image_pdfimage_print

Shazia Lewis کی تمام پوسٹیں

عزرا 3 باب – پہلا حصہ

آپ کلام میں سے عزرا کا 3 باب مکمل خود پڑھیں۔

پچھلے حصے میں ہم نے چند ان ناموں کو دیکھا تھا جو کہ واپس یروشلیم اور یہوداہ کے شہروں میں آئے تھے اور پھر سے بس گئے تھے۔   کہنے کو یہوداہ کے یہ شہر انکے اپنے شہر تھے مگر زیادہ تر لوگ ان علاقوں میں نہیں پلے بڑھے تھے۔ انکے لئے نئے سرے سے زندگی کو شروع کرنا ایک چیلنج سے کم نہیں تھا مگر وہ ایسا کرنے میں خوش تھے۔ افسوس کہ بنی اسرائیل کے باقی دس قبیلوں نے بالکل بھی نہیں سوچا کہ خداوند کا شہر اور اس میں خداوند کی ہیکل کسی اہمیت کے قابل تھے۔   وہ دوسری ہیکل کی تعمیر کا حصہ نہیں تھے۔ آپ  خود اس بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ کیا خداوند کا شہر اور اسکی ہیکل ابھی بھی اہمیت رکھتی ہے؟ عزرا 3 باب – پہلا حصہ پڑھنا جاری رکھیں

عزرا 2 باب

ہم نے پچھلے مطالعے میں عزرا کے 1 باب پر غور کیا تھا۔   ربیوں کی تعلیم کے مطابق خورس بادشاہ کی نظر میں یہوواہ آسمان کا خدا تھا  مگر زمین پر وہ صرف بنی اسرائیل میں  یہوداہ کی سرزمین کا خدا تھا۔  میں اردو کی بائبل میں   عزرا 3:1 میں بریکٹ میں لکھے ہوئے الفاظ دیکھ رہی تھی "(خدا وہی ہے۔)”،   مجھے نہیں علم کیا آیا یہ سب اردو ترجموں کا حصہ ہے یا کہ پھر صرف میری اس اردو  بائبل کے ترجمے میں ہے۔ یہ الفاظ اصل عبرانی کلام کا حصہ نہیں ہیں۔  اصل عبرانی کلام میں آیت کا ترجمہ یہاں تک  اردو میں ہے (عزرا 1:3)؛

پس تمہارے درمیان جو کوئی اسکی ساری قوم میں سے ہو اسکا خدا اسکے ساتھ ہو اور وہ یروشلیم کو جو یہوداہ میں ہے جائے اور خداوند اسرائیل کے خدا کا گھر جو یروشلیم میں ہے بنائے۔

عبرانی کلام میں  یہ  آیت ایسے پڑھی جاتی ہے "تمہارے درمیان جو کوئی اسکے لوگوں (قوم) میں سے ہے اسکا ایلوہیم اسکے ساتھ ہو اور وہ یروشلیم کو جو یہوداہ میں ہے جائے اور بنائے "ایت”    یہوواہ کے گھر  اسرائیل کے خدا    وہ  ایلوہیم جو کہ یروشلیم میں ہے۔”  میں اردو ترجمان کو چیلنج نہیں کر رہی   کیونکہ میں نہیں جانتی کہ انھوں نے کیا سوچ کر اس کو بریکٹ میں ایسے درج کیا ہے مگر میری نظر میں انھوں نے یہاں خدا کے کلام میں اضافہ کیا ہے ۔   ویسے ہی جیسے کی ربیوں کی تعلیم ہے ، خورس بادشاہ کی نظر میں خدا آسمان کا بادشاہ ہے مگر اس نے اس بات کا اقرار ہرگز نہیں کیا کہ "وہی خدا ہے” ۔  خورس بادشاہ نے یہوواہ خدا کو اسکے نام سے پکارا اور ایلوہیم کہا اور اس نے اس بات کا اقرار کیا کہ خداوند نے زمین کی سب مملکتیں اسے بخشی ہیں۔ اس نے خداوند کی قوم کے لوگوں کو خداوند کی ہیکل کی تعمیر کا حکم دیا تھا ۔

 اب آپ کلام میں سے عزرا کا 2 باب مکمل  پڑھیں۔

عزرا کے 2 باب میں ہمیں ان ناموں کی لسٹ ملتی ہے جو  واپس یروشلیم  اور یہوداہ میں اپنے اپنے شہر آئے۔  آپ کو انھی ناموں کی لسٹ نحمیاہ کے 7 باب میں بھی نظر آئے گی۔ سوائے چند ناموں کے باقی تمام نام ایک جیسے ہی ہیں۔   اسرائیل کی سرزمین جس کو 70 سبتوں کا آرام نہیں ملا تھا  (اس بات کو جاننے کے لئے استثنا 28 باب کو دیکھیں)،  70 برس کے آرام کے بعد ایک بار پھر سے خدا کے لوگوں کو خوشی سے قبول کر رہی تھی۔  بنی اسرائیل اور یہوداہ کا گھرانہ تین گروہوں کی صورت میں اسیری میں گئے تھے۔ وہ واپس بھی تین گروہوں کی صورت میں آئے۔ پہلا گروہ  جو کہ داود بادشاہ کے گھرانے کے تھے، زربابل کی قیادت میں آیا، دوسرا گروہ عزرا نبی کی قیادت میں اور تیسرا اور آخری گروہ  نحمیاہ نبی کی قیادت میں واپس آیا۔  یہ تینوں سربراہ ، یہوداہ کے گھرانے  کو پھر سے قائم کرنے میں اہمیت کے قابل ہیں۔ تینوں کو خدا نے خاص مقصد دیا تھا۔ زربابل نے خدا کی ہیکل کی تعمیر  کا کام کروایا۔ وہ  یہوداہ کے گھرانے کا  امِیر تھا۔ ہمیں عزرا 1:8 میں یہوداہ کے امیر شیس بضر کا نام ملتا ہے۔ بہت سے علما  زربابل اور شیس بضر کو ایک ہی انسان سمجھتے ہیں مگر یہ دونوں ایک نہیں ہیں۔ زربابل کا نام عبرانی نام ہے اور شیس بضر بابلی نام ہے۔ کچھ علما کی رائے میں یہ زربابل کا بابلی نام تھا۔ انکی اس سوچ کی   مثال آپ کو  دانی ایل نبی کی کتاب سے ملے گی کہ نبوکد نصر بادشاہ نے دانی ایل نبی کو بابلی نام بیلطشضر دیا تھا۔ 1 تواریخ 3:18 میں ہمیں شیس بضر کا نام نہیں نظر آتا بلکہ شیناضر کا نام لکھا نظر آتا ہے جو کہ زربابل کا چچا ہے۔کچھ یہودی اور میسیانک یہودی  علما کی رائے کے مطابق شیناضر، شیس بضر کا ہی نام ہے جسکا تلفظ یہاں فرق  ہے۔ ہمیں اس بات کا علم نہیں کہ جب شاہِ فارس خورس نے یہوداہ کے امیر شیس بضر کو خداوند کے گھر کے برتن حوالے کئے تھے تو اس وقت اسکی  کتنی عمر ہو گئی اور کیا وہ اتنا لمبا سفر کرنے کے قابل تھا۔ یہ بھی  ہوسکتا ہے کہ اسکی موت کی وجہ سے زربابل کو یہوداہ کے گھرانے کا امیر چنا گیا ہوگا مگر ہمیں اسکی موت کا ذکر نہیں ملتا مگر یہ ضرور پتہ چلتا ہے کہ زربابل یہوداہ کے گھرانے کا امِیر تھا۔   ہمیں حجی اور زکریاہ کی کتاب میں زربابل کا نام نظر آتا ہے۔ زکریاہ 4:9 میں زربابل کے لئے ایسے لکھا ہے؛

کہ زربابل کے ہاتھوں نے اس گھر کی نیو ڈالی اور اسی کے ہاتھ اسے تمام بھی کرینگے۔ تب تو جانیگا کہ رب الافواج نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے۔

اسیری سے واپس آئے ہوئے لوگوں میں وہ لوگ تھے جو کہ اسیری میں بنی اسرائیل کی سرزمین کے باہر پیدا ہوئے تھے مگر ان لوگوں نے یقیناً اپنے بزرگوں سے بنی اسرائیل کی سرزمین ، خداوند کی ہیکل اور اسکی شان و شوکت کا سنا ہوگا۔ ربیوں کے کہنے کے مطابق۔ عزرا  پہلے گروہ کی بجائے دوسرے گروہ کے ساتھ واپس اس لئے آیا ہوگا کہ اس نے اپنا یہ وقت توریت  کو سیکھنے میں گذارا ہوگا۔  کیونکہ عزرا نے ہیکل میں عبادت کے نظام کو  سدھارنے میں مدد دی۔ عزرا 7:10 میں لکھا ہے؛

اسلئے کہ عزرا آمادہ ہوگیا تھا کہ خداوند کی شریعت کا طالب ہو اور اس پر عمل کرے اور اسرائیل میں آئین اور احکام کی تعلیم دے۔

  اور نحمیاہ نے یروشلیم شہر کی دیوار بنانے میں قیادت کی تھی۔  ہم ان باتوں کو آگے کچھ تفصیل میں دیکھیں گے۔ اسیری سے واپس آئے ہوئے لوگوں کی کل تعداد بیالیس ہزار تین سو ساٹھ بیان کی گئی ہے ۔  آپ اس تعداد کے بارے میں ایسے سوچ سکتے ہیں کہ اسیری میں گئے ہوئے سو فیصد لوگوں میں سے صرف پانچ فیصد لوگ واپس آئے۔ باقیوں نے کیوں نہیں واپس آنے کا سوچا؟ کیا انکے دلوں میں کوئی آرزو نہیں تھی کہ خداوند کے عہد کی سرزمین  پر پھر سے لوٹتے؟ ہم لوگ تو شاید ان ناموں کو اس باب میں پڑھتے ہوئے یہ سوچیں کہ آخر کیا ضرورت تھی ان ناموں کو لکھنے کی مگر میری نظر میں خداوند نے اس بات کو نوٹ کیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اسکی نظر میں اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اس نے اپنے کلام کا حصہ بنایا کیونکہ انھوں نے خداوند کو جانا اور قبول کیا اور اسکی طرف کو لوٹے کہ ہیکل کی تعمیر کر سکیں۔  زبور 144:3 میں لکھا ہے؛

ائے خداوند! انسان کیا ہے کہ تو اسے یاد رکھے؟ اور آدم زاد کیا ہے کہ تو اسکا خیال کرے؟

کچھ ایسا ہی ایوب 7:17 سے 18 میں بھی لکھا ہے؛

انسان کی بساط کیا ہے جو تو اسے سرفراز کرے اور اپنا دل اس پر لگائے اور ہر صبح اسکی خبر لے اور ہر لمحہ اسے آزمائے؟

خداوند نے تو تمام بنی اسرائیل کو موقع دیا کہ واپس بنی اسرائیل کی سر زمین کی طرف لوٹیں مگر نہیں تمام بنی اسرائیل اس بات کے لئے تیار نہیں تھے وہ بابل کی سرزمین  میں بس چکے ہوئے تھے۔ ویسے ہی جیسے کہ آج کے مسیحی اسرائیل کی سر زمین سے کوئی لینا دینا نہیں رکھنا چاہتے۔ ان لوگوں  نے نئے سرے سے اپنی زندگی کا آغاز بنی اسرائیل کی سرزمین میں نہیں کرنا چاہا۔  اور ہمارے زیادہ تر مسیحی بھی ایسے ہیں کہ سچائی کو جان کر بھی انکار کرنا پسند کرتے ہیں۔

 خداوند نے اپنا دل اپنے لوگوں کی طرف لگایا ہوا ہے وہ اپنے کلام کے ذریعے جو کچھ انکے لئے کہتا ہے ، اسے پورا کرتا ہے۔  ان ناموں کو درج کرکے خدا نے ان لوگوں کو سرفراز کیا جو اسکی طرف لوٹے۔ ایک اور بات جو شاید آپ  نے میرے آرٹیکلز میں پڑھی ہو کہ میں نے ذکر کیا تھا کہ تمام لاوی ، کاہن نہیں تھے مگر تمام کاہن لاوی ضرور تھے۔ لہذا لاوی کے قبیلے کو آپ دو گروہوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ ایک وہ جو کہ کاہن تھے اور دوسرے وہ جو کہ کاہن نہیں تھے۔ تمام لاویوں کو خداوند نے اپنی خدمت کے لئے چنا تھا۔ عزرا 2:36 سے ہمیں کاہنوں کی فہرست جو کہ 4 گھرانوں کی ہے،  پھرلاویوں کی فہرست اور  ہیکل میں گانے والوں اور دربانوں کے فہرست دکھائی دیتی ہے اور پھر سلیمان بادشاہ کے خادموں کی اولاد۔  بعد میں انھی ناموں کی لسٹ میں آپ کو ان لوگوں کے نام بھی نظر آئیں گے جو کہ اپنے آبائی خاندان اور نسل کا پتا نہ دے سکے کہ وہ اسرائیل کے ہیں یا نہیں (عزرا 2:59 اور 60)۔ اور کچھ  کہنے کو تو کاہنوں کی اولاد میں سے تھے مگر اپنی سند ڈھونڈ نہ سکیں۔ انھیں ناپاک  سمجھا گیا اور کہانت سے خارج کیا گیا (عزرا 2:62)۔  شاید آپ کو یہ انکے ساتھ ناانصافی دکھائی دی ہو مگر خداوند نے اپنے کلام میں کاہنوں کے لئے کچھ خاص اصولوں کو بیان کیا تھا۔ آپ اس کے بارے میں  احبار 21 اور 22 باب میں پڑھ سکتے ہیں۔  غیر قوموں میں شادی کرنے سے منع کیا گیا تھا۔ اسلئے ان لوگوں کے بارے میں حاکم نے یہی فیصلہ کیا کہ جب تک کوئی کاہن اوریم وتمیم لئے ہوئے نہ اٹھے تب تک یہ لوگ پاک ترین چیزوں میں سے نہ کھائیں۔ اوریم وتمیم  کے بارے میں ہم خروج کے مطالعے میں زیادہ تفصیل میں پڑھیں گے۔ مگر مختصراً بیان کردوں کہ اوریم وتمیم خداوند کے برحق فیصلے کو جاننے کے لئے کیا جاتا تھا۔

آپ کو عزرا 2:58 میں "نتنیم” کا لفظ دکھائی دے گا۔ یہ نام نہیں بلکہ  خادموں کا فرقہ ہے  جو کہ سب سے کم تر فرقہ تھا۔ میں اسکے بارے میں معمولی سا  اگلی دفعہ بیان کرونگی۔  ایک اور نام جو کہ قابل غور ہے وہ یشوع کا ہے  جو کہ سردار کاہن کہلایا گیا ہے ہم اسکے بارے میں بھی آگے پڑھیں گے۔

اگلی دفعہ ہم عزرا کے 3 باب کا مطالعہ کریں گے۔ میری خداوند سے دعا ہے کہ وہ آپ کو آپ کی اصل پہچان بتائے اور آپ اسکو قبول کر سکیں، یشوعا کے نام میں۔ آمین

عزرا کا تعارف اور 1 باب

میں نے پچھلے حصے میں ذکر کیا تھا کہ عزرا اور نحمیاہ کی کتابیں  "تناخ” (یہودیوں کی بائبل جسکو ہم پرانا عہد نامہ پکارتے ہیں، یہودی لوگ یشوعا کو نہیں مانتے اسلئے نیا عہد نامہ انکی بائبل کا حصہ نہیں بلکہ ہماری بائبل کا حصہ ہے۔)   میں ایک ہی کتاب گنی جاتی ہے۔ تمام کی تمام کتاب عبرانی  زبان میں نہیں اس میں کچھ حصے ہیں جو کہ ارامی زبان میں لکھے گئے ہیں۔

 بنی اسرائیل کے بارے میں تو آپ کو شاید تھوڑا بہت پتہ ہی ہو کہ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے ۔ ہم نے پیدائش کے مطالعے میں پڑھا تھا کہ  یعقوب نے اپنے بیٹے یوسف کے دونوں بیٹوں  افرائیم اور منسی کو اپنایا تھا۔  شروع میں تو بارہ قبیلے اکٹھے ہی تھے مگر سلیمان بادشاہ کی موت کے بعد  جب اسکا بیٹا  رحبعام بادشاہ بنا تھا تو اس نے اس طرح سے حکومت نہیں  کی جیسے کہ داؤد بادشاہ یا سلیمان بادشاہ نے کی تھی اسی کے زمانے میں بنی اسرائیل دو حصوں میں بٹ گیا (1 سلاطین 12)۔ عزرا کا تعارف اور 1 باب پڑھنا جاری رکھیں

عزرا اور نحمیاہ کا تعارف

اب ہم عزرا کی کتاب کا مطالعہ شروع کر رہے ہیں۔ میں آپ کو اس کتاب کے مطالعہ شروع کرنے سے پہلے وہ ضروری باتیں بتاتی چلو جو آپ عزرا کی کتاب  میں ویسے نہیں پڑھیں گے۔ میں شاید ان تمام باتوں کی تفصیل اس طرح سے نہ دے پاؤں جیسے کہ آپ  شاید کسی بائبل سیمنری/کالج سے حاصل کر سکیں۔ میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ میں آپ کے ساتھ کلام کی جو باتیں شئیر کرتی ہوں وہ  میرے وہ نوٹس ہیں جو کہ میں نے اپنے لئے کلام کو سیکھتے ہوئے جمع کئے ہوئے ہیں۔ میں نے بائبل کی بہت سی کمنڑیوں کی کلام کے مطابق جانچ پڑتال کر کے یہ نوٹس لکھے ہیں۔ ان مطالعوں کو لکھنے اور مجھے اس کو آپ تک پہنچانے میں اگر  کسی مدد حاصل ہوئی ہے تو وہ  خداوند خدا ہے۔ میں اپنے تمام ان میسیانک ربیوں اور علما کی بھی شکر گزار ہوں جنہوں نے میری  کلام کی، اس وقت میری عقل کے مطابق مشکل باتوں کو سمجھنے میں مدد کی۔ میرا اپنا علم کبھی بھی اتنا نہیں تھا اور نہ ہی ہے۔ میرے اس تمام کام کی تعریف  اور جلال خدا کو جاتا ہے۔ عزرا اور نحمیاہ کا تعارف پڑھنا جاری رکھیں

روزے کلام کے مطابق

اس  (2018) سال ایسٹر  اپریل 1  کو منایا جائے گا۔ اور فروری 14 سے روزے شروع ہو جائیں گے۔ اگر آپ  فروری 14 سے ایسٹر تک دن گنیں گے تو معلوم پڑے گا کہ چالیس40 دن نہیں بنتے بلکہ چھیالیس 46 دن بنتے ہیں۔درمیان میں جو اتوار پڑتے ہیں ان کو روزوں میں شمار نہیں کیا جاتا بلکہ مسیحی چرچوں  میں اس دن کو مقدس مان کر روزہ نہ رکھنے کے لیے کہا گیا ہے کہ یسوع مردوں میں سے اتوار کو جی اٹھا تھا اسلیے اتوار مقدس ہے۔ بھولیے مت کہ ہمیں کلام پر عمل کرنے کو کہا گیا ہے نہ کہ لوگوں کی بنائی ہوئی رسموں پر کیونکہ یشوعا  (یسوع) نے یسعیاہ  29:13  کو اپنے لفظوں میں ایسے کہا تھا  (متی 15:7 سے9)؛

ائے ریاکارویسعیاہ نے تمہارے حق میں کیاخوب نبوت کی کہ۔ یہ امت زبان سے تو میری عزت کرتی ہے مگر انکا دل مجھ سے دور ہے۔ اور یہ بے فائدہ میری پرستش کرتے ہیں کیونکہ انسانی احکام کی تعلیم دیتے ہیں۔

اگر آپ ریاکاروں میں سے نہیں تو لازم ہے کہ کلام سے اس بات کی تفتیش کریں اور دیکھیں کہ کلام ان چالیس روزوں کے بارے میں کیا کہتا ہے اور آیا کیا مسیحیوں کو ان روزوں کو لازمی رکھنا چاہیے۔ ان روزوں کو مسیح سے جوڑ کر خوامخواہ میں مسیحیوں کو مجبور نہ کریں کہ یہ روزے رکھیں۔ روزے کلام کے مطابق پڑھنا جاری رکھیں

خروج 17 باب – پہلا حصہ

آپ کلام میں سے خروج کا 17 باب پورا خود پڑھیں۔

ہم نے پچھلے ہفتے خروج کے 16 باب کے مطالعے میں پڑھا تھا کہ خدا نے موسیٰ کو حکم دیا تھا کہ وہ من کو شہادت کے صندوق میں رکھیں۔ آپ کو شاید اندازہ ہوگیا ہو کہ یہ حکم بعد میں ملا ہوگا کیونکہ تب تک انھوں نے شہادت کا صندوق بنایا نہیں تھا۔ کلام میں بہت سے واقعات آگے پیچھے درج ہیں۔

سین کے بیابان میں  جب بنی اسرائیل آئے تھے تو  انھیں ملکِ مصر سے نکلے ہوئے ایک مہینہ ہوگیا تھا۔ وہاں سے وہ آگے رفیدیم  پہنچے اور وہاں ڈیرا کیا۔ ایک بار پھر سے انھوں نے موسیٰ کے ساتھ جھگڑا کیا کہ وہ انھیں پانی پینے کو دے کیونکہ رفیدیم میں انھیں پینے کو پانی نہ ملا۔ ایک بار پھر سے انھوں نے وہی  شکایت کی  کہ موسیٰ انھیں ملکِ مصر سے مارنے کو کیوں نکال لایا؟ موسیٰ نے ان لوگوں سے کہا تھا کہ وہ اس سے کیوں جھگڑتے ہیں اور خداوند کو کیوں آزماتے ہیں ؟ خروج 17 باب – پہلا حصہ پڑھنا جاری رکھیں

خروج 16 باب – دوسرا حصہ

پچھلے حصہ میں ہم نے پڑھا تھا کہ خدا نے بنی اسرائیل کو ابھی شریعت نہیں دی تھی  مگر "آسمان کی روٹی” سے انکی آزمایش کرنے کا کہا تھا۔ خروج 16:4 میں یہ ایسے درج ہے؛

تب خداوند نے موسیٰ سے کہا میں آسمان سے تم لوگوں کے لئے روٹیاں برساؤنگا۔ سو یہ لوگ نکل نکل کر فقط ایک ایک دن کا حصہ بٹور لیا کریں کہ اس سے میں انکی آزمایش کرونگا کہ وہ میری شریعت پر چلینگے یا نہیں۔

ایک ایک دن کا حصہ۔۔۔   یشوعا نے ہمیں اپنی تعلیم دیتے ہوئے متی 6:34 میں کہا؛

پس کل کے لئے فکر نہ کرو کیونکہ کل کا دن اپنے لئے آپ فکر کر لے گا۔ آج کے لئے آج ہی کا دکھ کافی ہے۔ خروج 16 باب – دوسرا حصہ پڑھنا جاری رکھیں

خروج 16 باب – پہلا حصہ

آپ کلام میں سے خروج 16 باب مکمل خود پڑھیں۔ میں صرف وہی آیات درج کرونگی جسکی ضرورت محسوس کرونگی۔

ہم نے خروج کے 15 باب کے آخر میں پڑھا تھا کہ بنی اسرائیل  ایلیم کو آئے جہاں پانی کے بارہ چشمے اور کھجور کے ستر درخت تھے۔ ربی موشیٰ بن نخمان جن کا مخفف رمبان ہے، کہتے ہیں کہ کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ ہمیں خاص بتایا گیا ہے کہ وہاں پانی کے بارہ چشمے تھے اور کھجور کے ستر درخت تھے۔ انکے کہنے کے مطابق "مارہ” سے تو بنی اسرائیل کا صرف مختصر سا گذرنے کا ذکر ہے مگر ایلیم میں ٹھہرنے کا ذکر ہے۔ ان یہودی دانشوروں کی نظر میں 12 پانی کے چشموں سے مراد، اسرائیل کے بارہ قبیلے ہیں اور ستر سے مراد، صدر عدالت کے ستر بزرگ ہیں۔ قضاۃ  4:5 میں ہمیں دبورہ کا ذکر ملتا ہے جو کہ کھجور کے درخت کے نیچے رہتی تھی اور بنی اسرائیل اسکے پاس انصاف کے لئے آتے تھے۔ انکی نظر میں توریت کا پیغام، بنی اسرائیل کو یہ تھا کہ وہ اپنے خداوند کی نظر میں بہت اہم ہیں۔  ایلیم، ملکِ مصر اور کوہ سینا کے درمیان میں تھا۔ توریت پانے سے پہلے خداوند اپنے لوگوں کو اس مقام پر لائے تھے جہاں وہ انکو انکی اہمیت کا احساس دلا رہے تھے۔ ایلیم کسی جگہ کا نام نہیں ہے یہ بہت سے علما مانتے ہیں۔ اگر آپ کو یاد ہو تو میں نے اپنے مطالعے شروع کرنے سے پہلے بیان کیا تھا کہ کلام کی تشریح کے کتنے درجے ہیں۔ یہاں پر ایک روحانی پیغام دیا گیا ہے۔   خروج 16 باب – پہلا حصہ پڑھنا جاری رکھیں

خروج 15 باب – دوسرا حصہ

ہم نے پچھلے ہفتے موسیٰ کے گیت پر کچھ بات کی تھی۔ خداوند نے بنی اسرائیل کو فرعون او ر مصریوں سے ہمیشہ کے لئے رہائی بخش دی تھی۔ وہ انھیں خشک زمین  پر چلا کر سمندر کے بیچ میں سے نکال لایا تھا۔ موسیٰ اور بنی اسرائیل کے مردوں نے خداوند کی حمد میں گیت گایا تھا۔   خروج 15:20 میں ہم پڑھتے ہیں کہ؛

تب ہارون کی بہن مریم نبیہ نے دف ہاتھ میں لیا اور سب عورتیں دف لئے ناچتی ہوئی اسکے پیچھے چلیں۔

مریم کو نبیہ پکارا گیا۔ ہماری توریت میں تو ہمیں مریم سے متعلق کچھ ایسا  لکھا نہیں ملتا جس سے ہم جان سکیں کہ آخر اسے نبیہ کیوں پکارا گیا ہے مگر  تلمود میں کچھ حوالے درج ہیں کہ کیوں اسے نبیہ کہا گیا ہے۔ میں نے خروج کے پہلے باب کے مطالعے میں بیان کیا تھا کہ یوکبد اور مریم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ  دائیاں تھی جنکے نام سفرہ اور فوعہ تھے۔ میرا اپنا خیال تو یہی ہے کہ ایسا نہیں ہے مگر میں اسکے بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتی۔  میں غلط بھی ہوسکتی ہوں۔ تلمود بتاتی ہے کہ مریم نے اپنی ماں کے بارے میں کہا تھا کہ اسکے بیٹا ہوگا  جو کہ اسرائیل کو رہائی دلوائے گا۔ ہم خروج 2 باب میں پڑھتے ہیں کہ جب موسیٰ کو  اسکی ماں نے  سرکنڈوں کے ٹوکرے میں  رکھ کر دریا کے کنارے جھاؤ میں  چھوڑ آئی تھی تو مریم تب بھی دور کھڑی دیکھتی رہی تھی کہ موسیٰ کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ ربیوں کے کہنے کے مطابق مریم کو  یقین تھا کہ  اسکو کچھ بھی نہیں ہوگا اور وہ بڑا ہو کر اپنے لوگوں کو رہائی دلوائے گا۔  خروج 15 باب – دوسرا حصہ پڑھنا جاری رکھیں

خروج 15 باب – پہلا حصہ

آپ کلام میں سے خروج کا 15 باب مکمل خود پڑھیں۔

خروج 15 باب 1 سے 18 اور 21 آیات موسیٰ اور مریم کے گیت سے جانی جاتیں ہیں۔  عبرانی میں اسکو "شیرات ہا-یام،  שירת הים،  Shirat HaYam” کہتے ہیں۔عبرانی زبان میں "شِیر، ،  שיר Shir,” کا مطلب "گیت ” ہے۔ یہ گیت ،  روایت پسند یہودی اور میسیانک یہودیوں کی روز صبح کی عبادت کا حصہ ہے۔  اور ہر سال اس  دو بار  عبادت خانوں  میں بھی پڑھا جاتا ہے۔ ایک بار بے خمیری روٹی کی عید کے ساتویں دن اور ایک بار سردیوں کے درمیان  پرشاہ (توریت کو سال  میں مکمل پڑھنے کے حصے) کے ساتھ "شبات شیراہ،  Shabbat Shirah ” والے دن پڑھا جاتا ہے۔ اسکو "سمندر میں گیتSong at the Sea, ” کے نام سے زیادہ جانا جاتا ہے۔  یہ گیت  کلام میں درج  "دس رہائی کے گیت” میں سے ایک گیت ہے اور مدراش کے مطابق دسواں گیت "شیر خداش، Shir Chadash ” یعنی "نیا گیت” جو کہ  حتمی رہائی کا گیت ہوگا۔ میں نہ تو ان تمام گیتوں پر بات کرونگی  اور نہ ہی انکی تفصیلی میں جاؤنگی۔ ہمیں مکاشفہ 15:1 سے 4  میں خدا کے بندہ موسیٰ کے گیت اور برہ کے گیت کا حوالہ ملتا ہے۔  آپ کے خیال میں یوحنا نبی کے اس حوالے میں کس گیت کی بات ہو رہی ہوگی۔ خروج 15 باب – پہلا حصہ پڑھنا جاری رکھیں