image_pdfimage_print

Shazia Lewis کی تمام پوسٹیں

پیدائش 6 باب (دوسرا حصہ)

پچھلا حصہ ہم نے نوح پر ختم کیا تھا کہ نوح خدا وند کی نظر میں مقبول  ہوا۔ وہ راستباز اور اپنے زمانہ کے لوگوں میں بے عیب تھا۔ نوح کو عبرانی میں ” נֹ֕חַ، نواخ” کہتے ہیں اور پیدائش 6:8 میں وہ خدا کی نظر میں "مقبول”  ہوا ؛ لفظ "مقبول” عبرانی لفظ  "חֵ֖ן، خن” ہے  جسکا مطلب  "فضل یا عنایت” بھی بنتا ہے۔  اسکے تین بیٹے سم، حام اور یافت  تب پیدا ہوئے تھے جب نوح پانچ سو برس کا تھا۔  نوح خدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا مطلب کہ وہ خدا کی باتوں پر عمل کرتا رہا اسکے حکموں کو مانتا رہا۔ پیدائش 6 باب (دوسرا حصہ) پڑھنا جاری رکھیں

پیدائش 6 باب (پہلا حصہ)

پیدائش 6 باب آپ پورا کلام میں خود پڑھیں۔

پیدائش کے مطالعے کے تیسرے باب میں ہم نے  سانپ یا شیطان کے بارے میں بات کی تھی۔  ایوب  38:4 سے 7 میں تھوڑا حوالہ ملتا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا نے فرشتوں کو انسان سے پہلے بنایا۔ ربیوں کی کہاوتوں اور تحریروں سے پتہ چلتا ہے  کہ دس مختلف قسم کے فرشتے ہیں۔ جن میں سے چار کے بارے میں   ہماری بائبل  میں بھی بیان ہے۔ پیدائش کے پہلے باب میں ہم نے کروبیوں کے بارے میں پڑھا اور انکا ذکر آپ کو حزقی ایل میں بھی ملے گا۔ پیدائش 6 باب (پہلا حصہ) پڑھنا جاری رکھیں

پیدائش 5 باب

آپ اس باب کو پورا خود کلام میں پڑھیں۔

ایک وقت تھا جب میں کبھی پیدائش 5  جیسے باب کو پڑھنے اور سمجھنے میں زیادہ وقت نہیں لگاتی تھی ظاہر ہے کہ صرف نام لکھے ہیں کوئی خاص مطلب تو ہو نہیں سکتا تھا سوائے اسکے کہ نسل کا بیان ہو رہا ہے۔ مگر ایک سوال ضرور ذہن میں اٹھتا تھا کہ آخر ان ناموں کی کیا اہمیت ہے؟ کیا خدا کی نظر میں باقی لوگ اہم نہیں تھے؟! یہ باتیں ہم آج کے مطالعہ میں سکھیں گے۔ میں نے پیدائش 1 کے مطالعہ میں چھپے پیغام کا ذکر کیا تھا جو کہ شاید بہت سے لوگ  سوچ سکتے ہیں کہ غلط بھی ہو سکتا ہے۔ پیدائش 5 باب پڑھنا جاری رکھیں

پیدائش 4 باب (دوسرا حصہ)

قائن نے اپنے بھائی کا خون کر دیا  کیونکہ اسکی قربانی خدا نے نا منظور کی اور اسکے بھائی کا لایا ہوا ہدیہ منظور کیا۔ بھائی کو مار کر اس نے سوچا ہوگا کہ اب میرا مقابلہ کرنے والا کوئی نہیں۔ افسوس کہ قائن کی طرح آج بھی بہت سے لوگ یہی سوچتے ہیں کہ اپنے راہ سے اپنے  مد مقابل کو ہٹا کر انھوں نے سب کچھ حاصل کر لیا ہے۔ مگر وہ الٹا خود مصیبت میں پڑ جاتے ہیں۔  مسلہ صرف قائن کے لائے ہوئے ہدیہ کا ہی نہیں تھا اسکا دل بھی خدا سے دور تھا۔  اسلئے  جب خدا نے قائن کو موقع دیا کہ وہ اپنے گناہ کا اقرار کر سکے اس نے خدا سے جھوٹ بول کر ایک اور گناہ کیا۔ خدا نے اس سے کہا  پیدائش 4:10 میں؛ پیدائش 4 باب (دوسرا حصہ) پڑھنا جاری رکھیں

پیدائش 4 باب (پہلا حصہ)

پیدائش 4 باب آپ کلام میں سے خود پڑھ سکتے ہیں۔ میں صرف وہی آیات لکھوں گی جسکی ضرورت سمجھوں گی۔

پیدائش کے تیسرے باب میں ہم نے پہلے گناہ کے متعلق پڑھا تھا اور آج چوتھے باب میں ہم پہلے قتل  کا بیان پڑھیں گے۔  میں نے ذکر کیا تھا کہ پیدائش 3:15 میں خدا نے  یشوعا کے بارے میں پہلی پیشن گوئی کی جب اس نے کہا؛

اور میں تیرے اور اور عورت کے درمیان اور تیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان عداوت ڈالوں گا۔ وہ تیرے سر کو کچلیگا اور تو اسکی ایڑی پر کاٹیگا۔ پیدائش 4 باب (پہلا حصہ) پڑھنا جاری رکھیں

پیدائش 3 باب ( دوسرا حصہ)

پچھلی بار ہم نے پیدائش کے تیسرے باب کے مطالعہ میں  صرف پہلی تین آیات کو دیکھا  تھا۔   آج ہم باقی آیات کو دیکھیں گے۔

سانپ نے عورت سے شکی لہجہ میں پوچھا تھا کہ کیا واقعی خدا نے باغ کے کسی درخت  کا پھل نہ کھانے کو کہا تھا؟ جب عورت نے اسے جواب دیا تو اس نے خدا کے دئے اصل حکم میں اضافہ کیا۔ ربیوں کی تعلیم کے مطابق سانپ نے جب عورت سے کہا تھا کہ "تم ہرگز نہ مرو گے بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دن تم اسے کھاو گے تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم خدا کی مانند نیک و بد کے جاننے والے بن جاو گے۔” پیدائش 3 باب ( دوسرا حصہ) پڑھنا جاری رکھیں

پیدائش 3 باب (پہلا حصہ)

پیدائش کا تیسرا باب آپ کلام میں سے خود پڑھیں میں وہی حوالے لکھوں گی جسکی میں ضرورت سمجھوں۔

 اگر آپ کو یاد ہو کہ میں نے  دعائے ربانی کے مطالعے میں یشوعا اور حوا کی آزمائش کا بھی ذکر کیا تھا ۔ آپ اسکو بھی ضرور پڑھنا اگر آپ نے وہ نہیں پڑھا  کیونکہ وہ بھی ہمارے آج کے مطالعہ کا اہم حصہ ہے۔

تیسرا باب سانپ کے حوالے سے شروع ہوتا ہے۔ کلام کے مطابق سانپ کل دشتی جانوروں سے جنکو خدا نے بنایا تھا چالاک تھا۔  بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا وہ صرف ایک فرضی حصہ تھا اس کہانی کا یا کہ  اصل شیطان تھا ۔  عبرانی کلام میں سانپ کے لیے” נחש، نخاش، nachash ” کا لفظ استعمال ہوا ہے۔  جو کہ عام طور پر شیطان کے لیے استعمال ہوتا ہے۔  ربی یہی کہتے ہیں کہ یہ سانپ، شیطان تھا جس نے  عورت سے بات کی تھی۔  گو کہ یہ علم نہیں کہ سانپ کیونکر بات کر سکتا تھا  مگر اسکے بارے میں یہ ضرور لکھا ہے کہ وہ چالاک تھا۔ اور اسکا وجود تھا لہذا یہ سوچنا کہ یہ کہانی کا فرضی حصہ ہے غلط ہے۔  عبرانی لفظ ” נְחֹשֶׁת، نخوست، nachoset ” چمکتا پیتل ہے ۔ جسکا ذکر گنتی کے 21 باب میں  ہے پیتل کا سانپ، "نخاش – نخوست”۔

2کرنتھیوں 11:14 میں لکھا ہے؛

اور کچھ عجب نہیں کیونکہ شیطان بھی اپنے آپ کو نورانی فرشتہ کا ہمشکل بنا لیتا ہے۔

فرشتہ کے لیے عبرانی لفظ  "מַלְאָךְ، ملاخ ،  malakh” ہے جسکا مطلب ہے "پیغام لانے/دینے والا” مکاشفہ  12:9 میں لکھا ہے؛

اور وہ بڑا اژدہا یعنی وہی پرانا سانپ جو ابلیس اور شیطان کہلاتا ہے اور سارے جہان کو گمراہ کر دیتا ہےزمین پر گرا دیا گیا اور اسکے فرشتے بھی اسکے ساتھ گرا دیے گئے۔

اور یسعیاہ 14:12 میں لکھا ہے؛

ائے صبح کے روشن ستارے  تو کیونکر آسمان پر سے گر پڑا! ائے قوموں کو پست کرنے والے تو کیونکر زمین پر ٹپکایا گیا!

آپ کو علم ہے کہ ستارے روشن ہوتے ہیں  شیطان بھی خدا کی طرح نور کی مانند بننا چاہتا تھا۔ اس نے اپنی چالاکی کا غلط استعمال کیا اور اپنے فرشتوں سمیت آسمان سے گرا دیا گیا۔  اگر آپ یسعیاہ 14 پڑھیں گے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ وہ خدا کے تخت سے بھی اوپر اپنا تخت قائم کرنا چاہتا تھا مطلب کہ وہ خدا بننا چاہتا تھا۔ اور اسی لیے اس نے حوا کو بہکانے کا سوچا تاکہ وہ زمین کا اختیار حاصل کر سکے۔ ہم نے پہلے باب میں پڑھا تھا کہ خدا نے آدم کو زمین پر اختیار دیا تھا۔  شیطان کا مقصد اس اختیار کو حاصل کرنا تھا۔ اسے پتہ تھا کہ خدا نے آدم کو نیک و بد کی پہچان کے درخت کا پھل کھانے سے منع کیا ہے۔ ہم نے دعائے ربانی میں سیکھا تھا کہ خدا ہم پر آزمائش نہیں لاتا کیونکہ یعقوب 1:14 میں لکھا ہے کہ ہر شخص اپنی ہی خواہشوں میں کھنچ کر اور پھنس کر آزمایا جاتا ہے۔ سانپ نے عورت سے پوچھا کہ

"۔۔ کیا واقعی خدا نے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل تم نہ کھانا؟”

 کیا واقعی! ۔۔۔ یہ کہہ کر وہ عورت کے دل میں  شک  ڈالنا چاہ رہا تھا  کیونکہ اصل حکم تو خدا نے آدم کو دیا تھا لہذا اس درخت کے پھل کو نہ کھانے کے بارے میں عورت نے آدم سے سنا ہو گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خدا نے اسے بھی کہا ہو۔ مگر کلام میں اسکا ذکر موجود نہیں ہے۔ عورت نے جب شیطان کو جواب دیا تو اس نے خدا کے دئے حکم میں اضافہ کیا جسکے بارے میں خدا نے سختی سے منع کیا ہے۔ آپ امثال 30:6، استثنا 4:2 اور مکاشفہ 22:18 اور 19 آیت اپنے حوالے کے لیے دیکھ سکتے ہیں۔

عورت نے شیطان کو کہا  (پیدائش 3:3)

پر جو درخت باغ کے بیچ میں ہے اسکے پھل کی بابت خدا نے کہا کہ تم نہ تو اسے کھانا اور نہ چھونا ورنہ مر جاؤگے۔

خدا نے جب آدم کو یہ حکم دیا تھا تو اس نے کہا تھا کہ "نیک وبد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا کیونکہ جس روز تو نے کھایا تو مرا۔” عورت نے خدا کے دئے ہوئے سادہ حکم میں  "نہ چھونا” کہہ کر اضافہ کیا۔ اسکا ایک اور پہلو میں پھر کبھی بتاؤنگی۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ جب ہم کبھی کسی کو کلام کی تشریح پیش کرتے ہیں تو   اکثر ہم اپنے فہم پر تکیہ کر رہے ہوتے ہیں اور امثال 3:5  اور 6میں خاص لکھا ہے؛

سارے دل سے خداوند پر توکل کر اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔ اپنی سب راہوں میں اسکو پہچان اور وہ تیری رہنمائی کریگا۔

جب مجھے پتہ چلا تھا کہ خدا مجھے اپنے کس مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے تو میں نے اس آیت کو اپنی دعا بنا لیا تھا کیونکہ کسی زمانے میں دوسروں کو  کلام کے بارے میں دلیلیں دیتے ہوئے میں نے سوچا نہیں تھا کہ جو چیز کلام میں صاف لکھی ہے اسکو ہم نے کیسے تروڑ مروڑ دیا ہے اور اپنے ساتھ ساتھ کتنوں کو ہی خدا کے سادہ حکموں سے دور کر کے گناہ کی دلدل میں اپنے ساتھ دھکیل لیا ہے۔ جب مجھے سچائی پتہ چلی تو میں نے تو خدا سے اس بات کی معافی مانگ لی اور اب اس کوشش میں ہوں کہ لوگوں کو کلام کی سادہ سچائی دکھا  کر انکو سچائی کی طرف لاؤں۔  خدا کا کلام کہیں بھی غلط نہیں ، غلطیاں ہماری اپنی تشریح  میں ہے۔ اپنی تشریح سے خدا کے زندہ کلام میں اضافہ نہ کریں۔

کیا آپ نے خدا سے معافی مانگ لی ہے؟

نئے عہد نامے کا پولس رسول ایک فریسی تھا جسے عبرانی کلام (پرانے عہد نامے) کا گہرا علم حاصل تھا۔ جب وہ یشوعا کے پیروکاروں کو سنگسار کر رہا تھا تو وہ اپنی سوچ کے مطابق ٹھیک کر رہا تھا ستفنس کو سنگسار کرنے میں وہ بھی شامل تھا (اعمال 7:58) ( پولس کا اصل نام شاؤل ہے   اور وہ ہمیشہ شاؤل ہی رہا تھا) مگر جب خدا نے اسے سچائی دکھائی تو اس نے یشوعا کو اپنا لیا  اور پھر اسکے نام میں منادی کرنے لگا۔ آج خدا بھی آپ سے یہی کہنا چاہ رہا ہے کہ آپ اسکے دئے ہوئے سادہ حکموں میں اضافہ نہ کریں۔  اپنی پرانی راہوں کو چھوڑ کر خود کلام کو پڑھیں کیونکہ اسکا کلام زندہ کلام ہے وہ آپ کی راہنمائی ضرور کرے گا۔

ہم پیدائش کے تیسرے باب کا باقی مطالعہ اگلی دفعہ کریں گے۔

پیدائش 2 باب

آپ خود کلام میں سے پیدائش کا دوسرا باب پڑھیں میں صرف وہی آیات لکھوں گی جس کی میں ضرورت سمجھوں گی۔

پیدائش 2 باب کی پہلی تین آیات میں لکھا ہے کہ خدا نے چھ دنوں میں سب کچھ، آسمان اور زمین اور انکے کل لشکر کا بنانا ختم کیا اور ساتویں دن سارے کام سے فارغ ہوئے اور انھوں نے ساتویں دن کو برکت دی اور اسے مقدس ٹھہرایا۔ اگر آپ کو "مقدس” کا لفظی مطلب پتہ ہے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ساتواں دن باقی دنوں کی طرح نہیں بلکہ اسکو باقی عام دنوں سے علیحدہ کرکے خداوند نے خاص برکت دی ہے۔  پیدائش 2 باب پڑھنا جاری رکھیں

پیدائش 1 باب (تیسرا حصہ)

کل ہم نے "روشنی ” کی بات کی تھی۔  روشنی کا الٹ اندھیرا /تاریکی ہے۔  زبور 27:1 میں لکھا ہے؛

خداوند میری روشنی اور میری نجات ہے۔ مجھے کس کی دہشت؟ خداوند میری زندگی کا پشتہ ہے۔ مجھے کس کی ہیبت؟

زبور 119:105 ؛

تیرا کلام میرے قدموں کے لیے چراغ اور میری راہ کے لیے روشنی ہے۔ پیدائش 1 باب (تیسرا حصہ) پڑھنا جاری رکھیں

پیدائش 1 باب (دوسرا حصہ)

آپ کلام مقدس سے پیدایش کے پہلے باب کو خود پڑھیں میں صرف وہی آیات لکھونگی جس کی ضرورت محسوس کرونگی۔

پچھلی دفعہ ہم نے پیدایش کی پہلی آیت کے بارے میں بات کی تھی۔ اب بات کرتے ہیں لفظ "ایلوہیم، אלהים، Elohim” کی۔  "ایلوہیم” ، ہمارے خدا کا نام نہیں  بلکہ خداوند  کو "خدا” عزت سے کہنے کے لیے استعمال ہوا ہے، ویسے ہی جیسے کہ اردو زبان میں کسی کو تو یا تم کہنے کی بجائے "آپ” کا لفظ استعمال کیا جائے۔ الوہیم سے مراد کوئی بھی خدا ہو سکتا ہے۔ مگر پیدائش 1:1 میں اسکے استعمال کا یہ مطلب نہیں کہ واحد ازلی خداوند نے جس پر ہم ایمان رکھتے ہیں، انھوں نے آسمان اور زمین کو نہیں پیدا کیا بلکہ کسی اور خدا نے پیدا کیا ہے۔ ایلوہیم، خداوند کے "جج” اور خالق ہونے کی صفت کو بیان کرتا ہے۔  "ایلوہیم، אֱלֹהִים” عبرانی لفظ  "الوہا، Eloha ، אלוה” کی جمع ہے۔  پرانے عہد نامے میں "ایلوہیم” لفظ کئی بار استعمال ہوا ہے۔ تقریباً 250 بار یہی لفظ فرشتوں اور غیر معبودوں کے لیے استعمال ہوا ہے  اور بعض اوقات انسان کے لیے بھی۔  مثال کے طور پر خداوند نے بزرگ موسٰی کو یہ خروج 7:1 میں کہا؛

پیدائش 1 باب (دوسرا حصہ) پڑھنا جاری رکھیں