"جس طرح ہم نے اپنے قرضداروں کو معاف کیا تو بھی ہمارے قرض ہمیں معاف کر۔”
میرے لیے، کلام کے اس جملے پر عمل کرنا سب سے دشوار رہا ہے۔ ایک وقت تھا جب اسکو بولنا مجھے اچھا نہیں لگتا تھا مگر ساتھ میں اس بات کا بھی احساس تھا کہ اگر میں نے اس پر پوری طرح عمل نہیں کیا تو میرے لیے سب کچھ بے فائدہ ہے۔ کیونکہ یعقوب 1:22 سے 24 میں یہی تو لکھا ہے؛
لیکن کلام پر عمل کرنے والے بنو نہ محض سننے والے جو اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہیں۔ کیونکہ جو کوئی کلام کا سننے والا ہو اور اس پر عمل کرنے والا نہ ہو وہ اس شخص کی مانند ہے جو اپنی قدرتی صورت آئینہ میں دیکھتا ہے۔ اسلئے کہ وہ اپنے آپ کو دیکھ کر چلا جاتا اور فوراً بھول جاتا ہے کہ میں کیسا تھا۔
قدیم زمانہ میں شیشہ دھات کا بنا ہوتا تھا عام طور پر پیتل کا۔ کلام کے مطابق پیتل فیصلے/عدالت/سزا کی علامت ہے۔ جیسے کہ جب خدا نے موسیٰ کو سانپ سے ڈسے لوگوں کو بچانے کے لیے پیتل کا سانپ بنانے کو کہا تھا اور قربانی کا مذبح بھی پیتل کے خول سے منڈھا گیا تھا)۔ لہذا اوپر کی آیت کے مطابق یعقوب پیتل کے بنے شیشے کے بارے میں بیان کر رہا تھا۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ اگر آپکا نام خدا سے جڑا ہے (مسیحی، مسیح سے) تو جب میں اور آپ کوئی غلط کام کرتے ہیں تو خدا کا نام بدنام کرتے ہیں۔ کلام کو خالی سننے کا کوئی فائدہ نہیں اگر آپ اس پر عمل نہیں کر رہے۔ مجھے علم تھا کہ میں خدا کو دھوکا نہیں دے سکتی۔ جتنا دشوار کام لوگوں کو معاف کرنا ہے وہ صرف وہی انسان جان سکتا ہے جس پر بہت بری بیتی ہو۔ مگر یشوعا نے خود ہمارے لیے مثال چھوڑی جب اس نے اپنے سولی چڑھانے والوں کو معاف کردیا۔ شاید آپ کے لیے بھی لوگوں کو معاف کرنا مشکل ہو مگر اگر آپ یشوعا کے پیروکاروں میں سے ہیں تو جیسے اس نے کیا ویسا ہی آپ کو بھی کرنا ہے۔
جب پطرس یشوعا کے پاس آیا یہ پوچھنے کے لیے کہ وہ اپنے بھائی کو کتنی بار معاف کرے تو یشوعا نے اس سے کہا سات دفعہ کے ستر بار۔ آپ متی 18:21 سے 35 آیات خود کلام میں پڑھیں۔ میرے بڑے بیٹے نے ایک دن مجھ سے مذاق میں کہا "مام سات دفعہ کے ستر بار معاف کرنے کے بعد مجھے کسی کو معاف کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یشوعا کا یہی حکم تھا۔” میں نے اس سے کہا پہلی بات یہ کہ میرا نہیں خیال کہ آپ نے کسی کو 490 بار معاف کر دیا ہے اور دوسری بات یہ کہ اتنی بار معاف کر کر کے تو انسان کی ویسی ہی معاف کرنے کی عادت پڑ جائے گی۔
متی کی اس تمثیل کے مطابق ایک مالک نے اپنے اس قرضدار نوکر کو جس نے 10 ہزار توڑے ادا کرنے تھے معاف کر دیا کیونکہ اس نے منت کی کہ اسے معاف کر دیا جائے مگر جیسے ہی وہ قرضدار باہر نکلا تو اسکو اپنا ایک وہ قرضدار نظر آیا جس نے اسکا 100 دینار لیا تھا مگر واپس نہیں کیا تھا۔ اس آدمی نے اپنے اس قرضدار کو بغیر کوئی مہلت دیے پکڑ کر قید میں ڈال دیا۔ جن لوگوں نے یہ دیکھا وہ بہت غمگین ہوئے اور انھوں نے مالک کو بتا دیا۔ اس مالک نے اپنے اس نوکر کو بلایا اور کہا ائے شریر نوکر! میں نے وہ سارا قرض تجھے اس لیے بخش دیا کہ تو نے میری منت کی تھی۔ کیا تجھے لازم نہ تھا کہ جیسے میں نے تجھ پر رحم کیا تو بھی اپنے ہمخدمت پر رحم کرتا۔ لہذا مالک نے اس قید میں ڈال دیا جب تک کہ وہ سارا قرض نہ دے ڈالے۔ ساتھ ہی میں یشوعا نے یہ کہا کہ میرا آسمانی باپ بھی تمہارے ساتھ اسی طرح کرے گا اگر تم اپنے بھائی کو دل سے معاف نہ کرو۔
ہمارا مالک، خدا؛ اگر ہمارے اُس سے معافی مانگنے پر ہمیں معاف کرتا ہے تو ہمارا بھی فرض ہے کہ سب کو معاف کریں جس نے بھی ہمارے خلاف گناہ کیا ہے کیونکہ ہم تبھی آسمان کی بادشاہی میں داخل ہو سکتے ہیں۔
افسیوں4:32
اور ایک دوسرے پر مہربان اور نرم دل ہو اور جس طرح خدا نے مسیح میں تمہارے قصور معاف کئے ہیں تم بھی ایک دوسرے کے قصور معاف کرو۔
یہ ایک چھوٹا سا حوالہ تھا معاف کرنے پر تاکہ ہم معافی پاسکیں۔ احبار 23 میں خداوند کی عیدوں کا ذکر ہے اور ان میں سے ایک عید کو یوم کیپور یا یوم کفارہ کہا جاتا ہے۔ عبرانی لفظ "کفار، כּפרKaphar,” کا مطلب ہے "ڈھانکنا، درگزر کرنا، معاف کرنا، کفارہ دینا یا تلافی دینا”۔ اس کے بارے میں تفصیل سے میں پھر کبھی لکھوں گی مگر ابھی تھوڑا سا اسکے بارے میں بیان کر دوں۔ ہر سال عبرانی کیلنڈر کے مطابق خدا نے ساتویں مہینے کی دسویں تاریخ کو کفارہ کا دن منانے کو کہا۔ یہودیوں/میسیانک یہودیوں کی نظر میں یہ ایک بہت ہی پاک دن ہے۔ اس دن لوگ کوئی کام نہیں کرتے بلکہ روزہ رکھتے ہیں اور اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہیں اور توبہ کرتے ہیں۔ ساتھ میں وہ ویسے ہی جیسے یشوعا نے متی 5:23 سے 24 میں کہا،وہ اپنے بھائی/جاننے والوں کی شکایت دور کرتے ہیں اور دوسروں کو معاف کرتے ہیں۔ وہ اپنا یہ دن خاص عبادت میں گزارتے ہیں اور یہواہ کا شکر کرتے ہیں۔ آپ احبار 23 میں اس کے بارے میں دیکھ سکتے ہیں۔
گو کہ عبرانی دعائے ربانی میں "کفار” کا لفظ استعمال نہیں ہوا ہے مگر چونکہ مجھے اس دن کی اہمیت کا علم ہے اس لیے میں آپ کو بتانا چاہتی تھی۔ انسان خدا سے معافی کسی بھی وقت مانگ سکتا ہے مگر بعد میں قربانی چڑھانے کو حکم دیا گیا تھا۔ یشوعا ہمارے لیے قربانی کا وہ برہ تھا جو ہمارے گناہ اٹھا لے جاتا ہے۔ اسلیے ہم اسکے نام میں دعا کو ختم کرتے ہیں تاکہ اس بات کا یقین ہو کہ ہمارے قربانی کے برہ (یشوعا)کی وجہ سے ہماری سنی گئی ہے۔ اگر ہم توبہ کریں تو خدا مجھے اور آپ کو اپنے بیٹے کے نام میں معاف کرتا ہے ۔
ہم دعائے ربانی پر اپنا باقی مطالعہ جاری رکھیں گے۔ خدا آپ سب کو بہت برکت دے اور آپ کے کلام کے علم میں اور اضافہ کرے۔ آمین