پچھلے حصہ میں ہم نے پڑھا تھا کہ خدا نے بنی اسرائیل کو ابھی شریعت نہیں دی تھی مگر "آسمان کی روٹی” سے انکی آزمایش کرنے کا کہا تھا۔ خروج 16:4 میں یہ ایسے درج ہے؛
تب خداوند نے موسیٰ سے کہا میں آسمان سے تم لوگوں کے لئے روٹیاں برساؤنگا۔ سو یہ لوگ نکل نکل کر فقط ایک ایک دن کا حصہ بٹور لیا کریں کہ اس سے میں انکی آزمایش کرونگا کہ وہ میری شریعت پر چلینگے یا نہیں۔
ایک ایک دن کا حصہ۔۔۔ یشوعا نے ہمیں اپنی تعلیم دیتے ہوئے متی 6:34 میں کہا؛
پس کل کے لئے فکر نہ کرو کیونکہ کل کا دن اپنے لئے آپ فکر کر لے گا۔ آج کے لئے آج ہی کا دکھ کافی ہے۔
کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ یہاں پر خداوند انکو یہی سکھانا چاہ رہے تھے۔ آسمان سے روٹی توخدا نے برسا نی ہی تھی مگر بنی اسرائیلیوں کو بھی اپنے حصے کا کام کرنا تھا۔ انہیں اپنے اپنے خیموں سے نکل نکل کر "فقط” ایک ایک دن کا حصہ اکٹھا کرنا تھا۔ سوائے چھٹے دن کے کیونکہ اس دن انہیں دگنا جمع کرنا تھا تاکہ وہ ساتویں دن کے لئے پہلے سے ہی پکا کر رکھ سکیں۔ ساتواں دن سبت کے آرام کا دن تھا۔بنی اسرائیل کو سبت کو پاک رکھنا سیکھنا تھا۔ انھیں سبت کے دن کی تیاری بھی ایک دن پہلے ہی کرنی تھی۔
موسیٰ اور ہارون نے سب بنی اسرائیل سے کہا کہ شام کو وہ جان لیں گے کہ جو انکو ملکِ مصر سے نکال کر لایا ہے وہ خداوند ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ صبح خداوند کا جلال دیکھیں گے کیونکہ وہ جو بڑبڑاتے ہیں خداوند سنتا ہے۔ انھوں نے بنی اسرائیل کو کہا کہ انکا بڑبڑانا ان پر نہیں بلکہ خداوند پر ہے۔ کیا بنی اسرائیل کو نہیں پتہ تھا کہ خداوند انکو ملکِ مصر سے نکال لائیں ہیں؟بعض صورتوں میں لوگوں پر بڑبڑانا ، ایک طرح سے خدا پر بڑبڑانا ہی ہے۔ اگلی دفعہ جب آپ کسی پر بڑبڑائیں تو ضرور سوچیں کہ کیا آپ ان پر بڑبڑا رہے ہیں یا کہ پھر خداوند پر؟ ابھی موسیٰ اور ہارون جب بنی اسرائیل کو یہ باتیں کہہ ہی رہے تھے تو انھوں نے بیابان پر نظر کی اور انکو خداوند کا جلال بادل میں دکھائی دیا۔ خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ اس نے بنی اسرائیل کا بڑبڑانا سن لیا ہے اور شام کو وہ گوشت کھائیں گے اور صبح کو وہ روٹی سے سیر ہونگے۔ جیسا خداوند نے کہا تھا ویسا ہی ہوا۔
شام کو اتنی بٹیریں آئیں کہ انکا خیمہ گاہ ڈھانک دیا اور صبح اوس کے سوکھنے کے بعد انھیں بیابان میں چھوٹی چھوٹی گول گول پالے کے دانے کی طرح کچھ زمین میں دکھائی دیا۔ جسے دیکھ کر بنی اسرائیل نے آپس میں کہا "من” جسکے معنی ہے "وہ کیا ہے”؟ دھیان دیں کہ؛
گوشت – جسم کو ظاہر کرتا ہے، وہ جو کہ بلآخر فنا ہو جانا ہے
اوس – مدراش کے مطابق اوس مُردے کو زندگی دیتا ہے۔
من- روٹی ، آسمانی روٹی جو ابد تک قائم رہتی ہے۔
موسیٰ کو جوخداوند نے گیت دیا کہ وہ بنی اسرائیل کو سکھائے اس میں ایسے لکھا ہے ، استثنا32:2 سے 3 :
میری تعلیم مینہ کی طرح برسےگی۔ میری تقریر شبنم کی مانند ٹپکے گی جیسے نرم گھاس پر پھوآر پڑتی ہو اور سبزی پر جھڑیاں۔ کیونکہ میں خداوند کے نام کا اشتہار دونگا۔ تم ہمارے خدا کی تعظیم کرو۔
مدراش اس آیت کے لئے یہی بیان کرتی ہے کہ موسیٰ کی تقریر یعنی خدا کے الفاظ جب چھوتے ہیں تو وہ زندگی دیتے ہیں۔ موسیٰ کے الفاظ اپنے الفاظ نہیں تھے بلکہ خدا کے دئے ہوئے الفاظ تھے۔ ہوسیع 14:6 میں خداوند نے اپنے لئے کہا؛
میں اسرائیل کے لئے اوس کی مانند ہونگا۔ وہ سوسن کی طرح پھولیگا اور لبنان کی طرح اپنی جڑیں پھیلائیگا۔
خداوند، اپنے لوگوں کے لئے اوس کی مانند ہیں۔ جب بنی اسرائیل نے عبرانی زبان میں "من” کہا تو ہمیں لکھا ملتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے کہ "وہ کیا ہے؟” اگر اب آپ نئے عہد نامے کو دھیان میں رکھیں تو یشوعا کے زمانے میں لوگ یشوعا کے بارے میں جاننا چاہتے تھے۔ یشوعا نے اپنے شاگردوں سے پوچھا تھا کہ "لوگ مجھے کیا کہتے ہیں؟” (مرقس 8:29، متی 16:15، لوقا 9:20) اسکے جواب میں پطرس نے کہا تھا کہ وہ مسیح ہے۔ مرقس 4:11 میں یشوعا نے اپنے شاگردوں سے کہا؛
اس نے ان سے کہا کہ تم کو خدا کی بادشاہی کا بھید دیا گیا ہے مگر انکے لئے جو باہر ہیں سب باتیں تمثیلوں میں ہوتی ہیں۔
شاید آپ کو علم ہو کہ یشوعا نے یوحنا 6:48 سے 51 میں کہا؛
زندگی کی روٹی میں ہوں۔ تمہارے باپ دادا نے بیابان میں من کھایا اور مر گئے۔ یہ وہ روٹی ہے جو آسمان سے اترتی ہے تاکہ آدمی اس میں سے کھائے اور نہ مرے۔ میں ہوں وہ زندگی کی روٹی جو آسمان سے اتری۔ اگر کوئی اس روٹی سے کھائے تو ابد تک زندہ رہے گا بلکہ جو روٹی میں جہان کی زندگی کے لئے دونگا وہ میرا گوشت ہے۔
مجھے امید ہے کہ کلام سے آپ نے خروج کا 16 باب مکمل پڑھا ہوگا۔ یشوعا وہ روٹی ہے جو آسمان سے اتری۔ روز صبح بنی اسرائیل من کو جمع کرتے تھے اور دھوپ تیز ہوتے ہی باقی پگھل جاتا تھا۔ یشوعا کو حاصل کرنے کا موقع سب کے پاس ہے مگر وہ جو یہ موقع کھو دیں انکے ہاتھ زندگی کی روٹی نہیں آئے گی۔ تبھی یسعیاہ 55:6 میں لکھا ہے؛
جب تک خداوند مل سکتا ہے اسکے طالب ہو۔ جب تک وہ نزدیک ہے اسے پکارو۔
جس کو جتنے کی ضرورت تھی اسکو اتنا ہی ملا نہ کسی سے کم نہ زیادہ۔ ہر ایک کو اپنے اپنے خاندان کے مطابق فی کس ایک اومر جمع کرنا تھا۔ اگر آپ نے عید پینتکوست کے دن گنے ہیں تو شاید آپ کو علم ہو کہ ان دنوں کو بھی "اومر” ہی کہا جاتا ہے۔ کسی کو صبح تک کچھ نہیں باقی چھوڑنا تھا۔ جس نے ایسا کیا اس میں کیڑے پڑ گئے اور سڑ گیا۔ جو کوئی خدا کے کلام کو بس اپنے پاس جمع کرنے کی حد تک ہے وہ کسی کے لئے بھی کام کا نہیں۔ خداوند کے کلام کو صرف سننا ہی کافی نہیں اس پر عمل بھی کرنا پڑتا ہے ورنہ وہ بے کار جاتا ہے۔ چھٹے دن انھیں دونا جمع کرنا تھا۔ زندگی پانے کے لئے زندگی کی روٹی کھانا لازم ہے۔
سبت کے دن جب یہودی/میسیانک یہودی لوگ روٹی بناتے ہیں تو وہ دو روٹیاں بناتے ہیں جسے وہ اوس کی طرح سفید کپڑے سے ڈھانک دیتے ہیں۔ دو روٹیاں جو کہ سبت کے دن کے دونے حصے کی یاد دلاتی ہے۔ جو سبت توڑتے ہیں انھیں کچھ حاصل نہیں ہو پاتا ہے۔ من کا مزا شہد کے بنے ہوئے پوئے کی طرح تھا۔ خدا کا کلام جان کو بحال کرتا ہے کیونکہ زبور 19:7 میں لکھا ہے؛
خدا کی شریعت کامل ہے۔ وہ جان کو بحال کرتی ہے۔ خداوند کی شہادت برحق ہے۔ نادان کو دانش بخشتی ہے۔
خداوند نے موسیٰ کو حکم دیا تھا کہ وہ من کو شہادت کے صندوق میں رکھیں۔ ایک آخری بہت اہم بات اس باب سے بیان کر دوں
خروج 16:31 میں لکھا ہے؛
اور بنی اسرائیل نے اسکا نام من رکھا اور وہ دھنئے کے بیج کی طرح سفید اور اسکا مزہ شہد کے بنے ہوئے پوئے کی طرح تھا۔
امثال 30:4 میں لکھا ہے؛
کون آسمان پر چڑھا اور پھر نیچے اترا؟ کس نے ہوا کو اپنی مٹھی میں جمع کر لیا؟ کس نے پانی کو چادر میں باندھا؟ کس نے زمین کی حدود ٹھہرائیں؟ اگر تو جانتا ہے تو بتا اسکا کیا نام ہے اور اسکے بیٹے کا کیا نام ہے؟
وہی جس کے بارے میں بنی اسرائیل پوچھ رہے تھے "وہ کیا ہے” اسکا نام انھوں نے "من” رکھا۔ اگر آپ نہیں جانتے کہ میں کیا بیان کرنا چاہ رہی ہوں تو پھر آپ خداوند سے مدد مانگیں کہ وہ آپ کو یہ بھید بتا سکیں۔
ہم اگلے ہفتے خروج کا 17 باب پڑھیں گے۔ میری خدا سے دعا ہے کہ وہ آپ کو زندگی کی روٹی کا وہ مزا چکھائے کہ آپ روز اس سے اپنی جان کو بحال کرنا چاہیں، یشوعا کے نام میں۔ آمین