عزرا 10 باب – دوسرا حصہ

image_pdfimage_print

ہم نے پچھلے حصے کے آخر میں پڑھا تھا کہ سکنیاہ بن عیلام نے کہا تھا کہ اسرائیل کے لئے ابھی بھی امید باقی ہے۔  جس جس نے بھی اجنبی عورتوں سے بیاہ کیا ہے وہ ان کو اور انکی اولاد کو دور کرنے کے لئے اپنے خدا سے عہد باندھیں۔ آپ کے خیال میں کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ ان عورتوں کو اجنبی  پکارا گیا ہے؟ روت کی کتاب پڑھیں تو معلوم پڑے گا کہ روت موآبی تھی  وہ بھی تو یہودی نہیں تھی مگر یہودیوں نے اسے قبول کیا۔ نئے عہد نامے کے مطابق اسے خدا کا فضل کہا جاتا ہے۔ کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ عزرا کی کتاب میں درج  یہ عورتیں، یہودی مردوں کے ساتھ شادی کرنے کے بعد بھی  اجنبی پکاری گئیں ،  نہ صرف وہ بلکہ انکی اولاد بھی؟ یہ بات یہودی لوگ بھی بہت اچھی طرح سے جانتے تھے کہ یہودی گھرانے میں پیدا ہونا صرف اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ کوئی یہودی ہے بلکہ یہوواہ خدا کو ماننا اور اسکے حکموں کو اپنانا، انسان کو یہودی بناتا ہے۔ استثنا 7:4 میں خداوند نے  وجہ بیان کی کہ وہ کیوں نہیں چاہتے کہ اسکے لوگ غیر قوموں  میں شادیاں کریں۔ اس میں لکھا ہے؛

کیونکہ وہ تیرے بیٹوں کو میری پیروی سے برگشتہ کردینگے تاکہ وہ اور معبودوں کی عبادت کریں۔ یوں خداوند کا غضب تم پر بھڑکیگا اور وہ تجھکو جلد ہلاک کردیگا۔

میں نے پہلے کہیں بیان کیا تھا کہ خداوند نے خاص اپنے کاہنوں کے لئے  حکم دئے تھے کہ وہ ناپاک عورت سے بیاہ نہ کریں اور استثنا 7 میں خدا نے تمام بنی اسرائیل کو  حکم دیا تھا کہ وہ حتیوں اور جرجاسیوں اور اموریوں اور کنعانیوں اور فرزیوں اور حویوں اور یبوسیوں کے ساتھ نہ تو کوئی عہد باندھیں اور نہ ہی ان میں بیاہ شادیاں کریں کیونکہ خداوند کو علم تھا کہ وہ بنی اسرائیل کو خدا کی عبادت سے دور کر دیں گے۔

میں نے اپنے اس مطالعے کے تعارف میں بیان کیا تھا  کہ عزرا اور نحمیاہ   کی کتاب تناخ میں ایک کتاب ہی  تصور کی جاتی ہے۔ نحمیاہ 13:23 سے 24میں ہمیں  ایک بار پھر سے پڑھنے کو ملتا ہے کہ بنی اسرائیلیوں نے غیر قوموں کی عورتوں سے شادی کی تھی۔ وہاں لکھا ہے؛

انہی دنوں میں میں نے ان یہودیوں کو بھی دیکھا جنہوں نے اشدودی اور عمونی اور موآبی عورتیں بیاہ لی تھیں۔ اور انکے بچوں کی زبان آدھی اشدودی تھی اور وہ یہودی زبان میں بات نہیں کر سکتے تھے بلکہ ہر قوم کی بولی کے مطابق بولتے تھے۔

اس آیت میں "میں ” سے مراد نحمیاہ ہے۔ یہ آیت ہمیں تھوڑا اشارہ دیتی ہے کہ وہ یہودی جنہوں نے غیر قوموں کی عورتوں سے شادیاں کی تھیں وہ انکو تبدیل نہیں کر پائے بلکہ انکا گھرانہ اس قوم کی  مانند بن گیا تھا جہاں کی عورتوں سے انھوں نے شادیاں کی تھیں۔ ان عورتوں نے انھیں خداوند سے دور کر دیا اور ان سے گناہ سر زد ہوا۔

نویں مہینے کی بیسویں تاریخ تھی جب  عزرا ان سے اپنی غلطی  کا اقرار کرنے کو کہہ رہا تھا ۔عبرانی کلام کے نویں مہینے سے مراد  یہ ہے کہ ٹھنڈ ا موسم تھا اور ٹھنڈے موسم میں شدید بارش میں باہر کھڑے رہنا آسان کام نہیں۔  چونکہ بارش بہت شدید ہو رہی تھی اسلئے فیصلہ کیا گیا کہ چونکہ یہ کام ایک دو دن میں ختم نہیں ہوسکتا اسلئے ساری جماعت کے لئے ان پر سردار مقرر ہوں  اور ہر شہر کے بزرگ اور قاضی کے ساتھ مقررہ وقتوں پر یہ کام انجام دیا جائے۔ انھیں  کچھ عرصہ لگ گیا کہ ہر ایک  آبائی خاندان کے نام الگ کئے جاتے اور پھر انکا فیصلہ کیا  گیا کہ وہ اپنی بیویوں کو دور کرنے کا وعدہ کریں۔

ہمیں  عزرا 10:15 میں اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ چار  وہ لوگ بھی تھے جو اس کے خلاف تھے مگر چونکہ زیادہ تر  عزرا سے متفق تھے اسلئے انھوں نے عزرا کے کہنے کے مطابق ہی کیا۔ ایک بار پھر سے ہمیں بہت سے نام پڑھنے کو ملتے ہیں جو ان لوگوں کے نام ہیں جنہوں نے اپنی اجنبی بیویوں کو اپنے سے دور کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ چند ایک کی اولاد بھی تھی۔ میں نے ان ناموں کی ابھی تک تفصیل میں سٹڈی نہیں کی اسلئے میں ان کے بارے میں اپنی کوئی رائے دینا مناسب نہیں سمجھتی۔ میرے ذہن میں ایک سوال یہ بھی ہے کہ  کلام میں لکھا ہے کہ  خدا طلاق سے بیزار ہے (ملاکی 2) تو پھر کیا خاص وجہ تھی کہ ان عورتوں اور بچوں کو خدا کی چنی قوم  کا حصہ بننے نہیں دیا گیا۔ گو کہ میں جانتی ہوں کہ نحمیاہ کی اوپر دی گئی آیت دکھاتی ہے کہ ان لوگوں نے یہوواہ کو اور اسکی زبان کو نہیں اپنایا۔ مگر کیا انکے لئے ذرا سی بھی امید تھی  یا کہ پھر بالکل بھی نہیں؟  اس کو جاننے کے لئے آپ کو تھوڑی بہت عبرانی   زبان کا علم لازمی ہے۔  ان لوگوں نے اپنی اجنبی بیویوں کو دور کرنے کا وعدہ کیا تھا,طلاق کا نہیں ۔ مجھے اپنی یہ بات سمجھانے کے لئے  کلام کی بہت سی آیات  میں درج عبرانی لفظ کو بیان کرنا پڑنا ہے  جو کہ میں اس مطالعے میں نہیں کرنا چاہتی۔  میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ یہ نہ سوچیں کہ آپ کو عزرا کی کتاب کے اس مطالعے سے  سب کچھ سیکھنے کو مل گیا ہے۔ اس میں سیکھنے کو ابھی بھی بہت کچھ ہے۔ میں فی الحال اس مطالعے کو یہیں ختم کرتی ہوں  ہو سکتا ہے کہ کبھی مستقبل میں میں ایک بار پھر سے عزرا کے مطالعے کی کچھ اور تفصیل  میں جاؤں۔ مجھے امید ہے کہ عزرا کی اس کتاب کے مطالعے سے آپ کو کچھ وہ سیکھنے کو ضرور ملا ہوگا جو کہ آپ کو پہلے نہیں پتہ تھا۔ ہمارا اگلا مطالعہ نحمیاہ کی کتاب سے ہوگا۔

خداوند خدا آپ سب کو بڑی برکت دے اور آپ کے دل و دماغ میں اپنا خوف پیدا کرے جو کہ حکمت کی شروعات ہے، یشوعا کے نام میں۔ آمین