(پیدائش 37 باب (دوسرا حصہ

image_pdfimage_print

پچھلے حصے میں ہم نے پڑھا کہ یعقوب کو یوسف سے زیادہ پیار تھا اور یوسف نے کچھ خواب دیکھے جو اس نے اپنے گھر والوں کو بھی بتائے۔ انھی باتوں کی وجہ سے یوسف کے بھائی اسکو ناپسند کرتے تھے۔ یوسف کے خواب اسکے مستقبل کی پیشن گوئی کر رہے تھے۔ آپ نے شاید میرا آرٹیکل "مسیحا بن یوسف اور مسیحا بن داود” پڑھا ہو اگر نہیں تو آپ اسے میری ویب سائٹ پر https://backtotorah.com/?p=49 پڑھ سکتے ہیں۔ یوسف کے الفاظ اسکے بھائیوں کو پسند نہیں تھے ویسے ہی یشوعا کے الفاظ بھی اسکے بھائیوں (یہودیوں) کو پسند نہیں آئے تھے جب اس نے انہیں انکے بارے میں سچائی بیان کی۔ یوسف کے خوابوں کو پورا ہونے میں ابھی دیر تھی۔ کلام میں حبقوق 2:3 میں لکھا ہے؛

کیونکہ یہ رویا ایک مقرر وقت کے لئے ہے یہ جلد وقوع میں آئے گی اور خطا نہ کرے گی۔ اگرچہ اس میں دیر ہو تو بھی اسکا منتظر رہ کیونکہ یہ یقیناً وقوع میں آئے گی۔ تاخیر نہ کرے گی۔

کیا آپ کو اپنی زندگی میں کوئی ایسا خواب یاد ہے جو کہ آپ کو ابھی تک یاد ہو اور آپ کے خیال میں وہ ابھی تک پورا نہیں ہوا۔ اگر ایسا ہے تو اسکے پورے ہونے کے منتظر رہیں۔ خداوند اپنے دکھائے ہوئے خواب کو ضرور حقیقت بنائے گا۔ اس سے پیشتر کے یوسف کے یہ خواب پورے ہوتے اسکے ساتھ وہ ہونے لگا تھا جسکا اس نے کبھی سوچا نہ تھا۔ جتنا بڑا خواب اتنی ہی بڑی مصیبت۔۔۔
ایک دن یعقوب نے یوسف کوکہا کہ اپنے بھائیوں کی خبر لائے جو کہ سکم میں بھیڑ بکریاں چرا رہے ہیں۔ اگر کلام میں یوسف کا حوالہ ملتا ہے کہ اسکے باپ نے اسے اسکے بھائیوں کی خبر کے لیے بھیجا تو ہمیں داود بادشاہ کی کہانی کا بھی حوالہ ملتا ہے جس کے باپ نے اسے بھی اپنے بھائیوں کی خبر لینے اور روٹی دینے کو بھیجا تھا جو کہ جنگ پر تھے۔ ان باتوں کو میرے آرٹیکل "مسیحا بن یوسف اور مسیحا بن داود ” کا ذہن میں رکھ کر سوچیں۔ یوسف نے اپنے باپ کا حکم مانا اور اپنے بھائیوں کی خبر لینے کو سکم کو روانہ ہوا ۔ ایک شخص نے اسے ادھر اُدھر آوارہ پھرتے دیکھا تو اس سے پوچھا کہ تو کیا ڈھونڈتا ہے؟ اس نے کہا میں اپنے بھائیوں کو ڈھونڈتا ہوں مجھے بتا کہ وہ کہاں ہے۔ سکم وہی جگہ ہے جہاں دینہ کے ساتھ بُرا ہوا تھا۔ یہ اتنی پرانی بات نہیں تھی شاید یعقوب کو اس لیے ان کی فکر تھی کہ وہ سکم میں ہیں۔ اس شخص نے انھیں بتایا کہ وہ دوتین جانے کی بات کر رہے تھے۔ دوتین ،
Dothan کا عبرانی میں مطلب ہے "دو کنوئیں”۔ یوسف دوتین کی طرف چل پڑا۔
دور سے جب اسکے بھائیوں نے اسے آتے دیکھا تو وہ آپس میں اسکے قتل کا منصوبہ باندھنے لگ گئے۔ انھوں نے کہا (پیدائش 37:19 سے 21)؛

اور آپس میں کہنے لگے دیکھو خوابوں کا دیکھنے والا آرہا ہے۔ آؤ اب ہم اسے مار ڈالیں اور کسی گڑھے میں ڈال دیں اور یہ کہدینگے کہ کوئی بُرا درندہ اسے کھاگیا۔ پھر دیکھیں گے کہ اسکے خوابوں کا کیا انجام ہوتا ہے۔

صاف ظاہر ہے انھیں یوسف کے خوابوں کے مطلب کی کچھ سوجھ بوجھ تھی تبھی وہ اسکی قبا سے زیادہ اسکے خوابوں کی بات کر رہے تھے۔ انھوں نے یوسف کو دور سے اسکی قبا سے ہی پہچانا ہو گا مگر ان کے دلوں میں یوسف کے لیے نفرت اتنی بڑھ گئی تھی کہ وہ اسے قتل کرنا چاہتے تھے۔ کیا یعقوب کو اپنے باقی بیٹوں کے بارے میں پتہ تھا کہ وہ یوسف سے کتنی نفرت کرتے تھے؟ شاید یعقوب کو اندازہ تھا مگر اس نے کبھی سوچا نہ ہوگا کہ بھائی آپس میں بھائی کو قتل کرنے کا منصوبہ بنا سکتے ہونگے۔ یوسف جو کہ پہلے ہی اتنا لمبا سفر کر کے سکم تک پہنچا تھا اور پھر اپنی بھائیوں کی خیر خبر لینے کو اور آگے دوتین کا سفر کرنے پر راضی تھا ، سوچ بھی نہیں سکتا ہو گا کہ اسکے بھائیوں کے دل میں اسکو دیکھ کر کس قسم کی نفرت جاگ رہی ہے جو اسے قتل کرنے پر راضی ہو رہے تھے۔ یشوعا بھی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑ کی خاطر آیا مگر اسکے بھائیوں نے اسے مارنے کی ٹھان لی تھی۔

روبن جو کہ یعقوب کا پہلوٹھا تھا اس نے اپنے بھائیوں کے منصوبے کو قتل میں نہ بدلنے دیا۔ اس نے کہا کہ یوسف پر ہاتھ نہ اٹھاؤ بلکہ اسے اس گڑھے میں ڈال دو جو بیابان میں ہے۔ وہ اسکا خون بہانا نہیں چاہتا تھا وہ چاہتا تھا کہ بعد میں یوسف کو انکے ہاتھوں سے بچا کر اپنے باپ کے پاس سلامت پہنچا دے۔ شاید روبن کے اپنے بیٹے بھی تھے اسلئے وہ باپ ہونے کے ناطے ہمدردی رکھتا تھا حالانکہ وہ جانتا تھا کہ پہلوٹھے ہونے کا حق شاید اسکے باپ نے یوسف کو دے دینا ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپنے بڑے بھائی ہونے کے ناطے چھوٹے کی حفاظت کرنا چاہتا تھا۔ وجہ کوئی بھی تھی روبن نے اپنے بھائیوں کو اس بات پر راضی کر لیا تھا کہ وہ اسکا خون نہ بہایں بلکہ گڑھے میں پھینک دیں۔ یوسف کے بھائیوں نے اسکی بوقلمون قبا کو اتار دیا۔ نئے عہد نامے میں ہم یشوعا کا بھی وہ حوالہ پڑھتے ہیں جس میں اسکے کپڑے اتار دئے گئے تھے (متی 27:27 سے 28 اور یوحنا 19:23)۔ یوسف نے ضرور ان سے پوچھا ہوگا کہ وہ کیوں اسکے ساتھ ایسا کر رہے ہیں؟ انھوں نے یوسف پر رحم نہیں کھایا انھوں نے اسے اٹھا کر سوکھے گڑھے میں پھینک دیا۔ قدیم زمانے میں گہرے گڑھوں کا استعمال قیدیوں کو رکھنے کے لیے اکثر کیا جاتا تھا۔ آپ کو اس کی ایک مثال یرمیاہ 38 باب میں بھی مل جائے گی۔ یوسف کے بھائی کھانا کھانے بیٹھے تو انکی نظر اسمعیلیوں کے قافلہ پر پڑی جو کہ جلعاد سےسودا اونٹوں پر ڈالے مصر کو جا رہے تھے۔ یہوداہ نے اپنے بھائیوں سے کہا (پیدائش 37:26 سے 27)؛

تب یہوداہ نے اپنے بھائیوں سے کہا کہ اگر ہم اپنے بھائی کو مار ڈالیں اور اسکا خون چھپائیں تو کیا نفع ہوگا؟ آؤ اسے اسمعیلیوں کے ہاتھ بیچ ڈالیں کہ ہمارا ہاتھ اس پر نہ اٹھے کیونکہ وہ ہمارا بھائی اور ہمارا خون ہے۔ اسکے بھائیوں نے اسکی مان لی۔

یہوداہ بھی لیاہ کا ہی بیٹا تھا۔ نفع کے لالچ میں وہ بھول گئے تھے کہ یوسف کو وہ اسکے خوابوں کی بنا پر مارنا چاہتے تھے کہ پھر دیکھیں گے کہ اسکے خوابوں کا کیا انجام ہوتا ہے (پیدائش 37:20)۔ یشوعا کو بھی اسکے بارہ شاگردوں میں سے ایک نے بیچ ڈالا۔ انھوں نے یوسف کو گڑھے سے باہر نکالا اور اسے اسمعیلیوں کے ہاتھوں میں 20 چاندی کے سکوں کے لئےبیچ ڈالا۔ یوسف جب گڑھے میں تھا تو ممکن ہے کہ اسکے ذہن میں یہی آیا ہوگا کہ وہ اسی گڑھے میں سڑ کر مر جائے گا یا پھر قتل کر دیا جائے گا۔ گڑھے میں رہ کر یوسف کی گڑھے سے باہر کی دنیا کی آس ختم ہو رہی ہوگی مگر خدا کی مرضی اسکے لیے کچھ اور تھی۔

جب روبن گڑھے پر لوٹا تو اس نے دیکھا کہ یوسف وہاں نہیں ہے۔ روبن شاید آس پاس نہیں تھا جب اسکے بھائیوں نے یوسف کو بیچنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس نے اپنا پیراہن چاک کیا۔ پیراہن چاک کرنا ماتم کرنا ہوتا ہے۔ باقی بھائیوں نے ایک بکرے کو ذبح کرکے اسکا خون، یوسف کی قبا پر مل دیا اور وہ اسکو اپنے باپ کے پاس لائے یہ کہہ کر کہ پہچان کہ کیا یہ تیرے بیٹے کی قبا ہے؟ انھوں نے اس سے آگے کچھ نہیں کہا مگر یعقوب نے قبا پر خون دیکھ کر یہی اخذ کیا کہ کوئی بُرا درندہ اسکے بیٹے کو کھا گیا۔ یعقوب کافی دنوں تک اپنے بیٹے کے لئے ماتم کرتا رہا، اسکے بیٹے اور بیٹیوں نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی مگر اسے تسلی نہ ہوتی تھی۔

اُدھر مدیانیوں نے یوسف کو مصر میں فوطیفار جو کہ فرعون کے حاکموں میں سے تھا ، اسکو غلامی میں بیچ ڈالا۔ اس باب کا بھی غیر مسیحی حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ کلام میں غلطیاں ہیں۔ اسمعیلی سوداگر وں کو دیکھ کر یوسف کے بھائیوں نے اسے بیچنے کا کہا اور پھر آخری آیت میں مدیانیوں کا ذکر ہے۔ اسمیعلی ، ابرہام کے بیٹے اسمعیل کی اولاد ہیں ہاجرہ سے اور مدیان ، قطورہ کا بیٹا تھا۔ اسمعیلی لوگ خانہ بدوش تھے اور تجارت کرتے تھے۔ تجارت کا کام مدیانی بھی کرتے تھے آپ کو کلام میں قضاۃ 8 باب میں بھی ایسے ہی اسمعیلیوں اور مدیانیوں کا ادل بدل کر حوالہ نظر آئے گا۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس سے مراد خانہ بدوش سوداگر تھے۔
ہم پیدائش 38 باب کا مطالعہ اگلی دفعہ کریں گے۔

میری خدا سے دعا ہے کہ وہ آپ کو بتائے کہ آپ کی منزل یا تقدیر ، یوسف کی طرح گڑھے (غربت یا تنگ حالی) نہیں ہے اس نے آپ کے مقدر میں اچھی چیزیں رکھی ہیں۔ وہ آپ کو آپ کی منزل مقصود تک جلد پہنچائے یشوعا کے نام میں۔ آمین