آپ کلام میں سے خروج کا 15 باب مکمل خود پڑھیں۔
خروج 15 باب 1 سے 18 اور 21 آیات موسیٰ اور مریم کے گیت سے جانی جاتیں ہیں۔ عبرانی میں اسکو "شیرات ہا-یام، שירת הים، Shirat HaYam” کہتے ہیں۔عبرانی زبان میں "شِیر، ، שיר Shir,” کا مطلب "گیت ” ہے۔ یہ گیت ، روایت پسند یہودی اور میسیانک یہودیوں کی روز صبح کی عبادت کا حصہ ہے۔ اور ہر سال اس دو بار عبادت خانوں میں بھی پڑھا جاتا ہے۔ ایک بار بے خمیری روٹی کی عید کے ساتویں دن اور ایک بار سردیوں کے درمیان پرشاہ (توریت کو سال میں مکمل پڑھنے کے حصے) کے ساتھ "شبات شیراہ، Shabbat Shirah ” والے دن پڑھا جاتا ہے۔ اسکو "سمندر میں گیتSong at the Sea, ” کے نام سے زیادہ جانا جاتا ہے۔ یہ گیت کلام میں درج "دس رہائی کے گیت” میں سے ایک گیت ہے اور مدراش کے مطابق دسواں گیت "شیر خداش، Shir Chadash ” یعنی "نیا گیت” جو کہ حتمی رہائی کا گیت ہوگا۔ میں نہ تو ان تمام گیتوں پر بات کرونگی اور نہ ہی انکی تفصیلی میں جاؤنگی۔ ہمیں مکاشفہ 15:1 سے 4 میں خدا کے بندہ موسیٰ کے گیت اور برہ کے گیت کا حوالہ ملتا ہے۔ آپ کے خیال میں یوحنا نبی کے اس حوالے میں کس گیت کی بات ہو رہی ہوگی۔
میں نے اپنے آرٹیکلز میں ہمیشہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ بغیر یہودیوں کی روایات کو جانے ہمارے لئے کلام کو سمجھنا مشکل ہے۔ شاید اب تک آپ نے مکاشفہ کی کتاب پر کئے گئے جتنے بھی مطالعے کئے ہیں ، وہ غلط ہونگے اگر وہ پرانے عہد نامے کی حکمت اور سمجھ سے خالی ہیں۔ اگر خداوند کی مرضی ہوئی تو میں مکاشفہ میں درج برہ کے گیت کو ، مکاشفہ کے مطالعے میں بیان کرونگی۔
موسیٰ ، جس کے نام کا مطلب ہے "پانی سے نکالا ہوا” (خروج 2:10)، باقی بنی اسرائیل کے مردوں کے ساتھ سمندر سے نکلتے ہوئے فتح یابی اور خداوند کی تعریف کے اس گیت کو شروع کرتے ہیں اور مریم اور اسکے ساتھ عورتیں خداوند کی حمد میں دف بجاتے ہوئے اور ناچتے ہوئے اس گیت کو آخر میں گاتی ہیں۔ ربی آئزک لوریا لکھتے ہیں کہ "مسیحا کے آنے سے پہلے جو آخری نسل ہوگی انکے لئے خروج کی نسل کی طرح ایک نیا جنم ہوگا۔” بنی اسرائیل کے لئے یہ گیت ایک قوم کی صورت میں سب سے پہلا گیت ہے۔ پورا گیت کلام میں سے پڑھتے ہوئے اسکے لفظوں پر خاص دھیان دیں۔
خروج 15:19 میں لکھا ہے؛
اس گیت کا سبب یہ تھا کہ فرعون کے سوار گھوڑوں اور رتھوں سمیت سمندر میں گئے اور خداوند سمندر کے پانی کو ان پر لوٹا لایا۔ لیکن بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں سے خشک زمین پر چلکر نکل گئے۔
آج کے اس دور میں ، میں نے بہت سے ایسے بھی بے تکے گیت سنے ہیں جن کو سن کر یہ سمجھ نہیں آتی کہ اسکا کیا مفہوم ہوسکتا ہے مگرموسیٰ اور بنی اسرائیل کے مردوں نے خداوند کی تعریف میں اس گیت کو گانا شروع کیا کہ خداوند جلال کے ساتھ فتحمند ہوا۔ اگر آپ کو گانے کا شوق ہے تو اپنے آپ کو روح القدس کے حوالے کریں تاکہ وہ آپ کو اس ہنر سے بھر دے کہ جب آپ گائیں تو دوسروں کی روح آپ کو صحیح طرح سے سن پائے۔ اپنے گیتوں کو معنی دینا سکھیں جو کہ آپ روح القدس کے وسیلے سے سیکھ سکتے ہیں۔
ہمیں ملک مصر پر آئی ہوئی وباؤں کے درمیان میں یا پھر فسح کے موقع پر ، یہاں تک کہ جب بنی اسرائیل نے مجدال اور بعل صفون کے آگے جب ڈیرے لگائے تھے جب فرعون اور اسکے لوگوں نے سوچا ہوگا کہ انکے بت بعل صفون نے بنی اسرائیل کو گمراہ کر دیا ہے کہ وہ ملک مصر سے نکل نہیں پا رہے، کسی بھی موقع پر بنی اسرائیل کی زبان سے خداوند کی حمد کرتے ہوئے نہیں پایا کہ یہوواہ پاک خدا نے انھیں ان تمام وباؤں سے محفوظ رکھا اور انکی راہنمائی کی۔ مگر جب بنی اسرائیل نے دیکھا کہ دشمن تو یہ کہہ رہا تھا ” میں انکا پیچھا کرونگا۔ میں جا پکڑونگا۔ میں لوٹ کا مال تقسیم کرونگا۔ انکی تباہی سے میرا کلیجہ ٹھنڈا ہوگا۔ میں اپنی تلوار کھینچ کر اپنے ہی ہاتھ سے انکو ہلاک کرونگا۔۔” اور خداوند نے انکے لئے سمندر کے بیچ سے راستہ نکالا مگر یہوواہ خدا نے ان گھوڑوں کو سوار سمیت سمندر میں غرق کیا جو انکا پیچھا کرتے ہوئے اس راستے پر آئے تھے۔ خداوند نے جب ایسے اپنی قدرت اپنے لوگوں پر دکھائی تو انکے منہ خودبخود خوشی سے خداوند کی حمد میں گانے لگے۔ انھوں نے پہلی بار مانا کہ (خروج 15:2 سے3)؛
خداوند میرا زور اور راگ ہے۔ وہی میری نجات بھی ٹھہرا۔ وہ میرا خدا ہے۔ میں اسکی بڑائی کرونگا۔ وہ میرے باپ کا خدا ہے میں اسکی بزرگی کرونگا۔ خداوند صاحب ِجنگ ہے۔ یہوواہ اسکا نام ہے۔
کچھ ایسا ہی ہمیں یسعیاہ 12:2 کے حوالے میں بھی ملتا ہے۔
دیکھو خدا میری نجات ہے۔ میں اس پر توکل کرونگا اور نہ ڈرونگا کیونکہ یاہ یہوواہ میرا زور اور میرا سرور ہے اور وہ میری نجات ہوا۔
بنی اسرائیل نے اقرار کیا کہ معبودوں میں کوئی اسکی مانند نہیں جو اس طرح کے کرامات کرے۔ قومیں تک سن کر تھرا گئی۔ چند قوموں کے نام ہمیں لکھے ملتے ہیں جن میں فلستین، ادوم، موآب اور کنعان سرفہرست ہیں۔روح میں انھیں احساس ہوا کہ یہ قومیں ان کے خدا کی قوت کا سن کر ڈر گئی ہیں۔ یہ آنے والے وقتوں کے بارے میں تھا نہ کہ ابھی کے لئے، مگر ہم انکو یہ گاتا ہوئے پڑھتے ہیں۔ ہم آگے ان قوموں کے بارے میں اور بھی پڑھیں گے۔
خروج 15:17 میں لکھا ہے کہ خداوند اپنے لوگوں کو درخت کی مانند لگائے گا۔ شاید آپ کو یشوعا کی کہی ہوئی بات یاد ہے کہ "درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔۔۔(متی 7:17)۔ کلام میں درخت سے مراد لوگ بھی ہوسکتے ہیں۔ جیسے کہ یشوعا کی کہی ہوئی اس آیت سے عیاں ہوتا ہے۔ خروج 15:17 اور 18 آیت میں لکھا ہے؛
تو انکو وہاں لے جا کر اپنی میراث کے پہاڑ پر درخت کی طرح لگائے گا۔ تو انکو اسی جگہ لے جائیگا جسے تو نے اپنی سکونت کے لئے بنایا ہے۔ ائے خداوند! وہ تیری جایِ مقدس ہے جسے تیرے ہاتھوں نے قائم کیا ہے۔ خداوند ابدالآباد سلطنت کریگا۔
ہم خروج 15 باب کے مطالعے کو اگلی دفعہ جاری رکھیں گے۔ میری خداوند سے یہی دعا ہے کہ وہ مجھے اور آپ کو اسی جگہ لے جائے جسے اس نے اپنی سکونت کے لئے بنایا ہے، یشوعا کے نام میں۔ آمین