اس (2018) سال ایسٹر اپریل 1 کو منایا جائے گا۔ اور فروری 14 سے روزے شروع ہو جائیں گے۔ اگر آپ فروری 14 سے ایسٹر تک دن گنیں گے تو معلوم پڑے گا کہ چالیس40 دن نہیں بنتے بلکہ چھیالیس 46 دن بنتے ہیں۔درمیان میں جو اتوار پڑتے ہیں ان کو روزوں میں شمار نہیں کیا جاتا بلکہ مسیحی چرچوں میں اس دن کو مقدس مان کر روزہ نہ رکھنے کے لیے کہا گیا ہے کہ یسوع مردوں میں سے اتوار کو جی اٹھا تھا اسلیے اتوار مقدس ہے۔ بھولیے مت کہ ہمیں کلام پر عمل کرنے کو کہا گیا ہے نہ کہ لوگوں کی بنائی ہوئی رسموں پر کیونکہ یشوعا (یسوع) نے یسعیاہ 29:13 کو اپنے لفظوں میں ایسے کہا تھا (متی 15:7 سے9)؛
ائے ریاکارویسعیاہ نے تمہارے حق میں کیاخوب نبوت کی کہ۔ یہ امت زبان سے تو میری عزت کرتی ہے مگر انکا دل مجھ سے دور ہے۔ اور یہ بے فائدہ میری پرستش کرتے ہیں کیونکہ انسانی احکام کی تعلیم دیتے ہیں۔
اگر آپ ریاکاروں میں سے نہیں تو لازم ہے کہ کلام سے اس بات کی تفتیش کریں اور دیکھیں کہ کلام ان چالیس روزوں کے بارے میں کیا کہتا ہے اور آیا کیا مسیحیوں کو ان روزوں کو لازمی رکھنا چاہیے۔ ان روزوں کو مسیح سے جوڑ کر خوامخواہ میں مسیحیوں کو مجبور نہ کریں کہ یہ روزے رکھیں۔
چالیس روزوں کا آغاز:
لینٹ، Lent، جسکے معنی ہیں "چالیس” روزوں کے دنوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے یا پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ لینٹ، لینسٹن سے نکلا لفظ ہے جسکا مطلب ہے "چشمہ”۔ رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ چرچ کے مطابق یسوع کے چالیس روزوں کی وجہ سے لینٹ کو مقدس مانا جاتا ہے اور اس وجہ سے روزے رکھے جاتے ہیں مگر حقیقت میں یہ بابل کے معبودوں کے تہوار ہیں جو کہ مسیحیت میں اپنی جگہ بنا چکے ہیں۔ آپ نے پرانے عہد نامے میں بار بار بعل اور عستارات کا ذکر پڑھا ہوگا۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ روزے بدھ کے دن سے ہی کیوں شروع ہوتے ہیں؟ رومن کیتھولک ماتھوں پر راکھ سے صلیب کا نشان کیوں بناتے ہیں؟ آخر اتوار کو روزہ کیوں نہیں رکھا جاتا جبکہ یہ جواز کہ یشوعا پہلے دن جی اٹھا اسلئے وہ خوشی کا دن ہے، بھی کلام کے مطابق صحیح نہیں؟ کیا روزوں کے دنوں میں پڑنے والے اتوار کے دن باقی اتوار کے دنوں سے ہٹ کر ہیں؟ اگر آپ کو عید فسح کے بارے میں علم ہے تو کیا آپ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ اگر یشوعا ، فسح کا برہ، فسح والےدن قربان ہوا تو پھر کیوں جمعہ کے دن کو مبارک کہا گیا کہ یسوع اس دن صلیب پر قربان ہوا جبکہ کلام کی عید فسح تو ہر بار مختلف دنوں پر پڑتی ہے؟ کیا جمعے سے اتوار کی صبح تک یشوعا کا دیا ہوا تین رات اور تین دن کا ایک نشان (متی 12:37 سے 40) پورا اترتا ہے؟ ویسے تو مجھے علم ہے کہ اس سوال کا روزے سے کوئی لینا دینا نہیں مگر سوچنے میں تو کوئی حرج نہیں 🙂
کلام میں بیان کیا گیا ہے کہ یسوع نے چالیس دن اور چالیس رات کچھ نہ کھایا (متی 4، مرقس 1، اور لوقا 4)۔ انھی آیات کو بنیاد بنا کر رومن کیتھولک چرچ کی بنائی ہوئی رسم کے مطابق ایسٹر سے پہلے چالیس روزے رکھے جاتے ہیں۔ میں نے بھی اعمال سے لے کر مکاشفہ تک سب پڑھ لیا ہے مگر کہیں نظر نہیں آیا کہ کہاں پر یشوعا کے شاگردوں نے اتوار کو چھوڑ کر چالیس روزے رکھے تھے ۔ مجھے کلام میں کہیں یہ بھی نہیں نظر آیا کہ اتوار کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔ چالیس روزے صرف یشوعا نے ہی نہیں رکھے تھے بلکہ ہمیں کلام میں سب سے پہلے موسیٰ نبی کا حوالہ ملتا ہے جس نے ایک دفعہ نہیں بلکہ دوہ دفعہ چالیس روزے رکھے تھے(استثنا 9:9 اور 9:18)۔ پہلی بار تب جب خداوند نے موسیٰ کو دس احکامات دئے تھے اور دوسری بار تب جب موسیٰ نے دوبارہ سے پتھر کی لوحوں پر دس احکامات لکھے تھے کیونکہ بنی اسرائیل نے سونے کا بچھڑا بنا کر خداوند کے خلاف گناہ کیا تھا اور موسیٰ نے غصے میں پہلی والی لوحوں کو توڑ دیا تھا۔ اور پھرایلیاہ نبی نے بھی تو چالیس دن تک روزہ رکھا تھا (1 سلاطین 19:8)۔ کیا موسیٰ اور ایلیاہ نبی نے انھی دنوں میں روزے رکھے تھے جب یشوعا نے روزہ رکھے تھے؟
اگر آپ نے میرا "شعوعوت، عید پینتکوست” پر لکھا آرٹیکل پڑھا ہے تو شاید آپ کو یاد ہو کہ میں نے بتایا تھا کہ خداوند نے بنی اسرائیل کو توریت، پینتکوست/شعوعوت والے دن دی تھی۔ اور پھر خداوند نے موسیٰ کا کہا کہ وہ پہاڑ پر خداوند کے پاس آئے تاکہ خداوند موسیٰ کو لکھی ہوئی پتھر کی لوحیں اور شریعت دیں۔ موسیٰ کے پہلے چالیس دن اور چالیس رات کے روزے یہاں سے شروع ہوئے تھے (خروج 24)۔ عید پینتکوست ، عبرانی کیلنڈر کے مطابق سیوان کے مہینے میں پڑتی ہے جو کہ ہمارے رومن کیلنڈر کے مطابق مئی /جون کا مہینہ بنتا ہے۔ برائے مہربانی ایک نظر خود بھی وقار بھائی کے بنائے ہوئے عبرانی کیلنڈر پر ڈالیں۔ یہ کیلنڈر آپ کو بائبل سٹڈی ان اردو گروپ کے “Photos”میں نظر آئیگا۔ ان چالیس دن اور چالیس رات کے بعد جب موسیٰ کو خداوند نے کہا کہ وہ نیچے جا کر دیکھے کہ کیسے بنی اسرائیل خداوند کے خلاف گناہ کر رہے ہیں تو تموز کا مہینہ شروع ہوچکا تھا جو کہ جون /جولائی کا مہینہ بنتا ہے۔ یہودی/میسیانک یہودی مانتے ہیں کہ 17 تموز کو موسیٰ نبی نے پتھر کی وہ لوحیں غصے میں توڑ ڈالیں تھیں۔ موسیٰ خداوند سے ہارون اور بنی اسرائیل کے اس گناہ کی معافی مانگنے کے لئے خداوند کے حضور میں گیا ۔ کچھ عرصے کے بعد ایک بار پھر سے موسیٰ خداوند کے حکم سے انکےحضور میں تراشی ہوئی لوحیں لے کر گیا کہ دس احکامات ایک بار پھر سے لکھے جائیں۔ موسیٰ نبی نے ایک بار پھر سے چالیس دن اور چالیس رات کا روزہ رکھا (خروج 34:28)۔ یہ الول کا مہینہ تھا جوکہ اگست/ستمبر میں پڑتا ہے۔
جہاں تک بات ہے کہ ایلیاہ نے کس مہینے میں 40 روزے رکھے تھے، کلام کی آیات سے کچھ خاص واضح نہیں ہے اگر کوئی اہمیت ہے تو وہ اس بات کی ہے کہ وہی حورب پہاڑ جہاں خداوند نے موسیٰ کو پتھر کی لوحیں دیں تھی، ایلیاہ نبی کی ان چالیس دن اور رات کے روزوں کی منزلِ تھی۔ ایلیاہ بھی اسی پہاڑ پر خداوند سے ملا۔
یشوعا نے بھی چالیس روزے رکھے تھے۔ ہم کلام کی آیات سے اور توریت کے علم سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یشوعا نے کس مہینے میں روزے رکھے تھے۔ مرقس کی انجیل 1:4 سے 5 آیات میں لکھا ہوا ہے کہ ؛
یوحنا آیا اور بیابان میں بپتسمہ دیتا اور گناہوں کی معافی کے لئے توبہ کی منادی کرتا تھا۔ اور یہودیہ کے ملک کے سب لوگ اور یروشلیم کے سب رہنے والے نکل کر اسکے پاس گئے اور انہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کر کے دریایِ یردن میں اس سے بپتسمہ لیا۔
بپتسمہ کے بارے میں مسیحیوں کی عام سوچ یہ ہے کہ پرانے عہد نامے میں اسکا وجود نہیں تھا مگر یہ غلط ہے۔ اس پر بھی میں کبھی ایک آرٹیکل لکھونگی مگر امید ہے کہ آپ میری اس بات پر ضرور غور کریں گے کہ یہودیہ اور یروشلیم کے رہنے والے یہ لوگ یہودی تھے اگر بپتسمہ کی تعلیم کوئی نئی تعلیم ہوتی تو وہ یوحنا نبی سے بپتسمہ لینے کی نہ سوچتے۔ ہمیں لوقا 3:1 سے22 آیات میں یوحنا نبی کی کچھ تعلیم کا حوالہ ملتا ہے اور ساتھ ہی میں اسکی مسیحا (مشیاخ) کی آمد کی دی ہوئی گواہی بھی ملتی ہے۔ یوحنا نبی نے لوگوں کو کہا (لوقا 3:8):
پس توبہ کے موافق پھل لاؤ۔۔۔۔۔۔
ہم اوپر دی ہوئی مرقس کی آیت میں بھی پڑھ چکے ہیں کہ یہ لوگ گناہوں کا اقرار کر کے بپتسمہ حاصل کر رہے تھے۔ ہمیں متی 3:13 سے 15 میں یشوعا کا بھی پانی کا بپتسمہ لینے کا حوالہ ملتا ہے کہ یشوعا نے یوحنا کو کہا "کیونکہ ہمیں اسی طرح ساری راستبازی پوری کرنا مناسب ہے۔۔۔” یشوعا نے گناہوں کی معافی کا بپتسمہ لیا جبکہ وہ راستباز تھے۔ کوئی بھی جو کہ شریعت کی باتوں سے واقف ہو بہت اچھے طریقے سے جانتا ہے کہ یوم کفارہ سے چالیس دن پہلے ہی یہودی لوگ اپنے گناہوں سے توبہ مانگ کر اپنے آپ کو رسمی طور پر پانی سے صاف کرتے ہیں۔ عبرانی میں "توبہ” کو "تشِوا، תשובה , Teshuvah” کہتے ہیں۔ تشوا لفظ میں عبرانی لفظ "شوا” ہے جسکے معنی ہیں "پلٹنا یا لوٹنا”۔ یہی اس چھٹے عبرانی مہینے الول کی اہمیت ہے کہ لوگ اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور خداوند کی طرف پلٹیں اور تشری جو کہ عبرانی کلام کے کیلنڈر کا ساتواں مہینہ بنتا ہے ، اپنے آپ کو خداوند کی عیدوں، یوم تیروعہ ، یو م کفارہ اور سکوت ، کے لئے تیار کر سکیں۔ کلام میں ہمیں کتنی ہی آیات ملتی ہیں جو کہ توبہ کرنے اور خداوند کی طرف واپس لوٹنے کا پیغام دیتی ہیں۔ یوحنا بپتسمہ دینے والے کا پیغام بھی یہی تھا (متی 3:2):
توبہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہی نزدیک آگئی ہے۔
یہ عبرانی مہینہ الول، אלול Elul, اصل میں عبرانی جملہ
انی لدودی ودودی لی, אני לדודי ודודי לי
Ani LeDodi VeDodi Le کے سرنامیہ پر مشتمل ہے۔ میں نے אלול کے حروف کے نیچے لائن لگائی ہے۔ یہ عبرانی جملہ کلام میں غزل الغزلات 6:3 کی آیت ہے "میں اپنے محبوب کی ہوں اور میرا محبوب میرا ہے۔” یہودی اور میسیانک یہودی استثنا 30:2 کو دھیان میں رکھ کر روزہ رکھتے ہیں؛
اور تو اور تیری اولا دونوں خداوند اپنے خدا کی طرف پھریں اور اسکی بات ان سب احکام کے مطابق جو میں آج تجھ کو دیتا ہوں اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان سے مانیں۔
یشوعا کے ان 40 روزوں کو رکھنے کا مقصد بہت سوں کے کہنے کے مطابق اپنی منسٹری کے کام کو شروع کرنا تھا کیونکہ لوقا 4:14 میں یشوعا کے روح کی قدرت سے بھرپور ہو کر تعلیم دینے کا بیان ہے۔ میرا اپنا ذاتی خیال ہے کہ اسکا مفہوم کچھ اور ہے جس کے بارے میں پھر کبھی بات کرونگی۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا آپ جو ان چالیس روزوں کو رکھتے ہیں انھی دنوں میں رکھتے ہیں جب یشوعا نے رکھے تھے؟ میں پہلے بھی بہت سے آرٹیکلز میں بیان کر چکی ہوں کہ جو کیلنڈر میں اور آپ استعمال کرتے ہیں وہ بائبل کے کیلنڈر کے مطابق نہیں ہے۔ کلام میں درج مہینے ان مہینوں سے مختلف ہیں۔ اگر آپ کو کلام کے مطابق چلنا ہے تو پھر آپ کو اپنے دینی کیلنڈر کو بھی اپنانا پڑے گا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ کس دین کو آپ اپنا دین سمجھتے ہیں۔
اگر یہ 40 چالیس روزے جو آپ رکھتے ہیں کلام کے مہینے الول میں نہیں پڑ رہے اور نہ ہی کلام کے حکموں کے مطابق ہیں تو کیا آپ نے سوچا ہے کہ پھر یہ کونسے روزے ہیں؟ چلیں کلام میں دیکھتے ہیں۔ آپ حزقی ایل کا 8 باب پورا پڑھیں۔ میں اس میں سے صرف ایک دو آیتوں کو لکھوں گی۔
حزقی ایل 8 باب 14 اور 16 آیات
14: تب وہ مجھے خداوند کے گھر کے شمالی پھاٹک پر لایا اور کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں عورتیں بیٹھی تموز پر نوحہ کر رہی ہیں۔
16: پھر وہ مجھے خداوند کے گھر کے اندرونی صحن میں لے گیا اور کیا دیکھتا ہوں کہ خداوند کی ہیکل کے دروازہ پر آستانہ اور مذبح کے درمیان قریباً پچیس شخص ہیں جنکی پیٹھ خداوند کی ہیکل کی طرف ہے اور انکے منہ مشرق کی طرف ہیں اور مشرق کا رخ کرکے آفتاب کو سجدہ کر رہے ہیں۔
آخر یہ تموز کون ہے؟ اور کیوں اس پورے باب میں خداوند اپنے لوگوں سے اتنا ناراض سنائی دے رہا ہے؟ کیا آپ کو معلوم ہے کہ تمام رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ چرچوں کا رخ مشرق کی طرف ہوتا ہے جس طرف لوگ صلیب کے سامنے دعا کے لیےجھکتے ہیں؟ تموز قدیم بابل کے دیوتاوں میں شمار ہوتا ہے۔ تموز یا پھر متھرا (جو مختلف خطوں میں مختلف ناموں سے جانا جاتا ہے) کی پیدائش 25 دسمبر کو ہوئی تھی۔ تموز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ نمرود ہے جس نے دوبارہ سے جنم لیا۔ اسے سورج دیوتا بھی پکارا جاتا ہے۔ بابل کے مذہب میں تموز کے مرگ اور جی اٹھنے کا تہوار منایا جاتا تھا ۔ اگر آپ انٹرنیٹ پر تموز کی تصویریں دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ ہمارے مسیحی گھرانوں اور چرچ میں اس کے کتنے روپ ہیں جو کہ تمام کے تمام یسوع سے جوڑ دیے گئے ہیں۔ مگر شاید آپ کو ابھی بھی صاف دکھائی نہ دے۔ یاد رکھیں کہ شیطان شروع سے ہی خداوند کے لوگوں کو بہکاتا رہا ہے۔ تموز کی تصویریں تو آپ ینٹرنیٹ پر دیکھ ہی لیں گے مگر میں اسکی تھوڑی سی تفصیل بیان کرتی چلوں۔
پیدائش 10 اسکی 8 اور 9 آیات؛
اور کوش سے نمرود پیدا ہؤا۔ وہ روی زمین پر ایک سورما ہوا ہے۔ خداوند کے سامنے وہ ایک شکاری سورما ہوا ہے اسلیے یہ مثل چلی کہ خداوند کے سامنے نمرود سا شکاری سورما۔
عبرانی میں جس طرح یہ آیتیں درج ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خدا کے خلاف تھا۔ تلمود اور یوسیفس اسکے بیان میں ذکر کرتے ہیں کہ یہی نمرود تھا جسکی رہنمائی میں لوگوں نے بابل کا برج بنایا تھا۔ نمرود زمین پر بابل کے لوگوں کی نظر میں خدا تھا اور اسکی بیوی سمیریمس(سمیری) جو کے مختلف ممالک میں مختلف ناموں سے جانی جاتی ہے مثلاً، عستارات، یسیرت، ایسس(ISIS) ،ایسٹر ، میڈونا ، آسمان کی ملکہ۔ یہ صرف اسکے چند نام ہیں۔ اگر آپ اسکی تصویریں انٹرنیٹ پر دیکھیں گے تو معلوم پڑے گا کہ کبھی کبھی اسکو ماں جو اپنے ننھے بیٹے کو گود میں پکڑے ہوئے ہے اسکے روپ میں بھی دکھایا گیا ہے۔ جی آپ نے شاید اسے اپنے چرچ میں بھی دیکھا ہو فرق صرف یہ ہے کہ آپ اسے مریم اور یسوع کا مجسمہ سمجھتے ہیں۔ نمرود اور سیمریمس سے جڑی مختلف کہانیاں آپ کو بابل کی تاریخ کی کتابوں میں ملے گی۔
نمرود کو سورج دیوتاکہا جاتا تھا تو سمیریمس، اسکی بیوی چاند کی دیوی تھی یا پھر آسمان کی ملکہ۔ جب نمرود کو اسکے دشمن نے مار دیا اور کچھ عرصے کے بعد جب عستارات، آسمان کی ملکہ کسی سے ناجائز طور پرحاملہ ہوئی تو اس نے سورج دیوتا کی شعاعوں سے حاملہ ہونے کا دعویٰ کیا اور جو اسکا بیٹا پیدا ہوا اسکا نام اس نے تموز رکھا۔ اس نے مشہور کر دیا کہ نمرود کا پھر سے جنم ہوا ہے۔ آسمان کی ملکہ کے اپنے بیٹے تموز کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنی ہی ماں سے شادی کر لی تھی۔ ویلنٹائین ڈے پر جو کیوپڈ، پروں کے ساتھ ہاتھ میں تیر کمان پکڑے بچہ دکھایا جاتا ہے وہ کوئی اور نہیں تموز ہی ہے۔ تموز کو سورج دیوتا کا بیٹا مانا جاتا تھا اور اپنے باپ کی طرح وہ بھی شکاری تھا مگر اسکو ایک جنگلی سور نے تب مار دیا جب وہ ابھی چالیس سال کا تھا۔ اسکی ماں نے تموز کی پرستش کرنے والوں کو بتایا کہ جب تموز کا خون سدابہار درخت کے کٹے تنے پر گرا تو اس سے راتوں رات میں ایک نیا درخت اگ آیا جس کی وجہ سے سدابہار درخت مقدس ہے۔ وہی سدا بہار درخت جسکو مسیحی ہر کرسمس اپنے اپنے گھروں میں سجاتے ہیں ۔اسکی ماں نے ہر سال تموز کی مرگ کے افسوس میں چالیس دن تک سوگ منانے کا بھی کہا جو کہ بدھ والے دن سے شروع ہوتا تھا۔کلام میں ہم حزقی ایل 8 میں بنی اسرائیل کی عورتوں کا تموز کے لئے نوحہ کرنے کا پڑھتے ہیں اور ان لوگوں کا خداوند کی ہیکل کی طرف پیٹھ کر کے مشرق کی طرف آفتاب کا سجدہ کرنے کا پڑتے ہیں، وہاں اسی تموز کی بات ہو رہی ہے اور بابلی بتوں کی رسموں کا ذکر ہے۔ کچھ عرصے کے بعد سیمریمس ، تموز کی زندگی کی فریاد لے کر دیوتاؤں کے سامنے گئی مگر اسے واپس دریائے فرات میں ایک بڑے انڈے میں بھیج دیا گیا۔ چونکہ وہ انڈے سے نکلی تھی تو اسلئے لوگوں کا یہی ایمان تھا کہ وہ دیوی ہے۔ کچھ اور کتابوں کے مطابق اپنے بیٹے کی موت کے بعد سمیریمس کی بھی موت ہوگئی تھی مگر بعل (نمرود) نے اسے ابھی اپنے پاس رکھنے سے انکار کر دیا اور اسکو واپس انڈے میں بند کر کے زمین پر دریائے افرات میں اتار دیا۔ ایسٹر والے دن کے ایسٹر کے انڈوں کا وجود یہیں سے پیدا ہوا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سیمریمس نے ایک پرندے کو انڈے دینے والے خرگوش میں بدل دیا جسکی وجہ سے لوگ اس پر ایمان رکھتے تھے۔ تموز کی پرستش کرنے والے اپنے سامنے ویسے ہی T، ٹی کا نشان بناتے تھے جیسے کہ آجکل کچھ مسیحی اپنی طرف سے باپ، بیٹے اور روح القدس کا نشان بناتے ہیں۔ مت بھولیں کہ یہ بابلی دیوتاؤ ں کے قصے ہیں ان میں سچائی نہیں ہے۔ مسیحیوں کی ایسٹر کی صبح کی عبادت بھی کلام کے مطابق نہیں ہے بلکہ انھی بابلی من گھڑت کہانیوں کا حصہ ہیں۔ اس سے متعلق بھی کئی قسم کی کہانیاں جڑی ہیں۔ مثال کے طور پر آپ نے شاید فلموں میں بھی دیکھا ہوگا کہ بعض شیطانی فلموں میں شیطان کے چیلے کنواری عورتوں یا پھر بچوں کی قربانی طلوع ہوتے ہوئے سورج کے ساتھ کرتے تھے اور پھر انکے خون میں انڈوں کو ڈبویا جاتا تھا۔ میں پھر سے یاد دلا دوں کہ یہ کہانیاں من گھڑت ہیں اور انکی بنیاد کلام کی سچائی پر مبنی نہیں ہے۔
آپ خود سوچیں کہ ایسٹر والے دن انڈوں اور ایسٹر کے خرگوش کا یشوعا کے جی اٹھنے سے کیا واسطہ ہے؟ وہی باتیں جن سے پرانے عہد نامے میں خدا یہودیوں سے ناراض تھے آج مسیحی انھی کو اپنائے ہوئے ہیں۔ جب خدا نے یہودیوں کو اس حرکت پر معاف نہیں کیا بلکہ ملک بدر کردیا کیا آپ کے خیال میں آپ ان یہودیوں سے بہتر ہیں کہ خدا آپ کو ایسا کرنے پر معاف کریں گے۔ اگر آپ توبہ نہ کریں اور پھر سے اسکی مقرر کردہ عیدوں اور احکامات کو نہ مانیں تو آپ میں اور حزقی ایل 8 باب میں درج ان نافرمانبردار یہودیوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ آپ جب یہ روزے رکھتے ہیں اور ایسٹر مناتے ہیں تو صاف صاف خدا کے حکموں کی نافرمانبرداری کرتے ہیں۔ میں دس احکامات کی بات کر رہی ہوں جو کہ شریعت کا حصہ ہیں۔ کیا آپ نے کبھی اپنے پادریوں سے پوچھا ہے کہ کیوں چرچ کا رخ مشرق کی طرف ہوتا ہے اور کلام میں کہاں پر لکھا ہے کہ اتوار کو روزہ مت رکھو؟ خداوند نے جیسے بنی اسرائیل کے لئے حزقی ایل 8:18 میں کہا وہ آپ کے لئے بھی جو یہ مکروہ حرکت کرتے ہیں ، کہتے ہیں:
پس میں بھی قہر سے پیش آؤنگا۔ میری آنکھ رعایت نہ کریگی اور میں ہرگز رحم نہ کرونگا اور اگرچہ وہ چلا چلا کر میرے کانوں میں آہ و نالہ کریں تو بھی میں انکی نہ سنونگا۔
کلام کے مطابق روزے کب رکھے جاتے ہیں؟
میرے سے اکثر سوال کیا جاتا ہے کہ بتائیں کہ ہمیں کب روزے رکھنے ہوتے ہیں۔ ہمیں کلام میں اکثر ذکر ملتا ہے کہ کس نے کب روزہ رکھا یا پھر کیوں روزہ رکھا۔ مثال کے طور پر یوناہ نبی کی کتاب کے مطالعے میں ہم نے پڑھا تھا کہ نینوا کے باشندوں نے توبہ کا روزہ رکھا تھا۔ آستر کی کتاب کے مطالعے میں ہم نے پڑھا تھا کہ یہودیوں نے آستر کے لئے روزہ رکھا تھا تاکہ خداوند اسے بادشاہ کی نظر میں مقبول ٹھہرائے اور وہ لوگ اپنے سر پر آنے والی بلا سے نجات پا سکیں۔ 2 سموئیل 1 باب میں ہمیں لوگوں کا ساؤل اور اسکے بیٹے یونتن کی موت کے دکھ میں روزہ رکھا ۔ ہمیں دانی ایل نبی کے روزے رکھنے کا ذکر بھی ملتا ہے (دانی ایل 9:3 اور 16)۔ یشوعا کے یہ چالیس دن کے روزے ، یشوعا کو روحانی جنگ کے لئے رکھنے پڑے تھے۔ عزرا 8:21 میں ہمیں فروتن بننے کے لئے روزے رکھنے کا ذکر ملتا ہے۔ اور اعمال کی کتاب میں ہمیں بزرگوں کا روزہ رکھنے کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے خداوند سے راہنمائی حاصل کرنے کے لئے روزہ رکھا۔ اور بھی کافی مثالیں ہیں۔
روزہ آپ کسی بھی بات کے لئے رکھ سکتے ہیں۔ کلام میں درج یہ مثالیں ہمیں اسی بات کی اہمیت بیان کرتی ہیں۔ مگر پھر بھی کچھ روزے ایسے ہیں جو کہ یہودی لوگ رکھتے تھے۔ ان میں سے چند روزے وہ ہیں جنکو رکھنے کا حکم خدا نے دیا ہے۔ آئیں کلام میں سے کچھ حوالے دیکھتے ہیں۔ زکریاہ 8:19 میں لکھا ہے؛
کہ رب الافواج یوں فرماتا ہے کہ چوتھے اور پانچویں اور ساتویں اور دسویں مہینے کا روزہ بنی یہوداہ کے لئے خوشی اور خرمی کا دن اور شادمانی کی عید ہوگا۔ اسلئے تم سچائی اور سلامتی کو عزیز رکھو۔
یہی واحد آیت ہے جہاں ان چند روزوں کا اکٹھا ذکر ہے۔ جہاں تک میں جانتی ہوں بہت سے مسیحی علما اس بات سے متفق ہیں کہ زکریاہ نبی کی کتاب میں درج باتیں ابھی پوری ہونا باقی ہیں۔ وہ آپ کو یہ ضرور کہیں گے کہ زکریاہ نبی کی کتاب میں سے کافی باتیں پوری ہوگئی ہیں مگر ساتھ ہی میں اس بات کو بھی مانیں گے کہ ابھی بھی بہت سی باتیں پوری ہونا باقی ہیں۔میں ابھی اس پر بات نہیں کرونگی۔ آئیں پہلے دیکھتے ہیں کہ کلام کے یہ مہینے کونسے ہیں اور یہ کس قسم کے روزہ ہیں اور کس دن رکھے جاتے ہیں؟
چوتھا مہینہ؛ تموز:
کلام کے عبرانی کیلنڈر کے مطابق چوتھا مہینہ تموز کا مہینہ ہے اور یہ ہمارے جون/جولائی کے مہینہ میں پڑتا ہے۔ اس مہینے کی 17 تاریخ کو روزہ رکھا جاتا ہے۔ اس روزے کے ساتھ ہی تین ہفتے کا ماتم شروع ہوجاتا ہے کیونکہ نہ صرف پہلی بلکہ دوسری ہیکل بھی اسی دن تباہ ہوئی تھی اور یروشلیم شہر بھی۔ یہی وہ دن ہے جب موسیٰ نبی نے پتھر کی لوحیں غصے میں توڑیں تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ہیکل میں بت اسی تاریخ کو رکھے گئے تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ رومن جنرل نے اسی دن توریت کو جلایا تھا اور یروشلیم شہر کی دیواریں توڑ ڈالی تھیں۔ پہلی اور دوسری ہیکل دراصل 9 آب کو مکمل طور پر تباہ کر دی گئیں تھی اس تاریخ کو دیوار رخنہ ہوئی تھی۔ پہلی ہیکل کی تباہی کی کہانی آپ کو 2 سلاطین 25 باب میں ملے گی اور دوسری ہیکل کی تباہی کی کہانی تاریخ کی کتابوں میں کیونکہ دوسری ہیکل، رومن سپاہیوں کے ہاتھوں ، یشوعا کے جی اٹھنے کے بعد 69 ء یا 70 ء کو ہوئی۔ یہودی لوگ 69ء کہتے ہیں جبکہ مسیحی 70ء۔
پانچواں مہینہ؛ آب/آوؤ:
کلام کے عبرانی کیلنڈر کے مطابق پانچواں مہینہ آب کا مہینہ ہے اور یہ جولائی/اگست کا مہینہ بنتا ہے۔ جیسے میں نے اوپر ذکر کیا کہ 9 آب کو پہلی اور دوسری ہیکل مکمل تباہ کر دی گئی تھیں۔ تاریخ میں تین اور مختلف موقعوں پر سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں یہودیوں کا قتل بھی اسی تاریخ کو ہوا تھا۔
ساتواں مہینہ؛ تشری:
کلام کے مطابق ساتواں مہینہ تشری کا مہینہ ہے جو کہ ستمبر/اکتوبر بنتا ہے۔ آپ کو کلام میں احبار 23 باب میں یوم کفارہ کے دن اپنی جان کو دکھ دینے کا ذکر ملے گا۔ میں نے یوم کفارہ پر لکھے اپنے آرٹیکل میں بیان کیا ہے کہ جان کو دکھ دینے سے مراد روزہ ہے اور ہمارے زکریاہ نبی کے اوپر دیا ہوا حوالہ اس بات کا ثبوت ہے۔ اسی مہینے کی 3 تاریخ کو بھی روزہ رکھا جاتا ہے جسے جدلیاہ کا روزہ پکارا جاتا ہے۔ جدلیاہ کو اس تاریخ کو مار ڈالا گیا تھا (2 سلاطین25:25)۔
دسواں مہینہ؛ طیبت:
کلام کے مطابق دسواں مہینہ طیبت کا مہینہ ہے جو کہ ہمارے دسمبر /جنوری کا مہینہ بنتا ہے۔ ہمیں کلام میں 2 سلاطین میں نبوکد نصر کا یروشلیم پر حملے کا ذکر ملتا ہے۔خداوند اپنے نبیوں کی معرفت بار بار اپنے لوگوں کو تنبیہ کرتے رہے مگر اسرائیل کے گھرانے اور بنی یہوداہ نے خداوند کی نہ سنی۔ 10 طیبت کو نبوکد نضر نے یروشلیم شہر کا محاصرہ کر لیا اور پھر 30 مہینے کے بعد تموز کے مہینے میں شہرِ پناہ میں رخنہ ہو گیا۔ اب اگر آپ 2 سلاطین 25 باب کو ان تین مہینوں (چوتھا، پانچواں اور دسواں مہینہ) کو دھیان میں رکھ کر پڑھیں گے تو آپ کو کلام میں درج ان روزوں کی اہمیت کا احساس ہو جائے گا۔
ان کے علاوہ نیسان(مارچ/اپریل کا مہینہ) 14 کا روزہ ہے جو کہ ملک مصر میں پہلوٹھوں پر آئی ہوئی وبا کی یاد میں رکھا جاتا ہے۔ پہلوٹھے مرد یہ روزہ رکھتے ہیں۔ اور آستر کی کتاب میں درج روزہ بھی ادار کے مہینے میں رکھا جاتا ہے۔ یہ روزے لازم نہیں ہیں۔ اوپر والے چار درج روزے لازم سمجھے جاتے ہیں۔ بعض ان کو بنی یہوداہ کے روزے پکار کر کہتے ہیں کہ یہ مسیحیوں پر لازم نہیں۔ میں اس سے متفق نہیں۔ اگر آپ یوم کفارہ سے متعلق احکامات کو احبار 23 میں پڑھیں گے تو آپ کو خود ہی اندازہ ہو جائے گا کہ یہ روزہ تمام بنی اسرائیل پر فرض ہے۔
یشوعا نے کہا (متی 9:14 سے 15)؛
اس وقت یوحنا کے شاگردوں نے اسکے پاس آکر کہا کیا سبب ہے کہ ہم اور فریسی تو اکثر روزہ رکھتے ہیں اور تیرے شاگرد روزہ نہیں رکھتے؟ یسوع نے ان سے کہا کیا براتی جب تک دلہا انکے ساتھ ہے ماتم کر سکتے ہیں؟ مگر وہ دن آئینگے کہ دلہاان سے جدا کیا جائیگا۔ اس وقت وہ روزہ رکھینگے۔
یشوعا ابھی جسمانی صورت میں ہمارے ساتھ نہیں مگر اس کی دوسری آمد جلد ہے۔ کیا آپ اسکے شاگردوں میں سے ہیں جنہیں روزہ رکھنا واجب ہے؟
میں اپنے اس آرٹیکل کو یہیں اس دعا کے ساتھ ختم کرتی ہوں کہ خداوند آپ کو خود صحیح روزے کا مفہوم سمجھائیں اور آپ کو پورے دل و جان سے اپنے حکموں پر عمل کرنے کی قوت بخشے۔ یشوعا کے نام میں، آمین