احبار 26 باب

image_pdfimage_print

آپ کلام مقدس سے احبار 26 باب مکمل خود پڑھیں ۔

اگر آپ کلام مقدس سے احبار 26 باب کو پڑھنا شروع کریں گے تو آپ کو  احبار 26:1 سے 4میں یوں لکھا ملے گا؛

تم اپنے لئے بت نہ بنانا  اور نہ کوئی تراشی ہوئی مورت یا لاٹ اپنے لئے کھڑی کرنا اور نہ اپنے ملک میں کوئی شبیہ دار پتھر رکھنا کہ اسے سجدہ کرو اس لئے کہ میں خداوند تمہار خدا ہوں۔ تم میرے سبتوں کو ماننا اور میرے مَقدس کی تعظیم کرنا۔ میں خداوند ہوں۔ اگر تم میری شریعت پر چلو اور میرے حکموں کو مانو اور اُن پر عمل کرو۔ تو میں تمہارے لئے بروقت مینہ برساؤں گا اور زمین سے اناج پیدا ہوگا اور میدان کے درخت پھلیں گے۔

احبار 26 باب  خداوند کے حکموں پر فرمانبرداری کی صورت میں برکتوں کو بیان کرتا ہے اور نافرمانبرداری کی صورت میں لعنتوں کو بیان کرتا ہے۔ کچھ ایسا ہی آپ استثنا 28 باب میں بھی پڑھیں گے۔ اور اگر آپ دونوں ابواب  پر دھیان دیں گے تو جانیں گے برکتوں کو بیان کرنے کی آیات اتنی زیادہ نہیں ہیں مگر لعنتوں کو بیان کرنے کے لئے کافی زیادہ آیات ہیں۔  اور اگر آپ نے میری طرح  نوٹ کیا ہو تو پہلی آیت  بت  سازی اور بت پرستی سے منع کرتی ہے اور دوسری آیت سبتوں کو ماننے اور خداوند کے مَقدِس یعنی ہیکل کی تعظیم کا درس دے رہی ہے اور پھر   تیسری آیت سے خداوند کی شریعت اور حکموں پر عمل کا حکم ہے تاکہ ہم  آیات 4 سے 12 تک میں درج برکتوں کو حاصل  کر سکیں مگر احبار 26:15 سے  تقریباً باب کے آخر تک نافرمانبرداری کی صورت میں لعنتوں کا ذکر ہے۔

نوٹ کریں کہ خداوند کی سبتوں کو ماننے کو خداوند کے مقدس کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ کافی سالوں تک میں نے چرچ کے بیان کردہ اس جھوٹ پر یقین کیا تھا کہ اب ہمیں  ہیکل کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہمارا بدن خداوند کا مقدس ہے۔  آپ کو شاید یاد ہو کہ جب میں نے احبار کا مطالعہ شروع کروایا تھا تو میں نے احبار  کی کتاب کے تعارف میں  کہا تھا  کہ نئے عہد نامے میں اگر ہمیں پاک ہونے کا کہا گیا ہے تو یہ ہمیں احبار کی کتاب میں بار بار لکھا نظر آتا ہے کہ " بنی اسرائیل کی ساری جماعت سے کہہ کہ تم پاک رہو کیونکہ میں جو خداوند تمہارا خدا ہوں پاک ہوں۔”

اگر آپ کلام مقدس کا دھیان سے مطالعہ کریں گے تو آپ جانیں گے کہ بے شک خداوند نے کُل آسمان اور زمین کو بنایا ہے مگر خداوند نے اسرائیل سر زمین کو تمام  ملکوں میں سے اپنے لئے چن کر پاک ٹھہرایا۔ اسرائیل   کے تمام شہروں میں خاص یروشلیم کو پاک ٹھہرایا اور یروشلیم میں خاص اُس مقام کو پاک ٹھہرایا جہاں ہیکل کھڑی تھی۔ وہ مقام آج بھی پاک ہے یہ علیحدہ بات ہے کہ غیر قوموں  کے سبب سے آج وہ مقام نجاست سے بھر گیا ہے۔ اور اگر ہیکل کی بات کریں گے تو آپ جانیں گے کہ ہیکل کے بھی  پاکیزگی کے خاص   احکامات تھے۔  اردو کلام میں جہاں "تعظیم” کا لفظ لکھا ہے وہ عبرانی میں "תִּירָאוּ” لکھا ہے اسکے لفظی معنی ہیں "تم خوف کرنا”۔   گو کہ اسکا  اردو ترجمہ ” تعظیم” غلط نہیں ہے  مگر میں آج جب بعض لوگوں کو ہیکل کے بارے میں جس طرح سے بولتے سنتی ہوں مجھے اکثر خیال آتا ہے کہ انھیں ذرا سا بھی خوف نہیں کہ خداوند نے  جس مقام کو  اپنے نام کے لئے چن لیا ہے وہ اسکے ساتھ یوں حقارت سے پیش آتے ہیں جیسے اسکی کوئی اہمیت نہیں۔  ہیکل  صرف قربانیاں چڑھانے کی جگہ نہیں تھی بلکہ یہ وہ مقام بھی تھا جہاں سے اسرائیل کی حکومت کا  اختیار چلتا تھا۔    کبھی سوچا ہے کہ جس ملک کا کورٹ سسٹم یعنی عدالتی نظام تباہ و برباد ہوجائے اس ملک کا کیا حال ہوتا ہے۔ ہیکل اسرائیل کا صرف مذہبی مقام نہیں  تھا بلکہ یہیں  صدر عدالت  بھی  قائم تھی۔ مکاشفہ کی کتاب کے بارے میں لوگ مزید جاننا چاہتے ہیں مگر کبھی دھیان نہیں دیتے کہ مکاشفہ کی کتاب میں  "خداوند کے مقدس” کا ذکر  ہے۔  میں کافی عرصے سے  "Altar Judgement” کا اردو میں مطلب تلاش کر رہی تھی کہ کونسی صحیح اصطلاح ہے مگر کوئی خاص  الفاظ نہیں مل رہے تھے۔  سو میں  کوشش کر رہی ہوں کہ آپ تک  اسکے بارے میں کچھ معلومات دے سکوں۔ اگر آپ خداوند کے قہر کے بارے میں پڑھیں گے تو  تمام لعنتوں کو  پڑھتے ہوئے آپ نوٹ کر سکتے ہیں کہ خاص  قحط، تلوار، وبا  اور  حیوان سے سزا کا ذکر ہے۔ مکاشفہ کی کتاب میں ان   Altar Judgements کو دیکھیں کہ انکا ذکر موجود ہے۔ میرے ساتھ خاص مکاشفہ کی اس آیت کو دیکھیں (مکاشفہ 16:7)، لکھا ہے؛

پھر میں نے قربان گاہ سے یہ آواز سنی کہ ائے خداوند خدا قادر مطلق! بیشک تیرے فیصلے دُرست اور راست ہیں۔

میں جانتی ہوں کہ میں اپنی بات   بہت اچھے طریقے سے نہیں سمجھا پا رہی مگر  ان تمام باتوں کا مقصد یہ ہے کہ آپ جان سکیں کہ آخری دنوں کا  ہیکل سے گہرا تعلق ہے اور ہمیں مزید خداوند کی  ہیکل کے بارے میں نہ صرف سیکھنا ہے بلکہ اسکی صحیح تعظیم بھی کرنا سیکھنی  ہے۔

میرے ساتھ ان آیات پر غور کریں۔ احبار 26:40 سے 46

تب وہ اپنی اور اپنے باب دادا کی اس بدکاری کا اقرار کریں گے کہ انہیں نے مجھ سے خلاف ورزی کرکے میری حکم عدولی کی اور یہ بھی مان لیں گے کہ چونکہ وہ میرے خلاف چلے تھے۔ اس لئے میں بھی ان کا مخالف ہوا اور ان کو ان کے دشمنوں کے ملک میں لا چھوڑا۔ اگر اس وقت انکا نامختون دل عاجز بن جائے اور وہ اپنی بدکاری کی سزا کو منظور کریں۔ تب میں اپنا عہد جو یعقوب کے ساتھ تھا یاد کرونگا اور جو عہد میں نے اضحاق کے ساتھ اور جو عہد میں نے ابرہام کے ساتھ باندھا تھا ان کو بھی یاد کرونگا اور اس ملک کو یاد کرونگا۔ اور وہ زمین بھی ان سے چھوٹ کر جب تک انکی غیر حاضری میں سونی پڑی رہے گی تب تک اپنے سبتوں کو منائے گی اور وہ اپنی بدکاری کی سزا کو منظور کر لیں گے۔ اسی سبب سے کہ انہوں نے میرے حکموں کو ترک کیا تھا اور انکی روح کو میری شریعت سے نفرت ہوگئی تھی۔ اس پر بھی جب وہ اپنے دشمنوں کے ملک میں ہوں گے تو میں انکو ایسا ترک نہیں کرونگا اور نہ مجھے ان سے ایسی نفرت ہوگی کہ میں انکو بالکل فنا کر دوں اور میرا جو عہد ان کے ساتھ ہے اسے توڑ دوں کیونکہ میں خداوند انکا خدا ہوں۔  بلکہ میں ان کی خاطر انکے باپ داد کے عہد کو یاد کرونگا جن کو میں غیر قوموں کی آنکھوں کے سامنے ملک مصر سے نکال کر لایا تاکہ میں انکا خدا ٹھہروں۔ میں خداوند ہوں۔ یہ وہ شریعت اور احکام اور قوانین ہیں جو خداوند نے کوہ سینا پر اپنے اور بنی اسرائیل کے درمیان موسیٰ کی معرفت مقرر کئے۔

یہ آیات مجھے تسلی بخش لگتی ہیں خداوند نے اپنے لوگوں کو ہمیشہ کے لئے ترک نہیں کیا۔ اسکا ثبوت ہمیں اسی بات سے مل سکتا ہے کہ اسرائیل ایک بار پھر سے وجود میں آیا ویسے ہی جیسے کے خداوند کا کلام فرماتا ہے۔   بہت سے مسیحی سوچتے ہیں کہ دل کے ختنے کا ذکر صرف نئے عہد نامے میں ہے۔ احبار 26:41 میں  نا مختون دل کے عاجز ہونے کی بات کی جا رہی ہے۔ استثنا 10:16 میں یوں لکھا ہے؛

اسلئے اپنے دلوں کا ختنہ کرو اور آگے کو گردن کش نہ رہو۔

اور یرمیاہ 4:4 میں یوں لکھا ہے؛

 ائے یہوداہ کے لوگو اور یروشلیم کے باشندو! خداوند کے لئے اپنا ختنہ کراؤ ہاں اپنے دل کا ختنہ کرو تا نہ ہو کہ تمہاری بد اعمالی کے باعث سے میرا قہر آگ کی مانند شعلہ زن ہو اور ایسا بھڑکے کہ کوئی بجھا نہ سکے۔

ہمارے احبار کے حوالے میں بدکاری  کے اقرار کرنے ذکر ہے۔ میرے خیال میں بہت سے لوگوں کو یہ بھی علم نہیں کہ بدکاری  کیا ہوتی ہے۔ اور اگر کسی کو علم ہی نہیں کہ بدکاری کیا ہے تو وہ کیسے اقرار کرے گا کہ میں نے  خداوند کے خلاف بدکاری کی ہے؟

یشوعا نے کہا (متی 7:21سے 23)

جو مجھ سے ائے خداوند ائے خداوند! کہتے ہیں ان میں سے ہر ایک آسمان کی بادشاہی میں داخل نہ ہوگا مگر وہی جو میرے آسمانی باپ کی مرضی پر چلتا ہے۔ اس دن بہتیرے مجھ سے کہیں گے ائے خداوند ائے خداوند! کیا ہم نے تیرے نام سے نبوت نہیں کی اور تیرے نام سے بدروحوں کو نہیں نکالا اور تیرے نام سے بہت سے معجزے نہیں دکھائے؟ اس قوت میں ان سے صاف کہ دونگا کہ میری کبھی تم سے واقفیت نہ تھی۔ ائے بدکارو میرے پاس سے چلے جاؤ۔

یشوعا نے ان کو بدکار کہا جو آسمانی باپ کی مرضی سے نہیں چلتا۔ آسمانی باپ کی مرضی ہمیں کہاں لکھی ملتی ہے؟ توریت میں۔ اور یہی ہم  احبار 26 میں پڑھ رہے ہیں کہ اگر ہم خداوند کے حکموں اور شریعت کے مطابق نہیں چل رہے تو ہم بدکاری کر رہے ہیں اور جب تک ہم اپنی بدکاری کا اقرار نہیں کریں گے  ہم خداوند کی لعنت تلے رہیں گے۔ پولس رسول  نے کہا کہ بنی اسرائیل  کے پاس پالک ہونے کا حق، عہود اور شریعت اور وعدے ہیں۔ ہم یشوعا کے سبب سے اس عہد کا حصہ بنتے ہیں وہ بھی تب جب ہم اپنے گناہ کا اقرار کریں۔

مجھے آپ کا تو علم نہیں مگر اپنے بارے میں میں ضرور کہنا چاہتی ہوں کہ میں خداوند کی لعنت تلے نہیں رہنا چاہتی اسلئے  میں اپنی اور اپنے باپ دادا کی بدکاری کا اقرار کر چکی ہوئی ہوں  اور جانتی ہوں کہ اگر مجھ میں ذرا سی بھی راستبازی ہے تو وہ میری اپنی نہیں بلکہ یشوعا کے سبب سے ہے۔ میں اب آسمانی باپ کی مرضی کے مطابق چلنا چاہتی ہوں اور چل رہی ہوں۔ کیا آپ آسمانی باپ کی مرضی کے مطابق چلے رہے ہیں؟

میری خداوند سے دعا رہے گی کہ خداوند  ہم پر اپنا رحم کریں  اور ہمیں اپنی برکتوں تلے رکھیں، یشوعا کے نام میں۔ آمین