ہم نے پچھلے حصے میں دس احکامات کے بارے میں چند باتیں سیکھیں۔ اس حصے میں ہم پہلے حکم پر غور کریں گے۔ میں بہت زیادہ تفسیر میں نہیں جاؤنگی مگر کوشش کرونگی کہ آپ کو اس سادہ سے حکم کو بہتر سمجھا سکوں۔ خروج 20:2 میں لکھا ہے؛
خداوند تیرا خدا جو تجھے ملکِ مصر سے اور غلامی کے گھر سے نکال لایا میں ہوں۔
آپ ان احکامات کو استثنا 5 باب میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ خروج میں جس طرح سے آیات درج ہیں وہ یہ دکھاتی ہیں کہ یہ خداوند کے منہ کے الفاظ ہیں مگر استثنا میں موسیٰ نبی ، خداوند کے حکموں کو بنی اسرائیل کے لئے ایک دفعہ پھر سے دُہرا رہے ہیں۔ آپ اگر میری طرح سنڈے سکول گئے تھے تو آپ کو یاد ہوگا کہ ہم نے ان احکامات کو اس طرح سے نہیں سیکھا تھا۔ ہم نے اس پہلے حکم کو جیسا کہ رومن کیتھولک یا پروٹسٹنٹ چرچ سکھاتے ہیں، اس طرح سے سیکھا "ایک خدا کو ماننا اور فقط اسکی بندگی اور اسی کو سجدہ کرنا۔( جیسا کہ "روزمرہ کی عام دعائیں ” کی کتاب میں درج ہے) یا پھر ” میرے حضورتو غیر معبودوں کو نہ ماننا۔” میں اگر کلام کو ذہن میں رکھتے ہوئے سوچوں تو مجھے یہ حکم صحیح لگے گا مگر اگر کوئی غیر مسیحی مجھے اس حکم کو سکھانے کی کوشش کریگا تو میرے ذہن میں پہلا سوال یہی اٹھے گا کہ کونسے خدا کی بات ہو رہی ہے۔
خروج 20:2 میں جہاں "خداوند لکھا ہے وہ عبرانی کلام میں لفظ "یہوواہ” ہے اور جہاں "میں ہوں” لکھا ہے وہ عبرانی کلام میں لفظ "انو-کی، אָֽנֹכִ֖י֙، Anoki” ہے۔ میں نے پچھلے حصے میں بیان کیا تھا کہ توریت کا پہلا حرف عبرانی کلام میں "بیت ، בְּ Beit” ہے۔ "بیت” قدیم عبرانی زبان میں گھر کو ظاہر کرتا ہے۔ بیت ہی سے عبرانی زبان میں بیٹا یعنی ” בן، بنBen, ” یا پھر "بار، בר Bar, ” بنتا ہے۔ یوحنا کی انجیل 1:3 میں ہم بیٹے کے بارے میں پڑھتے ہیں کہ ؛
سب چیزیں اسکے وسیلے سے پیدا ہوئیں اور جو کچھ پیدا ہوا ہے اس میں سے کوئی چیز بھی اسکے بغیر پیدا نہیں ہوئی۔
میں قدیم عبرانی حروف کے مطابق "بن” یا پھر "بار” کے بارے میں ابھی بات نہیں کرونگی۔ خروج 20:2 کی آیت عبرانی کلام میں عبرانی زبان کے پہلے حرف "الیف ، אAlef, ” سے شروع ہوتی ہے۔ اگر آپ نے حنین بھائی کا بنایا ہوا عبرانی حروف کا چارٹ نہیں دیکھا تو برائے مہربانی اس پر ایک نظر ضرور ڈالیں۔ قدیم عبرانی زبان میں الیف کی شکل بیل کے سر نما ہے۔ قدیم عبرانی زبان کے مطابق یہ "طاقت، مضبوط اور رہنما” کو بیان کرتا ہے۔ عبرانی حرف الیف سے”خدا” مراد لیا جا سکتاہے کیونکہ میرا اور شاید آپ کا بھی خدا وہی ہے جسکو بائبل "واحد” بیان کرتی ہے۔ میں نے اپنے ایک آرٹیکل میں "کلام کی تشریح کے درجے” بیان کئے تھے۔ دریش کے درجے کے مطابق بہت سے یہودی دانشور سکھاتے ہیں کہ سب سے بڑا حکم یہی پہلا حکم ہے کہ ہم اپنے خداوند کو جانیں۔ اور جب تک ہم یہوواہ” کو اپنا خدا نہ مان لیں ہم اسکے باقی دئیے ہوئے حکموں کو شاید نہ مانیں۔ یہوواہ ہمیں یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ ہمارا خدا ہے۔
عموماً جب ہم کسی سے ملتے ہیں تو انکا نام جاننے کی کرتے ہیں۔ خداوند نے اپنے اس پہلے حکم میں ہمیں اپنا تعارف کروایا ہے۔ چونکہ ہم ترجمہ پڑھتے ہیں اسلئے علم نہیں کہ عبرانی کلام میں کیا لکھا ہے۔ ہم نے خروج کے 3 باب کے مطالعے میں یہوواہ کے مقدس نام پر بات کی تھی کہ ہم اسے کیوں "یہوواہ” پکارتے ہیں۔ موسیٰ نبی نے خداوند سے پوچھا تھا کہ وہ جب بنی اسرائیل کے پاس جائے تو وہ انھیں کیا بتائے کہ اسے کس نے بھیجا ہے اور جواب میں خداوند نے موسیٰ سے کہا(خروج 3:14)؛
خدا نے موسیٰ سے کہا میں جو ہوں سو میں ہوں۔ سو تو بنی اسرائیل سے یوں کہنا کہ میں جو ہوں نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے۔
چونکہ ہم اس جملے کا ترجمہ اپنی زبان میں پڑھتے ہیں اسلئے جان ہی نہیں پاتے ہیں کہ جب یہوواہ خدا نے موسیٰ کو اپنا نام بتایا تو خداوند پاک نے عبرانی میں کہا، "ای- ہ – یی آشر ای – ہ – یی אהיה אשר אהיה ،Ehyeh Asher Ehyeh ۔” اس جملے میں”ای – ہ – یی، אהיה، Ehyeh ” کا مطلب "میں ہوں” بنتا ہے۔ "ای – ہ – یی ” کے معنی "میں ہوں، میں تھا یا پھر میں ہونگا ” بھی بن سکتا ہے۔ "آشر” کا مطلب”جو یا سو” بھی بن سکتا ہے۔ انگلش میں یہ” That, Which or Who” بن سکتا ہے۔ جب خداوند اپنا نام ہمیں عبرانی میں بتاتے ہیں تو وہ اردو میں "میں ہوں” بنتا ہے مگر جب ہم انھیں پکارتے ہیں تو اسکا ترجمہ اردو میں ” وہ ہے” بنتا ہے۔ جس کو "یہوواہ” بولا جاتا ہے۔ امید ہے کہ میں آپ کو بہتر سمجھا پا ئی ہوں کہ کیوں ہمیں اردو کلام میں خدا کے لئے "میں ہوں” کے الفاظ دکھائی دیتے ہیں۔ میں خود بھی عبرانی زبان سیکھ رہی ہوں اور آپ کو بھی یہی مشورہ دونگی کہ اگر آپ نے اپنی بائبل کو بہتر سمجھنا ہے تو عبرانی زبان کو سیکھیں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ یشوعا نے نئے عہد نامے میں کہاں کہاں اپنے آپ کو "یہوواہ” پکارا ہے؟
خداوند خدا نے جو پہلا حکم دیا وہ مکمل یہ ہے "خداوند تیرا خدا جو تجھے ملکِ مصر سے اور غلامی کے گھر سے نکال لایا میں ہوں۔” میں نے پچھلے حصے میں جب دس احکامات کو عبرانی میں دکھایا ہے تو میں نے کہا تھا کہ یہ "دس الفاظ” یا "دس اشیا” کہے جاسکتے ہیں مگر میرے خیال سے چونکہ مجھے اس وقت مناسب لفظ نہیں مل رہا تھا میں نے "دس اشیا” لکھ دیا ۔ میرے خیال میں "دس اشیا” کی نسبت زیادہ مناسب یہ کہنا ہوگا "دس بیان۔” کیونکہ یہودی دانشور اس پہلے حکم کو خداوند کا بیان پکارتے ہیں نہ کہ حکم۔ یہودی دانشور "ملک مصر” سے اور "غلامی کے گھر” سے نکال لانے کو عبرانی الفاظ "یتزر ہرا، יֵצֶר הַרַע Yetzer Hara” سے چھڑا لانے کا مترادف بیان کرتے ہیں۔ یتزر ہرا، کو میں اردو میں "برائی کی طرف رجحان یا خیالات” بیان کر سکتی ہوں۔ برائی سے مراد یہاں "گناہ "بنے گا۔ پیدایش 6:5 میں ہمیں عبرانی کلام میں یہ دونوں الفاظ نظر آتے ہیں۔ میں عبرانی آیت نہیں لکھ رہی بلکہ اسکا اردو میں ترجمہ دکھا رہی ہوں؛
اور خداوند نے دیکھا کہ زمین پر انسان کی بدی بہت بڑھ گئی اور اسکے دل کے تصور اور خیال سدا برے ہی ہوتے ہیں۔
اس آیت میں "خیال” کے لئے عبرانی لفظ "یتزر” ہے اور "برے” کے لئے لفظ "را” ہے۔ انسان کا اپنا رجحان ہمیشہ سے گناہ کی طرف رہتا ہے مگر کوئی بھی جو خداوند کو اپنا نجات دہندہ مانتا ہے۔ اپنے گناہوں سے توبہ کر کے گناہ کو دوبارہ نہ کرنے کا اپنے دل میں ایک طرح سے عہد باندھتا ہے۔ اسکی کوشش ہوتی ہے کہ چونکہ میں نے خداوند کو اپنا نجات دہندہ مانا ہے اسلئے مجھے اسکے حکموں پر چلنا ہے۔
اگر یہوواہ خداوند نے بنی اسرائیل کو ملک مصر سے نکالا، غلامی کے گھر سے نکالا تھا تو یشوعا نے ہمیں گناہ کی قید سے آزاد کیا۔ ویسے تو میں نئے عہد نامے سے چند آیات لکھ سکتی ہوں مگر ابھی کے لئے میں گلتیوں 5:1 کی آیت لکھ رہی ہوں؛
مسیح نے ہمیں آزاد رہنے کے لئے آزاد کیا ہے پس قائم رہو اور دوبارہ غلامی کے جوئے میں نہ جتو۔
افسوس کہ عام مسیحی اس آیت میں "غلامی” سے مراد "شریعت” لیتے ہیں۔ نہیں پولس رسول کی اس سے یہ مراد نہیں تھی۔ میں گلتیوں کے خط کی تفصیل میں ابھی نہیں جا سکتی۔ یشوعا نے ہمارے گناہوں کا کفارہ دیا اور گناہ کی غلامی سے آزاد کیا۔ صرف اس لئے کہ ہم اس میں آزاد زندگی گذاریں۔ یہوواہ پاک خدا نے بنی اسرائیل کو ملک مصر کی غلامی سے نکالا تاکہ وہ خدا کے حکموں کے مطابق آزادنہ زندگی گذار سکیں۔
اگر آپ اپنے خدا کو ذاتی طور پر نہیں جانتے تو آپ ابھی بھی "غلامی کے گھر ” میں ہیں۔ اپنے خداوند کو پہچانیں۔ اسکے کلام کو پہچانیں اور یشوعا کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ میرا چھوٹا بیٹا اکثر مجھ سے سوال کرتا ہے کہ اگر خدا کا نام "یہوواہ” ہے تو "یشوعا” کو پھر ہم کیوں خدا کہتے ہیں؟ چونکہ وہ ابھی کلام کی باتوں کو سمجھ نہیں سکتا تو میں نے اسکو اُسکی آسانی کے لئے یہ سمجھایا ہوا کہ "یہوواہ” ہمارا آسمانی باپ ہے جو کہ واحد خدا ہے مگر جب وہ زمین پر آیا تو وہ "یشوعا” بن کر آیا۔ یشوعا کے معنی ہیں "نجات”۔ شاید آپ کے لئے بھی یہ باتیں سمجھنا اور سمجھانا مشکل ہو کہ آیا آپ کے خدا کا نام "یہوواہ” ہے یا "یشوعا” مگر جیسا میں نے اپنے بیٹے کو سادہ سے جملے میں سمجھانے کی کوشش ہے آپ کو بھی سمجھ آ رہا ہو کہ "یہوواہ” پاک خدا "نجات(یشوعا) ” بن کر دنیا میں آیا۔ اس نے بنی اسرائیل کو ملکِ مصر کی غلامی سے نکالا اور ہمیں گناہ کی۔ میں اوپر یہودی ربیوں کی "ملکِ مصر کی غلامی” کی تشریح بھی بتا چکی ہوں جو کہ "گناہ” ہی کو بیان کرتا ہے۔
ہم اگلی دفعہ اپنے اس مطالعے کو جاری رکھیں گے۔ میری آپ کے لئے یہی دعا ہے کہ "خداوند آپ کو اپنی نجات دکھائے (زبور 91:16)”۔ آمین