پچھلی بار ہم نے پیدائش کے تیسرے باب کے مطالعہ میں صرف پہلی تین آیات کو دیکھا تھا۔ آج ہم باقی آیات کو دیکھیں گے۔
سانپ نے عورت سے شکی لہجہ میں پوچھا تھا کہ کیا واقعی خدا نے باغ کے کسی درخت کا پھل نہ کھانے کو کہا تھا؟ جب عورت نے اسے جواب دیا تو اس نے خدا کے دئے اصل حکم میں اضافہ کیا۔ ربیوں کی تعلیم کے مطابق سانپ نے جب عورت سے کہا تھا کہ "تم ہرگز نہ مرو گے بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دن تم اسے کھاو گے تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم خدا کی مانند نیک و بد کے جاننے والے بن جاو گے۔” سانپ نے عورت کو پھل کو چھونے پر مجبور کیا تھا جسکی بنا پر عورت نے جانا کہ وہ مری نہیں۔ یہ حقیقت ضرور ہے کہ اس نے اپنے شاطر لفظوں سے عورت کو پھل پر غور کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ عورت نے جب پھل ہاتھ میں لیا ہوگا تو اسے سانپ کی بات سچ ہی لگی ہو گی کہ وہ مری نہیں ہے کیونکہ بقول عورت کے خدا نے انھیں پھل کو چھونے سے بھی منع کیا ہوا تھا۔ وہی سوچ جو سانپ کی تھی کہ وہ خدا کی مانند ہو اس نے عورت کو پیش کی۔ عورت اور آدم کو کھلی اجازت تھی کہ وہ خدا کا حکم توڑیں یا کہ مانیں۔ پہلے عورت نے خدا کا حکم توڑا اور پھر آدم نے۔ نیک و بد کو جاننے والے بننے سے پہلے جو چیز انکے علم میں تھی وہ صرف "نیکی یا اچھائی” تھی۔ اور زیادہ جاننے کے لالچ میں اور خدا کی مانند بننے کی خاطر انھوں نے پھل کھایا۔ انھوں نے کیونکر سوچ لیا تھا کہ خدا انکا بھلا نہیں چاہتا؟ کلام کہتا ہے کہ ہر اچھی بخشس اور ہر کامل انعام اوپر سے ہے مطلب کہ خدا سے ہے۔
کیا آج ہم واقعی میں آدم اور حوا پر تہمت لگا سکتے ہیں کہ انکی وجہ سے ہم بھی گناہ کی دلدل میں پیدا ہوئے ؟ کیا ہماری اپنی خواہشات ان کی خواہشات سے بڑھ کر نہیں؟
شیطان نے اپنے آپ کو خدا سے زیادہ علم والا ظاہر کیا یہ کہہ کر کہ وہ ہرگز نہ مریں گے۔ جو شک اس نے عورت کے دماغ میں پیدا کیا تھا آگے چل کر وہ گناہ میں تبدیل ہو گیا۔ پیدایش 3:6 کی عبرانی آیت بتاتی ہے کہ آدم اس وقت اسکے ساتھ تھا۔ آدم نے عورت کو روکنے کی کوشش نہیں کی اور شاید عورت کی طرح وہ بھی یہی سوچ رہا تھا کہ وہ خدا کی مانند بن جائیں گے۔ پیدایش 3:6
ותרא האשה כי טוב העץ למאכל וכי תאוה־הוא לעינים ונחמד העץ להשכיל ותקח מפריו ותאכל ותתן גם־לאישה עמה ויאכל
اگر آپ "עמה” کا گوگل ٹرانسلیٹر پر ترجمہ دیکھیں گے تو یہ اردو میں "ساتھ” بنے گا۔ اردو کلام میں یہ ترجمہ نہیں لکھا خالی یہ لکھا ہے؛
۔۔۔اور اپنے شوہر کو بھی دیا اور اس نے کھایا۔
اسکے بعد دونوں کی آنکھیں کھل گئیں اور انھیں معلوم ہوا کہ وہ ننگے ہیں اور انھوں نے انجیر کے پتوں کو سی کر اپنے آپ کو ڈھانکا۔ واعظ 1:18 میں لکھا ہے ؛
کیونکہ بہت حکمت میں بہت غم ہے اور علم میں ترقی دکھ کی فراوانی ہے۔
نیک و بد کی پہچان کے ساتھ ساتھ انکے حصہ میں غم بھی آیا۔ آدم کو خدا نے باغ کی باغبانی اور نگہبانی کے لیے رکھا تھا اور عورت کو اسکا مددگار بنایا تھا۔ دونوں نے اپنا کام صحیح نہیں انجام دیا تھا۔ مددگار ، نے قیادت کا ذمہ اٹھایا اور نگہبان نے پیروی کا کردار ادا کیا۔ دونوں ہی اس گناہ کے برابر کے ذمہ وار تھے۔
آدم اور اسکی بیوی نے جب خدا کو پھرتے سنا تو انھوں نے اپنے آپکو درختوں میں چھپایا۔ تب خدا نے آدم کو پکارا کہ تو کہاں ہے؟ آدم نے جواب دیا کہ میں نے باغ میں تیری آواز سنی اور میں ڈرا کیونکہ میں ننگا تھا اور میں نے اپنے آپ کو چھپایا۔ ننگے پن کے احساس کے ساتھ ساتھ انکے دل میں ڈر بھی پیدا ہو گیا۔ ربی سکھاتے ہیں کہ اس ننگے پن سے پہلے خدا کا جلال انکو ڈھانپے ہوئے تھا اور جب انھوں نے گناہ کیا تو خدا کا جو جلال انکو ڈھانپے ہوئے تھا وہ اس سے محروم ہو گئے۔ رومیوں 3:23 میں لکھا ہے؛
اسلئے کہ سب نے گناہ کیا اور خدا کے جلال سے محروم ہیں۔
وہ جلال سے محروم ہوئے اور گناہ کو انھوں نے اوڑھ لیا ۔ جو سوال خدا نے آدم سے کیا آج وہ یہی سوال آپ میں سے کچھ سے کر رہا ہے کہ "تو کہاں ہے؟” آدم نے تو خدا کو بتا دیا تھا کہ وہ اس سے اسلئے چھپا کہ وہ ننگا تھا مگر کیا آج آپ نے خدا کو بتایا کہ آپ اس سے کیوں چھپ کر بیٹھے ہوئے ہیں؟ کیا آپ کا خیال ہے کہ خدا کو پتہ نہیں ہوگا کہ آپ نے کیا کیا ہے؟ خدا نےجانتے ہوئے بھی کہ کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ آدم کو پتہ ہے کہ وہ ننگا ہے اس سے پوچھا "کیا تو نے اس درخت کا پھل کھایا جسکی بابت میں نے تجھ کو حکم دیا تھا کہ اسے نہ کھانا؟” خدا آدم کے منہ سے اسکے گناہ کا اقرار کروا رہا تھا۔ گناہ کا اقرار کرنا ہماری نجات کا پہلا قدم ہے۔ غلط لوگوں کے سامنے اپنے گناہ کا اقرار نہ کریں خدا کے سامنے کریں کیونکہ وہی آپ کو نجات دلا سکتا ہے باقی اور کوئی آپ کا نجات دہندہ نہیں۔ آدم نے پہلے خدا پر اور پھر عورت پر الزام لگایا۔ اس نے کہا "جس عورت کو تو نے میرے ساتھ کیا اس نے مجھے اس درخت کا پھل دیا اور میں نے کھایا۔” آدم کی اپنی مرضی تھی کہ پھل کھائے یا نہ کھائے کیونکہ کلام کے مطابق عورت نے صرف اسے پھل دیا تھا مجبور نہیں کیا تھا۔ آدم کی طرح ہم بھی جھٹ سے خدا پر الزام پہلے لگاتے ہیں اور پھر اپنے ساتھیوں پر۔ کبھی یہ نہیں سوچتے کہ ہم کیا کر سکتے تھے یا پھر کیا قدم اٹھا سکتے تھے کہ گناہ میں نہ پڑتے۔
جب خدا نے عورت سے پوچھا تو اس نے سانپ پر الزام لگایا۔ مگر خدا نے جو عورت سے پوچھا تھا کہ تو نے یہ کیا کیا؟ ویسا کچھ سانپ کو نہیں کہا بلکہ فوراً اسکو سزا دی ۔ خدا ہمارا بہتر جج ہے وہ ہم سے سوال ضرور کرتا ہے مگر ساتھ میں جانتا بھی ہے کہ کون اصل وجہ ہے۔ مگر ساتھ ہی میں جیسے کہ آدم اور اسکی بیوی کو سزا پھر بھی بھگتنی تھی ہمیں بھی اپنے کیے کی سزا بھگتنی پڑتی ہے۔
پیدایش 3:15 میں خدا نے پہلی پیشن گوئی کہ یشوعا کے زمین پر آنے کی۔ خدا نے عورت کو سزا دیتے وقت صاف ظاہر کیا کہ مرد رہبری کرے گا مگر یہ نہیں کہا کہ اب وہ آدم کی مددگار نہیں رہی۔ وہی کردار جو پہلے تھا اب بھی خدا نے عورت کے لیے ہی رہنے دیا تھا۔ خدا نے نہ صرف سانپ کو بلکہ آدم اور اسکی بیوی کو بھی سزا دی تھی۔ ان سب باتوں کے بعد آدم نے اپنی بیوی کا نام حوا رکھا تھا۔
خداوند خدا نے خود پہلی قربانی کی جب اس نے آدم اور حوا کے واسطے چمڑے کے کرتے بنا کر انکو پہنائے۔ آدم اور حوا کو تب بھی خدا پیار کرتا تھا تبھی اس نے انکے لیے چمڑے کے کرتے بنانے کے لیے پہلے جانور کو قربان کیا مطلب کہ پہلا خون بہایا۔ پہلے آدم کے لیے قربانی دی اور بعد میں یشوعا نے ہمارے لیے قربانی دی۔
خدا نے آدم اور حوا کو باغ عدن سے اسلئے نکالا کہ کہیں وہ حیات کا درخت کھا کر ہمیشہ کے لیے گناہ کی حالت میں نہ رہیں۔ کل میں نے فرشتوں کا مطلب بتایا تھا کہ وہ پیغام لانے/دینے والی خدا کی مخلوق ہیں۔ خدا نے باغ عدن کے مشرق کی طرف کروبیوں کو اور چوگرد گھومنے والی شعلہ زن تلوار کو رکھا کہ وہ زندگی کے درخت کی راہ کی حفاظت کریں۔ بہت سے علما کروبیوں اور سرافیم کو فرشتوں میں نہیں شامل کرتے۔
ہم تیسرے باب کا مطالعہ یہیں ختم کرتے ہیں خدا نے چاہا تو اگلی بار ہم پیدائش کے چوتھے باب کا مطالعہ کریں گے۔ خدا آپ کو برکت دے.
باروخ ہاشیم باجی
باروخ ہاشیم