمجھتے ہوگے کہ ہم تمہارے سامنے عذر کر رہے ہیں۔ ہم تو خدا کو حاضر جان کر مسیح میں بولتے ہیں اور ائے پیارو! یہ سب کچھ تمہاری ترقی کے لئے ہے۔ کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں آکر جیسا تمہیں چاہتا ہوں ویسا نہ پاؤں اور مجھے بھی جیسا تم نہیں چاہتے ویسا ہی پاؤکہ تم میں جھگڑا، حسد، غصہ، تفرقے، بدگوئیاں، غیبت، شیخی اور فساد ہوں۔ اور پھر میں جب آؤں تو میرا خدا مجھے تمہارے سامنے عاجز کرے اور مجھے بہتوں کے لئے افسوس کرنا پڑے جنہوں نے پیشتر گناہ کئے ہیں اور اس ناپاکی اور حرام کاری اور شہوت پرستی سے جو اُن سے سرزرد ہوئی توبہ نہیں کی۔

میں ایک اور آخری آیت اس حوالے سے آپ کے لئے لکھ رہی ہوں۔ رومیوں 6:19

میں تمہاری انسانی کمزوری کے سبب سے انسانی طور پر کہتا ہوں۔ جس طرح تم اپنے اعضا بدکاری کرنے کے لئے ناپاکی اور بدکاری کی غلامی کے حوالہ کئے تھے اُسی طرح اب اپنے اعضا پاک ہونے کے لئے راست بازی کی غلامی کے حوالہ کر دو۔

آپ اس آیت میں بدکاری کے لفظ کو دیکھیں کہ یونانی یا انگلش میں نیو کنگ جیمز کے ورژن میں دیکھیں کہ اس سے مراد "بغیر شریعت” بنتا ہے۔ ہم نے ان آیات میں لفظ "ناپاکی” کو بارہا پڑھا ہوگا مگر کبھی اس پر غور نہیں کیا۔ اگر یشوعا نے آپ کو گناہ سے رہائی بخشی ہے تو کیا اس سے مراد یہ ہے کہ اب آپ کو رسمی پاکیزگی کی ضرورت نہیں؟

جب بھی کوئی کوڑھ میں مبتلا ہوتا تھا تو اسے لشکرگاہ سے باہر کردیا جاتا تھا جو جریان کا مریض تھا یا مردہ کے سبب سے ناپاک ہوا تھا اسے پھر بھی اسرائیل کے لشکرگاہ تک رہنے کی اجازت تھی مگر وہ مسکن اور لاویوں/کاہنوں کے لشکرگاہ میں نہیں جا سکتے تھے۔ ان احاطوں کی تفصیل میں میں ابھی نہیں جاسکتی۔

گنتی 5:5 سے 8 آیات زیادتی اور بے انصافی کی تلافی سے متعلق قوانین بیان کرتی ہیں۔ اور ان آیات میں عبرانی میں آشام یعنی جرم کی قربانی اور تروماہ یعنی نذرانے کا ذکر آیا ہے۔ آپ احبار کی کتاب کے مطالعے میں ان کے حوالے سے مزید معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ خداوند نے حکم دیا کہ اگر کوئی شخص گناہ کرے تو وہ اس گناہ کا اقرار کرے اور اپنی غلطی کو سدھارنے کی خاطر وہ اُس شخص کو جس کا نقصان اس نے کیا ہے اسکو پورے دام کے علاوہ مزید بیس فیصد ملا کر معاوضہ ادا کرے۔ گنتی 5:9 سے 10 کی عبرانی آیات کا ترجمہ کچھ مشکل ہے۔ آیات درج ذیل ہیں؛

اور جتنی مُقدس چیزیں بنی اسرائیل اُٹھانے کی قربانی کے طور پر کاہن کے پاس لائیں وہ اُسی کی ہوں۔ اور ہر شخص کی مُقدس کی ہوئی چیزیں اُس کی ہوں اور جو چیز کوئی شخص کاہن کو دے وہ بھی اُسی کی ہو۔

آخر مُقدس کی ہوئی چیزیں کس کی ہیں کاہن کی یا کہ پھر اُس شخص کی جو قربانی کے طور پر لایا؟ یہودی دانشور اسکے حوالے سے یہ سمجھاتے ہیں کہ کوئی بھی جتنا کاہن کو ہدیہ یا خیرات صدقہ دیتا ہے وہ اُتنی ہی دولت حاصل کرے گا۔شریعت کی انھی باتوں کو سمجھانے کے لئے یشوعا نے لوقا6:38 میں کہا:

دیا کرو۔ تمہیں بھی دیا جائے گا۔ اچھا پیمانہ داب داب کر اور ہلا ہلا کر اور لبریز کر کے تمہارے پلے میں ڈالیں گے کیونکہ جس پیمانہ سے تم ناپتے ہو اُسی سے تمہارے لئے ناپا جائے گا۔

ہمارے لوگ ہدیہ ڈالتے ہوئے سب سے چھوٹا، پرانا اور گِھِیسا پیٹا نوٹ نکالتے ہیں کہ آخر خدا کے خادم کو اتنا دینے کی کیا ضرورت ہے۔ خداوند بھی ایسے لوگوں کو پھر اُسی پلڑے میں تول کر دیتے ہیں۔

اب بات کرتے ہیں گنتی 5:11 سے 31 آیات پر ۔ اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کے حوالے سے شک کرے کہ وہ اس سے کسی اور غیر مرد کے سبب بے وفائی کر رہی ہے اور شوہر کو کوئی ایسا ثبوت نہ مل پائے کہ وہ واقعی ایسا کر رہی ہے یا نہیں۔اگر وہ شخص اپنی بیوی کو اس غیر مرد سے دور رہنے کے لئے کہے اور وہ پھر بھی ایسا نہ کرے اور اسکے شوہر کی غیرت بھڑکنے لگے تو ایسی صورت میں وہ شخص اپنی بیوی کو کاہن کے سامنے لے جاکر کڑوے پانی کے امتحان سے گذار سکتا ہے۔ وہ شخص یوں ہی خالی ہاتھ خداوند کے حضور نہیں جا سکتا بلکہ اسے اس عورت کے چڑھاوے کے لئے خاص درج مقرر کردہ یادگاری کی نذر کی قربانی بھی ساتھ لے کر جانی ہے۔

عبرانی میں شوہر کا بیوی پر شک کرنا اور اسے کڑوے پانی کے امتحان سے گذارنے کے عمل کو "سوتا، Sotah סוטה” کہتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کڑوے پانی کے اس قانون کو کیوں دیا گیا؟ شاید آپ نے بھی کبھی کسی مسیحی علما سے اسکے متعلق سنا ہو کہ” شریعت لعنت ہے (خداوند معاف کریں) کیونکہ شریعت کے بہت سے قوانین ایسے تھے جن پر عمل کرنا مشکل تھا۔ مسیح نے شریعت کی لعنت سے آزاد کیا ہے اسلئے اب ہمیں شریعت کے موافق چلنے کی ضرورت نہیں۔” مجھے ایسوں کا بھی علم ہے جو کہتے ہیں کہ "عورت کے لئے کڑوے پانی کا یہ امتحان دینا سراسر غلط تھا کیونکہ خداوند نے مرد کو تو چُھوٹ دی کہ کچھ بھی کرے مگر عورت اگر ایسی ذرا سی بھی غلطی کرے تو اسکے لئے کڑی سزا ہے”۔ مگر کیا واقعی میں خداوند نے مرد اور عورت کے حقوق میں فرق کیا ہے؟ توریت مرد اور عورت دونوں کو ہی زنا نہ کرنے کا حکم دیتی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ توریت، مرد کو ایک سے زائد شادی کرنے کی اجازت دیتی ہے مگر کسی شادی شدہ عورت سے زناکاری کی اجازت نہیں دیتی (احبار 20:10)۔ یوحنا 8:3 میں اس عورت کو جو زنا میں عین فعل کے وقت پکڑی گئی تھی تو فقہیہ اور فریسی اسکو یشوعا کے پاس لائے اور انھوں نے یشوعا سے شریعت کے مطابق عورت کو سنگسار کرنے کی نسبت سے پوچھا۔ یشوعا نے ان سے کہا کہ جو تم میں بے گناہ ہو وہی پہلے اسکے پتھر مارے۔ احبار 20:10 کو غور سے پڑھیں کہ سنگسار کرنے کا حکم صرف عورت کے لئے ہی نہیں تھا بلکہ مرد اور عورت جو زنا کرتے ہوئے پکڑے گئے دونوں کے لئے تھا۔ فقیہہ اور فریسی عورت کو تو لائے مگر مرد کو سامنے نہ پیش کیا۔

سوتا،Sotah کے معاملے میں بیوی کو عین فعل میں نہیں پکڑا گیا مگر شوہر کو شک ہے کہ شاید اسکی بیوی نے ایسا کیا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نہ کیا ہو۔ عموماً اس قسم کےشک سے حسد پیدا ہوتا ہے اور حسد کے سبب سے میاں بیوی میں جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں اور شاید شوہر اپنی بیوی پر ہاتھ بھی اُٹھائے۔ اگر یہ حسد اس قدر بڑھ رہا ہے کہ گھر کا سکون برباد ہو رہا ہے تو کڑوے پانی کا یہ امتحان بے گناہ عورت کے لئے برکت اور گنہگار کے لئے لعنت کا سبب بنتا تھا۔ اس امتحان کا مقصد عورت کو گنہگار ثابت کرنا نہیں تھا بلکہ اسکی بےگناہی ثابت کرنا تھی تاکہ گھر میں سکون قائم رہ سکے۔

سوتا، Sotah سے متعلق قوانین اتنے بھی سادہ نہیں تھے۔ ہم انکی تفصیل میں نہیں جائیں گے۔ میں نے خروج کے مطالعے میں بنی اسرائیل کے سونے کے بچھڑے کے گناہ کے حوالے بتایا تھا کہ کیوں بنی اسرائیل کو موسیٰ نبی نے یوں پانی پلایا تھا۔ آپ ایک نظر اس آرٹیکل پر بھی ڈالیں۔ عورت قوم کو ظاہر کرتی ہے۔ اب ذرا مسیحی قوم کا اپنے مالک خداوند کے ساتھ وفاداری کا سوچیں کہ کیسے وہ خداوند سے بے وفائی کررہی ہے؟

جب سے انٹرنیٹ پر سوشل میڈیا کی وجہ سے لوگوں نے آن لائن دوست بنانا شروع کئے ہیں ۔ بہت سے خالی دوستی کی اس حد کو پار کرکے آگے نکل جاتے ہیں۔ شادی شدہ یا غیر شادی شدہ دونوں ہی یہ سوچتے ہیں کہ ہم صرف ٹیکسٹ ہی تو کر رہے ہیں یا تصویریں ہی تو ایک دوسرے کو بھیج رہے ہیں کونسا اصل زنا کاری میں ملوث ہو گئے ہوئے ہیں؟ کبھی سوچا ہے کہ خداوند کا خوف کرنے سے کیا مراد ہے؟ آپ کس کو بیوقوف بنانے کی کر رہے ہیں۔ یہ سوچنا کہ کوئی نہیں جانتا، کوئی نہیں دیکھ رہا۔۔۔۔ یہ سب غلط ہے کیونکہ خداوند جانتے ہیں اور وہ تب بھی دیکھ رہے ہوتے ہیں جب کوئی نہیں دیکھ رہا ہوتا۔ توریت کے بہت سے قوانین آپ پر لاگو نہ ہوں اگر آپ انکو نہ توڑیں۔

خداوند آپ کو اپنا کلام سمجھنے کی حکمت بخشیں۔ خداوند نے چاہا تو اگلی بار جلد ہی ہم گنتی 6 باب کا مطالعہ کریں گے۔

گنتی 4 باب

آپ کلام مقدس سے گنتی کا چوتھا باب مکمل خود پڑھیں۔ میں آپ کے ساتھ وہی آیات شئیر کرونگی جن کی ضرورت سمجھونگی۔

گنتی 3 باب میں جب ہم نے لاویوں کی مردم شماری کا پڑھا تھا تو وہاں 1 مہینے سے اوپر تمام فرزند نرینہ کو گننے کا حکم تھا۔ انکی کل تعداد بائیس ہزار تھی۔ اس مردم شماری میں 30 سے 50 کی عمر کے مردوں کو گننے کا حکم دیا گیا۔ شاید آپ کو یاد ہو کہ میں نے پچھلے مطالعوں میں بیان کیا تھا کہ عبرانی میں گننے کے لئے جن دو لفظوں کا استعمال کیا گیا ہے وہ پکاد اور ناسا ہیں۔ پچھلے باب میں بھی گننے کے لئے لفظ پکاد کا استعمال کیا گیا مگر اس باب کی دوسری آیت میں گننے کے لئے عبرانی لفظ "ناسو، Naso נָשֹׂא” ہے بے شک پکاد کا بھی لفظ اس باب میں استعمال کیا گیا ہے مگر میں خاص لفظ ناسو کی بات کر رہی ہوں۔ اس سے مراد بلند کرنا یا سرفراز کرنا بنتا ہے۔ گنتی3:17 باب میں جیرشون اور قہات اور مراری کے نام لکھے ملیں گے مگر جب خدمت کے لئے ناموں کی جو ترتیب ہے وہ قہات پہلے پھر جیرسون اور پھر مراری ہے۔ خداوند نے بنی قہات کو باقی گھرانوں سے مزید سرفراز کیا حالانکہ پہلے نمبر پر جیرشون کا گھرانہ تھا۔ اگر آپ نے کلام میں سے اس باب کو مکمل پڑھا ہے تو آپ کے ذہن میں شاید یہ سوال اٹھا ہو کہ اس تمام تفصیل کا کیا مقصد ہے۔ یہ سب کچھ ہیکل میں خدمت کی ترتیب قائم رکھنے میں مدد دیتا آیا ہے کیونکہ پہلی ہیکل، مسکن کے نقشہ پر قائم ہوئی اور دوسری ہیکل، پہلی ہیکل کے نقشہ پر قائم ہوئی۔ تیسری ہیکل کا ذکر ہمیں حزقی ایل میں لکھا ملتا ہے مگر اسکے بہت سے حوالہ جات دوسری ہیکل کی تعمیر میں نظر آتے ہیں اور دوسری ہیکل کا سوچیں تو پہلی ہیکل کی تعمیر ذہن میں آتی ہے۔ میں جانتی ہوں کہ یہ سب کچھ۔ آپ کے لئے شاید کافی کنفیوزنگ ہے۔ مگر کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مسکن کا پیٹرن ہمیں پہلی ، دوسری اور حزقی ایل میں درج تیسری ہیکل میں بھی ملتا ہے۔ ساتھ میں یہ بھی کہتی چلوں کہ وہ جو کہ سوچتے ہیں کہ تیسری ہیکل مخلاف مسیحا کی ہے تو یہ بالکل غلط ہے کیونکہ ہیکل کو خداوند کا گھر، دعا کا گھر پکارا گیا ہے۔ یہ میں نہیں کہہ رہی بلکہ کلام میں لکھا ہے۔ وہ جو اس کو شیطان کا گھر کہتے ہیں یا اس کی تعمیر کے خلاف ہیں وہی مخالف مسیحا ہیں۔

خیمہ اجتماع میں پاک ترین اشیا کی نسبت ذمہ داری بنی قہات کو سونپی گئی مگر وہ بھی یہ کام خود سے انجام نہیں دے سکتے تھے انھیں ہارون اور انکے بیٹوں کا انتظار کرنا تھا کہ جب تک وہ تمام پاک اشیا کو خداوند کے بتائے ہوئے حکم کے مطابق غلاف سے ڈھانپ نہ دیں اور کوچ کرنے کا وقت نہ آجائے تب تک بنی قہات مقدس کو نہ چھوئیں تاکہ ایسا نہ ہو کہ وہ مر جائیں۔ بنی قہات کو دم بھر کے لئے بھی مقدس کو دیکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ مگر کیوں؟ پاکیزگی کے حکموں کو جب تک آپ اچھی طرح سے سمجھ نہیں پاتے آپ تب تک پاک خدا کو نہیں سمجھ سکتے۔ جو قوانین خداوند نے خاص کاہنوں کے لئے دیئے تھے وہ لاوی کے تمام گھرانوں پر عائد نہیں ہوتے تھے۔ میں نے پہلے بتایا تھا کہ کاہن پاکیزگی میں لاویوں سے بڑھ کر تھے۔ اسلئے بنی قہات کو پھر بھی احتیاط کرنی تھی اور اس کے لئے خداوند نے خاص کاہنوں کو حکم دیا تھا کہ وہ دیکھ بھال کر یہ سب کچھ کرنے بعد بنی قہات کو اپنا کام انجام دینے دیں۔ گنتی 4:16 پر ذرا غور کریں وہاں لکھا ہے؛

اور روشنی کے تیل اور خوشبودار بخور اور دائمی نذر کی قربانی اور مسح کرنے کے تیل اور سارے مسکن اور اسکے لوازم کی اور مقدس اور اسکے سامان کی نگہبانی ہارون کاہین کے بیٹے الیعزر کے ذمہ ہو۔

خداوند نے الیعزر کو کاہنوں میں بڑھ کر رتبہ دیا گو کہ شاید اس سٹیج پر ابھی کاہنوں کی تعداد اتنی زیادہ نہیں بڑھی شاید آپ کے لئے یہ اہم نہ ہو مگر یہ اہمیت رکھتا ہے۔ داود بادشاہ کے زمانے میں دو سردار کاہنوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ آخر اسکا سبب کیا ہے؟

قہات کے بعد خداوند نے بنی جیرسون کے لئے خیمہ اجتماع کی خدمت کے کام سونپے۔ انھیں خدمت اور بوجھ اٹھانے کا کام دیا گیا کہ وہ مسکن کے پردوں کو اور خیمہ اجتماع اور اسکے غلاف کو اور خیمہ اجتماع کے دروازے کے پردے کو، صحن کے پردوں کو اور صحن کے دروازے کے پردہ کو اور رسیوں کو اور خدمت کے تمام ظروفوں کو اٹھائیں اور ساتھ ہی میں ان ظروفوں سے جو کام انجام دئیے جاتے تھے وہ بھی انھی کو کرنا تھا۔ وہ ہارون کاہن کے بیٹے اتمر کے ماتحت تھے۔
بنی جیرسون کے بعد بنی مراری کو خیمہ اجتماع میں مسکن کے تختے اور اسکے بینڈے اور ستون اور ستون کے خانے اور صحن کے ستون اور انکے خانے اور میخیں اور رسیاں اور سب آلات اٹھانے کام سونپا گیا۔

موسیٰ نبی اور بزرگ ہارون نے تمام قہاتیوں کو پھر جیرسون اور پھر مراریوں کو جو تیس برس سے پچاس برس تک تھے ان کو گنا۔ ان سب کا شمار آٹھ ہزار پانچ سو اسی تھا۔ اردو کلام میں گنتی 4:49 کا ترجمہ مجھے کچھ عجیب لگا۔ پاکستان بائبل سوسائٹی اور رومن کیتھولک بائبل میں یہ آیت تقریباً ایک جیسی ہے۔ میں پاکستان بائبل سوسائٹی سے ترجمہ شئیر کر رہی ہوں؛

وہ خداوند کے حکم کے مطابق موسیٰ کی معرفت اپنی اپنی خدمت اور بوجھ اٹھانے کے کام کے مطابق گنے گئے۔ یوں وہ موسیٰ کی معرفت جیسا خداوند نے اس کو حکم دیا تھا گنے گئے۔

میں جب کلام کو پڑھتی ہوں تو جہاں مجھے پیٹرن دھراتا ہوا نظر آئے میں اسے نظر انداز نہیں کرتی بلکہ اسے عبرانی بائبل میں دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتی ہوں۔ اس آیت میں "گنے گئے” دو دفعہ آیا ہے۔ میں نے اوپر بتایا تھا کہ اس باب میں گننے کے لئے یا تو لفظ پکاد ہے یا پھر ناسو۔ اوپر کی آیت میں پہلی بار جہاں گنے گئے آیا ہے وہاں عبرانی لفظ پکاد ہے اسکا صحیح معنی یہاں پر "تعینات کرنا یا پھر ذمے لگانا” بنے گا۔ دوسری بار لفظ پکاد کا ترجمہ گنے گئے ہی بنے گا۔ میں نے انگلش بائبل کے بہت سے ورژن چیک کئے سوائے چند میسیانک بائبل کے تقریباً تمام کا معنی گنے گئے ہی لکھا گیا ہے۔ ویسے تو میرے اپنے خیال سے آیت کے مہفوم پر کچھ خاص فرق نہیں پڑتا مگر پھر وہی بات کہ عبرانی زبان کا علم کلام کو بہتر سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔

ویسے تو اس باب میں ہم خاص تفصیل میں پڑھ رہے ہیں کہ کس طرح سے لاویوں کے گھرانوں کو مسکن کی کیا کیا خدمات سونپی گئیں اور مراریوں کو تو ایک ایک کا نام لے کر خدمت سونپی گئی مگر گنتی کے پہلے باب میں ہم خداوند کا یہ حکم مختصراً پڑھ چکے تھے۔ گنتی 1:47 سے 54 میں یوں لکھا ملتا ہے؛

پر لاوی اپنے آبائی قبیلہ کے مطابق انکے ساتھ گنے نہیں گئے۔ کیونکہ خداوند نے موسیٰ سے کہا تھا کہ تو لاویوں کے قبیلہ کو نہ گننا اور نہ بنی اسرائیل کے شمار میں انکا شمار داخل کرنا۔ بلکہ تو لاویوں کو شہادت کے مسکن اور اسکے سب ظروف اور اسکے سب لوازم کے متولی مقرر کرنا۔ وہی مسکن اور اس کے سب ظروف کو اٹھایا کریں اور وہی اس میں خدمت بھی کریں اور مسکن کے آس پاس وہی اپنے ڈیرے لگایا کریں۔ اور جب مسکن کو آگے روانہ کرنے کا وقت ہو تو لاوی اسے اتاریں اور جب مسکن کو لگانے کا وقت ہو تو لاوی اسے کھڑا کریں اور اگر کوئی اجنبی شخص اس کے نزدیک آئے تو وہ جان سے مارا جائے۔ اور بنی اسرائیل اپنے اپنے دل کے مطابق اپنی اپنی چھاؤنی اور اپنے اپنے جھنڈے کے پاس اپنے اپنے ڈیرے ڈالیں۔ لیکن لاوی شہادت کے مسکن کے گرداگرد ڈیرے لگائیں تاکہ بنی اسرائیل کی جماعت پر غضب نہ ہو اور لاوی ہی شہادت کے مسکن کی نگہبانی کریں۔ چنانچہ بنی اسرائیل نے جیسا خداوند نے موسیٰ کو حکم دیا تھا ویسا ہی کیا۔

کچھ اسی قسم کا حکم ہمیں گنتی 3:5 سے 12 میں بھی ملتا ہے اور ساتھ ہی میں خاص وجہ بھی کہ کیوں خداوند نے انھیں اپنا لیا۔

اور خداوند نے موسیٰ سے کہا۔ لاوی کے قبیلہ کو نزدیک لا کر کاہن کے آگے حاضر کر تاکہ وہ اس کی خدمت کریں۔ اور جو کچھ اس کی طرف سے اور جماعت کے طرف سے ان کو سونپا جائے وہ سب کی خیمہ اجتماع کے آگے نگہبانی کریں تاکہ مسکن کی خدمت بجا لائیں۔ اور وہ خیمہہ اجتماع کے سب سامان کی اور بنی اسرائیل کی ساری امانت کی حفاظت کریں تاکہ مسکن کی خدمت بجا لائیں۔ اور تو لاویوں کو ہارون اور اسکے بیٹوں کے ہاتھ میں سپرد کر۔ بنی اسرائیل کی طرف سے وہ بالکل اسے دے دئے گئے ہیں۔ اور ہارون اور اسکے بیٹوں کو مقرر کر اور وہ اپنی کہانت کو محفوظ رکھیں اور اگر کوئی اجنبی نزدیک آئے تو وہ جان سے مارا جائے۔
اور خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ۔ دیکھ میں نے بنی اسرائیل میں سے لاویوں کو ان سبھوں کے بدلے لے لیا ہے جو اسرائیلیوں میں پہلوٹھی کے بچے ہیں۔ سو لاوی میرے ہیں۔

لاوی قبیلے کو اپنی مرضی نہیں دی گئی کہ وہ اگر اس کام کو کرنے سے انکار کرنا چاہیں تو انکار کر دیں انکو تو خداوند نے اسرائیل کے پہلوٹھوں کے عوض اپنا لیا۔ کچھ عجیب سا نہیں لگتا کہ ان سے انکی مرضی پوچھے بغیر ایسا کیا جا رہا ہے؟ شاید میں پہلے بیان کر چکی ہوئی ہوں کہ جب بنی اسرائیل سے سونے کے بچھڑے کا گناہ سرزرد ہوا اور جب موسیٰ نبی نے کہا کہ جو جو خداوند کی طرف ہے وہ میرے پاس آجائے تو تب سب بنی لاوی ان کے پاس جمع ہوگئے (خروج 32:26)۔ لاویوں کی اپنی مرضی شامل تھی کہ وہ خداوند میں قائم رہیں۔ تبھی خداوند نے انکو تمام قبیلوں میں سربلند کیا۔

ہم مزید لاویوں کے بارے میں گنتی اور استثنا کی کتاب میں پڑھیں گے۔ میں اپنے اس مطالعے کو اسی خاص پوائنٹ سے ختم کرنا چاہونگی کہ لاوی قبیلے کو خداوند نے چنا کہ وہ خداوند کی خدمت بجا لائیں۔ آپ اپنے آپ کو خدا کا کاہن یا لاوی پکار کر انکی جاب نہیں چھین سکتے کیونکہ اجنبی کو اجازت نہیں دی گئی کہ وہ مسکن کے قریب آئے۔ دوسری ہیکل کے دنوں میں ہیکل میں ایک خاص مقام جہاں سے آگے اجنبیوں کا داخلہ ممنوع تھا، لاطینی اور یونانی زبان میں وارننگ لکھی گئی ہوئی تھی کہ اس باڑْ/جنگلے سے آگے غیر یہودی کا داخلہ ممنوع ہے جو کوئی اس کو پار کرے گا وہ جان سے مار دیا جائے گا۔ میں نے پچھلے باب میں بتایا تھا کہ دوسری ہیکل، پہلی ہیکل کے پیٹرن پر تھی یعنی پہلی ہیکل میں بھی مسکن کی طرح یہ حکم رائج تھا۔ نہ تو یشوعا نے اور نہ ہی پولس رسول نے خداوند کے اس حکم کی عدولی کی۔ گنتی کے اوپر درج دونوں حوالوں میں اجنبی کے لئے عبرانی لفظ "حازار، הזר، HaZar״ استعمال ہوا ہے۔ تناخ میں اجنبی، غیر  وغیرہ کے لئے مختلف عبرانی لفظوں کا ذکر آیا ہے ہم ابھی اس لفظ کی گہرائی میں نہیں جائیں گے اس کو ہم پھر کسی اور باب میں دیکھیں گے۔ خداوند آپ کو ان تمام باتوں کی گہرائی میں گائیڈ کریں، آمین۔

گنتی کی کتاب، 3 باب

آپ کلام مقدس سے تیسرے باب کو مکمل خود پڑھیں۔

گنتی 3:1 میں یوں درج ہے؛

اور جس روز خداوند نے کوہ سینا پر موسیٰ سے باتیں کیں تب ہارون اور موسیٰ کے پاس یہ اولاد تھی۔

گو کہ موسیٰ نبی کے اپنے بھی دو بیٹے تھے مگر ہمیں اگلی آیات میں صرف بزرگ ہارون کے بیٹوں کا نام لکھا ملتا ہے حالانکہ کہنے کو اوپر درج آیت کے مطابق ہارون اور موسیٰ کے پاس یہ اولاد تھی۔ آپ کو زیادہ تر یہودی دانشوروں سے یہی سننے کو ملے گا کہ ہارون کے بیٹے موسیٰ نبی کی روحانی اولاد بن گئی کیونکہ جو کوئی کسی کی اولاد کو توریت سکھاتا ہے وہ اسکی روحانی اولاد بن جاتی ہے۔ آپ کے بھی ذہن میں شاید میری طرح یہ سوال اٹھا ہو گا کہ آخر تمام اسرائیل کیونکر نہیں یوں موسیٰ نبی کی اولاد گنی گئی اور اسکا جواب یہودی دانشور یوں دیتے ہیں کہ تمام اسرائیل کو توریت سکھانے کا حکم خداوند نے دیا تھا موسیٰ نبی پر لازم تھا کہ وہ خداوند کا حکم پورا کرتے۔ بزرگ ہارون اپنی اولاد کے لئے موجود تھے کہ وہ انھیں توریت کی تعلیم دیتے مگر موسیٰ نبی پر لازم نہیں تھا کہ وہ ایسا کرتے مگر جب انھوں نے ایسا کیا تو وہ انکی روحانی اولاد گنی گئی۔

ہمیں اگلی چند آیات سے پتہ چلتا ہے کہ گو کہ بزرگ ہارون کے چاروں بیٹوں کو کاہن مسح گیا تھا مگر صرف الیعزر اور اتمر تھے جنہوں نے کہانت کی خدمت کا کام انجام دیا کیونکہ ندب اور ابیہو خداوند کی حضوری میں مر گئے اور انکی کوئی اولاد نہ تھی۔ الیعزر اور اتمر کا نام یاد رکھیں کیونکہ آگے تناخ کو مزید پڑھتے ہوئے کام آئے گا۔

اس باب  میں ہم لاویوں کی مردم شماری کا پڑھتے ہیں اور یہ بھی کہ اسرائیل قوم میں خداوند نے لاویوں کو اپنے لئے چن لیا کہ وہ مسکن کی خدمت میں بزرگ ہارون کا ساتھ دیں۔  گنتی 3:11 سے 13 میں یوں لکھا ہوا ہے؛

اور خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ دیکھ میں نے بنی اسرائیل میں سے لاویوں کو ان سبھوں کے بدلے لے لیا ہے جو اسرائیلیوں میں پہلوٹھی کے بچے ہیں۔ سو لاوی میرے ہوں۔ کیونکہ سب پہلوٹھے میرے ہیں اس لئے کہ جس دن میں نے ملک مصر میں سب پہلوٹھوں کو مارا اسی دن میں نے بنی اسرائیل کے سب پہلوٹھوں کو کیا انسان اور کیا حیوان اپنے لئے مقدس کیا سو وہ ضرور میرے ہوں۔ میں خداوند ہوں۔  

میں نے کچھ اصولوں کو پہلے بھی سمجھانے کی کوشش کی ہے اس باب میں بھی ایک خاص اصول کو نوٹ کریں۔ بزرگ ہارون اور انکے بیٹے لاویوں کے خاندان سے ہیں مگر انکو خداوند نے کہانت کی خدمت کے لئے چنا جو مسکن میں پاک خدمت کا کام انجام دیں۔ تمام لاوی کاہن نہیں ہیں مگر انکو کاہنوں کو دیا گیا کہ انکی خدمت کریں۔ عام انسان کو کاہن نہیں چنا گیا بے شک خداوند نے اسرائیل کو اپنا کاہن پکارا ہے (خروج 19:6) مگر جب انھوں نے سونے کے بچھڑے کا گناہ کیا تو خداوند نے لاویوں کو اپنی خدمت کے لئے چن لیا۔ ہماری مسیحی قوم میں بہت سے اپنے آپ کو خداوند کا کاہن پکارتے ہیں مگر وہ کاہن ہیں نہیں کیونکہ انکو کہانت کے بارے میں کچھ علم نہیں۔ وہ بھی بنی اسرائیل کی مانند ایک طرح سے سونے کے بچھڑے کے گناہ میں پڑے ہوئے ہیں اور سوچتے ہیں کہ وہ خداوند کے کاہن ہیں۔ کاہن ہونے کے لئے ہارون کے خاندان سے ہونا لازم ہے۔ لاویوں کے خاندان سے خداوند کا یہ عہد ہے جو کبھی ٹوٹ نہیں سکتا۔ یہ میں نہیں خداوند کا کلام کہتا ہے (یرمیاہ 33:14 تا 22)

دیکھ وہ دن آتے ہیں خداوند فرماتا ہے کہ وہ نیک بات جو میں اسرائیل کے گھرانے اور یہوداہ کے گھرانے کے حق میں فرمائی ہے پوری کروں گا۔ ان ہی ایام میں اسی وقت میں داود کے لئے صداقت کی شاخ پیدا کروں گا اور وہ ملک میں عدالت و صداقت سے عمل کرے گا۔ ان دنوں میں یہوداہ نجات پائے گا اور یروشلیم سلامتی سے سکونت کریگا۔ اور خداوند ہماری صداقت اس کا نام ہوگا۔ کیونکہ خداوند یوں فرماتا ہے کہ اسرائیل کے گھرانے کے تخت پر بیٹھے کے لئے داود کو کبھی آدمی کی کمی نہ ہوگی۔ اور نہ ہی لاوی کاہنوں کو آدمیوں کی کمی ہوگی جو میرے حضور سوختنی قربانیاں گذرانیں اور ہدئے چڑھائیں اور ہمیشہ کی قربانی کریں۔

پھر خداوند کا کلام یرمیاہ پر نازل ہوا۔ خداوند یوں فرماتا ہے کہ اگر تم میرا وہ عہد جو میں نے دن سے اور رات سے کیا توڑ سکو کہ دن اور رات اپنے اپنے وقت پر نہ ہوں۔ تو میرا وہ عہد بھی جو میں نے اپنے خادم داود سے کیا ٹوٹ سکتا ہے اور وہ عہد بھی جو اپنے خدمت گذار لاوی کاہنوں سے کیا۔ جیسے اجرام فلک بے شمار ہیں اور سمند کی ریت بے اندازہ ہے ویسے ہی میں اپنے بندہ داود کی نسل کو اور لاویوں کو جو میری خدمت کرتے ہیں فراوانی بخشوں گا۔

 جہاں تک مجھے علم ہے دن اور رات ابھی بھی قائم ہیں لہذا خداوند کا وعدہ جو داود اور لاوی کاہنوں کے گھرانے سے ہے وہ بھی قائم ہے۔

پلیز نوٹ کریں، تمام قوموں سے خداوند نے اسرائیل کو اپنے لئے چن لیا اور تمام اسرائیل کے قبیلوں میں خداوند نے لاویوں کو مشکان کی خدمت کے لئے چنا اور تمام لاویوں میں خداوند نے خاص ہارون اور انکے بیٹوں کو اپنا کاہن پکارا۔ لہذا تمام قوموں میں اسرائیل قوم کی حثیت بڑھ کر ہے اور اسرائیل قوم میں لاوی کا گھرانہ زیادہ پاک ہے کہ خداوند کی خدمت کریں اور لاویوں میں بزرگ ہارون کے گھرانے کا پاکیزگی کا درج مزید بلند ہے۔ اور اگر میں صرف کاہنوں کے حوالے سے بات کروں تو کاہنوں میں سردار کاہن کا پاکیزگی کا درجہ سب سے بلند ہے کیونکہ وہ پاک ترین مقام میں خدمت کے لئے داخل ہوسکتے ہیں جو کہ ایک عام کاہن نہیں انجام دے سکتا۔ چنے ہوئے خداوند کے ساتھ عہد میں شامل ہوئے ہیں۔ انکے چناو کا مطلب یہ ہے کہ انکو ایک خاص مقصد دیا گیا ہے۔

گنتی 3:7 کی آیت میں ایک لفظ ہے جو میں کچھ آپ کے لئے بیان کرنا چاہونگی۔ میرے ساتھ عبرانی آیت پر نظر ڈالیں؛

וְשָׁמְרוּ אֶת־מִשְׁמַרְתּוֹ וְאֶת־מִשְׁמֶרֶת כָּל־הָעֵדָה לִפְנֵי אֹהֶל מוֹעֵד לַעֲבֹד אֶת־עֲבֹדַת הַמִּשְׁכָּן:

آپ ان حروف کو اوپر آیت میں پہچاننے کی کریں שׁמר، عبرانی کے اس لفظ کے معنی "حفاظت کرنا یا نگہبانی کرنا یا محافظ ہونا” بنتا ہے۔ رومیوں 3:1 سے 2 میں یوں لکھا ہے؛

پس یہودی کو کیا فوقیت ہے اور ختنہ سے کیا فائدہ؟ ہر طرح سے بہت۔ خاص کر یہ کہ خدا کا کلام انکے سپرد ہوا. 

یہ تو پولس رسول کے الفاظ ہیں مگر آپ کو توریت میں بہت دفعہ نظر آئے گا کہ خداوند نے یہودیوں کو چنا۔ زبور 147:19 سے 20 میں یوں لکھا ہے؛

وہ اپنا کلام یعقوب پر ظاہر کرتا ہے اور اپنے آئین و احکام اسرائیل پر۔ اس نے کسی اور قوم سے ایسا سلوک نہیں کیا۔ اور اسکے احکام کو انہوں نے نہیں جانا۔ خداوند کی حمد کرو۔ 

میں مزید اس آیت کے ترجمہ پر بات کرنا چاہونگی۔ زبور کی اس آیت کا ترجمہ میں کاتھولک بائبل کمیشن سے بھی نیچے درج کر رہی ہوں کیونکہ اوپر جہاں "۔۔اور اسکے احکام کو انھوں نے نہیں جانا۔۔۔” لکھا ہے وہ صحیح ترجمہ نہیں بنتا۔

اس نے یعقوب پر اپنا کلمہ ظاہر کیا ہے۔ اور اسرائیل پر اپنے قوانین اور قضائیں۔ اس نے کسی اور قوم سے یوں نہیں کیا۔ اس نے اپنی قضائیں ان پر آشکارا نہیں کیں۔ ہللویاہ۔

گنتی کی آیت کے لفظ کو پولس رسول نے اسی قسم کے الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کی کہ خداوند نے یہودیوں کو توریت دی کہ وہ اسکی نگہبانی، اسکے حکموں پر عمل کرکے کریں۔ وہ توریت کے محافظ ہیں۔ کسی اور قوم کو یہ اعزاز نہیں دیا گیا۔ زبور کی وہ آیت جہاں ترجمہ یہ کر دیا گیا کہ "اسکے احکام کو انہوں نے نہیں جانا۔۔۔” کچھ ایسا دکھا رہی ہے جیسے کہ یہودی خداوند کے حکموں سے واقف نہیں تھے۔ وہ ضرور خداوند کے حکموں سے واقف تھے اور ہیں اور تبھی وہ آج بھی ان حکموں پر عمل کر رہے ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اگر چند سربراہوں کی وجہ سے قوم کے زیادہ تر باسی حکموں سے پھر جائیں اسکا یہ مطلب نہیں کہ خداوند کا کلام باطل ہوگیا۔ رومن کاتھولک بائبل میں جو درج ہے کہ "اس نے اپنی قضائیں ان پر آشکارا نہیں کیں۔۔” یہ عبرانی کلام کا بالکل صحیح ترجمہ ہے کیونکہ جب خداوند غیر قوموں پر بڑی بڑی بلائیں لائے تو انھوں نے ایسا کچھ یہودی قوم پر نہیں آنے دیا۔ بے شک یہودیوں نے بہت دکھ اٹھائے ہیں مگر یہ سب ان نبوتوں کے عین مطابق ہوا اور ہو رہا ہے جیسے کہ خداوند کا کلام اپنے نبیوں کی معرفت بیان کرتا ہے۔ خداوند نے اسرائیل قوم کو اپنا پہلوٹھا پکارا (خروج 4:22)۔ میں نے پیدایش کے مطالعے میں بیان کیا تھا کہ پہلوٹھے بیٹے کی بڑی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ اپنے باپ کے مذہب کو خاندان میں قائم رکھے یعنی خداوند کے حکموں پر عمل کرے، خداوند کے حضور قربانیاں چڑھائے اور ان حکموں کو اپنے خاندان کے تمام لوگوں کو سکھائے تاکہ وہ بھی خداوند کے حکموں پر عمل کریں اور اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ عیسو نہیں بلکہ یعقوب پہلوٹھا ٹھہرے۔ گنتی کے اس باب میں اب اگر آپ لاویوں کے حوالے سے سوچیں تو بہتر سمجھ پائیں گے کہ خداوند نے اسرائیل کے باقی تمام قبیلوں کے پہلوٹھوں کو اس کام سے بری کر کے یہ کام لاویوں کو سونپا۔ اسرائیل خداوند کا پہلوٹھا ہے کیونکہ یہ انکا کام ہے کہ وہ دوسروں کو توریت کی تعلیم دیں مگر تمام قوموں اور اسرائیل میں یہ لاویوں کا کام ہے کہ خداوند کی ہیکل میں خداوند کی خدمت بجا لانے میں کاہنوں جو کہ لاوی کے گھرانے سے ہی ہیں، مدد کریں۔ اب یشوعا کے حوالے سے سوچیں کہ کیوں خداوند نے یشوعا کو اپنا پہلوٹھا پکارا۔ ایک اور بات جو میں واضح کرنا چاہوں گی کہ خداوند کی ویسے کوئی جسم کے اعتبار سے اولاد نہیں ہے جیسے کہ کچھ سوچتے ہیں۔ کوئی بھی جو خداوند کے حکموں پر چلتا ہے اسے خداوند اپنا فرزند پکارتے ہیں(رومیوں 8:14)۔

آپ کو گنتی کی کتاب میں لاوی کے بیٹوں یعنی جیرسون، قہات اور مراری کے خاندانوں کے فرزند نرینہ کا جو ایک مہینے اور اس سے اوپر کے تھے انکا شمار ملے گا اور یہ بھی لکھا ملے گا کہ کیسے انکے ڈیرے مسکن کے گردا گرد تھے  اور انکی مسکن کے حوالے سے کیا ذمےداریاں تھیں۔ یہودی دانشوروں کی تشریح کے مطابق اضحاق بن یہوداہ جنہیں ایواروانیل پکارا جاتا ہے، نے گنتی 2 اور 3 میں اسرائیل کے تمام قبیلوں کی ترتیب کو دیکھ کر کچھ خاص باتیں نوٹ کیں۔ میں تمام تو بیان نہیں کر سکتی مگر ایک خاص میں اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے نوٹس کی تصویر کے ساتھ شئیر کرنا چاہونگی گو کہ میں نے عبرانی حروف لکھے ہوئے ہیں مگر آپ کے لئے میں انگلش اور اردو میں بھی لکھ دونگی تاکہ آپ جان سکیں کہ کیسے مسکن کے گرد  انکے خیموں کی ترتیب داود کا ستارہ بناتا ہے۔ وہ جن کا خیال ہے کہ یہ نشان جادوگری سے جڑا ہے تو یہ غلط ہے۔ میرے لئے اس آرٹیکل میں تصویر بنا کر اس کو لیبل لگا کر دکھانا مشکل ہے۔

جہاں تک بات ہے پہلوٹھے بیٹے کے فدیہ کی تو میں نے اسکے بارے میں پہلے بھی بتایا تھا کہ یہودی لوگ آج بھی پانچ چاندی کے مثقال کا استعمال کر کے پہلوٹھے کا فدیہ دیتے ہیں۔ ایک مہینے سے اوپر اسلئے کہ آٹھ دن کی عمر میں ختنہ کیا جاتا ہے۔ اس وقت وہ عہد کے فرزند بن جاتے ہیں۔ عبرانی میں "پہلوٹھے بیٹے کا فدیہ” کو״ Pidyon Haben,  پیدیون ہابن، פדיון הבן״ کہتے ہیں۔ میں پہلے بھی اسکے بارے میں کچھ باتیں بتا چکی ہوئی ہوں اس آرٹیکل میں نہیں بیان کرونگی۔ بس اتنا ضرور کہنا چاہونگی کہ لاوی کا گھرانہ اس رسم کو ادا نہیں کر سکتے کیونکہ خداوند نے انھیں اپنی خدمت کے لئے خاص چنا ہے۔

 

خداوند نے چاہا تو اگلی دفعہ ہم گنتی 4 باب کا مطالعہ کریں گے۔ خداوند آپ کے ساتھ ہوں۔

 

گنتی کی کتاب 2 باب

آپ کلام میں سے گنتی کا دوسرا باب مکمل خود پڑھیں میں صرف وہی آیات لکھونگی جس کی ضرورت سمجھونگی۔

ہم گنتی 2:1 سے 2 میں پڑھتے ہیں؛

اور خداوند نے موسیٰ اور ہارون سے کہا کہ۔ بنی اسرائیل اپنے اپنے ڈیرے اپنے اپنے جھنڈے کے پاس اور اپنے اپنے آبائی خاندان کے علم کے  ساتھ خیمہ اجتماع کے مقابل اور اس کے گرداگرد لگائیں۔

بہت سوں کو شاید علم نہ ہو کہ اسرائیل کے تمام قبیلوں کا اپنا اپنا جھنڈا بھی تھا۔ انکے جھنڈے پر جو نشان تھے وہ انکو اپنے باپ یعقوب کی طرف سےتھے (پیدایش 49)  اور رنگ جو خروج28  میں درج سینہ بند کے رنگین پتھر ہیں, وہ ہیں۔ ویسے اس باب میں آپ کو یوسف کے قبیلے کا رنگ لکھا ملے گا۔  آپ کو مختلف جگہوں پر قبیلوں کے مختلف نشان نظر آئیں گے جو کہ آیات کی روشنی کے مطابق ہیں۔ ایک اور جو خاص بات میں بیان کرنا چاہونگی وہ یہ ہے کہ اسرائیل کے بارہ قبیلے ہم کہتے تو ہیں مگر درحقیقت 13 بن جاتے ہیں کیونکہ یعقوب نے اپنے بیٹے یوسف کے دونوں بیٹوں یعنی افرائیم اور منسی کو اپنا لیا تھا۔ لاوی قبیلے کو خداوند نے اپنے لئے چن لیا تو وہ شمار نہیں کیا جاتا۔  میں اپنے اور آپ کے لئے خیمہ گاہ میں قبیلوں کی ترتیب نیچے درج کر رہی ہوں؛ (میں نے رنگوں کو اپنے خروج کے مطالعہ میں نہیں دیکھ کر لکھا۔ آپ وہاں بھی یہ دیکھ سکتے ہیں میں یہاں اپنے انگلش نوٹس کا ترجمہ لکھ رہی ہوں)۔

قبیلہ                سمت      —      رنگ              جھنڈے کا نشان    —     شمار 

یہوداہ  —          مشرق      — آسمانی نیلا    —       شیر                  —  74,600

اشکار    —      مشرق     —   گہرا نیلا      —      سورج اور چاند     —    54,400

زبولون  —      مشرق     —   سفید            —      کشتی                 —  57,400

روبن       —      جنوب    —   سرخ           —       پھول                  —  46, 500

شمعون  —       جنوب    —   سبز            —       سکم شہر             —  59,300

جد       —       جنوب  — خاکستری–                 فوجی دستہ              — 45,650

افرائیم   —      مغرب     —  کالا              —     بیل                      — 40,500

منسیٰ    —      مغرب    —   کالا              —    ایک سینگ والا گھوڑا (مدراش کے مطابق) – 32,200

بنیمین   —      مغرب    —  دودھیا (تمام رنگوں کا ملاپ) —  بھیڑیا      — 35,400

دان      —      شمال     —   نیلا             —     سانپ                    — 62,700

آشر       —     شمال      —  ہرا              —     زیتون کا درخت        — 41,500

نفتالی    —    شمال       —  ارغوانی       —     آہو (ہرن)                 — 53,400

لاوی    —  مسکن کے چاروں طرف  —  لال، سفید اور سرخ دھاریدار—اوریم اور تمیم    — 22,300

خیمہ گاہ میں مشرق کی طرف یہوداہ، اشکار اور زبولون کے قبیلے تھے جن کو کوچ کرتے وقت سب سے پہلے کوچ کرنا تھا۔۔ جنوب کی طرف روبن، شمعون اور جد کا قبیلہ تھا جو کہ دوسرے نمبر پر کوچ کرتے تھے پھر لاوی جو کہ مسکن کے گرداگرد تھے وہ بمعہ مسکن کے کوچ کرتے تھے اور پھر افرائیم، منسیٰ اور بنیمین کا قبیلہ اور آخر میں دان، آشر اور نفتالی کے قبیلے کوچ کرتے تھے۔ کوچ کرتے وقت اور ڈیرا لگاتے وقت مسکن اور لاوی ہمیشہ چاروں قبیلوں کے درمیان میں رہتے تھے۔

میرے خیال میں پہلےپیدایش کے مطالعہ میں ذکر کر چکی ہوئی ہوں کہ یہوداہ کو پہلوٹھے کا حق حاصل ہوا کیونکہ روبن نے باپ کے بستر کو پامال کیا اور لاوی اور شمعون نے سکم کے مردوں کو قتل کرکے پہلوٹھے کا حق گنوا دیا۔ نوٹ کریں کہ اس ترتیب میں قیادت کرنے والا قبیلہ یہوداہ ہے۔ مشرق اور جنوب کے تمام قبیلے یعنی یہوداہ، اشکار، زبولون، روبن، شمعون اور جد، ماں لیاہ کے بیٹے ہیں اور ہھر افرائیم، منسی اور بنیمین، راخل کی اولاد ہیں۔ یاد رہے کہ یعقوب نے اپنے بیٹے یوسف کے بیٹوں کو اپنایا۔ پھردان لیاہ کی لونڈی ذلفہ کا بیٹا تھا اور آشر اور نفتالی، راخل کی لونڈی بلہاہ سے تھے۔ لاوی بھی لیاہ کے بیٹے تھے۔

1کرنتھیوں 14:40اور 33 آیت میں یوں لکھا ہے؛

40 مگر سب باتیں شایستگی اور قرینہ کے ساتھ عمل میں آئیں۔

33 کیونکہ خدا ابتری کا نہیں بلکہ امن کا بانی ہے۔

کوئی بھی کام اگر قرینے سے نہ کیا جائے تو نتیجہ جھنجھلاہٹ اور پریشانی ہے۔ خداوند نے خیمہ اجتماع  میں اور اس کے گردا گرد تمام چیزوں  کی خاص ترتیب تھی۔ یہ تمام نظام خداوند کا دیا ہوا ہے۔ اگر آپ نے میرا  احبار کی کتاب کا مطالعہ پڑھا تھا تو آپ کو یاد ہوگا کہ ہم نے 24  باب میں پڑھا تھا کہ ایک اسرائیلی عورت کا بیٹا جس کا باپ مصری تھا وہ اسرائیلیوں کے بیچ چلا گیا۔ اب اگر آپ ایک دفعہ پھر سے غور کریں تو ہمیں گنتی کے اس باب میں بنی اسرائیل کے خیموں کا ذکر پڑھ رہے ہیں۔ وہ تمام ملی جلی بھیڑ جو کہ اسرائیل کے ساتھ ملک مصر سے باہر نکل آئی تھی انکے خیمے بنی اسرائیل کے خیموں کی حدود سے باہر تھے۔ یہ معیار خداوند نے قائم کیا ہے۔ آپ اور میں یشوعا کی بنا پر اسرائیل کا حصہ تو بن سکتے ہیں مگر جو معیار خداوند نے قائم کئے ہیں اسکو توڑ نہیں سکتے۔ اگر آپ کے خیال میں افسیوں 2:13  سے 16 کا حوالہ گردش کر رہا ہے جو کہ یوں کہتا ہے؛

مگر تم جو پہلے دور تھے اب مسیح یسوع میں مسیح کے خون کے سبب سے نزدیک ہوگئے ہو۔ کیونکہ وہی ہماری صلح ہے جس نے دونوں کو ایک کر لیا اور جدائی کی دیوار کو جو بیچ میں تھی ڈھا دیا۔ چنانچہ اس نے اپنے جسم کے ذریعہ سے دشمنی یعنی شریعت جس کے حکم ضابطوں کے طور پر تھے موقوف کر دی تاکہ دونوں سے اپنے آپ میں ایک نیا انسان پیدا کرکے صلح کرا دے۔   اور صلیب پر دشمنی کو مٹا کر اور اسکے سبب سے دونوں کو ایک تن بنا کر خدا سے ملائے۔

اور آپ سوچ رہے ہوں کہ اب یہ دیوار نہیں تو آپ غلط ہیں۔ میں نے اگر کبھی مسکن یا ہیکل کے حوالے سے مطالعہ کروایا تو واضح کرونگی۔ یاد رکھیں کہ اگر یشوعا نے خداوند کی شریعت اور اسکے دئیے ہوئے حکموں کی کسی طرح سے بھی غلطی کی ہوتی تو یہودی انکو بے عیب نہ ٹھہراتے اور خالی اپنے آپ کو یہودیوں کا بادشاہ کہنے پر تہمت نہ لگاتے۔ یہ صرف کلام کی غلط تشریح کا نتیجہ ہے۔  یشوعا نے خود بھی شریعت کے حکموں کی پیروی کی اور یہی درس دوسروں کو بھی دیا۔

ایک اور خاص بات جو میں یہاں بیان کرنا چاہوں گی وہ اعمال 1:12 کی آیت سے ہے جہاں لکھا ہے؛

تب وہ اس پہاڑ سے جو زیتون کا کہلاتا ہے اور یروشلیم کے نزدیک سبت کی منزل کے فاصلہ پر ہے یروشلیم کو پھرے۔

میں پہلے بھی کافی دفعہ بیان کر چکی ہوں کہ زبانی توریت کے احکامات، توریت کے حکموں کی بنیاد پر ہی ہیں۔ اوپر درج آیت یہ دکھاتی ہے کہ یشوعا کے شاگرد زبانی توریت پر بھی عمل کرتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ حکم بھی خداوند کے دئیے ہوئے حکموں کی بنیاد پر ہی ہے۔ ہم کلام میں دیکھتے ہیں کہ سبت پر خداوند نے بنی اسرائیل قوم کو اپنی اپنی جگہ پر رہنے کا حکم دیا (خروج  16:29) وہ اپنے لشکر گاہ میں گھوم پھر سکتے تھے مگر اس سے زیادہ سفر وہ سبت کے دن نہیں کرتے تھے۔ سبت کی منزل کے فاصلے کو 2000 ہاتھ بھر یا پھر شاید نیم گز تسلیم کیا جاتا ہے۔ آرتھوڈاکس یہودی سبت والے دن گاڑیوں کا استعمال نہیں کرتے بلکہ جو بھی عبادت خانہ انکے گھر کے قریب  پیدل جانے کے قابل ہو وہ وہاں عبادت کے لئے جاتے ہیں۔ یروشلیم میں بسنے والے عموماً دیوار گریہ بھی جاتے ہیں۔ کچھ اور فرقے اب  گاڑی کے استعمال سے پرہیز نہیں کرتے اور نہ ہی اب اس فاصلے کو ذہن میں رکھتے ہیں کیونکہ شاید وہ ایسے علاقے میں رہتے ہوں جہاں عبادت گاہیں قریب نہ ہو۔ ایسی صورت میں وہ خداوند کے حکم "مقدس مجمح کے اعلان” کا خاص خیال رکھتے ہیں اور دوری کے باوجود سبت کی عبادت کے لئے جمع ہوتے ہیں تاکہ دوسروں کے ساتھ ہم آہنگی میں عبادت کر سکیں۔ بہت سے گھنٹہ دور یا اس سے تھوڑا زیادہ سفر کر کے عبادت کے لئے جمح ہوتے ہیں۔ میں اس بات کے لئے خاص اپنے پرانے اور سب سے پہلے ربی کی شکرگذار ہوں جو کہ ہمارے اُس علاقے میں عبادت کروانے کے لئے تقریباً سوا گھنٹے کا ایک طرف کا سفر کرتے تھے۔ حالانکہ وہ خود یہودیوں کی بستی میں ہی رہتے ہیں مگر انھیں ہمارے علاقے میں عبادت کرانے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی جو وہ ابھی بھی نبھا رہے ہیں۔

میں اسی کے ساتھ اپنے گنتی کے اس باب کے مطالعہ کو ختم کرتی ہوں۔ میری اپنے اور آپ کے لئے یہ دعا ہمیشہ رہے گی کہ ہم اپنے جذبات پر قابو کرکے خداوند کے حکموں پر سرنگوں ہو سکیں ویسے ہی جیسے کہ ہمارے مسیحا یشوعا نے کیا، آمین۔

گنتی کی کتاب، 1 باب

 آپ کلام مقدس سے گنتی 1 باب کو خود پڑھیں۔ میں ہمیشہ کی طرح صرف وہی آیات لکھوں گی جس کی ضرورت سمجھوں گی۔

ہمیں گنتی 1:1سے3  میں یوں لکھا ملتا ہے؛

بنی اسرائیل کے ملک مصر سے نکل آنےکے دوسرے برس کے دوسرے مہینے کی پہلی تاریخ کو سینا کے بیابان میں خداوند نے خیمہ اجتماع میں موسیٰ سے کہا کہ تم ایک ایک مرد کا نام لے لے کر گنو اور ان کے ناموں کی تعداد سے بنی اسرائیل کی ساری جماعت کی مردم شماری کا حساب ان کے قبیلوں اور آبائی خاندانوں کے مطابق کرو۔ بیس برس اور اس سے اوپر اوپر کی عمر کے جتنے اسرائیلی جنگ کرنے کے قابل ہوں ان سبھوں کے الگ الگ دلوں کو تو اور ہارون دونوں مل کر گن ڈالو۔

خداوند نے موسیٰ نبی اور بزرگ ہارون کو مردم شماری کرنے کا حکم دیا۔ یہ گنتی کی کتاب میں درج پہلی مردم شماری ہے اس سے پہلے ہم خروج 30 باب میں مردم شماری کا پڑھتے ہیں جس کا اصل حساب ہمیں خروج 38 میں ملتا ہے۔  گنتی کی اس مردم شماری میں لاوی کا قبیلہ نہیں شمار کیا گیا کیونکہ ہم گنتی 1:47 میں پڑھتے ہیں

پر لاوی اپنے آبائی قبیلہ کے مطابق انکے ساتھ گنے نہیں گئے۔ گنتی کی کتاب، 1 باب پڑھنا جاری رکھیں

گنتی کی کتاب: تعارف

گنتی کی کتاب کو عبرانی میں "بمیدبار، בַּמִּדְבָּר, Bamidbar ” کہتے ہیں۔ یہ توریت کی چوتھی کتاب ہے اور اسکا معنی ہے "بیابان میں”۔ گو کہ اردو میں اسکو گنتی لکھا گیا ہے جو کہ غلط نہیں ہے کیونکہ اسی کتاب کو عبرانی میں "خومیش ہاپیکودیم، Chomesh HaPekudim  חומש הפקודים” بھی کہتے ہیں۔ کیونکہ ہمیں اس کتاب میں اسرائیل کی مردم شماری کی تفصیل ملتی ہے۔ اس مردم شماری میں خاص 20برس اور اس سے اوپر کے مرد جو کہ جنگ کرنے کے قابل تھے وہ گنے گئے۔  گنتی کی کتاب کا پہلا باب ہمیں بنی اسرائیل کے ملک مصر سے نکل کر آنے کے دوسرے برس سےبیابان میں انکے سفر کی تفصیل بیان کرتا ہے۔

اس سے پہلے ہم نے خروج اور احبار کی کتاب میں بہت سے ان حکموں کو پڑھا تھا جو خداوند نے بنی اسرائیل کو دئیے تھے۔ اس کتاب میں ہم مزید کچھ احکامات کا پڑھیں گے اور کچھ کی تفصیل دیکھیں گے جو کہ ہمیں پچھلے دئیے گئے حکموں میں نظر نہیں آتی۔  ہم جب گنتی کی کتاب کے ابواب کو پڑھیں گے تو اس میں سے کافی کچھ سیکھیں گے۔

گنتی کی کتاب: تعارف پڑھنا جاری رکھیں

احبار 27 باب

آپ کلام مقدس سے احبار 27 باب مکمل خود پڑھیں۔ میں ہمیشہ کی طرح صرف وہی آیات لکھونگی جس کی ضرورت سمجھونگی۔

اس باب میں ہم  خداوند کے نام میں قسم/منت اٹھانے کے بارے میں پڑھتے ہیں۔ اب تو لوگ عموماً خداوند کے نام میں قسم کھانے یا منت ماننے میں خوف نہیں رکھتے مگر جس وقت یہ احکامات دئیے گئے تھے اس وقت  یہ ایک سنجیدہ عمل تھا۔ استثنا 23:21 سے24 میں ہم یوں لکھا پڑھتے ہیں؛

جب تو خداوند اپنے خدا کی خاطر منت مانے تو اسکے پورا کرنے میں دیر نہ کرنا اسلئے کہ خداوند تیرا خدا ضرور اسکو تجھ سے طلب کریگا تب تو گنہگار ٹھہرے گا۔ لیکن اگر تو منت نہ مانے تو تیرا کوئی گناہ نہیں۔ جو کچھ تیرے منہ سے نکلے اسے دھیان کر کے پورا کرنا اور جیسی منت تو نے خداوند اپنے خدا کے لئے مانی ہو اسکے مطابق رضا کی قربانی جس کا وعدہ تیری زبان سے ہوا گذراننا۔

ایسا ہی کچھ ہم  واعظ 5:2 سے 7 میں بھی پڑھ سکتے ہیں؛

بولنے میں جلد بازی نہ کر اور تیرا دل جلدبازی سے خدا کے حضور کچھ نہ کہے کیونکہ خدا آسمان پر ہے اور تو زمین پر۔ اسلئے تیری باتیں مختصر ہوں۔ کیونکہ کام کی کثرت کے باعث سے خواب دیکھا جاتا ہے اور احمق کی آواز باتوں کی کثرت سے ہوتی ہے۔ جب تو خدا کے لئے منت مانے تو اسکے ادا کرنے میں دیر نہ کر کیونکہ وہ احمقوں سے خوش نہیں ہے۔ تو اپنی منت کو پورا کر۔ تیرا منت نہ ماننا اس سے بہتر ہے کہ تو منت مانے اور ادا نہ کرے۔ تیرا منہ تیرے جسم کو گنہگار نہ بنائے اور فرشتہ کے حضور مت کہہ کہ بھول چوک تھی۔ خدا تیری آواز سے کیوں بیزار ہو اور تیرے ہاتھوں کا کام برباد کرے۔ کیونکہ خوابوں کی زیادتی اور بطالت اور باتوں کی کثرت سے ایسا ہوتا ہے لیکن تو خدا سے ڈر۔

کچھ منتیں یا قسمیں خداوند کے نام میں پورے تو کئے جا سکتے ہیں مگر انکا کیا بنے جو انسان بے سوچے سمجھے کرتا ہے۔ زیادہ تر ایسا ہوتا ہے کہ  انسان جذبات میں آ کر بغیر سوچے سمجھے منت مانگتا ہے مگر بعد میں جب منت کو پورا کرنے کا وقت آتا ہے تو تب اسے خیال آتا ہے کہ وہ کچھ بڑا کہہ گیا ہے جسے اب اسکے لئے پورا کرنا مشکل ہے۔ خداوند کا کلام حکم دیتا ہے کہ وہ انسان کاہن کے حضور  جائے اورفدیہ کے طور پر  ٹھہری ہوئی قیمت ادا کرکے  اپنے آپ کو یا اپنی کہی منت کو چھڑا لے۔   مرد کے لئے ٹھہری ہوئی قیمت عورت سے زیادہ ہے  اور لڑکے کے لئے لڑکی سے زیادہ مگر جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے یعنی ساٹھ برس سے اوپر کی ہو تو عورت کے لئے ٹھہرائی گئی قیمت مرد کی قیمت کے قریب قریب آجاتی ہے۔ کاہن کو اختیار ہے کہ وہ قیمت ٹھہرائے۔ ایسا نہیں کہ کلام عورت کو برابر ی کا حق نہیں دیتا بلکہ ایسا اسلئے ہے کہ زیادہ تر مرد  اختیار کے سبب سے منت مانگتے تھے۔

ایک خاص بات  کو نوٹ کریں کہ جو چیز پہلے سے ہی خداوند کے لئے مخصوص ہے اسکا کوئی فدیہ نہیں ہے۔ ہر ایک مخصوص چیز خداوند کے لئے نہایت پاک ہے (احبار 27:28سے 33)۔

مسیحیوں کی سوچ یہی رہی ہے کہ یشوعا نے چونکہ شریعت کو پورا کر دیا اسلئے انہیں اب شریعت (توریت) پر عمل کرنے  کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اب جب بھی کبھی نئے عہد نامے کو پڑھتی ہوں تو مجھے اس کی تمام تعلیم توریت کے مطابق نظر آتی ہے۔ قسموں کے حوالے سے یشوعا  نے متی 5:33 سے 37 آیات میں یوں کہا؛

پھر تم سن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا گیا تھا کہ جھوٹی قسم نہ کھانا بلکہ اپنی قسمیں خداوند کے لئے پوری کرنا۔ لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ بالکل قسم نہ کھانا۔ نہ تو آسمان کی کیونکہ وہ خدا کا تخت ہے۔ نہ زمین کی کیونکہ وہ اسکے پاؤں کی چوکی ہے۔ نہ یروشلیم کی کیونکہ وہ بزرگ بادشاہ کا شہر ہے۔ نہ اپنے سر کی قسم کھان کیونکہ تو ایک بال کو بھی سفید یا کالا نہیں کر سکتا۔ بلکہ تمہارا کلام ہاں ہاں یا نہیں نہیں ہو کیونکہ جو اس سے زیادہ ہے وہ بدی سے ہے۔

نوٹ کریں کہ متی 5:33 میں "جھوٹی قسم ” لکھا ہے۔ یشوعا کی تعلیم  پرانے عہد نامے کی تعلیم کے عین مطابق ہے۔ وہ بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ جھوٹی قسم کھانے سے بہتر  ہے کہ قسم کھاؤ ہی  مت کیونکہ تمہارا اپنا کیا ہے؟ نہ آسمان نہ زمین اور نہ ہی یروشلیم شہر۔ اور اگر اختیار کے حوالے سے سوچا جائے تو تب بھی تمہار ا اپنا کچھ اختیار نہیں کیونکہ تمام اختیار خداوند کے پاس ہے۔  بابلی تلمود کا ایک حصہ جو کہ خاص قسموں/وعدوں/عہد پر ہے جسے نیدریم، נדרים    Nedarim, کہتے ہیں، بھی کچھ ایسی ہی تعلیم  دیتا ہے کہ بہتر ہے کہ قسم نہ اٹھاؤ کیونکہ  تم انہیں پورا نہیں کر پاؤگے۔  یشوعا اور انکے زمانے سے پہلے اور بعد کے یہودی دانشوروں کی تعلیم ہمیں  یعقوب کے خط میں بھی نظر آتی ہے جنہوں نے یعقوب 5:12 میں یوں لکھا؛

مگر ائے میرے بھائیو! سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ قسم نہ کھاؤ۔ نہ آسمان کی نہ زمین کی۔ نہ کسی اور چیز کی بلکہ ہاں کی جگہ ہاں کرو اور نہیں کی جگہ نہیں تاکہ سزا کے لائق نہ ٹھہرو۔

یہودی دانشور العیزر کے مطابق "نا بھی قسم ہے اور ہاں بھی قسم ہے (شعوعوت 36a)”۔ ایسے ہی روت رباہ 7:6 کے مطابق "صادق کی ہاں، ہاں ہے اور صادق کی نا، نا ہے”۔

وعدوں اور قسموں کو آسان نہ لیں کہ زبان سے پھسل گیا ہے تو کیا ہوا کیونکہ یشوعا نے متی 12:36سے 37 میں یوں فرمایا ہے؛

اور میں تم سے کہتا ہوں کہ جو نکمی بات لوگ کہیں گے عدالت کے دن اس کا حساب دیں گے۔ کیونکہ تو اپنی باتوں کے سبب سے راستباز ٹھہرایا جائے گا اور اپنی باتوں کے سبب سے قصوروار ٹھہرایا جائے گا۔

میں اپنے   احبار کی کتاب کے آخری باب کے  مطالعے کو یہیں ختم کرتی ہوں اس دعا کے ساتھ کہ خداوند کا خوف ہمیں ہمیشہ اس بات کا احساس دلائے کہ ہمیں اپنے لفظوں کا صحیح چناؤ کرنا ہے اور اپنی زبان کو قابو میں رکھنا ہے، یشوعا کے نام میں۔ آمین

احبار 26 باب

آپ کلام مقدس سے احبار 26 باب مکمل خود پڑھیں ۔

اگر آپ کلام مقدس سے احبار 26 باب کو پڑھنا شروع کریں گے تو آپ کو  احبار 26:1 سے 4میں یوں لکھا ملے گا؛

تم اپنے لئے بت نہ بنانا  اور نہ کوئی تراشی ہوئی مورت یا لاٹ اپنے لئے کھڑی کرنا اور نہ اپنے ملک میں کوئی شبیہ دار پتھر رکھنا کہ اسے سجدہ کرو اس لئے کہ میں خداوند تمہار خدا ہوں۔ تم میرے سبتوں کو ماننا اور میرے مَقدس کی تعظیم کرنا۔ میں خداوند ہوں۔ اگر تم میری شریعت پر چلو اور میرے حکموں کو مانو اور اُن پر عمل کرو۔ تو میں تمہارے لئے بروقت مینہ برساؤں گا اور زمین سے اناج پیدا ہوگا اور میدان کے درخت پھلیں گے۔ احبار 26 باب پڑھنا جاری رکھیں

احبار 25 باب

آپ کلام مقدس سے احبار 25 باب مکمل خود پڑھیں میں صرف وہی آیات لکھونگی جس کی ضرورت سمجھونگی۔

اس باب میں ہم خاص زمین کے سبت اور یوبلی کے سال سے متعلق حکموں  کا پڑھتے ہیں۔  احبار  25:1 سے 5 آیات میں یوں درج ہے؛

اور خداوند نے کوہ سینا پر موسیٰ سے کہا کہ۔ بنی اسرائیل سے کہہ کہ جب تم اس ملک میں جو میں تم کو دیتا ہوں داخل ہوجاؤ تو اس کی زمین بھی خداوند کے لئے سبت کو مانے۔ تو اپنے کھیت کو چھ برس بونا اور اپنے انگورستان کو چھ برس چھانٹنا اور اس کا پھل جمع کرنا۔ لیکن ساتویں سال زمین کے لئے خاص آرام کا سبت ہو۔ یہ سبت خداوند کے لئے ہو۔ اس میں تو نہ اپنے کھیت کو بونا اور نہ اپنے انگورستان کو چھانٹنا۔ اور نہ اپنی خودرو فصل کو کاٹنا اور نہ ہی اپنی بے چھٹی تاکوں کے انگوروں کو توڑنا۔ یہ زمین کے لئے خاص آرام کا سال ہو۔ احبار 25 باب پڑھنا جاری رکھیں

احبار 24 باب

آپ کلام مقدس سے احبار 24 باب مکمل خود پڑھیں۔

کلام مقدس میں  خیمہ اجتماع کے لئے شمعدان بنانے کا حکم ہم خروج کے 25 باب میں پڑھتے ہیں۔ اور شمعدان کے لئے تیل کے بارے میں حکم خروج 27:20 سے 21 میں یوں پڑھتے ہیں؛

اور تو بنی اسرائیل کو حکم دینا کہ وہ تیرے پاس کوٹکر نکالا ہوا زیتون کا خالص تیل روشنی کے لئے لائیں تاکہ چراغ ہمیشہ جلتا رہے۔ خیمہ اجتماع میں اس پردہ کے باہر جو شہادت کے صندوق کے سامنے ہوگا ہارون اور اسکے بیٹے شام سے صبح تک شمعدان کو خداوند کے روبرو آراستہ رکھیں۔ یہ دستور العمل بنی اسرائیل کے لئے نسل در نسل قائم رہیگا۔ احبار 24 باب پڑھنا جاری رکھیں