آپ کلام میں سے پیدائش کا 37 باب پورا خود پڑھیں میں صرف وہی آیات لکھوں گی جس کی ضرورت محسوس کرونگی۔
35 باب میں ہم نے پڑھا تھا کہ اضحاق نے اپنے بیٹے یعقوب کو اور اسکے بیٹوں کو دیکھا اور اسکے بعد وفات پائی۔ وہی بات جو کہ ہمیں اضحاق اور ربقہ میں نظر آئی تھی یعقوب میں بھی نظر آئے گی۔ یعقوب کو بھی اپنے ایک بیٹے یوسف سے زیادہ پیار تھا دوسروں کی نسبت۔ اضحاق اور یعقوب کے درمیان فرق یہ ہے کہ اضحاق کے صرف دو ہی بچے تھے ۔ اگر ایک اضحاق کا لاڈلاتھا تو دوسرا ربقہ کا۔ کسی بھی بچے کو اتنا محسوس نہیں ہوا کہ کوئی انھیں پیار کرنے والا نہیں ہے۔ یعقوب کے بارہ بیٹے تھے جن میں سے صرف ایک اسکا لاڈلا تھا اور یوسف کے بھائیوں کو بھی احساس ہو گیا تھا۔ مگر کیا واقعی میں ایسا تھا؟ ہم پیدائش کے باقی 13 باب میں یوسف کی کہانی ہی پڑھیں گے۔
یوسف بلہاہ اور زلفہ کے بیٹوں کے ساتھ ہوتا تھا اور وہ انکے برے کاموں کی خبر اپنے باپ کو دیتا تھا۔ یعقوب کے باقی بیٹے ، یوسف کی باتوں کی وجہ سے یوسف سے بُغض رکھنے لگ گئے تھے۔ یعقوب نے یوسف کو ایک بوقلمون قبا بھی بنوا کر دی تھی۔عبرانی کلام کے لفظ سے یہی واضح ہوتا کہ وہ شاہی قبا تھی۔ 2 سموئیل 13 باب سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اس قسم کی قبا خاص شاہی گھرانے کے لوگوں کے لئے مخصوص تھی۔ اسکے باقی بھائیوں کو اس قسم کی قبا پہننے کا ذکر نہیں ملتا۔پیدائش 37:3 میں لکھا ہے کہ
اور اسرائیل یوسف کو اپنے سب بیٹوں سے زیادہ پیار کرتا تھا کیونکہ وہ ااسکے بڑھاپے کا بیٹا تھااور اس نے اسے ایک بُوقلمون قبا بھی بنوا دی۔
کہنے کو تو بنیمین آخر میں پیدا ہوا تھا تو کیا وہ یعقوب کے بڑھاپے کا بیٹا نہیں تھا؟ رمبان (یہودی ربی) نے اسکی وضاحت ایسے کی کہ روایت تھی کہ بوڑھے ماں باپ اپنے بیٹوں میں ایک چھوٹے بیٹے کو چنتے تھے جو کہ ان کے ساتھ ساتھ رہے اور انکے کاموں میں انکی مدد کرے۔ یوسف کو یعقوب نے اپنے ساتھ ساتھ رکھنے کے لئے چنا تھا اور ساتھ ہی میں اسے” شہزادے” کا اختیار بھی دیا۔ باپ کے برتاؤ نے یوسف کے بھائیوں کو وہ قدم اٹھانے پر مجبور کر دیا تھا جو شاید وہ ویسے نہ اٹھاتے۔ مگر کیا انکو خود یوسف سے پیار نہ تھا؟ اگر انکا پیار روحانیت رکھتا تو وہ بجائے اس سے حسد کرنے کے اس کے لئے خوش ہوتے۔ وہ اس سے سیدھے منہ بات تک نہ کرنا چاہتے تھے۔ربیوں کے مطابق پیدائش 37:4 کے آخری جملے "اور ٹھیک طور سے بات بھی نہیں کرتے تھے” کے عبرانی کلام کا لفظی ترجمہ ایسے بنتا ہے ” اور وہ اس سے سلامتی سے بات نہیں کرتے تھے۔” ۔ شلوم الیخم ، Shalom Aleichem کہنا جسکا لفظی مطلب ہے "آپ پر سلامتی ہو”, عبرانی آداب ہے۔ اور یہاں اس آیت میں یہی مراد ہے کہ وہ اس سے صحیح طور پر مخاطب نہیں ہوتے تھے مطلب کہ اسکی سلامتی کی بات نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ اس سے اتنی نفرت کرنے لگ گئے تھے۔
کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ کیسے آپ کا رویہ دوسرے کو مسیحیت سے دور کر دیتا ہے؟ اگر آپ کی نظر میں صرف پادری صاحبان ایسا کرتے ہیں تو آپ کو میری طرح ایک بار اپنے آپ میں بھی جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ کیسے ہم اپنی باتوں اور حرکتوں سے لوگوں کو غلط قدم اٹھانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ اکثر انہی لمحوں کو خدا اپنے مقصد کے لئے بھی استعمال کر تا ہے۔ اور یہی ہم یوسف کی زندگی میں بھی دیکھیں گے۔ کلام ہمیں ایک دوسرے سےکس قسم کا رویہ اختیار کرنے کا کہتا ہے؟ فلپیوں 2:3 میں لکھا ہے؛
تفرقے اور بیجا فخر کے باعث کچھ نہ کرو بلکہ فروتنی سے ایک دوسرے کو اپنے سے بہتر سمجھے۔
اور کچھ ایسا ہی رومیوں12:10 میں ہے؛
برادرنہ محبت سے آپس میں ایک دوسرے کو پیار کرو۔ عزت کی رو سے ایک دوسرے کو بہتر سمجھو۔
خدا نے ابرہام اور سارہ کو اضحاق اتنے عرصے کے بعد دیا کیونکہ وہ وعدے کا فرزند تھا۔ پھر خدا نے اضحاق اور ربقہ کو بھی اولاد کافی عرصہ کے بعد دی کیونکہ خدا انکے ایمان کا امتحان لے رہا تھا۔ خدا نے وعدے کے فرزند کے طور پر یعقوب کو چنا کیونکہ یعقوب کے اعمال خدا کو پسند تھے۔ یعقوب نے بھی اپنی زندگی میں کافی سختیاں سہیں اور یوسف اور بنیمین کی پیدائش کے بعد بھی اسکی سختیوں کا خاتمہ نہیں ہوا۔ ان تمام تکلیفوں کے باوجود اسکا ایمان خداوند یہوواہ پر ہی تھا۔ گو کہ خدا نے یعقوب کی اولاد کو اپنایا تھا مگر فی الحال کے لئے یوسف تھا جس کو خدا نے اپنے مقصد کے لئے چنا تھا۔ آپ نے مقدس/تقدیس کا لفظ تو بارہا پڑھا ہے۔ جسکو خدا اپنے لیے چنتا ہے وہ نہ صرف اسکو پاک کرتا ہے بلکہ اپنے استعمال کے لئے الگ کر لیتا ہے۔ اگر آپ کو اپنی زندگی بہت تنہا محسوس ہوتی ہے تو اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ خدا نے آپ کو اپنے استعمال کے لئے باقیوں سے علیحدہ کر دیا ہے۔
خدا ، ابرہام اور اضحاق اور یعقوب سے خود ہمکلام ہوا تھا مگر خدا یوسف سے خوابوں میں ہم کلام ہو رہا تھا۔یوسف 17 برس کا تھا مگر یوسف کو شاید اس بات کا احساس نہیں تھا اسلئے اس نے اپنے خواب کو اپنے بھائیوں کو بتایا کہ اس نے کھیت میں اپنا اور اپنے بھائیوں کے بندھے پولے دیکھے۔ اس نے اپنے بھائیوں کو بیان کیا کہ اس نے خواب میں دیکھا کہ اسکا پولا اٹھ کر سیدھا کھڑا ہوگیا اور اسکے بھائیوں کے پولوں نے اسے تمام طرف سے گھیر کر سجدہ کیا۔ اسکے بھائی آگے ہی اس سے اس بات پر جلتے تھے کہ وہ اپنے باپ کا لاڈلا ہے اور اسکی اہمیت اسکے باقی بھائیوں سے زیادہ ہے۔ جب انھوں نے اسکا یہ خواب سنا تو انھوں نے جل کر اس سے کہا "کیا تو سچ مچ ہم پر سلطنت کریگا یا ہم پر تیرا تسلط ہوگا؟” یوسف کے بھائی اس سے اور بھی زیادہ بغض رکھنے لگ گئے۔
یوسف نے ایک اور خواب دیکھا اور اپنے بھائیوں کو بتایا۔ یوسف کو پہلی بار سبق نہیں ملا تھا کہ تمام خواب دوسروں کو بتانے کے لئے نہیں۔ اور یا پھر یہ کہ اگر اسکے بھائی اس سے جلتے ہیں تو وہ انکو اپنے خلاف اور زیادہ نہ بھڑکائے کہ آگے ہی اسکے پچھلے خواب سے اسکے بھائی اس سے زیادہ بغض رکھنے لگ گئے ہیں۔صاف ظاہر ہے کہ یوسف ابھی خدا کی باتوں سے اتنا واقف نہیں تھا ۔ واعظ 3:7 میں لکھا ہے؛
پھاڑنے کا ایک وقت ہے اور سینے کا ایک وقت ہے۔ چپ رہنے کا ایک وقت ہے اور بولنے کا ایک وقت ہے۔
وہ وقت جلد ہی آنے والا تھا جب یوسف کو خدا کے کلام کی باتوں پر عمل کرنا سیکھنا تھا۔ یوسف نے بجائے چپ رہنے کے ایک بار پھر سے انھیں اپنا خواب بتایا کہ اس نے دیکھا کہ سورج اور چاند اور گیارہ ستاروں نے مجھے سجدہ کیا۔ اس دفعہ کا خواب اس نے اپنے باپ کو بھی بتایا۔ اس پر اسکے باپ نے اسے ڈانٹ کر کہا کہ (پیدائش 37:10)
۔۔۔ یہ کیا خواب ہےجو تو نے دیکھا ہے؟ کیا میں اور تیری ماں اور تیرے بھائی سچ مچ تیرے آگے زمین پر جھک کر تجھے سجدہ کرینگے؟
یعقوب کو کسی کی ضرورت نہیں پڑی کہ خواب کا مفہوم سمجھائے۔ اسے یوسف کے خواب بتانے پر ہی اسکا مفہوم سمجھ میں آ گیا تھا۔ یوسف کو بھی شاید سمجھ میں آ رہا تھا کہ وہ صرف اپنے گھرانے (کھیت) کا ہی مرکز نہیں بنے گا بلکہ کائنات کا مرکز بنے گا۔ اسکے بھائیوں کو اس سے حسد ہوگیا مگر اسکے باپ نے یہ بات یاد رکھی۔ یوسف تو نابالغ تھا مگر اسکے باپ کو اسکی قابلیت اور لیاقت دکھائی دے رہی تھی۔ یوسف کے بھائیوں کے ذہن میں شاید یہ تھا کہ چونکہ وہ شاہی قبا پہن کر پھرتا ہے تو وہی گھمنڈ اسکے دماغ پر بھی چڑھ رہا ہے جسکی بنا پر وہ ایسے خواب دیکھتا ہے۔ اور شاید انھیں اس بات کا بھی شک ہو کہ یوسف شاید مستقبل میں واقعی میں ان پر راج کرے گا۔
ہم پیدائش 37 باب کا باقی مطالعہ اگلی دفعہ کریں گے۔ میری خدا سے آپ کے لئے اور اپنے لیے یہی دعا ہے کہ وہ ہمیں فلپیوں 2:3 کی تعلیم کے مطابق فہم عطا کرے کہ ہم تفرقے اور بیجا فخر کے باعث کچھ نہ کریں بلکہ فروتنی سے ایک دوسرے کو اپنے سے بہتر سمجھیں ویسے ہی جیسے کہ رومیوں 12:10 سمجھاتی ہے کہ برادرنہ محبت سے آپس میں ایک دوسرے سے پیار کریں اور عزت کی رو سے ایک دوسرے کو بہتر سمجھیں، یشوعا کے نام میں آمین۔
شبات شلوم!