آپ کلام مقدس سے احبار 25 باب مکمل خود پڑھیں میں صرف وہی آیات لکھونگی جس کی ضرورت سمجھونگی۔
اس باب میں ہم خاص زمین کے سبت اور یوبلی کے سال سے متعلق حکموں کا پڑھتے ہیں۔ احبار 25:1 سے 5 آیات میں یوں درج ہے؛
اور خداوند نے کوہ سینا پر موسیٰ سے کہا کہ۔ بنی اسرائیل سے کہہ کہ جب تم اس ملک میں جو میں تم کو دیتا ہوں داخل ہوجاؤ تو اس کی زمین بھی خداوند کے لئے سبت کو مانے۔ تو اپنے کھیت کو چھ برس بونا اور اپنے انگورستان کو چھ برس چھانٹنا اور اس کا پھل جمع کرنا۔ لیکن ساتویں سال زمین کے لئے خاص آرام کا سبت ہو۔ یہ سبت خداوند کے لئے ہو۔ اس میں تو نہ اپنے کھیت کو بونا اور نہ اپنے انگورستان کو چھانٹنا۔ اور نہ اپنی خودرو فصل کو کاٹنا اور نہ ہی اپنی بے چھٹی تاکوں کے انگوروں کو توڑنا۔ یہ زمین کے لئے خاص آرام کا سال ہو۔
چند سال پہلے تک یہودیوں کے سال میں ہی چار نئے سال ، میرے لئے الجھن کا باعث تھے کیونکہ یہودی تشری 1 کو نیا سال پکارتے ہیں وہ اسکو عبرانی میں "روش ہاشانا، רוש השנה ,Rosh HaShanah” کہتے ہیں۔ روش کا لفظی مطلب ہے "سر” اور "ہاشانا” سے مراد ” سال” لہذا اس سے مراد سال کا شروع یا نیا سال بنا۔ روش ہاشانا کا دن کلام میں یوم تیروعہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وہ جو کہ ربیوں کے اختیار کا انکار کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ ربیوں کا اپنا دیا ہوا نام ہے نہ کہ کلام کا۔ سالوں پہلے میں نے بھی سوچا تھا کہ ربیوں کی تعلیم غلط ہے مگر اب سمجھ آتی ہے کہ انکی تعلیم کا بیج توریت میں درج احکامات ہیں۔ انکی تعلیم اپنی بنائی ہوئی نہیں۔ میں نے جب ایک ربی سے روش ہا شانا کے حوالے سے رہنمائی چاہی تو انہوں نے کہا جب مہینوں کے حوالے سے با ت کریں تو نیسان پہلا مہینہ ہے مگر جب سال کی بات کی جائے تو تشری جو کہ ساتواں مہینہ ہے، سال کا شروع بنتا ہے۔ ۔۔ مگر وہ کیسے؟
کلام کے مطابق ہی اسرائیل کو چار نئے سال دئیے گئے ہیں۔ میں نے اسکے بارے میں پہلے بھی بتایا ہوا ہے بہت تفصیل میں نہیں جاؤنگی۔ نیسان کے مہینے کا میں نے ذکر کیا تھا کہ وہ بادشاہوں اور مہینوں کا شروع ہے۔ تشری سالوں کو گننے کے لئے ہے تبھی اسرائیل کا سوِل کیلنڈر تشری 1 سے شروع ہوتا ہے جو کہ کلام کے عین مطابق ہے۔ الول چوپایوں کی دہ یکی کا نیال سال ہے اور 15 سباط درختوں کا نیا سال ہے۔ زمین کے سبت سے متعلق آیات میں نے اوپر درج کی ہیں مگر جب ہم یوبلی سے متعلق حکموں کو پڑھتے ہیں تو ہمیں یوں لکھا ملتا ہے(احبار 25:8 سے 10)؛
اور تو برسوں کے سات سبتوں کو یعنی سات گنا سال سال گن لینا اور تیرے حساب سےبرسوں کے سات سبتوں کی مدت کل انچاس سال ہونگے۔ تب تو ساتویں مہینے کی دسویں تاریخ کو بڑا نرسنگا زور سے پھنکوانا۔ اور تم پچاسویں برس کو مقدس جاننا اور تمام ملک میں سب باشندوں کے لئے آزادی کی منادی کرانا۔ یہ تمہارے لئے یوبلی ہو۔ اس میں تم میں سے ہر ایک اپنی ملکیت کا مالک ہو اور ہر شخص اپنے خاندان میں پھر شامل ہو جائے۔
اب اگر آپ غور کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ کلام یہ نہیں بیان کرتا کہ کب سے ان سالوں کو گننا شروع کرنا ہے مگر یوبلی پر ساتویں مہینے کی دسویں تاریخ کو بڑا نرسنگا زور سے پھنکوانے کا حکم ملتا ہے۔ مطلب یہ کہ آپ کا یوبلی کا پچاسواں سال، ساتویں مہینے میں پڑ رہا ہے۔ چونکہ زمین کے سبت کے سات سالوں کو گننا ہے تو اگر آپ نیسان کے مہینے سے گننا شروع کریں گے تو آپ آدھے سے زیادہ سال گزار دیں گے اور زمین کومکمل سال کا سبت نہیں ملے گا مگر اگر یوبلی سے متعلق حکم کو ذہن میں رکھ کر سالوں کو تشری کے مہینے سے گننا شروع کریں گے تو زمین کو مکمل سبت ملے گا ۔ امید ہے کہ آپ کو سمجھ آ رہی ہے کہ میں کیا کہہ رہی ہوں۔ 1 تشری یعنی یوم تیروعہ کو روش ہاشانا کہنا غلط نہیں ہوگا بلکہ کلام میں درج حکم کے مطابق ہوگا۔
اگر یوبلی سے متعلق حکموں کی تفصیل میں جائیں گے تو آپ جانیں گے کہ آپ کو کسی شریعت کے عالم کی راہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے جو آپ کو ان حکموں کی صحیح سمجھ دے سکے۔ کیا آپ نے نوٹ کیا کہ احبار 25 باب کے شروع میں لکھا ہے کہ " جب تم اس ملک میں جو میں تمکو دیتا ہوں داخل ہو جاؤ۔۔۔” شریعت کے بہت سے احکامات اسرائیل کی سر زمین سے جُڑے ہیں مگر اسکے باوجود ان حکموں میں سے بہت سے احکامات خداوند کے لوگوں پر پھر بھی لاگو ہوتے ہیں چاہے وہ اسرائیل کی سر زمین میں ہیں یا باہر کسی اور ملک میں۔ اسی بنا پر ان حکموں کے بارے میں جاننا اور سیکھنا ہم سب کا فرض بن جاتا ہے اور یقین مانیں جب آپ ان حکموں کو اپنانا شروع کرتے ہیں تو تب آپ کو پتہ چلتا ہے کہ آپ کو کتنی زیادہ راہنمائی کی ضرورت ہے کہ جان سکیں کہ خداوند کا کلام کیا کہہ رہا ہے۔
احبار 25:23 میں یوں لکھا ہے؛
اور زمین ہمیشہ کے لئے نہ بیچی جائے کیونکہ زمین میری ہے اور تم میرے مسافر اور مہمان ہو۔
داؤد بادشاہ نے اپنی دعا میں خداوند سے یوں کہا(1 تواریخ 29:15)؛
کیونکہ ہم تیرے آگے پردیسی اور مسافر ہیں جیسے ہمارے سب باپ دادا تھے۔ ہمارے دن رُویِ زمین پر سایہ کی طرح ہیں اور قیام نصیب نہیں۔
ویسے تو احبار 25 کے شروع میں جہاں خداوند نے کہا ” جب تم اس ملک میں جو میں تمکو دیتا ہوں۔۔” یہی دکھاتا ہے کہ تمام زمین خداوند کی ہے اور کسی کو زمین کی ملکیت دینا یا لینا خداوند کے اختیار میں ہے مگر خداوند خاص کہہ رہے ہیں کہ "زمین میری ہے۔۔۔” کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ یہ تمام زمین خداوند کی ہے ؟ آپ جب کبھی کسی کے گھر جاتے ہیں تو کیا آپ اس گھر کے اصولوں کا خیال رکھتے ہیں؟ کیا آپ اس گھر میں گند گی پھینکتے ہیں یا اس گھر کی صفائی کا خیال کرتے ہیں کہ کسی کا گھر ہے اور گند مچانا مناسب نہیں کیونکہ انھوں نے اپنے گھر کے دروازے آپ پر کھولے ہیں؟ کتنی حیرانگی کی بات ہے کہ ہم دوسروں کے گھروں میں تو خاص خیال رکھتے ہیں کہ گھر کے اصولوں کا احترام رکھیں اور صفائی کا خاص خیال رکھیں مگر جب خداوند کی زمین کی بات آتی ہے تو زمین کو تباہ کرنے میں ہم بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ جہاں دل کیا وہاں گند پھینک دیا۔ خداوند کے دئیے ہوئے اصولوں کے مطابق زمین پر رہنا ہم گوارا نہیں کرتے کہ ہماری مرضی جو چاہے کریں گے۔ یاد رکھیں کہ زمین خداوند کی ہے ویسے ہی جیسے کہ ہم کسی کے گھر میں تھوڑی دیر کے لئے جاتے ہیں، زمین پر بھی ہمارا قیام ہمیشہ کے لئے نہیں۔ پطرس رسول نے بڑی خوبصورتی سے ہمیں ان باتوں کو سمجھانے کی کوشش کی ہے (1 پطرس 2:11 سے 12)؛
ائے پیارو میں تمہاری منت کرتا ہوں کہ تم اپنے آپ کو پردیسی اور مسافر جان کر ان جسمانی خواہشوں سے پرہیز کرو جو روح سے لڑائی رکھتی ہیں۔ اور غیر قوموں میں اپنا چال چلن نیک رکھو تاکہ جن باتوں میں وہ تمہیں بدکار جان کر تمہاری بدگوئی کرتے ہیں تمہارے نیک کاموں کو دیکھ کر انہی کے سبب سے ملاخطہ کے دن خدا کی تمجید کریں۔
یاد رکھیں کہ آپ زمین پر پردیسی اور مسافر ہیں، زمین خداوند کی ہے اور آپ کو خداوند کے دئیے ہوئے اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنی ہے۔ خداوند آپ کے ساتھ ہوں۔ ہم اگلی بار احبار 26 باب کا مطالعہ کریں گے۔