ہم نے پچھلے ہفتے موسیٰ کے گیت پر کچھ بات کی تھی۔ خداوند نے بنی اسرائیل کو فرعون او ر مصریوں سے ہمیشہ کے لئے رہائی بخش دی تھی۔ وہ انھیں خشک زمین پر چلا کر سمندر کے بیچ میں سے نکال لایا تھا۔ موسیٰ اور بنی اسرائیل کے مردوں نے خداوند کی حمد میں گیت گایا تھا۔ خروج 15:20 میں ہم پڑھتے ہیں کہ؛
تب ہارون کی بہن مریم نبیہ نے دف ہاتھ میں لیا اور سب عورتیں دف لئے ناچتی ہوئی اسکے پیچھے چلیں۔
مریم کو نبیہ پکارا گیا۔ ہماری توریت میں تو ہمیں مریم سے متعلق کچھ ایسا لکھا نہیں ملتا جس سے ہم جان سکیں کہ آخر اسے نبیہ کیوں پکارا گیا ہے مگر تلمود میں کچھ حوالے درج ہیں کہ کیوں اسے نبیہ کہا گیا ہے۔ میں نے خروج کے پہلے باب کے مطالعے میں بیان کیا تھا کہ یوکبد اور مریم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دائیاں تھی جنکے نام سفرہ اور فوعہ تھے۔ میرا اپنا خیال تو یہی ہے کہ ایسا نہیں ہے مگر میں اسکے بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتی۔ میں غلط بھی ہوسکتی ہوں۔ تلمود بتاتی ہے کہ مریم نے اپنی ماں کے بارے میں کہا تھا کہ اسکے بیٹا ہوگا جو کہ اسرائیل کو رہائی دلوائے گا۔ ہم خروج 2 باب میں پڑھتے ہیں کہ جب موسیٰ کو اسکی ماں نے سرکنڈوں کے ٹوکرے میں رکھ کر دریا کے کنارے جھاؤ میں چھوڑ آئی تھی تو مریم تب بھی دور کھڑی دیکھتی رہی تھی کہ موسیٰ کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ ربیوں کے کہنے کے مطابق مریم کو یقین تھا کہ اسکو کچھ بھی نہیں ہوگا اور وہ بڑا ہو کر اپنے لوگوں کو رہائی دلوائے گا۔
مریم کو اوپر دی اس آیت میں ہارون کا بھائی بیان کیا گیا ہے۔ اس سے مراد یہ نہیں کہ وہ موسیٰ کی بہن نہیں ہے کیونکہ 1 تواریخ 6:3 میں ہمیں عمرام کی اولاد کے نام لکھے ملتے ہیں جو کہ ہارون اور موسیٰ اور مریم ہیں۔ بنی اسرائیل کی عورتیں مریم کی قیادت میں خداوند کی حضوری میں گیت گاتے ہوئے ناچیں۔ اکثر چرچوں میں سکھایا جاتا ہے کہ ناچنا ، روا نہیں ہے۔ ہمیں کلام میں بہت سے حوالے ملیں گے جس میں خداوند کی حضوری میں ناچنے کا ذکر ملتا ہے۔ زبور 149:3 میں لکھا ہے؛
وہ ناچتے ہوئے اسکے نام کی ستایش کریں۔ وہ دف اور ستار پر پر اسکی مداح سرائی کریں۔
اور کچھ ایسا ہی زبور 150:4 میں لکھا ہے؛
دف بجاتے اور ناچتے ہوئے اسکی حمد کرو۔ تاردار سازوں اور بانسلی کے ساتھ اسکی حمد کرو۔
اگر آپ خود خداوند کی حضوری میں خوشی سے نہیں ناچتے تو اسکا یہ مطلب نہیں کہ آپ دوسروں کو بھی اس سے روکیں۔ اگر آپ چاہیں تو اپنی تسلی کے لئے یرمیاہ 31 باب کو پڑھ سکتے ہیں جس میں پیشن گوئی کی گئی ہے کہ خداوند اپنے لوگوں کے غم کو خوشی میں بدل دے گا اور کنواریاں اور پیرو جوان خوشی سے رقص کریں گے۔ مریم کے گیت کے الفاظ بھی وہی تھے جو کہ موسیٰ کے گیت کے تھے۔ اسلئے اسے کبھی کبھی موسیٰ اور مریم کا گیت بھی پکارا جاتا ہے۔
موسیٰ بنی اسرائیل کو لے کر آگے بڑھا اور وہ تین دن تک بیابان میں پانی نہ پا سکے۔ جب وہ مارہ آئے تو وہ وہاں کا پانی نہ پی سکے کیونکہ پانی کڑوا تھا۔ لوگ موسیٰ پر بڑبڑائے۔ جب تک سب کچھ مہیا ہوتا ہے تب تک خداوند کی تعریف میں شاید زبان سے اتنے الفاظ نہیں نکلتے مگر جیسے ہی مصیبت کی گھڑی شروع ہوتی ہے انسان سب کچھ بھول بھلا کر ، خداوند کے خلاف شکایتوں کا ڈھیر لگا دیتا ہے۔ ایسا ہی بنی اسرائیل کے ساتھ بھی ہوا۔ تین دن پہلے تک وہ خوشی سے خداوند کی حمد کر رہے تھے مگر اب وہ شکایت کر رہے تھے۔ بنی اسرائیل کے بیابان میں ان دنوں کی کچھ تفصیل ہمیں زبور 78 اور 106 میں بھی ملتی ہے جس میں درج ہے کہ وہ جلد خدا کے کاموں کو بھول گئے اور اسکی مشورت کا انتظار نہ کیا۔
میں جب بھی کلام مقدس میں بنی اسرائیل کا پڑھتی ہوں تو اکثر سوچتی ہوں کہ میں خداوند کی حضوری میں بڑبڑانے میں بنی اسرائیل سے دو ہاتھ آگے ہوں۔ بنی اسرائیل تو بیابان میں تھے اور بیابان کی گرمی برداشت کرنا اور پھر تین دن تک پانی نہ ملے؟ انکا بڑبڑانا تو پھر بھی بنتا تھا۔ میں کیوں اتنا زیادہ بڑبڑاتی ہوں جو کہ ان سے زیادہ بہتر حالتوں میں رہی ہوں۔ آپ اپنے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟
میرے خیال سے بنی اسرائیل نے خداوند کی اتنی بڑی قدرت کو دیکھ کر سوچا ہوگا کہ اب انکے لئے سب کچھ اچھا ہوجائے گا، انکی مصیبتوں کے دن ختم۔ مگر نہیں وہ غلامی کی زندگی سے تو نکل آئے تھے مگر ابھی انکے ایمان کا امتحان چل رہا تھا۔ بہت سے نئے مسیحی جو کہ خداوند پاک پر ایمان لے کر آتے ہیں جلد ہی گھبرا جاتے ہیں کیونکہ اچانک انھیں آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے لئے وہ کبھی تیار نہیں تھے۔ اگر آپ نئے مسیحی ہیں تو خداوند کے کلام کو پڑھنا نہ چھوڑیں۔ کلام ہی آپ کے روح کی تلوار ہے جو آپ کو ہر قدم پر حوصلہ اور ہمت دیتی رہے گی کہ کیا کرنا ہے۔ یشوعا کے بیج بونے والی تمثیل تو آپ نے پڑھی ہی ہو گی۔ اگر نہیں تو آپ اسے متی 13 باب میں پڑھ سکتے ہیں۔
جب بنی اسرائیل نے موسیٰ سے کہا کہ ہم کیا پئیں ؟ تو موسیٰ نے آگے شکایت نہیں کی بلکہ خداوند سے فریاد کی۔ خداوند نے موسیٰ کو ایک پیڑ دکھایا جسے جب اس نے پانی میں ڈالا تو وہ میٹھا ہوگیا۔ آپ بھی اپنے لئے اسی اصول کو قائم رکھیں کہ خداوند سے شکایت نہیں فریاد کرنی ہے۔ خداوند نے موسیٰ کو اسکا حل دکھایا اور وہ آپ کو بھی آپ کی آزمایش کا حل دکھا سکتا ہے۔
اس جگہ کا نام پہلے نہیں تھا ورنہ بنی اسرائیل شاید جانتے بوجھتے وہاں نہ آتے۔ مارہ کے معنی ہیں "کڑوا”۔ یہ اسکا نام اس کڑوے پانی کی وجہ سے پڑا۔ خداوند نے جو پیڑ موسیٰ کو دکھایا تھا، اسکا نام درج نہیں ہے۔ بدو، بیابان کے خانہ بدوشوں کے مطابق اس بیابان میں کوئی ایسا پیڑ نہیں جو کہ کڑوے پانی کو میٹھا بنا سکے۔ پیڑ یعنی درخت کو عبرانی میں "ایتز، עץ Etz, ” کہا جاتا ہے۔ آپ نے پیدایش میں "زندگی کے درخت” کا تو سنا ہوگا جو کہ باغ عدن میں تھا۔ میں نے اپنے کسی اور آرٹیکل میں بھی بتایا تھا کہ توریت کو "زندگی کا درخت” پکارا جاتا ہے۔ اسے عبرانی میں "ایتز خیام، עץ חיים، Etz Chayyim” کہتے ہیں۔ ربیوں کی تشریح کے مطابق مارہ کے کڑوے پانی میں ڈالی گئی لکڑی ، ایتز خیام یعنی زندگی کا درخت تھی تبھی پانی میٹھا ہوگیا تھا۔ مکاشفہ 22:2 میں ہمیں لکھا ملتا ہے؛
اور دریا کے وار پار زندگی کا درخت تھا۔ اس میں بارہ قسم کے پھل آتے تھے اور ہر مہینے میں پھلتا تھا اور اس درخت کے پتوں سے قوموں کو شفا ہوتی تھی۔
خداوند نے بنی اسرائیل کے لئے مارہ میں ایک آئین اور شریعت بنائی (خروج 15:26):
کہ اگر تو دل لگا کر خداوند اپنے خدا کی بات سنے اور وہی کام کرے جو اسکی نظر میں بھلا ہے اور اسکے حکموں کومانے اور اسکے آئین پر عمل کرے تو میں ان بیماریوں میں سے جو میں نے مصریوں پر بھیجیں تجھ پر کوئی نہ بھیجونگا کیونکہ میں خداوند تیرا شافی ہوں۔
خروج 15:25 میں عبرانی زبان میں جو شریعت کے لئے لفظ استعمال ہوا ہے اس سے مراد "توریت” نہیں ہے۔ اس پر پھر کبھی بات ہوگی۔ اس آیت میں ہمیں "یہوواہ رافا” یعنی "خداوند شافی” ہے لکھا نظر آتا ہے۔ مکاشفہ کی آیت زندگی کے درخت کو بیان کرتی ہے جس کے پتوں سے قوموں کو شفا ہوتی ہے۔ امثال 3:1 اور 18 میں یوں لکھا ہے؛
ائے میرے بیٹے! میری تعلیم کو فراموش نہ کر۔ بلکہ تیرا دل میرے حکموں کو مانے۔
جو اسے پکڑے رہتے ہیں وہ انکے لئے حیات کا درخت ہے۔ اور ہر ایک جو اسے لئے رہتا ہے مبارک ہے۔
امثال کے اس باب میں "حکمت” پکار کر کہہ رہی ہے کہ "ائے میرے بیٹے! میری تعلیم کو فراموش نہ کر۔۔۔” یسعیاہ 11:2 میں خداوند کی روح میں سے ایک روح "حکمت” کی روح ہے۔ امثال 3:1 میں تعلیم کے لئے جو عبرانی لفظ ہے وہ "توراہ” ہے جسے ہمیں اردو میں توریت کہتے ہیں۔ توریت کے اصل معنی "تعلیم یا ہدایات” ہی ہیں اور اس آیت میں اسکا اصل معنی لکھا گیا ہے۔ توریت کو جیسا میں نے پہلے کہا "زندگی کا درخت” پکارا جاتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یشوعا (یسوع) کو کلام کہا جاتا ہے۔ کلام کو عبرانی میں "دیبار(دیوار)، דָּבָר Dabar) Davar), ” کہا جاتا ہے۔ عموماً اسے دیوار کہا جاتا ہے مگر لکھتے ہوئے اسی عبرانی لفظ میں عبرانی زبان میں "بیٹا، (بار، בָר، Bar) چھپا ہے۔ ב، کو عبرانی میں "بیت یا ویت” پڑھا جاتا ہے۔ ماڈرن عبرانی زبان میں گرائمر کے لئے عبرانی حروف پر نقطے لگائے جاتے ہیں جو کہ صحیح لفظ پڑھنے میں مدد دیتے ہیں۔ اگر آپ ایک بار پھر سے حنین بھائی کا بنایا ہوا عبرانی حروف کا چارٹ دیکھیں تو آپ جانیں گے کہ قدیم عبرانی زبان میں لفظ دیبار میں؛
דָּ – (دالیت) سے مراد دروازہ ہے۔
בָר – اور عبرانی لفظ بار، بیٹا ہے۔ ویسے تو بار میں عبرانی حرف بیت سے مراد "گھر” ہے اور ریش سے مراد "سر” یعنی سربراہ ہے۔
یشوعا نے یوحنا 10:9 میں کہا؛
دروازہ میں ہوں اگر کوئی مجھ سے داخل ہو تو نجات پائیگا اور اندر اور باہر آیا جایا کریگا اور چارا پائیگا۔
اور متی 7:13 سے 14 میں یشوعا نے کہا؛
تنگ دروازہ سے داخل ہو کیونکہ وہ دروازہ چوڑا ہے اور وہ راستہ کشادہ ہے جو ہلاکت کو پہنچاتا ہے اور اس سے داخل ہونے والے بہت ہیں۔ کیونکہ وہ دروازہ تنگ ہے اور وہ راستہ سکڑا ہے جو زندگی کو پہنچاتا ہے اور اسکے پانے والے تھوڑے ہیں۔
یشوعا نے کہا (یوحنا 14:6)؛
یسوع نے اس سے کہا کہ راہ اور حق اور زندگی میں ہوں۔ کوئی میرے وسیلہ کے بغیر باپ کے پاس نہیں آتا۔
اگر یشوعا "راہ، حق اور زندگی” ہے اور توریت ” زندگی کا درخت” ہے اور کلام کے مطابق توریت "برحق” ہے اور وہ راہ ہے جس سے نہ تو ہمیں دائیں مڑنا ہے اور نہ بائیں، یعنی "سکڑا راستہ” تو پھر آپ کے خیال میں وہ "پیڑ” کونسا ہے جو کہ "کڑوے پانی ” کو "میٹھا پانی” بنا سکتا ہے؟ اس میٹھے پانی نے بنی اسرائیل کو بیابان میں پیاسا مرنے نہیں دیا۔ میں دو وہ آیات بھی لکھ رہی ہوں جس میں توریت (شریعت) کو برحق کہا گیا ہے اور وہ راہ بیان کیا ہے جس سے نہ تو ہمیں دائیں مڑنا ہے اور نہ بائیں، تاکہ آپ کلام کے مطابق جان سکیں کہ میں یہ بات اپنی فہم پر تکیہ کر کے نہیں کہہ رہی؛
زبور 119:142؛
تیری صداقت ابدی صداقت ہے اور تیری شریعت برحق ہے۔
یشوع 1:7
توفقط مضبوط اور نہایت دلیر ہوجا کہ اھتیاط رکھ کر اس ساری شریعت پر عمل کرے جسکا حکم میرے بندہ موسیٰ نے تجھ کو دیا ۔ اس سے نہ دہنے ہاتھ مڑنا اور نہ بائیں تاکہ جہاں کہیں تو جائے تجھے خوب کامیابی حاصل ہو۔
بنی اسرائیل مارہ سے ایلیم کو آئے جہاں پانی کے بارہ چشمے اور کھجور کے ستر درخت تھے اور وہیں انھوں نے اپنے ڈیرے لگائے۔ میں اپنے خروج 15 باب کے مطالعے کو ابھی یہیں ختم کرتی ہوں۔ میری خداوند سے دعا ہے کہ جن باتوں کو میں آپ کو مکمل طور پر نہیں سمجھا پائی، خداوند ان کو سمجھانے میں آپ کی راہنمائی کریں، یشوعا کے نام میں۔ آمین