زمرہ جات کے محفوظات: دعائے ربانی کا مطالعہ

image_pdfimage_print

(دعائے ربانی (تیرہواں حصہ

پچھلی دفعہ ہم نے  "برائی” پر ایک نظر ڈالی تھی۔  یتزر ھ را اور یتزر ھ توؤ، دونوں ہمارے اپنے اوپر منحصر ہے کہ ہم کیا کرنا چاہتے ہیں اور کیسے اپنی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔  یہودی/میسیانک یہودی  رواج کے مطابق ایک دعا مانگتے ہیں  یتزر ھ را  پر غالب آنے کے لیے۔ میں اسکا ترجمہ لکھ رہی ہوں؛

یتزر ھ را پر غالب آنے کی دعا؛ (دعائے ربانی (تیرہواں حصہ پڑھنا جاری رکھیں

(دعائے ربانی  (بارہواں حصہ

پچھلی بار ہم نے آزمائش اور امتحان کے بارے میں بات کی تھی۔ کیا آپ نے کبھی خدا سے گلا کیا ہے کہ آخر کوئی برائی کا خاتما کرنے کے لیے کیوں نہیں کچھ کرتا یا کیا آپ نے کبھی کسی کو تنگی میں دیکھ کر یہ سوچا ہے کہ کوئی اس انسان کی مدد کرے۔ میں نے امتحان پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ کیا آپ خدا کو ابرہام اور اسکے دوسرے انبیا کی طرح کہہ سکتے ہیں "میں حاضر ہوں۔” کیوں کہ اس نے آپ کو اسی مقصد کے لیے چنا ہے کہ جو کام آپ سوچتے ہیں کہ دوسرا کرے وہ آپ کے ذمے ہے۔ اگر میں اور آپ یہ قدم نہیں اٹھائیں گے تو پھر کون اٹھائے گا؟ اور اگر ابھی نہیں تو پھر کب؟ آپ اور میں ہر اایک انسان کی مدد نہیں کر سکتے مگر کسی ایک کی مدد ضرور کر سکتے ہیں۔ خدا نے جو کام آپ کو سونپا ہے اسکو پورا کرنے کا فیصلہ آپ کا اپنا ہے۔ (دعائے ربانی  (بارہواں حصہ پڑھنا جاری رکھیں

(دعائے ربانی (گیارہواں حصہ

گو کہ اس حصہ میں، میں "بلکہ برائی سے بچا” پر بات کرنا چاہتی تھی مگر خدا چاہتا ہے کہ میں آپ کو آزمائش اور امتحان میں فرق بھی بیان کروں۔  میں نے زیادہ وضاحت آزمائش کی کی ہے لیکن امتحان کے بارے میں زیادہ اس لیے نہیں بات کر رہی تھی کہ دعائے ربانی میں آزمائش کا ذکر ہے نہ کہ امتحان کا مگر خدا جانتا ہے کہ اس گروپ میں اسکے کونسے لوگ اسکے دیے ہوئے امتحان سے گزر رہیں ہیں اور انہیں تھوڑی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ پچھلے دو آرٹیکل میں  میں ایک آیت بار بار لکھ چکی ہوں ۔ ہم پھر اس آیت پر نظر ڈالتے ہیں۔ جیسے میں نے پہلے بھی کہا لفظ آزمائش کا ایک مطلب امتحان بھی ہے اور  اسکے بارے میں یعقوب  1:2 سے 4 میں ہے؛ (دعائے ربانی (گیارہواں حصہ پڑھنا جاری رکھیں

(دعائے ربانی (دسواں حصہ

پچھلے آرٹیکل میں ہم نے  "آزمائش” کی بات کی تھی۔ اگر آج آپ کو لگتا ہے کہ آپ بھی آزمائش سے گزر رہیں ہیں تو یاد رکھیں کہ پولس نے 1 کرنتھیوں 10:13 میں کہا؛

"تم کسی ایسی آزمائش میں نہیں پڑے جو انسان کی برداشت سے باہر ہو اور خدا سچا ہے۔ وہ تم کو تمہاری طاقت سے زیادہ آزمائش میں نہ پڑنے دےگا بلکہ آزمائش کے ساتھ نکلنے کی راہ بھی پیدا کردیگا تاکہ تم برداشت کر سکو۔”

نواں حصہ میں ہم نے دیکھا کہ جب شیطان نے یشوعا کو آزمایا تو اس نے ہر آزمائش کا جواب کلام سے دیا۔ کلام آپ کا ہتھیار ہے جس کو آپ اپنی آزمایش میں استعمال کر سکتے ہیں۔ عبرانی 2:18 میں لکھا ہے؛

"کیونکہ جس صورت میں اس نے خود ہی آزمائش کی حالت میں دکھ اٹھایا تو وہ انکی بھی مدد کر سکتا ہے جنکی آزمائش ہوتی ہے۔”

آپ کو اپنی آزمائش میں مدد صرف اور صرف کلام سے مل سکتی ہے۔یشوعا نے متی 13 میں بیج بونے والی کی تمثیل دی جب یشوعا کے شاگردوں نے اس سے اس تمثیل کا مطلب پوچھا تو یشوعا نے جواب میں کہا "جب کوئی بادشاہی کا کلام سنتا ہے اور سمجھتا نہیں تو جو اسکے دل میں بویا گیاتھااسے شریرآکر چھین لےجاتاہے۔ یہ وہ ہے جو راہ کے کنارے بویا گیا تھا۔ اور جو پتھریلی زمین  میں بویا گیا یہ وہ ہے جو کلام کو سنتا ہے اور اسے فی الفور خوشی سے قبول کر لیتا ہے۔ لیکن  اپنے اندر جڑنہیں رکھتا بلکہ چند روزہ ہے اور جب کلام کے سبب سے مصیبت یا ظلم برپا ہوتا ہے تو فی الفور ٹھوکر کھاتا ہے۔ اور جو جھاڑیوں میں بویا گیا یہ وہ ہے جو کلام کو سنتا ہے اور دنیا کی فکر اور دولت کو فریب اس کلام کو دبا دیتا ہے اور وہ بے پھل رہ جاتا ہے۔ اور جو اچھی زمین میں بویا گیا یہ وہ ہے جو کلام کو سنتا اور سمجھتا ہے اور پھل بھی لاتا ہے۔ کوئی سو گنا پھلتا ہے کوئی ساٹھ گنا کوئی تیس گنا۔(متی 13:18 سے 23)”

آزمائش کا ایک مطلب امتحان بھی ہے اور  اسکے بارے میں یعقوب  1:2 سے 4 میں ہے؛

ائے میرے بھائیو! جب تم طرح طرح کی آزمائشوں میں پڑو۔ تو اسکو یہ جان کر کمال خوشی کی بات سمجھنا کہ تمہارےایمان  کی آزمائش صبر پیدا کرتی ہے۔ اور صبر کو اپنا کام پورا کرنے دو تاکہ تم کامل ہو جاؤ اور تم میں کسی بات کی کمی نہ رہے۔

آپ کو اپنی پڑھائی کے دنوں میں امتحان دینا یاد ہی ہوگا J بس اسکو بھی ایک طرح سے ویسا ہی سمجھ لیں۔ خدا کے کلام کا استعمال اپنی زندگی میں روزانہ کریں۔  عبرانی میں آزمائش کو "נסה، Nasahنسہ” کہا جاتا ہے۔  جب میں عبرانی زبان میں دعائے ربانی پر نظر ڈال رہی تھی تو آزمائش کے لیے مجھے عبرانی میں ایک اور لفظ بھی نظر آیا جسکو   "מסה، Massahمسہ” کہتے ہیں۔ خروج 17:7 میں جس جگہ اسرائیلیوں نے خدا کی انکے بیچ موجودگی کا امتحان لیا اس جگہ کا نام بھی یہی لفظ "مسہ” ہے۔  قدیم عبرانی میں

נ– نسل/بیج

ס– کانٹا (کانٹا نما تصویر)

ה– ظاہر ہونا

تصویریں دیکھتے ہوئے مجھےایسا لگ رہا تھا  کہ جیسے یہ میری اور آپ کی اپنی (نسل) کی ان خواہشات کو ظاہر کر رہا ہے جو کانٹے کی طرح ہم سے جڑی ہیں۔  ہمیں اپنی جسمانی خواہشات کو قابو میں رکھنے کے لیے روز خدا سے سہارا مانگنے کی ضرورت ہے کہ "ہمیں آزمائش میں نہ لا۔” مسہ میں اسرائیلیوں نے خدا کا امتحان لیا کیونکہ وہ پیاسے تھے وہ یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ کیا واقعی خدا انکے درمیان ہے۔  מ، کا قدیم عبرانی میں مطلب "پانی” ہے۔ مسہ یا پھر لفظ نسہ، خدا مجھے اور آپ کو آزمائش میں نہ لائے۔

خدا نے چاہا تو کل ہم "بلکہ برائی سے بچا ” پر بات کریں گے۔ خدا آپ کو برکت دے۔ آمین۔

(دعائے ربانی  (نواں حصہ

"اور ہمیں آزمائش میں نہ لا بلکہ برائی سے بچا۔”

اس مطالعے میں ہم صرف "اور ہمیں آزمائش میں نہ لا” پر بات کریں گے۔

خدا ہمیں خود نہیں آزماتا کیونکہ یعقوب 1:13 سے 15 میں لکھا ہے؛

"جب کوئی آزمایا جائے تو یہ نہ کہے کہ میری آزمائش خدا کی طرف سے ہوتی ہے کیونکہ نہ تو خدا بدی سے آزمایا جا سکتا ہے اور نہ وہ کسی کو آزماتا ہے۔ ہاں۔ ہر شخص اپنی ہی خواہشوں میں کھنچ کر اور پھنس کر آزمایا جاتا ہے۔ پھر خواہش حاملہ ہو کر گناہ کو جنتی ہے اور گناہ جب بڑھ چکا تو موت پیدا کرتا ہے۔”

یشوعا کو علم تھا کہ ہم پر آزمائشیں آئینگی اسلیے اس نے  اس طرح دعا مانگنے کو کہا تاکہ خدا ہمیں آزمائش سے بچا سکے۔ آزمائش ہماری اپنی جسمانی خواہشات سے پیدا ہوتی ہے اگر ہم اپنی بلاوجہ کی جسمانی خواہشات کو قابو میں نہیں رکھیں گے تو یہ ہمیں گناہ کرنے پر مجبور کر دے گی اور وہی گناہ ہماری موت کا باعث بن سکتا ہے۔ یعقوب  1:2 سے 4 میں یعقوب نے کہا؛

ائے میرے بھائیو! جب تم طرح طرح کی آزمائشوں میں پڑو۔ تو اسکو یہ جان کر کمال خوشی کی بات سمجھنا کہ تمہارےایمان  کی آزمائش صبر پیدا کرتی ہے۔ اور صبر کو اپنا کام پورا کرنے دو تاکہ تم کامل ہو جاؤ اور تم میں کسی بات کی کمی نہ رہے۔

جب ہم اپنی دنیاوہ خواہشات کو قابو پانا سیکھ لیتے ہیں تو ہم روحانیت میں ترقی کر رہے ہوتے ہیں ۔

آپ کو علم ہوگا کہ کلام میں لکھا ہے کہ یشوعا کو ابلیس نے آزمایا وہ بھی تب جب اسکو بھوک لگی۔ اگر میری طرح کبھی آپ کے ذہن میں بھی یہ سوال اٹھا ہے کہ آخر کار جب ہم یشوعا کو خدا کہتے ہیں اور کلام کہتا ہے کہ خدا بدی سے  آزمایا نہیں جا سکتا تو کیونکر یشوعا کو ابلیس نے آزمایا۔ اگر آپ نے میرا آرٹیکل "آخر خدا کو کیا ضرورت پڑی تھی زمین پر آنے کی؟” نہیں پڑھا تو اسکو فیس بک کے اس پیج پر تلاش کرکے ضرور پڑھیں۔ اب ہم بات کرتے ہیں کہ آخر یشوعا کیوں آزمایا گیا تھا۔ میں ابھی اس آرٹیکل میں ان چالیس دنوں کی بات نہیں کروں گی بلکہ صرف ابلیس کا یشوعا کو آزمانا بیان کروں گی۔  اگر آپ رومیوں کا 5 باب اور اکرنتھیوں 15  پڑھیں تو آپ جانیں گے کہ پولس (اسکا اصلی نام عبرانی میں شاؤل ہے۔) نے یشوعا کو دوسرا یا  پچھلا آدم کہا ہے۔ پولس نے ذکر کیا کہ آدم کے گناہ کے سبب سے موت آئی اور پچھلا آدم زندگی بخشنے والی روح بنا۔

 یوحنا  2:16 آیت میں  تین قسم کی دنیاوی  خواہشات کا بیان ہے؛

کیونکہ جو کچھ دنیا میں ہے یعنی جسم کی خوہش اور آنکھوں کی خواہش اور زندگی کی شیخی وہ باپ کی طرف سے نہیں بلکہ دنیا کی طرف سے۔

یوحنا اس آیت میں واضح کر رہا ہے کہ جسمانی خواہش،  زندگی کی شیخی اور آنکھوں کی خواہش وہ ہمارے آسمانی باپ کی طرف سے نہیں ہے بلکہ دنیا کی طرف سے ہے۔ جیسے شیطان نے عورت کو ورغلایا  تھا  کچھ اسی قسم کی آزمائشات وہ  یشوعا پر بھی  لایا۔ ہم ان تین آزمائشوں کو ایک ایک کر کے دیکھتے ہیں مگر اس سے پہلے میں پیدائش 3:6بھی دکھاتی چلوں تاکہ آپ موازنہ کر سکیں؛

عورت نے جو دیکھا کہ وہ درخت کھانے کے لئے اچھا اور آنکھوں کو خوشنما معلوم ہوتا ہے اور عقل بخشنے کے لیے خوب ہے تو اسکے پھل میں سے لیا اور کھایا اور اپنے شوہر کو بھی دیا اور اس نے کھایا۔

1-      جسم کی خواہش؛

(متی 4:3) اور آزمانے والے نے پاس آکر اس سے کہا اگر تو خدا کا بیٹا ہے تو فرما کہ یہ پتھر روٹیاں بن جائیں۔

جب سانپ نے عورت کو بہکایا تھا تو اس نے اس سےشکی انداز میں پوچھا "۔۔۔کیا واقعی خدا نے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل تم نہ کھانا؟ (پیدائش 3:1) اوپر دی آیت میں بھی شیطان جانتے بوجھتے یشوعا کو کہہ رہا ہے "اگر تو خدا کا بیٹا ہے۔” یشوعا بیابان میں تھا جہاں کھانے کو کچھ نہیں تھا  شیطان اسلئے یشوعا کو جانتے بوجھتے اپنی قوت کا استعمال کرکے پتھر کو روٹیاں بنانے کو کہہ رہا تھا کیونکہ وہ بھوکا تھا۔ حوا کو بھی جب اس نے بہکایا تو "عورت نے دیکھا کہ درخت کھانے کے لیے اچھا ہے۔” پہلے آدم نے اپنی جسمانی خواہش کو قابو میں نہ کیا اس نے اپنے آپ کو خدا کا حکم یاد نہ دلایا مگر یشوعا نے فوراً کلام کا حوالہ دیا اور کہا "لکھا ہے کہ آدمی صرف روٹی سے نہ جیتا رہے گا بلکہ ہر بات سے جو خدا کے منہ نکلتی ہے۔(متی 4:4) پرانے عہد نامے میں یہ حوالہ استثنا 8:3 سے ہے۔

2-      زندگی کی شیخی؛

پیدائش کے 3 باب میں جب شیطان نے عورت کو بہکایا تو اس نے کہا "تم ہرگز نہ مرو گے۔بلکہ خدا جانتا ہےکہ جس دن تم اسے کھاوگے تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم خدا کی مانند نیک و بد کے جاننے والے بن جاؤگے۔

شیطان نے جب یشوعا کو ہیکل کے کنگرے پر کھڑا کر کے آزمایا تو اس نے کہا "اگر تو خدا کا بیٹا ہے تو اپنے تئیں نیچے گرا دے کیونکہ لکھا ہے کہ وہ تیری بابت اپنے فرشتوں کو حکم دے گا اور وہ تجھے اپنے ہاتھوں پر اٹھا لینگے ایسا نہ ہو کہ تیرے پاؤں کو پتھر سے ٹھیس لگے۔(متی4:6)

 شیطان کو خدا کی باتوں کا علم مجھ سے اور آپ سے زیادہ ہے۔  اس نے جب عورت کو خدا کی مانند بننے کا ذکر کیا  تو وہ تھوڑا بہت سچ ہی کہہ رہا تھا  (پیدائش 3:22)اور ا سلئےحوا نے جب دیکھا کہ عقل بخشنے کے لیے خوب ہے تو اس نے پھل میں سے لیا۔ جب شیطان نے جانا کہ یشوعا اسکا مقابلہ کلام کی باتوں سے کر رہا ہے تو اس نے کلام(زبور 91) کا استعمال کرکے اسکو پھر سے آزمانا چاہا مگرساتھ ہی پھر سے یشوعا نے اسکو کلام کا ایک اور حوالہ دیا (استثنا 6:16) جس میں کہا  گیا ہے "تو خداوند اپنے خدا کی آزمائش نہ کر۔”  پہلا آدم خدا کے حکموں کو بھلا کر خدا کی مانند بننے کی سوچ رہا تھا مگر یشوعا جانتا تھا کہ خدا نے تو انسان کو اپنی صورت پر ہی بنایا تھا۔

3-      آنکھوں کی خواہش؛

شیطان نے آخر میں یشوعا کو ایک بہت اونچے پہاڑ پر لے جا کر دنیا کی سب سلطنتیں اور انکی شان و شوکت دکھا کر کہا اگر تو مجھے جھک کر سجدہ کرے تو یہ سب کچھ تجھے دے دونگا۔ (متی 4:8 سے 9)مگر یشوعا نے کہا ائے شیطان دور ہو کیونکہ لکھا ہے (استثنا 6:13)کہ تو  خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اسی کی عبادت کر۔

حوا نے دیکھ کر کہ پھل خوشنما ہے ؛ گناہ کرنے کا سوچ لیا مگر یشوعا نے جان کر کہ شیطان کیا چاہتا ہے اسکو اپنے سے دور ہونے کا حکم دیا۔  شیطان کا ارادہ شروع سے ہی خدا کے تخت کو چھیننے کا تھا اور یہ جان کر کہ اب یشوعا  زمین پر اپنا اختیار لینے واپس آیا ہے جو خدا نے آدم کو دی تھی؛  اسکو  تمام شان وشوکت  دکھا کر ویسا ہی کرنا چاہا جو اس نے آدم کے ساتھ کیا تھا۔ مگر شکر یہواہ کا کہ یشوعا  شیطان کی چال میں نہیں آیا۔

شیطان جب ہمیں  خدا میں بڑھتا دیکھتا ہے تو ہمیں  گناہ کرنے پر اکساتا ہے۔ وہ ہماری جسمانی خواہشات کو مدنظر رکھ کر ہمیں آزماتا ہے تاکہ ہم گناہ کریں اور خدا سے دور ہو جائیں۔ ہم شیطان پر ویسے ہی قابو پا سکتے ہیں جیسے یشوعا نے کیا مطلب ہر آزمائش کا مقابلہ کلام سے کریں جو ہمیں صحیح راستے پر رکھتا ہے۔ کلام کا مطالعہ کریں تاکہ آپ آزمائش میں نہ پڑیں۔

 ہم دعائے ربانی کا باقی مطالعہ اگلے آرٹیکل میں کریں گے۔ خدا مجھے اور آپ کو ہر قسم کی دنیاوی آزمائشوں سے بچا کر رکھے۔ آمین

(دعائے ربانی (آٹھواں حصہ

میں نے دعائے ربانی کے ساتویں حصہ میں یوم کفارہ کا ذکر کیا تھا۔ میں نے ذکر کیا تھا کہ اس دن خاص اپنے گناہوں کا اقرار کیا جاتا ہے اور توبہ کر کی جاتی ہے۔ اگر آپ کہنے کو تو مسیحی ہیں مگر معافی دینا یا معافی مانگنا آپ کے لیے مشکل ہے تو آپ کس قسم کے مسیحی ہیں؟ کیونکہ جیسے کہ میں نے پہلے بیان کیا تھا ہمیں خدا سے معافی اسی صورت میں مل سکتی ہے جب ہم دوسروں کو معاف کریں۔ بہت سے لوگوں کے خیال میں بھول جانا کہ کسی نے آپ کے ساتھ کیا کیا تھا، بھی معافی ہی ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے۔ اگر آپ نے دل سے معاف نہیں کیا ہے تو بھولنا بھی مشکل ہو جاتا ہے خاص طور پر جب انسان کا آمنہ سامنہ اس سے ہو جس نے آپ کو تکلیف پہنچائی ہو یا آپ نے انھیں۔ خدا ہمارے گناہ معاف کرتا ہے اور انھیں یاد نہیں رکھتا  (یسعیاہ 43:25 اور عبرانیوں 8:12). (دعائے ربانی (آٹھواں حصہ پڑھنا جاری رکھیں

(دعائے ربانی (ساتواں حصہ

"جس طرح ہم نے اپنے قرضداروں کو معاف کیا تو بھی ہمارے قرض ہمیں معاف کر۔”

میرے لیے،   کلام کے اس جملے پر عمل کرنا سب سے دشوار رہا ہے۔ ایک وقت تھا جب اسکو بولنا مجھے اچھا نہیں لگتا تھا مگر ساتھ میں اس بات کا بھی احساس تھا کہ اگر میں نے اس پر پوری طرح عمل نہیں کیا تو میرے لیے سب کچھ بے فائدہ ہے۔ کیونکہ یعقوب 1:22 سے 24 میں یہی تو لکھا ہے؛

لیکن کلام پر عمل کرنے والے بنو نہ محض سننے والے جو اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہیں۔ کیونکہ جو کوئی کلام کا سننے والا ہو اور اس پر عمل کرنے والا نہ ہو وہ اس شخص کی مانند ہے جو اپنی قدرتی صورت آئینہ میں دیکھتا ہے۔ اسلئے کہ وہ اپنے آپ کو دیکھ کر چلا جاتا اور فوراً بھول جاتا ہے کہ میں کیسا تھا۔

قدیم زمانہ میں شیشہ دھات کا بنا ہوتا تھا عام طور پر پیتل کا۔ کلام کے مطابق پیتل فیصلے/عدالت/سزا کی علامت ہے۔  جیسے کہ جب خدا نے موسیٰ کو سانپ سے ڈسے لوگوں کو بچانے کے لیے پیتل کا سانپ بنانے کو کہا تھا اور قربانی کا مذبح بھی پیتل کے خول سے منڈھا گیا تھا)۔ لہذا اوپر کی آیت کے مطابق یعقوب پیتل کے بنے شیشے کے بارے میں بیان کر رہا تھا۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ اگر آپکا نام خدا سے جڑا ہے (مسیحی، مسیح سے) تو جب میں اور آپ کوئی غلط کام کرتے ہیں تو خدا کا نام بدنام کرتے ہیں۔ کلام کو خالی سننے کا کوئی فائدہ نہیں اگر آپ اس پر عمل نہیں کر رہے۔ مجھے علم تھا کہ میں خدا کو دھوکا نہیں دے سکتی۔ جتنا دشوار کام لوگوں کو معاف کرنا ہے وہ صرف وہی انسان جان سکتا ہے جس پر بہت بری بیتی ہو۔ مگر یشوعا نے خود ہمارے لیے مثال چھوڑی جب اس نے اپنے سولی چڑھانے والوں کو معاف کردیا۔ شاید آپ کے لیے بھی لوگوں کو معاف کرنا مشکل ہو مگر اگر آپ یشوعا کے پیروکاروں میں سے ہیں تو جیسے اس نے کیا ویسا ہی آپ کو بھی کرنا ہے۔

جب پطرس یشوعا کے پاس آیا یہ پوچھنے کے لیے کہ وہ اپنے بھائی کو کتنی بار معاف کرے تو یشوعا نے اس سے کہا سات دفعہ کے ستر بار۔ آپ متی 18:21 سے 35 آیات خود کلام میں پڑھیں۔ میرے بڑے بیٹے نے ایک دن مجھ سے مذاق میں کہا "مام سات دفعہ کے ستر بار معاف کرنے کے بعد مجھے کسی کو معاف کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یشوعا کا یہی حکم تھا۔” میں نے اس سے کہا پہلی بات یہ کہ میرا نہیں خیال کہ آپ نے کسی کو 490 بار معاف کر دیا ہے اور دوسری بات یہ کہ اتنی بار معاف کر کر کے تو انسان کی ویسی ہی معاف کرنے کی عادت پڑ جائے گی۔

متی کی اس تمثیل کے مطابق ایک مالک نے اپنے اس قرضدار نوکر کو جس نے 10 ہزار توڑے ادا کرنے تھے معاف کر دیا کیونکہ اس نے منت کی کہ اسے معاف کر دیا جائے مگر جیسے ہی وہ قرضدار باہر نکلا تو اسکو اپنا ایک وہ قرضدار نظر آیا جس نے اسکا 100 دینار لیا تھا مگر واپس نہیں کیا تھا۔ اس آدمی نے اپنے اس قرضدار کو بغیر کوئی مہلت دیے پکڑ کر قید میں ڈال دیا۔ جن لوگوں نے یہ دیکھا وہ بہت غمگین ہوئے اور انھوں نے مالک کو بتا دیا۔ اس مالک نے اپنے اس نوکر کو بلایا اور کہا ائے شریر نوکر! میں نے وہ سارا قرض تجھے اس لیے بخش دیا کہ تو نے میری منت کی تھی۔ کیا تجھے لازم نہ تھا کہ جیسے میں نے تجھ پر رحم کیا تو بھی اپنے ہمخدمت پر رحم کرتا۔ لہذا مالک نے اس قید میں ڈال دیا جب تک کہ وہ سارا قرض نہ دے ڈالے۔ ساتھ ہی میں یشوعا نے یہ کہا کہ میرا آسمانی باپ بھی تمہارے ساتھ اسی طرح کرے گا اگر تم اپنے بھائی کو دل سے معاف نہ کرو۔

ہمارا مالک، خدا؛ اگر ہمارے اُس سے معافی مانگنے پر ہمیں معاف کرتا ہے تو ہمارا بھی فرض ہے کہ سب کو معاف کریں جس نے بھی ہمارے خلاف گناہ کیا ہے کیونکہ ہم تبھی آسمان کی بادشاہی میں داخل ہو سکتے ہیں۔

 افسیوں4:32

اور ایک دوسرے پر مہربان اور نرم دل ہو اور جس طرح خدا نے مسیح میں تمہارے قصور معاف کئے ہیں تم بھی ایک دوسرے کے قصور معاف کرو۔

یہ ایک چھوٹا سا حوالہ تھا معاف کرنے پر تاکہ ہم معافی پاسکیں۔ احبار 23 میں خداوند کی عیدوں کا ذکر ہے اور ان میں سے ایک عید کو یوم کیپور یا یوم کفارہ کہا جاتا ہے۔ عبرانی لفظ "کفار، כּפרKaphar,” کا مطلب ہے "ڈھانکنا، درگزر کرنا، معاف کرنا، کفارہ دینا یا تلافی دینا”۔ اس کے بارے میں تفصیل سے میں پھر کبھی لکھوں گی مگر ابھی تھوڑا سا اسکے بارے میں بیان کر دوں۔ ہر سال عبرانی کیلنڈر کے مطابق خدا نے ساتویں مہینے کی دسویں تاریخ کو کفارہ کا دن منانے کو کہا۔ یہودیوں/میسیانک یہودیوں کی نظر میں یہ ایک بہت ہی پاک دن ہے۔ اس دن لوگ کوئی کام نہیں کرتے بلکہ روزہ رکھتے ہیں اور اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہیں اور توبہ کرتے ہیں۔ ساتھ میں وہ ویسے ہی جیسے یشوعا نے متی 5:23 سے 24 میں کہا،وہ اپنے بھائی/جاننے والوں کی شکایت دور کرتے ہیں اور دوسروں کو معاف کرتے ہیں۔ وہ اپنا یہ دن خاص عبادت میں گزارتے ہیں اور یہواہ کا شکر کرتے ہیں۔ آپ احبار 23 میں اس کے بارے میں دیکھ سکتے ہیں۔

گو کہ عبرانی دعائے ربانی میں "کفار” کا لفظ استعمال نہیں ہوا ہے مگر چونکہ مجھے اس دن کی اہمیت کا علم ہے اس لیے میں آپ کو بتانا چاہتی تھی۔ انسان خدا سے معافی کسی بھی وقت مانگ سکتا ہے مگر بعد میں قربانی چڑھانے کو حکم دیا گیا تھا۔ یشوعا ہمارے لیے قربانی کا وہ برہ تھا جو ہمارے گناہ اٹھا لے جاتا ہے۔ اسلیے ہم اسکے نام میں دعا کو ختم کرتے ہیں تاکہ اس بات کا یقین ہو کہ ہمارے قربانی کے برہ  (یشوعا)کی وجہ سے ہماری سنی گئی ہے۔ اگر ہم توبہ کریں تو خدا مجھے اور آپ کو اپنے بیٹے کے نام میں معاف کرتا ہے ۔

ہم دعائے ربانی پر اپنا باقی مطالعہ جاری رکھیں گے۔ خدا آپ سب کو بہت برکت دے اور آپ کے کلام کے علم میں اور اضافہ کرے۔ آمین

(دعائے ربانی (چھٹہ حصہ

 پچھلی دفعہ ہم نے”روٹی” کی بات کی جس کو عبرانی میں "لخم” کہتے ہیں۔ گو کہ اردو میں بیت لحم نام ہے مگر عبرانی میں بیت لحم کو بیت لخم ہی کہتے ہیں۔ اسرائیل میں کوئی ایک بیت لخم نہیں تھا بہت سے تھے کیونکہ یہ وہ جگہ تھی جہاں ذخیرہ جمع کیا جاتا تھا۔ مگر جب یشوعا کی پیدائش کی پیشن گوئی کی گئی تو یہ کہا گیا "بیت لحم یہوداہ”۔

 یوحنا 6:31 سے 58 آیات میں یشوعا نے ساتھ میں "من” کی بھی بات کی جسکا ذکر ہمیں خروج 16 میں ملے گا۔ اگر آپ کو علم ہو کہ من وہ روٹی تھی جو پرانے عہد نامے میں خدا نے بنی اسرائیل کو بیابان میں کھانے کو مہیا کی تھی۔ اور یشوعا نے اپنے بارے میں یوحنا 6 باب یہی کہا کہ وہ آسمان سے اتری ہوئی روٹی ہے جو انسان کو ابدی زندگی بخشتی ہے۔ انگلش میں من کو "مانا” کہا جاتا ہے جو کہ یونانی زبان کا لفظ ہے مگر اسکا عبرانی تلفظ "من ہو” بنتا ہےجسکا مطلب ہے "یہ کیا ہے” کیونکہ جب بنی اسرائیل نے اسکو بیابان میں زمین پر دیکھا تو یہی پوچھا "من” یہ کیا ہے؟

قدیم عبرانی میں "מן ” عبرانی حروف مم اور نون سے لکھا جاتا ہے اور قدیم عبرانی تصویری لکھائی میں ایسے ہے۔ (اگر آپ کو اس سے بہتر لفظ کا علم ہے تو ضرور مجھے بتائیں تاکہ میں وہی استعمال کروں کیونکہ جیسے میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا کہ قدیم عبرانی تصویر نما تھی، لیکن اردو میں کیا خاص لفظ اسکے لیے ہے یہ مجھے علم نہیں اسلیے میں تصویری لکھائی استعمال کر رہی ہوں)۔

מ – کا مطلب بنتا ہے "پانی”

ן – کا مطلب بنتا ہے "بیج” (یا اردو زبان میں نسل جیسے کہ پیدائش 3:15 میں یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے۔

خروج 16 میں من کا ایسا ہی ذکر کیا گیا ہے کہ وہ زمین پر چھوٹی چھوٹی گول پالے کے دانے کی مانند تھی جو کہ اوس کی بیچ میں تھا۔جب اوس سوکھی تو انکو من نظر آیا۔ جو بنی اسرائیل نے دیکھا اسکو من وعن ویسے ہی قدیم عبرانی زبان میں بیان کیا۔ اگر آپ نے میرا عید فسح کا آرٹیکل جو میں نے افیکومن پر لکھا تھا پڑھا ہے تو آپ کو یاد ہو گا کہ میں نے بے خمیری روٹی کا ذکر کیا تھا اور بیان کیا تھا کہ کیسے عید فسح کی رسم میں "متزا” کا کھانا یشوعا کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اب میں آپ کو "متزا” کا قدیم عبرانی میں مطلب بیان کرتی ہوں؛

متزا – מַצָּה

מַ– قوی/طا قتور (یہ مم کا ایک اور معنی ہے)

צָּ – تلاش کرنا یا خواہش کرنا

ה – ظاہر کرنا/دیکھنا

اور اگر میں متزا کا مطلب جملے میں لکھو تو یہ بنے "قوی/طاقتور (جسکی تمہیں) تلاش/خواہش ہے، ظاہر ہوا/دیکھایا گیا۔

من بھی روٹی کے لیے تھا اور متزا بھی۔ من چونکہ آسمان سے اتری تھی مگر متزا  زمین کی روٹی تھی اسلیے من کو عہد کے صندوق میں رکھا گیا تھا۔ مگر من کو خدا نے متزا میں ظاہر کیا مطلب کہ آسمانی روٹی، زمینی روٹی کے طور پر۔ یہواہ – آسمانی باپ، یشوعا- جسمانی وجود میں۔

 کل میں گنتی 11 باب پڑھ رہی تھی۔ خدا نے من بیابان میں اپنے لوگوں کو کھلایا مگر انھوں نے بڑبڑانا شروع کر دیا کہ ہم نے گوشت کھانا، ہمیں مصر کی مچھلی یاد آتی ہے، کھیرے، خربوزے، پیاز اور لہسن۔ وہ بھول گئے تھے کہ مصر میں وہ غلامی میں تھے۔ انکو غلامی کی تکلیفیں بھول گئی تھیں اور جو روٹی خدا انھیں مفت میں کھلا رہا تھا وہ شکر کا باعث نہیں لگتی تھی۔ خدا نے انکو انکے کہنے پر گوشت بھی فراہم کیا مگر ان سے ناراض تھا کیونکہ انھوں نے خداوند خدا کو جو انکے درمیان تھا ترک کیا۔ من کو جو خدا انکو دے رہا تھا۔

 کچھ سال پہلے میرے دل میں پاکستان کی یاد آئی ۔ مجھے یاد ہے کہ میرا دل کیا کہ مونگرے کی سبزی جو امریکہ میں نہیں ملتی وہ کھاوں۔ ان دنوں بھی میں یہی والے حوالے پڑھ رہی تھی ایک دم مجھے خیال آیا کہ کیا میں بنی اسرائیل کی طرح بڑبڑاوں تو خدا کی سزا کے لائق نہ ٹھہروں گی اور کیا میں واقعی خدا کو ترک کرنا چاہتی ہوں؟  زبور 34:8 میں لکھا ہے کہ آزما کر دیکھو کہ خداوند کیسا مہربان ہے۔ اسی آیت کا انگلش میں ترجمہ ایسے ہے "چکھو اور دیکھو کہ خدا بھلا ہے۔” میں نے آزما کر دیکھا تھا کہ خدا اچھا ہے۔ میں نے اسی وقت توبہ کی۔ پچھلے سال جب میں نے سبزیاں اگائیں تو پہلی دفعہ مولی لگانے کا سوچا۔ جب مولی کے پھول نکلے اور انکی پھلی نکلی تو مجھے خیال آیا کہ مونگرے تو مولی کے پودے پر نکلتے ہیں میں تو بالکل بھول گئی تھی۔ میں نے شاید 16 سال کے بعد مونگرے دوبارہ کھائے تھے۔ میں آپ کو یہ باتیں اسلیے بتاتی ہوں کہ اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ خدا نے مجھے برکت دی ہے تو ٹھیک سوچتے ہیں اور یہی برکتیں وہ آپ کو بھی دینا چاہتا ہے۔ میں تو مونگرے کھانے کا بھول گئی تھی مگر خدا نہیں بھولا تھا J۔ اس نے اپنا آپ مجھے ہر حال میں صاف ظاہر کیا ہے اور اگر کبھی اسرائیلیوں کی طرح آپ نے بھی اس سے پوچھا ہے "یہ کیا ہے؟” تو وہ آپ پر بھی اپنا آپ ظاہر کرے گا۔ اسکو ترک مت کریں۔

اب بات کرتے ہیں "جس طرح ہم نے اپنے قرضداروں کو معاف کیا تو بھی ہمارے قرض ہمیں معاف کر۔”

یہ وہ جملہ ہے جسکو میں دعائے ربانی بولتے ہوئے نہیں بولنا پسند کرتی تھی J کیونکہ لوقا کی انجیل کے مطابق یہ لکھا ہے "اور ہمارے گناہ معاف کر کیونکہ ہم بھی اپنے ہر قرضدار کو معاف کرتے ہیں۔” میں جب چھوٹی تھی تو میرا دل نہیں کرتا تھا ہر کسی کو معاف کرنے کے لیے اسلیے میرا یہ کہنا کہ میں بھی ہر کسی کو معاف کرتی ہوں خدا کے سامنے ایک جھوٹ؛ کچھ مناسب نہیں لگتا تھا۔ مجھے اس جملے میں یہ شرط نظر آتی تھی "جس طرح”۔ اگر میں دوسروں کے گناہ معاف نہیں کرتی تو میرے بھی گناہ معاف نہیں ہو پائیں گے۔

اسکا تفصیل میں مطالعہ ہم اگلی بار کریں گے۔ جب آپ اس جملے کو بولیں تو ایک بار ضرور سوچیں کہ آپ نے کتنوں کو پورے دل سے معاف کیا ہے۔

(دعائے ربانی؛ (دوسرا حصہ

پچھلی بار ہم نے دعائے ربانی کے پہلے جملے "ائے ہمارے باپ تو جو آسمان پر ہے”، پر نظر ثانی کی تھی اور آج ہم "تیرا نام پاک مانا جائے” کے بارے میں مطالعہ کریں گے۔ اگر آپ نے وہ آرٹیکل نہیں پڑھا تو اس کو وقت نکال کر ضرور پڑھیں۔

"ائے ہمارے باپ تو جو آسمان پر ہے تیرا نام پاک مانا جائے”؛ میں نے جو دعائے ربانی کا سانچہ پیش کیا تھا یہ اسکے پہلے حصے "حمد و تعریف” کے بیچ میں آتا ہے۔ سانچہ پیش کرنے کا مقصد یہ تھا کہ جب آپ اپنی ذاتی دعا مانگیں تو اس سانچہ کو دھیان میں رکھ کر اپنی دعا مانگیں۔ (دعائے ربانی؛ (دوسرا حصہ پڑھنا جاری رکھیں

(دعائے ربانی؛ (پہلا حصہ

دعائے ربانی ایک عام مسیحی کو اچھی طرح سے آتی ہے۔ میرا نہیں خیال کے میں آج تک کسی ایسے مسیحی سے ملی جس کو دعائے ربانی نہ آتی ہو۔ بچپن سے ہی یہ دعا ہمیں سکھا دی جاتی ہے۔ متی کی انجیل 6 باب میں یشوعا نے ایسے کہا "پس تم اس طرح دعا کیا کرو۔۔۔۔” اور لوقا 11:1 میں ایسا لکھا ہے؛

پھر ایسا ہوا کہ وہ کسی جگہ دعا کر رہا تھا۔ جب کر چکا تو اسکے شاگردوں میں سے ایک نے اس سے کہا ائے خداوند! جیسا یوحنا نے اپنے شاگردوں کو دعا کرنا سکھایا تو بھی ہمیں سکھا۔ (دعائے ربانی؛ (پہلا حصہ پڑھنا جاری رکھیں