پیدائش 2 باب

image_pdfimage_print

آپ خود کلام میں سے پیدائش کا دوسرا باب پڑھیں میں صرف وہی آیات لکھوں گی جس کی میں ضرورت سمجھوں گی۔

پیدائش 2 باب کی پہلی تین آیات میں لکھا ہے کہ خدا نے چھ دنوں میں سب کچھ، آسمان اور زمین اور انکے کل لشکر کا بنانا ختم کیا اور ساتویں دن سارے کام سے فارغ ہوئے اور انھوں نے ساتویں دن کو برکت دی اور اسے مقدس ٹھہرایا۔ اگر آپ کو "مقدس” کا لفظی مطلب پتہ ہے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ساتواں دن باقی دنوں کی طرح نہیں بلکہ اسکو باقی عام دنوں سے علیحدہ کرکے خداوند نے خاص برکت دی ہے۔  اگر آپ نے میرا آرٹیکل  "سبت کا دن ہفتہ یا اتوار” نہیں پڑھا تو اسکو ضرور پڑھیں کیونکہ آپ کو کلام سے علم ہو گا کہ ساتواں دن ہفتہ ہے نا کہ اتوار۔ ویسے تو بہت سے بحث کرنے والے لوگ یہ بھی کہنے کی کوشش کرتے ہیں کہ چونکہ کلام کے مطابق، پہلا دن، دوسرا دن، تیسرا  دن۔۔۔ اور پہلا مہینہ ، دوسرا مہینہ ، تیسرا مہینہ ۔۔۔ استعمال ہوتا تھا اسلیے ہمارے لیے یہ جاننا مشکل ہے کہ کونسا دن اصل سبت ہے؟ جی یہ حقیقت ہے کہ  عبرانی کلام کے مطابق پہلا دن، دوسرا دن ۔۔۔ اور پہلا مہینہ ، دوسرا مہینہ ۔۔۔ ہی استعمال ہوا ہے مگر میں آپ سے ایک گذارش کروں گی کہ کم سے کم ہم ہفتے کو سبت کا دن مان کر آپس میں کسی ایک بات پر تو متفق ہو سکتے ہیں۔   یہودی آج بھی جمعہ کی شام سے ہفتہ کی  شام تک، ہفتے کے دن کو ہی سبت مانتے ہیں اور ہمیں بھی یہی کرنے کی ضرورت ہے۔

سبت کا مطلب ” (کام کو)روکنا یا  ترک کرنا” ہے سبت کو عبرانی میں ایسے لکھتے ہیں   "שבת” اور اسکو عبرانی میں  "شبات” بولتے ہیں پیدائش 2:3  عبرانی میں ایسے ہے؛

ויברך אלהים את־יום השביעי ויקדש אתו כי בו שבת מכל־מלאכתו אשר־ברא אלהים לעשות

   گو کہ اردو کی بائبل میں لکھا ہے کہ "(خدا)  فارغ ہوا” مگر عبرانی کلام میں جیسے لکھا ہے کہ خداوند نے ساتویں دن  کام کرنا ترک کیا   اور یا جیسے انگلش بائبل میں لکھا ہے کہ خداوند نے ساتویں دن آرام کیا۔  عبرانی علما کے مطابق "سبت” کا  مطلب ہے کہ اپنے روزمرہ کے عام کام ترک کیے جائیں اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ ہر کام ترک کریں  اور کچھ اسی قسم کی مثال ہمیں یشوعا  کی باتوں سے بھی ملتی ہے۔  خداوند نے جو کچھ بنایا وہ بار بار پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔  سبت کا دن کا آرام خداوند نے خالی یہودیوں کو نہیں دیا تھا بلکہ کل انسانیت کو دیا تھا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ یہ خداوند اور اسکے لوگوں کے درمیان ایک نشان ہے۔ خداوند نے اس دن کو اپنی خاص برکت دی تھی۔  آپ کو نئے عہد نامے میں ایک بھی آیت نہیں نظر آئے گی جس سے یہ ظاہر ہو کہ خداوند نے اتوار یا ہفتے کے پہلے دن کو سبت قرار دیا ہو۔ جب ہم اتوار کو سبت کا پاک  دن مانتے ہیں تو ہم خدا  کے حکموں کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ آپ کو دس احکام کا اچھی طرح سے پتہ ہے اسلیے خداوند اپنے حکموں کی خلاف ورزی کرنے کا دمہ دار آپ کو ہی ٹھہرائیں گے۔

خدا نے انسان کو مٹی سے بنایا اور اسکے نتھنوں میں زندگی کا دم پھونکا اور انسان جیتی جان ہوا۔ خدا نے ہمیں زندگی دی اپنا دم پھونک کر۔  خداوند ہماری زندگی کا ذریعہ ہیں۔  خداوند نے باغ عدن آدم کے لیے بنایا ۔ سب درختوں کے نام نہیں دیے مگر دو درختوں کا خاص نام لکھا گیا ہے جس میں سے ایک حیات کا درخت تھا  اور دوسرا نیک و بد کی پہچان کا درخت۔ خدا نے آدم کو لیکر اس میں رکھا اور اسے خاص کہا کہ اسکی باغبانی اور نگہبانی کرے۔ خدا نے اسے کہا کہ تو باغ کے ہر درخت کا پھل کھا سکتا ہے لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت کو مت کھانا کیونکہ جس روز اس نے کھایا وہ مر جائے گا۔ خدا نے انسان کو اپنی مرضی کے مطابق بے روک ٹوک کھانے کی اجازت دی تھی۔  خدا نے جب یہ حکم دیا تو حوا ابھی وجود میں نہیں آئی تھی۔ خدا نے آدم کو سب درختوں کے پھل کو کھانے کی اجازت دی تھی جس میں حیات کا درخت بھی شامل تھا۔ عبرانی کلام میں ملتے جلتے الفاظ کا بہت زیادہ استعمال ہوا ہے۔  ویسے ہی جیسے کہ شاعری میں استعمال کرتے ہیں۔ آدم (عبرانی ، אדם) آدما  (عبرانی ،  אדמה) مٹی سے بنا۔ یہی عبرانی لفظ "آدم” اگر "آدوم” بولا جائے تو اسکا مطلب بنتا ہے "سرخ” ۔ گنتی کے 19 باب میں ایک بہت خاص قسم کی قربانی کا ذکر ہے۔ سرخ رنگ کی بے داغ اور بے عیب بچھیا کی قربانی۔ اسکو زیادہ تفصیل میں ہم گنتی کی کتاب کے مطالعہ میں پڑھیں گے۔  خدا نے آدم کو باغ عدن میں نہیں بنایا مگر  بنانے کے بعدآدم کو لا کر اچھی جگہ رکھا۔  کچھ  دانشور کہتے ہیں کہ باغ عدن زمین پر آسمان کا عکس تھا۔

خداوند نے جب جانوروں کو بنایا تو وہ انکو آدم کے پاس لائے تاکہ آدم انکا نام رکھے اور اس نے جو بھی جس جانور کو کہا وہی اسکا نام بن گیا۔ خداوند نے اس سے ظاہر کیا کہ سب جانوروں اور پرندوں پر آدم کا اختیار ہے (2 سلاطین 23:34 اور 24:17 آیات دکھاتی ہیں کہ جب کسی کا نام بدل کر نیا رکھا جاتا ہے تو اس پر  ایک طرح سے اس  انسان کا اختیار ہے) ۔

ان سب کے باوجود خدا کو آدم کے لیے کوئی مددگار اسکی مانند نہ ملا لہذا خداوند نے آدم پر گہری نیند بھیجی اور اسکی پسلیوں میں سے ایک کو نکال کر عورت کو بنایا۔ خدا نے آدم کو مددگار فراہم کیا۔ مرد کو عبرانی میں "ایش،  אִישׁ” کہتے ہیں اور عورت کو "ایشا، אִשָּׁה” ۔  اردو کلام میں اسکا ترجمہ "نر اور ناری ہے۔” ایک لفظ جو قابل غور ہے وہ ہے عبرانی لفظ "مددگار” جسکو عبرانی میں "ایزر، עֵ֫זֶר” کہتے ہیں۔  اردو کلام میں جگہ جگہ جہاں "خدا مددگار یا خدا  مدد” استعمال  ہوا ہے وہ زیادہ تر یہی لفظ "ایزر” ہے۔  خدا عورت کے ذریعہ آدم کو بتا رہے تھے کہ وہ اسکے مددگار ہیں۔ انھوں نے عورت کو آدم کی مدد کے لیے بھیجا ہے (خدا کی طرف سے مدد۔ اس بارے میں ہم تفصیل میں پھر کبھی مطالعہ کریں گے ) اور اسی بنا پر مرد کو اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر اپنی بیوی سے ملے رہنے کا حکم ہے۔ عبرانی میں جو "ملا رہیگا” کا لفظ استعمال ہوا ہے اسکا مطلب "گوند کی طرح” بنتا ہے۔  یہ وفاداری  کو دکھاتا ہے اسکا یہ لازمی مطلب نہیں کہ مرد اپنے ماں باپ کو واقعی میں چھوڑ دے یا انکی پرواہ نہ کرے۔  کیونکہ خدا کے دئے دس احکام صاف دکھاتے ہیں کہ ہمیں اپنے ماں باپ کی عزت کرنی چاہیے۔  جب بھی کبھی انسان خدا کے قائم کیے اصولوں کو چھوڑ چھاڑ کر اپنی من مانی شروع کر دیتا ہے تب وہ مصیبت میں پڑتا ہے۔

میں پیدائش کے دوسرے باب کا مطالعہ یہیں ختم کرتی ہوں خدا نے چاہا تو کل ہم تیسرے باب کا مطالعہ کریں گے۔