آپ کلام مقدس سے احبار 24 باب مکمل خود پڑھیں۔
کلام مقدس میں خیمہ اجتماع کے لئے شمعدان بنانے کا حکم ہم خروج کے 25 باب میں پڑھتے ہیں۔ اور شمعدان کے لئے تیل کے بارے میں حکم خروج 27:20 سے 21 میں یوں پڑھتے ہیں؛
اور تو بنی اسرائیل کو حکم دینا کہ وہ تیرے پاس کوٹکر نکالا ہوا زیتون کا خالص تیل روشنی کے لئے لائیں تاکہ چراغ ہمیشہ جلتا رہے۔ خیمہ اجتماع میں اس پردہ کے باہر جو شہادت کے صندوق کے سامنے ہوگا ہارون اور اسکے بیٹے شام سے صبح تک شمعدان کو خداوند کے روبرو آراستہ رکھیں۔ یہ دستور العمل بنی اسرائیل کے لئے نسل در نسل قائم رہیگا۔
اسی حکم کو ایک بار پھر سے ہم احبار 24:1 سے 3 آیات میں یوں پڑھتے ہیں؛
اور خداوند نے موسیٰ سے کہا۔ بنی اسرائیل کو حکم کر کہ وہ تیرے پاس زیتون کا کوٹ کر نکالا ہوا خالص تیل روشنی کے لئے لائیں تاکہ چراغ ہمیشہ جلتا رہے۔ ہارون اسے شہادت کے پردہ کے باہر خیمہ اجتماع میں شام سے صبح تک خداوند کے حضور قرینہ سے رکھا کرے۔ تمہاری نسل در نسل سدا یہی آئین رہیگا۔ وہ ہمیشہ اُن چراغوں کو ترتیب سے پاک شمعدان پر خداوند کے حضور رکھا کرے۔
اس حکم کو اگر غور سے پڑھیں تو کچھ خاص فرق نظر نہیں آرہا سوائے اسکے کہ ایک میں ہارون اور اسکے بیٹے لکھا ہے اور دوسری میں صرف ہارون لکھا ہے۔ نسل در نسل قائم رکھنے کا حکم دونوں جگہ ہے۔چونکہ اب ہیکل موجود نہیں ہے اسلئے اب یہ حکم اسطرح سے تب تک لاگو نہیں ہوتا جب تک کہ دوبارہ ہیکل تعمیر نہ ہوجائے۔آج یہودی اور میسیانک یہودی جس الماری میں توریت کو رکھتے ہیں اس الماری کو عبرانی میں "ارون، ארון , Aron” بولتے ہیں۔ ویسے ہی جیسے کہ عہد کے صندوق کے لئے عبرانی میں صندوق کا لفظ "ارون” ہے، توریت کے طومار کی الماری عبرانی میں ارون ہے۔ یہودی اور میسیانک یہودی آج بھی اس الماری کے سامنے ایک روشنی کا بلب جلتا رہنے دیتے ہیں۔ ہمیں لوقا 12:35 میں یشوعا کا حکم یوں لکھا ملتا ہے؛
تمہاری کمریں بندھی رہیں اور تمہارے چراغ جلتے رہیں۔
گو کہ احبار 24:4 میں اردو کلام میں "پاک” شمعدان لکھا ہے مگر عبرانی میں پاک کے لئے جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ "התהרה” ہے جس سے اردو میں مراد طہارت بنتا ہےمگر یہاں پر خالص بنے گا کیونکہ خداوند نے خالص سونے کا شمعدان بنانے کا حکم دیا تھا۔ خالص۔۔۔ جو کہ آمیزش سے پاک، بے داغ تھا۔ اس بات کو دھیان میں رکھتے ہوئے مکاشفہ 1 باب میں درج شمعدان کے ذکر کا سوچیں۔
شمعدان کے حکم کے بعد ہم سبت کی روٹی کے بارے میں حکم پڑھتے ہیں۔ یہ بھی ایک دائمی حکم ہے۔ آج بھی سبت کے دن یہودی اور میسیانک یہودی خاص ،سبت کے لئے روٹی تیار کرتے ہیں ۔ روٹی اور مے ہر سبت (جو کہ ہفتے کا آخری دن بنتا ہے یعنی ہفتے کا دن) کو تیار کرتے ہیں اور اس رسم میں حصہ لیتے ہیں جس کو مسیحی عشائے ربانی سے جانتے ہیں۔ زیادہ تر مسیحی عشائے ربانی ہر ہفتے نہیں لیتے اور اگر لیتے بھی ہیں تو وہ یہ رسم اتوار والے دن نبھاتے ہیں جو کہ کلام کے مطابق صحیح نہیں ہے۔
ہم اسی باب میں ایک اس اسرائیلی عورت کے بیٹے کے بارے میں پڑھتے ہیں جس کا باپ مصری تھا۔ احبار 24:10 میں ہم پڑھتے ہیں کہ وہ اسرائیلیوں کے بیچ چلا گیا۔ میں نے خروج کےمطالعے میں بیان کیا تھا کہ اسرائیلیوں کے ساتھ ساتھ ملی جلی بھیڑ بھی مصر سے نکل کر آئی تھی۔ جب مشکان یعنی خیمہ اجتماع کھڑا کیا گیا تو خداوند نے بتایا کہ کیسے اسرائیلی قبیلے اپنے خیمے لگائیں گے۔ اسرائیلی قبیلوں کے احاطے سے باہر ملی جلی بھیڑ کےخیمےتھے۔پاکیزگی کا یہ معیار خداوند نے دیا تھا۔ اس شخص کا اسرائیلیوں کے بیچ میں چلے جانا سے مطلب یہ اخذ ہوتا ہے کہ اس نے اپنا خیمہ اسرائیلیوں کے لشکرگاہ میں کھڑا کرنا چاہا۔ اسکا باپ مصری تھا یعنی کہ خالص اسرائیل کے گھرانے میں شمار نہیں کیا جا سکتا تھا اسے اس بات کو سیکھنا تھا کہ خداوند نے جو معیار مقرر کیا ہے اسے اس معیار کو قائم رکھنا ہے مگر اس نے دوسرے اسرائیلی کے ٹوکنے پر مار پیٹ شروع کر دی اور بالآخر خداوند کے نام میں کفر بکا۔ میں نے اپنے آڈیو میسجز میں خاص "خیلول ہاشیم، חילול השם , Chillul HaShem” پر بات کی تھی۔ ہاشیم سے مراد ہے "نام” اور اس سے خاص خداوند کے نام کی مراد لی جاتی ہے۔ عبرانی لفظ "خیلول” سے مراد "بے حرمتی” ہے۔ اس شخص کو تو خداوند کے نام پر کفر بکنے کے سبب سے سنگسار کیا گیا مگر آج مسیحی اکثر نہیں سوچتے کہ وہ کیسے خداوند کے حکم کو توڑ رہے ہیں جو کہ "خداوند کا نام بے فائدہ نہ لینے ” کا کہتا ہے۔ میں اور آپ اگر خداوند کے قائم کئے گئے حکموں یا پاکیزگی کےمعیار کو توڑنے کی کریں گے تو خداوند ضرور اس بات کی سزا دیں گے۔ یشوعا نے بھی اس بات کی خاص تنبیہ کی متی 12:31 سے 32یوں لکھا ہے؛
اسلئے میں تم سے کہتا ہوں آدمیوں کا ہر گناہ اور کفر تو معاف کیا جائے گا مگر جو کفر روح کے حق ہو وہ معاف نہ کیا جائے گا۔اور جو کوئی ابن آدم کے برخلاف کوئی بات کہے گا وہ تو اسے معاف کی جائے گی مگر جو کوئی روح القدس کے برخلاف کوئی بات کہے گا وہ اسے معاف نہ کی جائے گی نہ اس عالم میں اور نہ آنے والے میں۔
یشوعا کی تعلیم توریت کی تعلیم سے ہٹ کر ہر گز نہیں تھی۔ احبار 24:20 میں ہم یوں پڑھتے ہیں؛
یعنی عضو توڑنے کے بدلے عضو توڑنا ہو اور انکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت۔ جیسا عیب اس نے دوسرے آدمی میں پیدا کردیا ہے ویسا ہی اس میں بھی کر دیا جائے۔
بے شک ایسا ہی کچھ حکم خروج 21:24 اور استثنا 19:21میں بھی نظر آتا ہے مگر مسیحیوں کو خاص اس آیت کو پڑھ کر یشوعا کی تعلیم ذہن میں پہلے آتی ہے۔ آپ متی 5:38 سے 42 آیات خود پڑھ سکتے ہیں۔ یشوعا نے شریر کا مقابلہ کرنے سے منع کیا ہے تاکہ اس بات کی نوبت نہ آئے کہ ایک انسان دوسرے سے بدلہ لے بلکہ بدلہ لینے کا کام خداوند پر چھوڑ دے۔ توریت کے احکامات برحق ہیں۔ اگر کسی ملک میں قانون نہ ہو تو لوگوں کو انصاف نہیں مل سکتا۔ خداوند نے یہ احکامات انصاف دینے دلانے کے حوالے سے دئیے ہیں۔ یشوعا نے بھی توریت کی تعلیم کو منسوخ نہیں کیا بلکہ ان حکموں کو صحیح طور پر سمجھانے کی کوشش کی ہے۔
میں اپنے اس مطالعے کو یہیں ختم کرتی ہوں اگلی دفعہ ہم احبار 25 باب کا مطالعہ کریں گے۔ خداوند آپ کو توریت کے حکموں کو صحیح سمجھنے میں مدد دیں، یشوعا کے نام میں آمین۔