image_pdfimage_print

Shazia Lewis کی تمام پوسٹیں

(خروج 2 باب (دوسرا حصہ

ہم نے پچھلے حصے میں پڑھا تھا کہ موسیٰ کو فرعون کی بیٹی نے اپنا  بیٹا بنا کر اسکی پرورش کی تھی اور موسیٰ نے ملک مصر کے تمام  علوم کی تعلیم پائی تھی۔ جب موسیٰ بڑا ہوا تو وہ باہر اپنے بھائیوں کے پاس گیا اور اس کی نظر خاص انکی مشقتوں پر پڑی اور اس نے ایک مصری کو اپنے عبرانی بھائی کو مارتے دیکھا۔ میں نے موسیٰ کی زندگی پر بنی کچھ فلمیں اور بچوں کے پروگرام بھی دیکھے ہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ کچھ میں یہ دکھایا گیا ہے کہ موسیٰ کو جب ہارون اور مریم ملے یا پھر کوئی اور عبرانی ملا تو اس نے موسیٰ کو بتایا کہ وہ مصری نہیں بلکہ عبرانی ہے۔  اگر آپ نے خود بھی خروج 2 باب کو کلام میں سے پڑھا ہے تو آپ نے بھی پڑھا ہوگا کہ جب بچہ کچھ بڑا ہوا تو تب اسکی ماں اسے فرعون کی بیٹی کے پاس لے کر گئی تھی۔ اس زمانے میں چھوٹے بچوں کا دودھ، مائیں  تقریباً 5  سے 7برس کی عمر میں چھڑاتی تھیں۔ یہ میں نے تاریخ  اور علما کی کتابوں میں پڑھا تھا۔ 5  سے 7 برس کی عمر کوئی خاص عمر نہیں ہوتی کہ بچوں کو تمام  باتیں یاد رہ جائیں مگر  کچھ کچھ خاص باتیں ضرور یاد ہوتی ہیں۔  خروج 2:11 اس بات  کو صاف دکھا رہا ہے کہ موسیٰ کو علم تھا کہ اسکے بھائی یعنی اپنے  لوگ کون تھے۔ وہ جانتا تھا کہ وہ مصری نہیں بلکہ عبرانی ہے تبھی جب اس نے مصری کو اپنے عبرانی بھائی کو مارتے دیکھا تو اس نے ادھر اُدھر دیکھا کہ کوئی اور تو نہیں دیکھ رہا۔ جب دیکھا کہ وہاں اور کوئی دوسرا آدمی نہیں ہے تو اس نے اس مصری کو جان سے مار دیا جو اسکے عبرانی بھائی پر ظلم کر رہا تھا۔ موسیٰ نے جب عبرانی کو مار کھاتے ہوئے دیکھا تو اس نے اپنے دلی جذبات کی رو سے مصری کو مارنے کا فیصلہ کیا تھا۔ موسیٰ کو علم تھا کہ مصری لوگ اسکے لوگوں پر ظلم ڈھا رہے ہیں۔ اسکو اس بات کا علم تھا کہ خدا  اپنے لوگوں کو اس کے ہاتھوں کے ذریعے مصریوں سے چھٹکارا دے گا کیونکہ اعمال 7:25 میں لکھا ہے؛ (خروج 2 باب (دوسرا حصہ پڑھنا جاری رکھیں

(خروج 2 باب (پہلا حصہ

آپ کلام میں سے خروج کا دوسرا باب پورا خود پڑھیں میں صرف وہی آیات لکھونگی جسکی ضرورت سمجھوں گی۔

پچھلے حصے میں ہم نے خروج 1 باب کے آخر میں پڑھا تھا کہ فرعون نے  مصریوں  کو کہا تھا کہ اگر عبرانیوں کا بیٹا پیدا ہو تو اسے دریا میں ڈال دینا۔ اگر ایک طرف فرعون خدا کے لوگوں  پر ظلم وتشدد کر رہا تھا تو دوسری طرف خدا اپنے لوگوں کو اس ظلم و تشدد اور غلامی سے رہائی  کے منصوبے پر عمل کر رہا تھا۔

 ہم نے پہلے باب کے شروع میں پڑھا تھا کہ یعقوب کے گھرانے کی ستر لوگوں اے ایک بڑی قوم بن گئی تھی۔  لاوی کے گھرانے کی بھی تعداد بہت بڑھ گئی تھی۔  دوسرا باب ایک لاوی مرد کی  لاوی کے گھرانے کی عورت سے شادی سے شروع ہوتا ہے۔ہم نے پیدائش کی کتاب کے مطالعے میں پڑھا تھا کہ "لاوی” کا مطلب "لگن یا قریب آنا” بنتا ہے۔ پیدائش 49:7 میں ہم نے یعقوب کی لاوی کو دی ہوئی برکت کا ہم نے پڑھا تھا۔ ہم خروج کی کتاب میں لاوی کے قبیلے کی خدا سے لگن کے بارے میں پڑھیں گے۔ اس باب میں ہمیں  ان دونوں مرد اور عورت  کے نام نہیں ملتے مگر خروج 6:20 میں  ہمیں عمرام اور یوکبد کے  نام لکھے  ملتے ہیں۔  ان دونوں کے ہاں اس وقت ایک بیٹا پیدا ہوا جب فرعون نے بیٹوں کو دریا میں ڈالنے کا حکم دیا ہوا تھا۔ عورت یعنی یوکبد نے بیٹے کی خوبصورتی کو دیکھ کر  اسے تین مہینے تک چھپا کر رکھا۔ ہمیں اعمال 7:20 میں بھی   یہی لکھا ملتا ہے ۔ ماں باپ کا پیار اولاد کے لئے انتہا کا ہوتا ہے ویسے تو یوسیفس کی کتاب میں بتایا گیا ہے کہ عمرام کو اس بیٹے کی پیدائش سے پہلے الہام ہوا تھا کہ وہ اسرائیل کے لئے نجات لائے گا مگر عبرانیوں 11:23 میں ایسے لکھا ہوا ہے؛ (خروج 2 باب (پہلا حصہ پڑھنا جاری رکھیں

(خروج 1 باب (دوسرا حصہ

ہم نے پچھلے حصے میں پڑھا تھا کہ مصر کا نیا فرعون  بنا جو کہ یوسف کو نہیں جانتا تھا۔   خدا نے اپنے چند لوگوں کو اب ایک بڑی قوم بنا ڈالا تھا۔  ہمیں خروج1:5 میں بتایا گیا ہے کہ ؛

اور سب جانیں جو یعقوب کے صلب سے پیدا ہوئیں ستر تھیں اور یوسف تو مصر میں پہلے ہی سے تھا۔

میں نے پیدائش کے مطالعے میں بیان کیا تھا کہ اعمال 7:14 کے مطابق کیسے  ستفنس کے بیان کے مطابق پچھتر جانیں بنتی ہیں  جبکہ یہاں پر اور پھر  پیدائش 46:27 میں ستر بیان ہے۔  نوح کے زمانے میں سیلاب کے بعد اسکے بیٹوں سے جو اولاد پیدا ہوئیں وہ کل ملا کر ستر تھے جن سے ستر قوموں نے جنم لیا(پیدائش 10 باب)۔ نمبر 70 کی کلام میں بہت اہمیت ہے  ہم آگے پڑھیں گے کہ اسرائیل کے 70 بزرگوں نے خدا کو کوہ سینا پر دیکھا۔ سکوت کے تہوار پر 70 قربانیاں قوموں کے لئے چڑھائی جاتیں ہیں ۔ ابھی ہیکل نہیں ہے تو اسلئے کسی بھی قسم کی قربانی نہیں چڑھائی جاتی صرف دعائیں مانگی جاتی ہیں۔  بابل کی اسیری میں اسرائیل ستر برس تک تھے۔ یہودیوں کی روایت کے مطابق صدر عدالت کے 70 ممبران تھے ۔ اور بھی کچھ باتیں ہیں مگر فی الحال کے لئے اتنا ہی بہت ہے۔ (خروج 1 باب (دوسرا حصہ پڑھنا جاری رکھیں

(خروج 1 باب (پہلا حصہ

اس سے پہلے کہ ہم خروج کے پہلے باب کا مطالعہ کریں میں تھوڑا سا خروج کی کتاب کا تعارف کرواتی چلوں۔ خروج کی کتاب کو عبرانی زبان میں "شیموت،  שְׁמוֹתShemot, ” کہتے ہیں۔ پیدائش، خروج، احبار، گنتی اور استثنا کو موسیٰ نےخدا کی قیادت میں لکھا ہے میں نے اپنے پیدائش کی کتاب کے مطالعے میں ذکر کیا تھا کہ کیسے توریت (یعنی پیدائش، خروج، احبار، گنتی اور استثنا) میں لفظ تورہ، عبرانی بائبل میں پیدائش اور خروج میں چھپا ہے اور یہی لفظ الٹا گنتی اور استثنا میں چھپا ہوا ہے جبکہ احبار کی کتاب میں لفظ "یہوواہ” بار بار چھپا ہوا ہے۔  آپ پیدائش 5 باب کے مطالعے میں دیکھ سکتے ہیں۔ https://backtotorah.com/?p=328

عبرانی کلام میں پیدائش کی کتاب ان الفاظ پر ختم ہوتی ہے، "مصر میں”، اور خروج کی کتاب کی پہلی آیت میں ہم یہی  پڑھتے ہیں کہ

اسرائیل کے بیٹوں کے نام  جو اپنے اپنے گھرانے کو لیکر یعقوب کے ساتھ مصر میں آئے یہ ہیں۔”

عبرانی لفظ "شیم، Shem” کے معنی ہیں "نام” اور شیموت کے معنی ہیں "ناموں” ،  کیونکہ یہ عبرانی لفظ "شیم” کی جمع ہے۔ گو کہ اردو کلام میں اس کتاب کا نام خروج دیا گیا ہے جو کہ بنی اسرائیل کے ملک مصر سے "خروج” کو بیان کرتی ہے مگر یہ عبرانی لفظ کا ترجمہ ہرگز نہیں ۔ سفردیک یہودی  ربی جسکو یہودی لوگ رمبان پکارتے ہیں، اس نے   خروج کے تعارف میں کہا کہ  جلاوطنی تب تک مکمل (ختم) نہیں ہو گی جب تک کے وہ تمام اپنی سرزمین پہ  اور اپنے باپ دادا کے روحانی مقام پر نہ لوٹ آئیں۔۔۔۔”  رمبان کی "وہ ” سے مرادیہودی لوگ تھے۔ رمبان کی نظر میں  خروج کی کتاب صرف "خروج ” کو ہی نہیں بیان کرتی بلکہ خدا کا اپنے لوگوں کے درمیان مسکن قائم کرنے کو بھی بیان کرتی ہے۔

  میں نے پہلے بھی کہیں ذکر کیا تھا کہ عبرانی کلام میں کتابوں کے نام پہلی آیت میں درج لفظ پر مشتمل ہے، جیسے کہ پیدائش جسکا عبرانی نام ” بیرشیت” ہے جسکے معنی ہیں ابتد میں،  اور ہم پیدائش 1:1 میں ہی پڑھتے ہیں کہ "ابتدا میں” اور اب خروج کی کتاب میں جسکو عبرانی میں شیموت کہتے ہیں اور ہمیں خروج 1:1 میں لفظ "نام” ملتا ہے ۔ چونکہ ہم ترجمہ پڑھتے ہیں تو اسلئے بہت سی اس قسم کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو جان نہیں پاتے۔   خروج کی کتاب کے کل 40 باب ہیں اسلئے ہم کم سے کم 40 ہفتے یا اس سے زیادہ اس کتاب کے مطالعے میں گزاریں گے۔ خروج کے 3 باب سے 40 باب بنی اسرائیل  کے ملک مصر سے نکلنے  کے   دو سال کے دوران کے واقعات کو بیان کرتا ہے۔  ایک بات جو مجھے اس کتاب میں غور کے قابل لگی وہ یہ ہے کہ فرعون کا نام اس میں نہیں دیا گیا۔ فرعون، نام نہیں ہے  بلکہ مصر کے حکمران کو ظاہر کرتا ہے ویسے ہی جیسے کہ ہمارے ملک کے صدر کے نام فرق  دور میں فرق فرق رہے ہیں مگر  لفظ صدر،   ملک کے حکمران کے لئے استعمال ہوتا ہے۔  خروج کی کتاب میں ہمیں اپنے خدا کا وہ نام نظر آئے گا جوخدا  نے موسیٰ کو بتایا تھا۔ شاید فرعون کا نام اسلئے درج نہیں ہے کہ کہنے کو تو وہ ملک مصر کا حکمران ہے مگر اگر صحیح معنوں میں کسی حکمران کی اہمیت ہے تو وہ صرف اور صرف "یہوواہ ” بادشاہ کی ہے۔

آپ کلام میں سے خروج 1 باب پورا خود پڑھیں میں صرف وہی آیات لکھوں گی جس کی ضرورت سمجھوں گی۔

خروج کا 1 باب یعقوب کے بیٹوں کے ناموں سے شروع ہوتا ہے جو اسکے ساتھ ملک مصر میں آئے تھے۔  یہ نام  ایک بار پھر سے عمر کی ترتیب کے مطابق نہیں ہیں بلکہ پہلے لیاہ کے بیٹوں کا نام ہے پھر راخل کے بیٹے کا نام پھر راخل کی لونڈی بلہاہ کے بیٹوں کا نام اور آخر میں لیاہ کی لونڈی  زلفہ سے پیدا ہوئے بیٹوں کا نام درج ہے۔ یوسف پہلے سے ہی ملک مصر میں تھا۔  پیدائش کی کتاب کے آخری باب سے اب تک یعنی خروج 1 باب تک 350 سال گذر گئے  تھے آپ کو شاید یاد ہو کہ خدا نے یعقوب کو پیدائش 46:3 میں کہا تھا کہ وہ ملک مصر میں جانے سے نہ گھبرائے۔  اور آپ کو شاید یہ بھی یاد ہو کہ ہم نے پیدائش 15 باب   میں پڑھا تھا کہ خدا نے ابرہام کو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ بنی اسرائیل 400 برس تک  غلامی میں ہونگے۔  ہم نے یہ بھی بات کی تھی کہ خدا نے خاص ابرہام  کو کہا تھا کہ اموریوں کے گناہ ابھی پورے نہیں ہوئے، خدا کے لوگ چار سو برس غلامی کریں گے وہ دکھ اٹھائیں گے لیکن خدا اس قوم کی عدالت  کریگا جسکی  اسکے لوگ غلامی  کریں گے۔

خروج کے اس باب میں ہم یہی پڑھ رہے ہیں کہ مصر میں ایک نیا بادشاہ آیا جو کہ یوسف کو نہیں جانتا تھا۔   یوسف کے مرنے کی بعد کچھ ہی عرصے میں اسکی پہچان بھی ختم ہوگئی اور اسکے ساتھ ہی ساتھ بنی اسرائیلیوں کی آزادی بھی ختم ہوگئی۔ شاید آپ نے بھی کبھی کبھی ٹی-وی پر نامور لوگوں کی موت کا سنا اور دیکھا ہو۔ میں اکثر ایسا دیکھ کر سوچتی ہوں کہ میں کس قسم کی پہچان چاہتی ہوں۔ یوسف کی کہانی کا سوچ کر اور یہ آیت پڑھ کر مجھے ہمیشہ سے خیال رہا ہے کہ لوگ تو آپ کو آپ کی موت کے کچھ عرصے کے بعد بھول جائیں گے مگر اگر آپ کا خدا آپ کو پہچانتا ہے تو وہی سب سے اعلیٰ پہچان ہے۔ مجھے کسی قسم کی پہچان کی خواہش نہیں اگر پہچان کے معاملے میں کوئی خواہش ہے تو صرف اور صرف یہ کہ میں اپنے خداوند خدا کی نظر میں اچھی پہچان قائم رکھ سکوں۔  اگر آپ کو اپنا نام بنانے کا شوق ہے  تو ایک لمحے کے لئے ضرور سوچیں کہ آپ اپنا کس قسم کا نام چھوڑ کر اس دنیا سے جانا چاہتے ہیں۔ ایسا کہ دنیا یاد رکھے یا کہ پھر ایسا کہ کتاب حیات میں آپ کا نام ہمیشہ قائم رہے؟ مکاشفہ 20:15 میں لکھا ہے؛

 اور جس کسی کا نام کتاب حیات میں لکھا ہوا نہ ملا وہ آگ کی جھیل میں  ڈالا گیا۔

میں نے پیدائش کے مطالعے میں ذکر کیا تھا کہ یوسف کے دور میں ملک مصر کا جو فرعون تھا وہ مصری نہیں تھا بلکہ حیکسوس  تھا۔ یہ اس فرعون کا نام نہیں ہے بلکہ یہ وہ قوم تھی جنہوں نے کچھ عرصے تک ملک مصر پر راج کیا تھا۔  مگر پھر بعد میں مصری اپنے ملک کا قبضہ واپس لے پائے تھے۔ بنی اسرائیل کے ان 70 لوگوں کو  جو کہ یعقوب کے ساتھ ملک مصر میں یوسف کے پاس آئے تھے، خدا نے ایک زورآور قوم بنا ڈالا تھا اور ملک مصر ان سے بھر گیا تھا۔

ہم اگلی دفعہ خروج کے 1 باب کا باقی مطالعہ کریں گے۔

میری آپ کے لئے یہی دعا ہے کہ آپ کے نام برہ کی کتاب حیات میں  لکھے پائے جائیں تاکہ آپ قیامت کے دن آگ کی جھیل میں نہ ڈالے جائیں، یشوعا کے نام میں۔ آمین

مسیحی سبت کا دن  ہفتہ یا اتوار

میں کافی عرصے سے اس موضوع پر لکھنا چاہ رہی تھی  کیونکہ یہ واحد حکم ہے جسکے لیے لکھا ہے؛

خروج 20:9

یاد کر کے تو سبت کا دن پاک ماننا۔

جس حکم کو یاد کرکے پاک ماننے کا کہا گیا ہے اسکو بھلانے میں مسحیوں نے زیادہ وقت نہیں لگایا ہے۔  پورا حکم کلام میں اس طرح سے درج ہے (خروج 20:9 سے 11)؛

یاد کر کے تو سبت کا دن پاک ماننا۔ چھ دن تک تو محنت کرکے اپنے سارے کام کاج کرنا۔ لیکن ساتواں دن خداوند تیرے خدا کا سبت ہے اس میں نہ تو کوئی کام کرے نہ تیرا بیٹا نہ تیری بیٹی نہ تیرا غلام نہ تیری لونڈی نہ تیرا چوپایہ نہ کوئی مسافر جو تیرے ہاں تیرے  پھاٹکوں کے  اندر ہو۔ کیونکہ خدا وند نے چھ دن میں آسمان اور زمین اور سمندر اور جو کچھ ان میں ہے وہ سب بنایا اور ساتویں دن آرام کیا۔ اسلئے خداوند نے سبت کے دن کو برکت دی اور اسے مقدس ٹھہرایا۔

اسی حکم کو آپ استثنا 5:12 سے 15 میں بھی پڑھ سکتے ہیں جہاں لکھا ہے؛

تو خداوند اپنے  خدا کے حکم کے مطابق سبت کے دن کو پاک ماننا۔ چھ دن تک تو محنت کر کے اپنا سارا کام کاج کرنا۔ لیکن ساتواں دن خداوند تیرے خدا کا سبت ہے۔ اس میں نہ تو کوئی کام کرے نہ تیرا بیٹا نہ تیری بیٹی نہ تیرا غلام نہ تیری لونڈی نہ تیرا بیل نہ تیرا گدھا نہ تیرا کوئی اور جانور اور نہ کوئی مسافر جو تیرے پھاٹکوں کے اندر ہو تاکہ تیرا غلام اور تیری لونڈی بھی تیری طرح آرام کریں۔ اور یاد رکھنا کہ تو ملک مصر میں غلام تھااور وہاں سے خداوند تیرا خدا اپنے زور آور ہاتھ اور بلند بازو سے تجھ کو نکال لایا۔ اسلئے خداوند تیرے خدا نے تجھ کو سبت کے دن کو ماننے کا حکم دیا ہے۔

مجھے علم ہے کہ بہت سے مسیحی کہتے ہیں کہ ہم اب شریعت کے ماتحت نہیں اسلئے سبت کا پاک رکھنا لازمی نہیں  کیونکہ یسوع نے کہا (مرقس2:27 سے 28)؛

 اور اس نے ان سے کہا سبت آدمی کے لئے بنا ہے نہ آدمی سبت کے لئے۔ پس ابن آدم سبت کا بھی مالک ہے۔

اور وہ جو کہ جانتے ہیں کہ سبت شریعت کے دیے جانے سے پہلے ہی پاک مانا جاتا تھا تو وہ اپنی پوری کوشش کرتے ہیں کہ اتوار کو سبت کا دن پاک مانیں۔ مگر کیا اتوار سبت کا دن ہے؟

مسیحی چرچوں میں  ویسے تو اس بات کی تعلیم نہیں دی جاتی ہے کہ اتوار سبت کا دن ہے کیونکہ ہر کوئی اتوار کو ہی سبت کا دن تسلیم کرتا ہے مگر اگر کوئی غلطی سے کلام میں سے سوال کر بھی لے تو ہمارے پادری صاحبان انکو سمجھاتے ہیں کہ یسوع مسیح ہفتے کے پہلے دن جی اٹھا تھا اور نئے عہد نامے میں رسولوں نے   ہفتے کے پہلے دن مل بیٹھنا شروع کر دیا تھا (اعمال 20:7) اسلئے اب ہمیں ایسا کرنا فرض ہے۔   یہ کلام کی غلط تشریح ہے۔  کلام میں کہیں پر بھی سبت کا دن تبدیل کر کے ہفتے کا پہلا دن نہیں رکھ دیا گیا تھا۔ ان باتوں کے ثبوت کے لئے میرے ساتھ ان آیات کا مطالعہ کریں۔

کلام میں پیدائش 2:2 سے 3 میں لکھا ہے؛

اور خدا نے اپنے کام کو جسے وہ کرتا تھا ساتویں دن ختم کیا اور اپنے سارے کام سے جسے وہ کر رہا تھا ساتویں دن فارغ ہوا۔ اور خدا نے ساتویں دن کو برکت دی اور اسے مقدس ٹھہرایا کیونکہ اس میں خدا ساری کائنات سے جسے اس نے پیدا کیا اور بنایا فارغ ہوا۔

خدا نے ساتویں دن کو برکت دی اور اسے مقدس ٹھہرایا۔  مقدس ٹھہرانے کا مطلب آپ یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ انھیں عام سے الگ کر دیا گیا ہے   تاکہ خاص باتوں/چیزوں کے لئے استعمال ہو سکیں۔ ہفتے کے سات دن ہوتے ہیں مگر چھ دن کے بعد ساتویں دن کو خدا نے الگ کر دیا۔ خدا نے نہ صرف ساتویں دن کو برکت دی بلکہ اسے پاک بھی ٹھہرایا۔  پرانے عہد نامے میں آپ کو کیلنڈر کچھ ایسا ملے گا؛ پہلے ہفتے کے پہلے دن، یا پہلے مہینے کے ساتویں دن  وغیرہ وغیرہ۔ آپ مثال کے لئے احبار 23 باب کو پڑھ سکتے ہیں۔  اگر آپ پیدائش کے 1 باب سے کلام کو پڑھنا شروع کریں گے تو آپ جانیں گے کہ سبت کا دن تمام باتوں اور اشیا میں پہلا ہے جس کو  خدا نے  مقدس ٹھہرایا۔

خداوند نے  موسیٰ کو احبار 23:1 سے 3 میں ایسے حکم دیا؛

اور خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ۔ بنی اسرائیل سے کہہ کہ خداوند کی عیدیں جنکا تمکو مقدس مجمعوں کے لئے اعلان دینا ہوگا میری وہ عیدیں یہ ہیں۔ چھ دن کام کاج کیا جائے پر ساتواں دن خاص آرام کا اور مقدس مجمع کا سبت ہے۔ اس روز کسی طرح کا کام نہ کرنا۔ وہ تمہاری سب سکونت گاہوں میں خداوند کا سبت ہے۔

 اوپر آیت میں جہاں پر اردو کلام میں لفظ "عیدیں” لکھا ہے وہ عبرانی زبان میں "مویدیم،  מוּאדם ،  Moedim” جو کہ مقرر کردہ وقت کو بیان کرتا ہے۔سبت خداوند کا مقرر کردہ دن ہے نہ کہ یہودیوں کا۔  خداوند نے سبت کو اپنی عید کہا ہے۔  مجھے کچھ ان لوگوں کا بھی علم ہے  جو کہ کہتے ہیں کہ سبت  سوموار کو پڑ رہا ہے یا پھر ہفتے کے کسی اور دن۔ وہ ایسا  نئے چاند کے نظر آنے  کے مطابق یا پھر کچھ اور وجوہات کی بنا پر  بیان کرتے ہیں۔ جہاں تک اور جتنی ابھی تک مجھے کلام کی سمجھ آئی ہے وہ یہ ہے کہ سبت کا  نئے چاند کا نظر آنے سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ خداوند نے جب آسمان اور زمین کو بنایا تھا تو اس نے چھ دن کے کام کے بعد ساتواں دن آرام کا ٹھہرایا تھا  یعنی وہ وقت جب کہ اجرام فلکی کو تخلیق میں آئے  تین دن ہوئے تھے۔ اسلئے میں ان علما کی  سبت کی اس تعلیم کو رد کرتی ہوں۔

سبت ہفتہ نہیں بلکہ اتوار ہے۔:

زیادہ تر مسیحی علما جن کی بنیاد توریت کی تعلیم پر نہیں ہے وہ کلام سے کچھ آیات دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ پرانے عہد نامے کا سبت ہفتہ تھا مگر نئے عہد نامے کا سبت اتوار ہے کیونکہ مسیح اس دن جی اٹھا تھا۔   میں  ایک  ویب سائٹ کا لنک دے رہی ہوں جس میں انھوں نے  11 وہ آیات دی ہیں جس کے مطابق وہ سیونتھ ڈے ایڈ وینٹسٹ Seventh Day Adventist, کو غلط ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ میں سیونتھ ڈے ایڈوینٹسٹ کی تمام تعلیم سے متفق نہیں  مگر وہ سبت کے دن کو ہفتہ مانتے ہیں اور انکی اس تعلیم سے میں متفق ہوں۔  یہ ویب سائٹ https://carm.org/religious-movements/seventh-day-adventism/scriptures-dealing-first-day-week جو کہ  ان آیات کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اب شریعت کے ماتحت نہیں ہیں اسلئے ہفتے کو سبت کا دن پاک نہ ماننے کی ضرورت نہیں  ، مسیحیوں کو  خدا کی سچی تعلیم سے گمراہ کرنے میں کوشاں ہے۔  انھوں نے یہ آیات اپنی دلیل میں دی ہیں ان آیات کو کلام میں سے دیکھیں اور خود بھی میری ان باتوں پر غور کریں؛

  • یسوع ہفتے کے پہلے دن مردوں میں سے جی اٹھا (متی 28:1 سے 7، مرقس 16:2 اور 9، لوقا 24:1 اور یوحنا 20:1):

کیا خدا نے چھ دن کام کرنے کے بعد ساتواں دن آرام نہیں کیا تھا؟ سبت والا دن خداوند نے آرام کا ٹھہرایا ہے۔ یشوعا اپنے آسمانی باپ خداوند یہوواہ کے اس حکم کی فرمانبرداری ہی کر رہا تھا ۔ وہ کلام کے مطابق شریعت کو پورا کر رہا تھا، ساتواں دن آرام کا تھا  اسلئے وہ سبت ختم ہونے کے بعد پہلے دن  جو کہ ہفتے کی شام سے اتوار کی شام تک بنتا ہے ، جی اٹھا تھا۔ ہمیں اس بات کا علم ہے کہ عورتیں  منہ اندھیرے اسکی  قبر پر آئیں تھیں  جب انھوں نے یشوعا کو وہاں نہیں پایا تھا (یوحنا 20:1)، یہ کہنا غلط نہیں کہ یشوعا ہفتے کی شام کو سبت ختم ہونے کے بعد جی اٹھا تھا  نہ کہ اتوار کی صبح ۔

  • یسوع اپنے شاگردوں پر ہفتے کے پہلے دن ظاہر ہوا تھا (یوحنا 20:19):

اس آیت میں لکھا ہے "پھر اسی دن جو ہفتہ کا پہلا دن تھا شام کے وقت جب وہاں کے دروازے جہاں شاگرد تھے یہودیوں کے ڈر سے بند تھے یسوع آ کر بیچ میں کھڑا ہوا اور ان سے کہا تمہاری سلامتی ہو۔”  مجھے اس آیت میں یہ نظر نہیں آ رہا کہ خدا نے اپنے حکم   "سبت کے دن کو پاک ماننا” بدل کر اتوار رکھ دیا ہے۔

  •  یسوع اپنےگیارہ  شاگردوں پر  آٹھویں دن پھر سے ظاہر ہوا جب وہ کمرے میں  تھے ۔ یہودیوں کے دن گننے کے مطابق یہ پھر سے ہفتے کا پہلا دن تھا (یوحنا 20:26):

میری دلیل پھر سے وہی ہے کہ کہاں پر اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ خداوند نے نئے عہد نامے میں سبت کے دن کو بدل کر اتوار کر دیا ہے۔

  • روح القدس ہفتے کے پہلے دن، پینتکوست کو نازل ہوئی (احبار 23:16، اعمال 2:1):

مجھے سوچ کر ہنسی آ رہی ہے کہ ان لوگوں کو اتنا بھی علم نہیں کہ پینتکوست  کے دن کیسے گننا ہوتے ہیں اور یہ کہ یہ پہلی بار نہیں کہ شوعوت یعنی پینتکوست/عید خمسین اتوار کو پڑی تھی۔(آپ خود بھی دیکھ سکتے ہیں https://www.hebcal.com/holidays/shavuot)۔   اس آیت میں  جو بات قابل غور ہے وہ پینتکوست ہے کہ یشوعا نے اس عید کو کیسے کلام کی رو سے پورا کیا۔ اس سے یہ ہر گز مراد نہیں کہ سبت اب بدل کر اتوار ہو گیا ہے۔

  • پطرس نے پہلا پیغام ہفتے کے پہلے دن دیا تھا (اعمال 2:14):

 میں اس بارے میں بھی کیا کہوں انکی دی ہوئی تمام آیات یہ ہر گز ثابت نہیں کرتیں کہ سبت کا دن بدل کر اتوار ہوگیا ہے۔ پطرس نے پینتکوست والے دن جب یہودی لوگ خدا کے حکم کے مطابق شوعوت کے لئے ہیکل میں موجود تھے اور جب  یشوعا کو مسیحا ماننے والوں پر خداوند کا روح القدس نازل ہوا تھا تو پطرس نے ان لوگوں کے سوالوں کے جواب میں اپنی گواہی دی تھی اور انھیں مسیحا کی خوشخبری دی تھی۔ آپ اعمال 2 باب پورا خود بھی پڑھ سکتے ہیں۔

  • تین ہزار لوگ ہفتے کے پہلے دن کلیسیا میں شمار ہوئے تھے (اعمال 2:41)
  • تین ہزار لوگوں نے ہفتے کے پہلے دن بپتسمہ پایا تھا (اعمال 2:41):

میری دلیل ابھی بھی وہی ہے کہ یہ آیات ہر گز ثابت نہیں کرتیں کہ خداوند نے اپنے سبت کا دن بدل دیا ہے۔ آپ میرے عید پینتکوست/خمسین/شوعوت پر لکھا آرٹیکل پڑھ سکتے ہیں کہ کیسے یشوعا نے شریعت کے مطابق عید پینتکوست  کو پورا کیا https://backtotorah.com/?p=737 ۔

  • مسیحی ہفتے کے پہلے دن روٹی توڑنے کے لئے اکٹھے ہوئے۔
  • مسیحیوں نے پولس کا پیغام ہفتے کے پہلے دن سنا (اعمال 20:7) نوٹ: آدھی رات تک کا ریفرنس ہے جو کہ یہودیوں کے دن گننے کا طریقہ کار نہیں بلکہ رومن کا طریقہ کار ہے۔:

میں چونکہ میسیانک یہودیوں کی عبادت میں شامل ہوتی ہوں اسلئے یہودیوں/میسیانک یہودیوں کی اس رسم کو اچھی طرح جانتی ہوں جس کو "حودالاہ،  הַבְדָּלָה، Havdalah” کہتے ہیں۔ ہمارا سبت جمعے کی شام سے ہفتے کی شام تک ہوتا ہے۔ سبت کے آخر میں "حودالاہ” کی رسم ہوتی ہے جس میں شام کا کھانا اور مے کا پینا  ہوتا ہے۔ عموماً ہفتے کا پہلا دن شروع ہو چکا ہوتا ہے کیونکہ یہ سبت کے آخر یعنی  ہفتے کی شام کی رسم ہوتی ہے۔ ہفتے کی شام سے پہلا دن شروع ہو رہا ہوتا ہے۔ پولس انکے ساتھ تھا اور چونکہ وہ سب "حودالاہ” کی رسم کے لئے اکٹھے تھے اور پولس کو اگلے دن سفر پر جانا تھا اسلئے وہ ان سے آدھی رات تک باتیں کرتا رہا۔یہاں پر بات رومن کیلنڈر کے مطابق نہیں بلکہ عبرانی کیلنڈر کے مطابق ہو رہی ہے اسلئے  ان باتوں کو عبرانی کیلنڈر کو مدنظر میں رکھ کر سوچیں۔  بات وہی آ جاتی ہے کہ یہ آیات ہفتے کا پہلا دن بدل کر اتوار ہو جانے کی نشاندہی نہیں کرتا ہے۔

  • پولس نے کلیسیا کو تاکید کی کہ چندہ ہفتے کے پہلے دن الگ کر دیا جائے (1 کرنتھیوں 16:2):

 باقی تمام آیات کی طرح یہ آیت بھی اس بات کو ثبوت نہیں کہ خداوند نے اپنا سبت کا دن بدل ڈالا۔

  • یسوع نے یوحنا کو مکاشفہ ہفتے کے پہلے دن دیا (مکاشفہ 1:10):

انھیں علم نہیں ہے کہ خداوند کا دن کس کو کہتے ہیں۔   آپ حنین وقاص خان کا لکھا آرٹیکل پڑھ سکتے ہیں جس میں انھوں نے "خداوند کے دن” کو بیان کیا ہے۔ https://backtotorah.com/?p=47

یہ حوالے تو میں نے اس ویب سائٹ سے  دئے ہیں۔ اب وہ لوگ جو کہ کلسیوں 2:16 کو اپنی اس بات کو ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ ؛

پس کھانے پینے یا عید یا نئے چاند یا سبت کی بابت کوئی تم پر الزام نہ لگائے۔

ذرا اس سے اگلی آیت کو بھی پڑھ لیں جس میں لکھا ہے

2:17

کیونکہ یہ آنے والی چیزوں کا سایہ ہیں مگر اصل چیزیں مسیح کی ہے۔

(مجھے توریت کو شریعت کہنا زیادہ پسند نہیں۔ آپ کی سمجھ کی خاطر اسے شریعت لکھتی ہوں۔ کیونکہ توریت کے معنی "شریعت” ہرگز نہیں۔ یہ اسکا غلط ترجمہ ہے۔)    یہ بات میں پہلے بھی کسی آرٹیکل میں کہہ چکی ہوں کہ آپ تو  شریعت کے مطابق کھانے پینے یا خدا کی عیدوں یا نئے چاند یا سبت  کو نہیں مناتے۔ پولس یعنی ربی شاؤل یہ ان لوگوں سے نہیں کہہ رہا تھا جو کہ شریعت یعنی توریت کی ان باتوں پر عمل نہیں کرتے تھے۔ ربی شاؤل یعنی پولس ان لوگوں سے مخاطب تھا جو کہ ان باتوں پر عمل کرتے تھے ۔  عام مسیحی ہم میسیانک یہودی  لوگوں پر ان باتوں کے سبب سے الزام لگاتے ہیں۔ اور میری نظر میں یہ بھی آیت اس بات کا ثبوت ہرگز نہیں کہ خداوند کا دن "سبت” بدل کر اتوار ہوگیا ہے۔  وہ مسیحی جو کہ ساتھ ہی میں مرقس 2:27 سے 28 کو اپنے اس مقصد کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ ابن آدم یعنی یسوع سبت کا مالک ہے تو انھیں تھوڑا سا اپنی عقل کو استعمال میں لانے کی ضرورت ہے۔  یشوعا مرقس 2:28 کے حوالے میں ان فریسیوں سے مخاطب تھا جو کہ  اسکے شاگردوں پر سبت کو توڑنے کا الزام لگا رہے تھے۔ توریت میں اس طرح سے بالیں توڑنے کر کھانے سے منع نہیں کیا گیا۔ یہ فریسیوں کے اپنے بنائے ہوئے اصول تھے جن پر وہ لوگوں کو سختی سے چلنے کی تعلیم دیتے تھے۔ فریسی وہ لوگ تھے جو کہ خداوند کی توریت سے زیادہ سختی سے تلمود پر عمل کرتے تھے۔ اگر آپ کو نہیں علم کہ تناخ اور تلمود میں کیا فرق ہے تو اسکے لئے میرا  یہ آرٹیکل https://backtotorah.com/?p=716 پڑھیں۔  یشوعا انکو سمجھا رہا تھا کہ وہ سبت کا مالک ہے بالکل  ویسے ہی جیسے کہ ہم نے اوپردئے ہوئے  احبار 23 کے حوالے میں دیکھا کہ سبت یہوواہ کا مقرر کردہ دن ہے ۔  یشوعا ساتھ ہی میں  انکو یہ بھی سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ سبت کو خدا نے آدمیوں کے لئے بنایا ہے مگر آدمی کو سبت کے لئے نہیں۔ مطلب سادہ سا ہے کہ خدا نے انسان کو سبت کا آرام دیا تھا اسکو بوجھ بنا کر اس پر نہیں رکھا تھا۔ اور فریسی اپنے بنائے ہوئے اصولوں کے سبب سے لوگوں  پر روحانی بوجھ ڈالنے والوں میں سے تھے۔   جو سادہ سی بات میں آپ کو اگر واضح نہیں کر پا رہی تو میری خدا سے دعا ہے کہ وہ آپ پر اسکو واضح کرے۔

شاید آپ مجھے رومیوں 14:5 سے 6 کا حوالہ پیش کر کے کہنا چاہیں کہ مسیحیوں کے لئے سبت کی کوئی پابندی نہیں۔ برائے مہربانی پورے باب کو دھیان سے پڑھیں۔ یہاں پر کمزور ایمان والے اور مظبوط ایمان والے کی بات چل رہی ہے۔  خداوند کا دن سبت بدل کر اتوار ہو جانے کی بات نہیں ہو رہی ہے۔  یا پھر شاید آپ کے ذہن میں گلتیوں 4:9 سے 10 آیات ہوں۔ کیا آپ کو علم ہے کہ پولس  نے کس بات پر گلتیوں کی کلیسیا کو یہ خط لکھا تھا؟ کلام کی آیات کو تروڑ مروڑ کر اپنے مقصد کے لئے استعمال نہ کریں۔ میں اکثر کہتی ہوں کہ توریت ، بائبل کے باقی تمام صحیفوں کی بنیاد ہے۔ اگر آپ دس حکموں پر عمل کرتے ہیں تو کیا "یاد کرکے سبت کے دن کو پاک ماننا” دس حکموں میں سے ایک نہیں؟ کیا آپ صرف سبت کے دن کو پاک ماننے کو شریعت کا حصہ کہہ کر رد کر  سکتے ہیں؟

نئے عہد نامے میں بارہا ہم رسولوں کے بارے میں پڑھتے ہیں کہ سبت والے دن  عبادت گاہ میں تھے۔ سبت والا دن  صرف خدا کی عبادت ہی نہیں کی جاتی تھی بلکہ اس دن کلام کو  اور گہرائی میں سیکھا جاتا تھا۔ تمام یہودی اور میسیانک یہودی عبادت گاہوں میں آج بھی عبادت کے علاوہ  کچھ اور وقت کلام کو سیکھنے میں صرف ہوتا ہے۔  ہمیں انھی موقعوں پر رسولوں کا عبادت گاہ میں یہودیوں کے ساتھ بحث کا ذکر نظر آئے گا۔  نئے عہد نامے کے رسول ، خدا کے حکم کے مطابق مقدس مجمع کا  ہر سبت کو حصہ بنتے تھے۔ آپ اعمال کی کتاب میں جہاں جہاں سبت لکھا ہوا ہے اسکو نوٹ کر سکتے ہیں کہ اعمال 2 باب کے بعد بھی کافی دفعہ رسول سبت کے دن عبادت گاہ میں تھے کیونکہ انھیں علم تھا کہ سبت کا دن بدل کر پہلا دن نہیں ہوگیا ہے۔

اپنا کیلنڈر  بھی دیکھیں کہ کیا ہفتے کا آخری دن ہفتہ ہے یا اتوار؟  اگر خداوند نے نہیں کہا کہ "اب سبت ہفتے کی جگہ اتوار ہے تو پھر سبت کا دن کلام کے مطابق کونسا بنے گا؟ پورے نئے عہد نامے کو تسلی سے پڑھیں تاکہ خود بھی جان سکیں کہ نئے عہد نامے میں کہیں پر بھی خدا نے سبت کا دن نہیں بدلا ہے۔

مسیحیوں کو سبت کا دن  "جمعے کی شام سے ہفتے کی شام تک” کیوں پاک ماننا چاہئے:

یسعیاہ 56:2 میں لکھا ہے ؛

مبارک ہے وہ انسان جو اس پر عمل کرتا ہےاور وہ آدمزاد جو اس پر قائم رہتا ہے جو سبت کو مانتا اور اسے ناپاک نہیں کرتا اور اپنا ہاتھ ہر طرح کی بدی سے پاک رکھتا ہے۔

میں نے اوپر ذکر کیا تھا کہ تمام اشیا میں  سب سے پہلے خدا نے سبت کو مقدس ٹھہرایا تھا۔ خداوند نے کہا خروج 31:12 سے 17 میں؛

اور خداوند نے بنی اسرائیل سے کہا۔ تو بنی اسرائیل سے یہ بھی کہہ دینا کہ تم میرے سبتوں کو ضرور ماننا۔ اسلئے کہ یہ میرے اور تمہارے درمیان تمہاری پشت در پشت ایک نشان رہیگا تاکہ تم جانو کہ میں خداوند تمہارا پاک کرنے والا ہوں۔ پس تم سبت کو ماننا اسلئے کہ وہ تمہارے لئے مقدس ہے۔ جو کوئی اسکی بے حرمتی کرے وہ ضرور مار ڈالا جائے۔ جو اس میں کچھ کام کرے وہ اپنی قوم سے کاٹ ڈالا جائے۔ چھ دن کام کاج کیا جائے لیکن ساتواں دن آرام کا سبت ہے جو خداوند کے لئے مقدس ہے۔ جو کوئی سبت کے دن کام کرے وہ ضرور مار ڈالا جائے۔ پس بنی اسرائیل سبت کو مانیں اور پشت در پشت اسے دائمی عہد جانکر اسکا لحاظ رکھیں۔ میرے اور بنی اسرائیل کے درمیان یہ ہمیشہ کے لئے ایک نشان رہیگا اسلئے کہ چھ دن میں خداوند نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور ساتویں دن آرام کرکے تازہ دم ہوا۔

آپ لوگوں کی اردو میری اردو سے یقیناً زیادہ اچھی ہوگی۔ آپ کو خود کو علم ہوگا کہ "دائمی” اور پشت در پشت” جیسے الفاظ کا کیا مطلب ہے۔ سبت خدا کے لوگوں کا نشان ہے جو خداوند اور انکے بیچ میں ہے۔ سوچنا یہ ہے کہ  کیا آپ خداوند کے لوگوں میں شمار ہوتے ہیں یا کہہ نہیں۔ ہم اس  دائمی نشان کا حوالہ کلام میں سے حزقی ایل 20:12 اور 20 میں بھی دیکھ لیتے ہیں کیونکہ ہر بات دو یا تین کی گواہی سے ثابت کرنا بہتر ہے؛

اور میں نے اپنے سبت بھی انکو دئے تاکہ وہ میرے اور انکے درمیان نشان ہوں تاکہ وہ جانیں کہ میں خداوند انکا مقدس کرنے والا ہوں۔

اور میرے سبتوں کو مقدس جانو کہ وہ میرے اور تمہارے درمیان نشان ہوں تاکہ تم جانو کہ میں خداوند تمہارا خدا ہوں۔

وہ جو سوچتے ہیں کہ مسیحیوں پر سبت پابند نہیں ہے انھیں کلام کی اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یسعیاہ 66:22 سے 23 میں لکھا ہے؛

خداوند فرماتا ہے جس طرح نیا آسمان اور نئی زمین جو میں  بناؤنگا میرے حضور قائم رہینگے اسی طرح تمہاری نسل اور تمہارا نام باقی رہیگا۔ اور یوں ہوگا خداوند فرماتا ہے کہ ایک نئے چاند سے دوسرے تک اور ایک سبت سے دوسرے تک ہر فردِ بشر عبادت کے لئے میرے حضور آئیگا۔

نئے آسمان اور نئی زمین پر بھی خداوند کا سبت قائم رہیگا تو پھر اسکو بدلنے والے ہم کون ہوتے ہیں۔  یشوعا شریعت کے مطابق موا اور سبت  ختم ہونے کے بعد جی اٹھا۔ اس نے شریعت کو پورا کیا اور ابھی سبتوں کے سبت یعنی یوم کیپور کو اپنی دوسری آمد پر پورا کرنا ہے (اسکے لئے میرا "یوم کیپور” کا آرٹیکل پڑھیں۔

سبت کو کیسے پاک رکھنا ہے؟

میں نے جب خداوند کی سبت کو پاک رکھنے کا سوچا تو شروع میں جب مجھے تلمود اور تناخ  کے احکامات   کا اتنا علم نہیں تھا ، مجھے یہ دن پاک رکھنا بوجھ سا لگنے لگا۔ اپنی  چند امریکی میسیانک یہودی دوستوں سے بات کرتے ہوئے میں نے ان سے پوچھا کہ وہ کیسے اس دن کو پاک مانتے ہیں کیونکہ اپنی اپاہج بیٹی کی وجہ سے مجھے کوئی نہ کوئی کام کرنا پڑ  ہی جاتا ہے۔ میری دو دوست جو کہ عمر میں میری ماں کے برابر ہیں، انھوں نے کہا "شازیہ ، خدا نے کلام میں کہیں عورتوں پر یہ پابندی نہیں لگائی کہ بچوں   اور دوسروں کی فکر چھوڑ کر صرف اور صرف اس میں مگن رہنا ہے۔ ابن آدم سبت کا مالک ہے ۔ سبت انسان کے لئے بنا ہے نہ کہ انسان سبت کے لئے۔”میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ رسموں میں اگر خدا نہ ہو تو بس رسم رہ جاتی ہے۔  رسمیں خدا کے حکموں سے بڑھ کر نہیں ہیں۔  کلام ہمیں  سبت والے دن کوئی کام نہ کرنے کا کہتی ہے۔  کام سے مراد پیسہ بنانے کی نیت ہے یا پھر کوئی ایسا بھاری کام جو کہ ہمیں خدا  کے دن کو پاک ماننے سے دور کر دے۔  اوپر دی ہوئی آیات کو تو آپ ایک بار پھر سے پڑھ سکتے ہیں ، میں خروج 35:1 سے 3 نیچے درج کرنے لگی ہوں۔ اس میں لکھا ہے؛

اور موسیٰ نے بنی اسرائیل کی ساری جماعت کو جمع کرکے کہا جن باتوں پر عمل کرنے کا حکم خداوند نے تمکو دیا ہے وہ یہ ہیں۔ چھ دن کام کاج کیا جائے لیکن ساتواں دن تمہارے لئے روزِمقدس یعنی خداوند کے آرام کا سبت ہو۔ جو کوئی اس میں کچھ کام کرے وہ مار ڈالا جائے۔ تم سبت کے دن اپنے گھروں میں کہیں بھی آگ نہ جلانا۔

آگ نہ جلانے سے مراد یہ تھی کہ اس دن کھانا نہ پکانا پڑے۔ اگر آپ خروج 16:21 سے 30 پڑھیں گے تو اس میں نظر آئے گا کہ سبت کے دن کی خوراک کو بنی اسرائیل کو سبت سے پچھلے دن جمع کرنا ہوتا تھا کیونکہ سبت کے دن خدا من نہیں برساتا تھا۔  سبت کے دن خاص مجمع کا ذکر تو ہم نے شروع کی آیات میں پڑھا تھا۔ تبھی سبت کے دن عبادت گاہ میں جمع ہونا ہمیں کلام میں بارہا نظر آئے گا۔

یہودی/میسیانک یہودی  کے گھروں میں آپ کو سبت سے متعلق   یہ رسومات عام نظر آئیں گی مگر زیادہ تر رسمیں کلام میں حکم کے طور پر درج نہیں ہیں۔ سبت جمعے کی شام کو سورج ڈھلنے کے ساتھ شروع ہوجاتا ہے اور اگلے دن  یعنی ہفتے کی شام کو ختم ہوتا ہے۔  عموماً لوگ سبت کی خوشی میں اچھا کھانا پکاتے ہیں اور مے کا انتظام کرتے ہیں۔ سورج کے ڈھلنے اور سبت کے شروع ہونے کے وقت گھر کی عمر میں بڑی عورت  دو موم بتیاں جلاتی ہے اور چھوٹی سی برکت کی دعا مانگتی ہے اور بچوں کو بھی ہاتھ رکھ کر برکت دیتی ہے۔ روایتی یہودی/میسیانک یہودی صدقے کا چھوٹا سا صندوق موم بتیوں کے قریب رکھتے ہیں جس میں وہ عموماً بچوں کو پیسے ڈالنے کے لئے کہتے ہیں۔  مقصد خداوند کے اس حکم پر عمل کرنا ہے کہ  خیرات دی جائے۔ بچوں کی چھوٹی سی عمر میں دوسروں کی مدد کرنے کو سکھانے کے لئے یہ اچھی عادت ہے۔  دعائیہ کتاب سے کچھ دعائیں پڑھی جاتی ہیں یا اپنی ذاتی دعا مانگی جاتی ہے۔ کلام کی آیات کو پڑھنا، حمد و ثنا کے گیت گانا یہ سبت  کا حصہ ہیں۔ کچھ عبادت گاہوں میں آجکل سبت کی عبادت جمعے کی شام کو بھی ہوتی ہے اور کچھ صرف ہفتے کے دن عبادت رکھتے ہیں۔ اسکا مقصد خدا کے حکم کے مطابق  "مقدس مجمع” ہے۔ میں جس میسیانک یہودی عبادت گاہ جاتی ہوں وہاں  ہفتے کی صبح سبت کی عبادت کے بعد اکٹھے دوپہر کا کھانا کھایا جاتا ہے جو کہ کلیسیا کے لوگ مل کر اپنے اپنے گھروں سے لاتے ہیں۔  اس رسم  کو عبرانی میں "اونے(گ)،  עֹ֫נֶג Oneg, ” کہا جاتا ہے اسکے معنی ہیں "مسرت بخش، لطف اندیز، خوشی یا راحت”۔ عبرانی کلام میں یسعیاہ 58:13 میں ہمیں یہ لفظ نظر آتا ہے؛

اگر تو سبت کے روز اپنا پاؤں روک رکھے اور میرے مقدس دن اپنی خوشی کا طالب نہ ہو اور سبت کو راحت اور خداوند کا مقدس اور معظم کہے اور اسکی تعظیم کرے۔ اپنا کاروبار نہ کرے اور اپنی خوشی اور بے فائدہ باتوں سے دست بردار رہے۔

میں اس سے اگلی آیت بھی آپ کے لئے لکھ رہی ہوں؛

تب تو خداوند میں مسرور ہوگا اور میں تجھے دنیا کی بلندیوں پر لے چلونگا اور میں تجھے تیرے باپ یعقوب کی میراث سے کھلاونگا کیونکہ خداوند ہی کے منہ سے یہ ارشاد ہوا ہے۔

اونے(گ)  کے بعد ہر عمر کے لوگوں کی عموماً کسی نہ کسی قسم کی کلاس ہوتی ہے تاکہ کلام کو مزید سیکھا جا سکے۔  حودالاہ کے بارے میں ، میں نے اوپر بھی ذکر کیا تھا کہ سبت کے ختم   ہونے کی رسم ہے۔ ہماری عبادت گاہ میں ، ہم  ہر مہینے کی پہلی سبت پر حودالاہ کی رسم پر اکٹھے ہوتے ہیں ورنہ  ویسے گھروں  میں عموماً سبت کو  حودالاہ کی رسم سے ختم کیا جاتا ہے اور دعا مانگی جاتی ہے کہ خداوند اگلا پورا ہفتہ اچھا دکھائے وغیرہ وغیرہ۔

میں جانتی ہوں کہ چونکہ ہم بچپن سے ہی ان رسموں پر نہیں چلتے آئے ہیں اسلئے شروع شروع میں جہاں بہت سی باتیں اچھی لگتی ہیں وہیں پر کبھی کبھی یہ بوجھ بھی محسوس ہوتی ہیں۔ آپ سبت کو پاک ماننے کا اردہ کریں خداوند ضرور آپ کی مدد کریگا اور خود اپنے ان احکامات کی اہمیت آپ کو دکھائے گا۔   جیسے میں نے بیان کیا   یہ تمام رسمیں خداوند کے حکموں کا حصہ نہیں ہیں مگر یہی رسمیں ہمیں کلام میں رسولوں کی زندگی کا حصہ نظر آتی ہیں مگر وہ جو کہ ان رسموں کو نہیں جانتے وہ ہمیشہ غلط فہمی کا شکار رہیں گے۔  یہ میرا سبت کے موضوع پر مختصر سا آرٹیکل تھا۔ امید ہے کہ آپ کو میری ان باتوں سے کلام کی باتوں کو پہچاننے میں مدد ملی ہوگی اور آپ اپنے اور خداوند کے درمیان اس دائمی عہد کو مٹننے نہیں دیں گے بلکہ اسے پاک رکھیں گے۔

شبات شلوم! یہ  سبت والے دن کہا جاتا ہے۔ شبات عبرانی میں سبت کو کہتے ہیں اور شلوم کے معنی ہیں "سلامتی”۔ اگر آپ سبت کا دن پاک مانتے ہیں تو اس  اصطلاح کو بھی اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں۔ جب کوئی آپ کو شبات شلوم کہے تو آپ بھی اس پر سبت کی سلامتی "شبات شلوم ” کہہ کر بھیجیں۔ خداوند آپ کی  اپنا مقدس دن پاک رکھنے میں  خود راہنمائی کرے، یشوعا کے نام میں۔ آمین

(روت 4 باب (دوسرا حصہ

یہ ہمارا روت کی کتاب کے مطالعے کا آخری حصہ ہے۔ ہم نے پچھلے حصے میں پڑھا تھا کہ نعومی کے اس نزدیکی رشتے دار نے جو کہ بوعز سے زیادہ نزدیک تھا، نعومی کی زمین   کو مول لینے اور روت کو اپنی بیوی بنانے سے انکار کر دیا تھا۔  اس نزدیکی قرابتی نے بوعز سے کہا کہ وہ آپ ہی اسے مول لے لے۔ پھر اس نے اپنی جوتی اتار ڈالی کیونکہ وہ اپنے فیصلے کی تصدیق کر رہا تھا۔ اسرائیل میں اس زمانے میں ایسے ہی فیصلوں کی تصدیق کی جاتی تھی۔

 بوعز نے بزرگوں اور لوگوں سے کہا کہ وہ اسکے گواہ ہیں  کہ بوعز نے الیملک اور کلیون اور محلون کا سب کچھ نعومی کے ہاتھ سے مول لے لیا اور محلون کی بیوہ روت  کو بھی کہ وہ اسکی بیوی بنے تاکہ اس مُردہ کے نام کو اسکی میراث میں قائم کرے۔ بوعز  کو اس سودے میں کوئی ذاتی فائدہ نہیں تھا وہ  ایک موآبی عورت کو اپنانے لگا تھا جس کو دوسرا نزدیکی رشتے دار نہیں اپنانا چاہتا تھا۔ زمین کو خریدنے کے لئے اسے اپنے پیسے لگانے تھے اور روت سے  جو پہلا بچہ ہونا تھا وہ مرحوم کے نام کا ہونا تھا۔ نا صرف یہ بلکہ بعد میں بوعز کو اس بچے کو مرحوم کی اس میراث کا مالک ٹھہرانا تھا جو اس نے اپنے پیسے دے کر خریدی تھی۔ یہوداہ کے بیٹے اونان جو کہ جان بوجھ کر تمر سے اولاد نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ  اولاد اسکے نام سے نہیں جانی جانی تھی بلکہ مرحوم کے، اسکے مردانہ گھمنڈ کو ظاہر کرتا تھا ، یہ گھمنڈ  بوعز میں موجود نہیں تھا۔  تبھی بوعز کو ان بزرگوں نے دعا تھی۔ (روت 4 باب (دوسرا حصہ پڑھنا جاری رکھیں

(روت 4 باب (پہلا حصہ

آپ کلام میں سے روت 4 باب پورا خود پڑھیں میں صرف وہی آیات لکھونگی جسکی ضرورت سمجھوں گی۔

ہم  نے پچھلے باب میں پڑھا تھا کہ روت نے بوعز کو قرابت کا حق ادا کرنے کو کہا تھا۔   بوعز جانتا تھا کہ وہ نعومی کے قرابتیوں میں سے ایک ہے۔ کسی  بھی قرابتی نے خودکوشش نہیں کی   کہ نعومی کا یا پھر روت کا حق ادا کر سکیں۔ یہ بھی ایک وجہ ہوسکتی ہے کہ نعومی اور روت نے یہ قدم اٹھایا۔ ہمارا  روت 4 باب اس آیت سے شروع ہوتا ہے کہ بوعز پھاٹک کے پاس جا کر وہاں بیٹھ گیا۔ میں نے لوط کی کہانی میں ذکر کیا تھا کہ پھاٹک  پر بیٹھے ہوئے لوگوں کے بارے میں آپ اس طرح سے سوچ سکتے ہیں کہ وہ ہمارے ماڈرن زمانے کی عدالت ہے۔ شہر کے بڑے  معزز دار لوگ اور  چنے ہوئے بوڑھے شہر کے لوگوں کے مسلئے مسائل کا فیصلہ کرتے تھے۔  جب بوعز سے زیادہ نزدیک کا قرابتی وہاں آ نکلا تو بوعز نے اسے ادھر بیٹھنے کو کہا۔ کلام میں عموماً غیر ضروری نام درج نظر نہیں آتے ہیں۔  بوعز تو ضرور اس رشتے دار کو نام سے جانتا ہوگا مگر روت کی کتاب کے مصنف کو اسکا نام لکھنا غیر ضروری محسوس ہوا ہوگا تبھی اسکا  نام درج نہیں ہے۔ نہ صرف بوعز نے اس  نزدیکی قرابتی رشتے دار کو بلوایا بلکہ ساتھ میں شہر کے بزرگوں میں سے دس آدمیوں کو بھی بلا کر کہا کہ وہ یہاں بیٹھ جائیں۔ ربیوں کی تشریح کے مطابق کم سے کم دس بزرگ  /گواہ ہونے چاہیے جو کہ صحیح فیصلہ دے سکیں یا گواہ بن سکیں۔  پھر بوعز زندیکی قرابتی سے یوں مخاطب ہوا (روت 4:3 سے 4): (روت 4 باب (پہلا حصہ پڑھنا جاری رکھیں

روت 3 باب

روت کے مطالعے کے پچھلے حصے کے آخر میں ہم نے پڑھا تھا کہ نعومی نے روت کو  مشورہ دیا تھا کہ  وہ بوعز کے پاس اسکے کھلہیان میں  جائے۔   اب ہم اس سے آگے کا مطالعہ کرتے ہیں۔روت ، اپنے شوہر کے مرنے کے بعد بیواؤں کے لباس میں سادگی سے رہتی ہو گی تبھی اسکی ساس نے اسے  خوشبو لگا کر پوشاک پہننے کا کہا تھا۔  روت نے ویسا ہی کیا جیسا کہ اسکی ساس نے اسے کہا تھا۔ اس  نے بوعز کے سونے کا انتظار کیا۔ بوعز نےکھایا پیا اور اسکا دل خوش ہوا۔  بوعز نے مے پی ہوئی تھی جس سے اسکا دل خوش ہوا۔  زبور 104:15 میں مے کے لئے ایسے لکھا ہوا ہے؛

اور مے جو انسان کے دل کو خوش کرتی ہے اور  روغن جو اسکے چہرہ   کو چمکاتا ہے اور روٹی جو آدمی کے دل کو توانائی بخشتی ہے۔ روت 3 باب پڑھنا جاری رکھیں

روت 2 باب (دوسرا حصہ) اور 3 باب

پچھلے حصے میں ہم نے پڑھا تھا کہ بوعز نے  روت پر کرم کی نظر کی۔  روت نے اپنے آپ کو بوعز کی لونڈیوں سے بھی کم تر جانا مگر خدا نے اسے عزت دی۔ اب ہم آگے کا باقی حصہ پڑھتے ہیں۔

بوعز نے روت کو  اپنی فصل  کاٹنے والوں کے ساتھ کھانا کھانے کو کہا اور اس نے روت کو اتنا کھانے کو دیا کہ نہ صرف اس نے   جی بھر کر کھایا بلکہ  اپنی ساس کے لئے بھی  کچھ کھانا چھوڑ دیا۔ بوعز نے اپنے کام کرنے والوں کو خاص کہا کہ وہ روت کو ملامت نہ کریں اوراسکو پولیوں کے درمیان میں بھی چننے دیں۔  پولیوں کے درمیان  چننا غریبوں کو اس کی اجازت نہیں تھی کیونکہ وہ کھیت کے مالک کا حق تھا۔ بوعز نے روت کے لئے بڑھ کر کیا یہاں تک کہ اسکے لئے حکم دیا کہ اسکے لئے گٹھروں میں سے بھی بالیں  نکالکر رکھ چھوڑیں۔ بوعز یقیناً خدا کے حکموں  کے مطابق عمل کرنے والوں میں سے تھا کیونکہ احبار 19:33 سے 34 میں لکھا ہے؛

 اور اگر کوئی پردیسی تیرے ساتھ تمہارے ملک میں بودوباش کرتا ہو تو تم اسے آزار نہ پہنچانا۔ بلکہ جو پردیسی تمہارے ساتھ رہتا ہو اسے دیسی کی مانند سمجھنا بلکہ تو اس سے اپنی مانند محبت کرنا اسلئے کہ تم ملک مصر میں پردیسی تھے۔ روت 2 باب (دوسرا حصہ) اور 3 باب پڑھنا جاری رکھیں

(روت – 2 باب (پہلا حصہ

آپ کلام میں سے روت 2 باب پورا خود پڑھیں۔ میں وہی آیات لکھونگی جس کی ضرورت سمجھونگی۔

ہم نے پچھلے باب کے آخری حصے میں پڑھا تھا کہ نعومی اور روت واپس بیت لحم پہنچے۔  روت نے جانتے بوجھتے نعومی کے ساتھ آنا چاہا تھا۔ نعومی  نے تو اسے صاف صاف بتا ہی دیا تھا کہ روت کا اسکے ساتھ رہنا  روت کے لئے شاید فائدہ مند نہ ہو۔ نعومی نے روت کو اپنی دنیاوی خواہشات کی قربانی چڑھاتے دیکھا تھا۔ روت کو دنیاوی سے زیادہ روحانی خواہشات پوری کرنے میں خوشی تھی۔

بیت لحم واپس آکر اس نے اپنی ساس سے کہا  کہ وہ اسے اجازت دے کہ وہ جا کر کسی کھیت میں  کاٹنے والوں کے پیچھے پیچھے بالیں چنے۔ احبار 19:9 سے 10 میں خدا نے اپنے لوگوں کو اس بات کا حکم دیا تھا؛ (روت – 2 باب (پہلا حصہ پڑھنا جاری رکھیں