آپ کلام سے خروج کا 8 باب مکمل خود پڑھیں۔
ہم نے پچھلے باب میں پڑھا تھا کہ خدا نے دریائے نیل کا پانی خون بنا دیا تھااور انھیں اس مصیبت میں سات دن گذر گئے تھے ۔اب خداوند نے ایک بار پھر سے موسیٰ کو کہا کہ جاکر فرعون کو خبردار کرے کہ وہ خداوند کے لوگوں کو جانے دے تاکہ وہ خداوند کی عبادت کریں اور اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو خداوند اسکے ملک پر مینڈکوں کی آفت لے کر آئیگا اور ہر جگہ پر اتنے مینڈک ہوجائیں گے کہ وہ انکی آرام گاہ انکے بستروں یہاں تک کہ تنوروں اور آٹا گوندھنے کے لگنوں میں بھی ہونگے۔ پہلی آفت بھی فرعون کو خبردار کرکے دی گئی تھی اور اب دوسری بھی۔
خداوند نے موسیٰ کو کہا کہ ہارون سے کہے کہ اپنی لاٹھی لے کر اپنا ہاتھ دریاؤں اور نہروں اور جھیلوں پر بڑھائے اور مینڈک ملک مصر پر چڑھ آئینگے۔ انھوں نے ایسا ہی کیا اور مینڈکوں نے ملک مصر کو ڈھانک لیا۔ ملک مصر کے عقلمند جادوگروں نے بجائے اپنے اوپر سے آفت ختم کرنے کے ایک بار پھر سے ایسا ہی کیا کہ اپنے لئے آفت اور بڑھا لی انھوں نے بھی ملک مصر پر مینڈک چڑھا لائے۔
مینڈک پانی سے نکل کر آئے تھے۔ اگر آپ کو یاد ہو تو میں نے پچھلے باب کے آرٹیکل میں ذکر کیا تھاکہ ملک مصر پر آئی ہوئی آفتیں ایسے ہی تھی کہ خدا ملک مصر کے دیوی اور دیوتاؤں کو نیچا دکھا رہا تھا۔ مینڈک بھی انکی دیوی حکت، Heqet کا نشان تھا جسکا جسم انسان نما مگر سر مینڈک نما دکھایا جاتا ہے۔ اور شاید آپ کو پتہ ہو کہ انڈیا میں جن جانوروں کی پوجا کی جاتی ہے انکو مارنا اچھا نہیں سمجھا جاتا خاص طور پر گائے کو۔ بلکہ بعض علاقوں میں ایسا کرنے پر اسکی کڑی سزا بھی ملتی ہے ویسا ہی آپ ان مینڈکوں کے بارے میں بھی سوچ سکتے ہیں کہ مصری انکو مارنا نہیں چاہتے تھے اور انھیں مارنا پڑ بھی رہا ہوگا تو اس آفت میں مجبوری کی بنا پر۔ اس دیوی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بے اولادوں کو اولاد دینے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ تبھی کلام میں مینڈکوں کا آرام گاہ اور پلنگوں میں گھسنے کا ذکر آیا ہے۔ اسکے ساتھ ہی ساتھ وہ فصل کی پیداوار کی برکت تسلیم کی جاتی تھی۔ خدا نے انکے تنوروں اور آٹا گوندھنے کے لگنوں تک مینڈک بھیج دئیے کہ وہ خود سے ان سے چھٹکارا نہ پا سکے۔ مکاشفہ کی کتاب 16 باب میں نہ صرف پانی کے خون بننے کا آیا ہے بلکہ ساتھ ہی میں تین مینڈک نما ناپاک روحوں کا بھی ذکر ہے۔فرعون اور اسکے جادوگر اپنے اوپر ان آفتوں کو خود بھی لے کر آئے مگر ان کو اپنے سے دور نہ کر پائے۔ انکا ایسا کرنا صرف اور صرف موسیٰ اور ہارون پر یہ ثابت کرنا تھا کہ اگر تمہارا خدا ایسا کر سکتا ہے تو ہمارے دیوی دیوتا بھی ایسا کر سکتے ہیں۔ فرعون کو موسیٰ کی مدد کی ضرورت پڑی۔ فرعون نے موسیٰ اور ہارون کو بلوا کر کہا کہ وہ لوگوں کو جانے دیگا کہ خداوند کے لئے قربانی کریں اگر موسیٰ خداوند سے شفاعت کرے کہ خداوند ان سے مینڈکوں کو دور کر دے۔
موسیٰ نے اس سے پوچھا کہ وہ کب ایسا کرے کہ مینڈک دریا میں ہی رہیں اور فرعون نے اس سے کہا کل کے لئے۔ موسیٰ نے اس سے کہا کہ ایسا ہی ہوگا تاکہ وہ جان جائے کہ خداوند انکے خدا کی مانند کوئی نہیں۔ موسیٰ نے خداوند سے فریاد کی اور موسیٰ کی درخواست کے مطابق ہی کیا۔ ملک مصر کے تمام مینڈک جو کہ گھروں اور صحنوں اور کھیتوں میں تھے مر گئے۔ لوگوں نے انکو جمع کرکے انکا ڈھیر لگا دیا مگر زمین سے بدبو آنے لگی۔ ایک بار پھر سے فرعون کو خدا کی ضرورت نہیں پڑی کہ اپنا دل سخت کرتا اس نے خود ہی اپنا دل سخت کر دیا اور اپنے کہے کے مطابق نہیں کیا۔ اس نے بنی اسرائیل کو نہیں جانے دیا۔ اگلی آفت انکو خبردار کئے بغیر آئی خداوند نے موسیٰ کو کہا کہ ہارون سے کہے کہ اپنی لاٹھی بڑھا کر زمین کی گرد کو مارے تاکہ تمام ملک مصر میں جوئیں بن جائیں۔ ہارون نے ایسا ہی کیا اور انسان اور حیوان پر جوئیں ہوگئیں۔ اردو کلام میں تو لفظ "جوئیں” لکھا ہے مگر عبرانی کلام کے مطابق یہ جس قسم کا کیڑا ہے اس کے کاٹنے سے جلد پر بہت ہی سخت تکلیف پیدا ہوتی ہے۔ مصری جادوگروں نے بھی ایسا کرنے کی کوشش کی مگر وہ کر نہ پائے۔ انھوں نے فرعون کو کہا کہ "یہ الوہیم کا کام ہے” ۔ ہم جب الوہیم کہتے ہیں تو اکثر اس سے مراد "خداوند یہوواہ” ہوتی ہے مگر مصریوں کا یوں الوہیم کہنا "یہوواہ خدا” کی اس طرح سے مراد نہیں تھی۔اگر آپ نے میرے "پرئیر واریر ” کے آرٹیکل پڑھے ہیں تو اس میں اور کچھ اور آرٹیکلز میں میں نے ذکر کیا تھا کہ "الوہیم” سے مراد "خدا” ہے جو کہ کوئی بھی خدا ہوسکتا ہے۔ وہ سادہ لفظوں میں فرعون کو یہ بتانا چاہ رہے تھے کہ وہ موسیٰ اور ہارون کے سامنے نہیں ہارے بلکہ انکے خدا کی قوت کے آگے کچھ نہیں کر پائے۔ انکی نظر میں یہوواہ ایک وہ خدا تھا جو کہ ان کے خداؤں سے بڑھ کر قوت و طاقت رکھتا تھا۔ افسوس کے اسکے باوجود بھی فرعون نے اپنے دل کو سخت ہی رکھا اور خداوند کی نہیں سنی۔
انسانوں پر خدا نے جوئیں بھیجی، یہ تو سمجھ میں آتا ہے مگر حیوانوں پر کیوں؟ اسکی وجہ سادہ سی تھی تاکہ مصری اپنے دیوتاؤں کو قربانی نہ چڑھا پائیں۔ اب تک جتنی بھی آفتیں آئی تھیں وہ ملک مصر میں مصریوں اور بنی اسرائیلیوں دونوں پر تھیں مگر وقت آگیا تھا کہ خدا اپنے لوگوں پر ثابت کرتا کہ انکا خدا انکو اپنی حفاظت میں رکھ سکتا ہے ۔
ایک بار پھر سے خدا نے موسیٰ کے ذریعے فرعون کو خبردار کیا کہ اگر وہ خداوند کے لوگوں کو اسکی عبادت کرنے کے لئے نہیں جانے دے گا تو وہ ملک مصر پر مچھروں کے غول کے غول بھیجے گا مگر جشن کے علاقے میں جہاں بنی اسرائیل رہتے تھے وہاں مچھروں کے غول نہ ہونگے تاکہ فرعون جان لے کہ "دنیا کا خدا خداوند ہی ہے”۔ خداوند نے اس دن اپنے لوگوں اور فرعون کے لوگوں میں فرق کیا۔ یہ نشان اگلے دن ظہور میں آیا اور مصریوں کے اور فرعون کے گھروں میں مچھروں کے غول ہی غول بھر گئے مگر بنی اسرائیل اس آفت سے محفوظ رہے۔ آپ کلام میں سے زبور 78 بھی پڑھ سکتے ہیں جن میں ملک مصر پر آئی بلاؤں کا ذکر ہے گو کہ وہ اپنی اس ترتیب میں نہیں جس طرح سے ہم خروج کی کتاب میں مطالعہ کر رہے ہیں۔ زبور 78:45 میں لکھا ہے کہ "اس نے ان پر مچھروں کے غول بھیجے جو انکو کھا گئے۔۔۔”۔ مچھر وں کے کاٹنے سے انکے جسموں کا برا حال ہوگا تبھی ایسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔
فرعون نے ایک بار پھر سے موسیٰ اور ہارون کو بلوا کر کہا کہ وہ جائیں اور اسی ملک یعنی ملک مصر میں ہی اپنے خدا کے لئے قربانی چڑھائیں۔ موسیٰ نے فرعون کو ایسے جواب دیا (خروج 8:26):
موسیٰ نے کہا ایسا کرنا مناسب نہیں کیونکہ ہم خداوند اپنے خدا کے لئے اس چیز کی قربانی کرینگے جس سے مصری نفرت رکھتے ہیں ۔ سو اگر ہم مصریوں کی آنکھوں کے آگے اس چیز کی قربانی کریں جس سے وہ نفرت رکھتے ہیں تو کیا وہ ہمکو سنگسار نہ کر ڈالینگے؟ پس ہم تین دن کی راہ بیابان میں جاکر خداوند اپنے خدا کے لئے جیسا وہ ہمکو حکم دیگا قربانی کرینگے۔
میں نے اوپر مثال کے لئے انڈیا کا ذکر کیا تھا۔ آپ موسیٰ کی کہی ہوئی بات کا تصور ایسے ہی کر سکتے ہیں کہ مصریوں کی نظر میں گائے کی قربانی ممنوع تھی کیونکہ وہ انکو مقدس سمجھتے تھے۔ انکی نظر میں یہ نفرت انگیز کام تھا۔ موسیٰ اسلئے جانتا تھا کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو مصری انکو سنگسار کر دینگے اسلئے اس نے فرعون سے بیابان میں جانے کی اجازت مانگی تھی۔ فرعون نے انھیں کہا کہ وہ انھیں جانے دیگا اگر وہ بہت دور مت جائیں اور موسیٰ اسکی شفاعت کی دعا کرے۔ موسیٰ نے کہا وہ ایسا کر دیگا اگر آگے کو فرعون انھیں جانے دینے سے انکار نہ کرے ۔ موسیٰ نے فرعون کے پاس سے جا کر خداوند سے شفاعت کی اور مچھروں کے غول دور ہوگئے کہ ایک بھی باقی نہ بچا۔ افسوس کہ اس بار بھی فرعون نے اپنے دل کو خود ہی سخت کر لیا اور بنی اسرائیل کو نہ جانے دیا۔
میں بتاتی چلوں کہ جوئیں زمین کی گرد سے پیدا کرنا مصریوں کے زمین کے دیوتا گیب یا صیب Geb or Seb,کو نیچا دکھانا تھا اور مچھروں کے غول (گو کہ عبرانی لفظ مچھروں کو نہیں بلکہ کچھ اور قسم کے کیڑے کو بیان کرتا) انکے دیوتا عمون را، Ammon Ra یا پھر عوتختUtachit , کو نیچا دکھانا تھا ۔ مصریوں کے خیال میں ہر ایک چیز کا اپنا خدا تھا جس پر صرف انکا اختیار تھا۔ فرعون اور مصری ابھی تک مکمل طور پر جان نہیں پائے تھے کہ خداوند کا اختیار ہر ایک چیز پر ہے۔
میری خداوند سے یہی دعا ہے کہ وہ غیروں کو اپنے لوگوں اور غیروں کے درمیان صاف فرق کو ظاہر کرے اور گھمنڈیوں کے گھمنڈ کو چکنا چور کر دے، یشوعا کے نام میں۔ آمین