کلام میں سے آپ پیدائش 27 باب پورا خود پڑھیں۔
اس باب میں ہم دو بہت اہم باتوں کو سیکھیں گے ایک ، باپ کی دی ہوئی برکت اور دوسری لعنت کے بارے میں۔ اگر آپ میرے ساتھ ساتھ پیدائش کا مطالعہ کرتے چلے آ رہے ہیں تو آپ کو اور مجھے مبارک ہو کہ ہم نے آدھے سے ذرا زیادہ پیدائش کی کتاب کا مطالعہ کر لیا ہے 🙂 وقت تو بہت لگ رہا ہے مگر یہ باتیں جاننا ، سیکھنا اور ان پر عمل کرنا ہمارے اپنے فائدہ کے لیے ہی ہے۔ آپ نے سکول بھی ایک دن میں ختم نہیں کر لیا تھا اسی طرح سے آپ کلام کا مطالعہ بھی ایک دن میں ختم نہیں کر پائیں گے اسلئے مایوس نہ ہوں بلکہ اس بات پر خوش ہوں کہ آپ کچھ باتوں کو بہت سے دوسرے لوگوں سے بہتر سمجھ پا رہے ہیں۔
جب اضحاق ضیعف ہو گیا تو اس کی نظر اس حد تک کمزور ہو گئی کہ اس کو کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ ایک دن اس نے اپنے بڑے بیٹے عیسو کو بلا کر کہاپیدائش 27:2 سے 4 :
تب اس نے کہا دیکھ! میں ضیعف ہوگیا ہوں اور مجھے اپنی موت کا دن معلوم نہیں۔ سو اب تو ذرا اپنا ہتھیار اپنا ترکش اور اپنی کمان لے کر جنگل کو نکل جا اور میرے لیے شکار مار لا۔ اور میری حسب پسند لذیذ کھانا میرے لیے تیار کرکے میرے آگے لے آ تاکہ میں کھاؤں اور اپنے مرنے سے پہلے دل سے تجھے دعا دوں۔
جب اضحاق، عیسو سے یہ باتیں کر رہا تھا تو ربقہ سن رہی تھی۔ عیسو جنگل کو نکل گیا اپنے باپ کے لیے شکار مار کر لانے کو۔ یہ بات تو ہمیں نہیں معلوم کہ اگر ربقہ نے کبھی اضحاق سے ذکر کیا تھا یا نہیں کہ خدا نے بڑے بیٹے کو نہیں بلکہ چھوٹے کو چنا ہے (پیدائش 25:23) ۔ مگر اضحاق تو خدا کی مرضی کے مطابق چلنے والوں میں سا تھا۔ کیا اس نے برکت دینے سے پہلے خدا سے پوچھنا چاہا تھا یا کہ پھر اسکا خیال تھا کہ جو اپنے بیٹے کے لیے ،اسکا فیصلہ ہے اسی میں خدا بھی رضامند ہوگا؟ کیا اضحاق عیسو کے پیار میں اتنا اندھا ہو گیا تھا کہ اسے عیسو کی حرکتوں سے نہیں لگتا تھا کہ وہ انکے گھرانے کو خدا سے اور بھی دور کردے گا؟ آخر عیسو نے کیوں نہیں اپنے باپ کو کہا کہ میں نے تو پہلوٹھے ہونے کا حق اپنے بھائی یعقوب کو بیچ دیا ہے؟ جب کبھی ہم خدا کے حکموں کے خلاف اپنے دل کی خواہشات کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں ہم گناہ کی دلدل میں دھنس جاتے ہیں۔
ربقہ یہ سب کچھ سن رہی تھی جب اضحاق نے عیسو کو کہا تھا کہ جا کر شکار مار لائے اور وہ شکار کا گوشت کھانے کے بعد عیسو کو پہلوٹھے کی برکت دے گا۔ اضحاق نے اس بات کے بارے میں ربقہ کی صلاح لینا گوارہ نہ کیا اس نے تو بذات خود یہ بات بھی ربقہ کو بتانا نہ چاہی تھی کہ "میرے خیال میں اب وقت آگیا ہے کہ میں پہلوٹھے بیٹے کو برکت دوں۔” اس نے صرف اور صرف اپنے دل کی آواز اور خواہش پر عمل کرنا چاہا تاکہ کوئی اسے روکنے والا نہ ہو۔ اگر آپ زندگی کے ایسے دوراہے پر ہیں جہاں آپ اپنے دل کی خواہش پر عمل کرنا چاہتے ہیں تو ایک بار سوچیں کہ آپ کس سے اپنی مشکل کے بارے میں بات چیت کر سکتے ہیں جو کہ آپ کو کلام کے مطابق مشورہ دے سکے گا اور آپ کو بدی سے بچا سکے گا۔ واعظ 4:9سے 10 میں لکھا ہے؛
ایک سے دو بہتر ہیں کیونکہ انکی محنت سے انکو بڑا فائدہ ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر وہ گریں تو ایک اپنے ساتھی کو اٹھائیگا لیکن اس پر افسوس جو اکیلا ہے جب وہ گرتا ہے کیونکہ کوئی دوسرا نہیں جو اسے اٹھا کھڑا کرے۔
ربقہ کو یاد تھا کہ خدا نے کیا کہا تھا اسلئے جب اس نے سنا کہ اضحاق کیا کرنے والا ہے تو اس نے یعقوب سے کہا کہ میں نے تیرے باپ کو تیرے بھائی عیسو سے کہتے سنا ہے کہ جا کر شکار مار کر لذیذ کھانا اسکے لئے تیار کر کے لائے تاکہ وہ اسکو اپنی برکت خدا کے آگے دے سکے۔ ربقہ نے یعقوب کا کہا کہ جا کر ریوڑ میں سے بکری کے دو اچھے اچھے بچے لا کر اسے دے تاکہ وہ انکو اضحاق کی پسند کے مطابق تیار کرے تاکہ یعقوب اس کھانے کو اپنے باپ کے پاس لے کر جائے اور وہ کھانا کھا کر یعقوب کو اپنی برکت دے۔ یعقوب نے اعتراض کیا کہ عیسو کے جسم پر تو بہت بال ہیں اور اسکا جسم صاف ہے اگر اسکے باپ نے اسے ٹٹولا تو اسے پتہ چل جائے گا اور یعقوب اسکی نظر میں دغاباز ٹھہرے گا اور بجائے برکت کے لعنت پائے گا۔ اس پر اسکی ماں نے کہا (پیدائش 27:13):
اسکی ماں نے اسے کہا ائے میرے بیٹے! تیری لعنت مجھ پر آئے۔ تو صرف میری بات مان اور جا کر وہ بچے مجھے لا دے۔
سارہ نے بھی خدا کی بجائے اپنے طریقے سے اولاد کے ہونے کا حل چاہا تھا اور بعد میں وہی الٹا اسکے اور اسکی اولاد کے لیے پریشانی کا باعث بن گئی تھی۔ ربقہ نے بھی اس کا حل بجائے خدا پر چھوڑنے کے اپنے طور پر کرنا چاہا۔ اور جب یعقوب نے یہ کہا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسکے باپ کو پتہ چل جائے اور وہ اسکو بجائے برکت دینے کے الٹا لعنت کر دے تو ربقہ کے پاس اسکا بھی جواب تھا کہ "تیری لعنت مجھ پر آئے۔” خداکی حضوری میں دی ہوئی برکت جھٹلائی نہیں جا سکتی تھی ۔ ویسے تو بہت سے لوگ یعقوب کو دھوکےباز قرار دیتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی راستبازی سے ہی گزار رہا تھا۔ اسکے دل میں خدا کو خوف موجود تھا۔ اصل میں عیسو تھا جو کہ حقیقت میں اسے دھوکا دے رہا تھا۔ وہ چپ کر کے اپنے باپ سے پہلوٹھے کی برکت وصول کرنا چاہتا تھا۔ یعقوب اپنی ماں کے حکم کے مطابق جھوٹ بولنے میں ساتھ دے رہا تھا۔ اور پھر ربقہ تو ہر قسم کی لعنت کو اپنے اوپر لینے کو تیار تھی۔
اب کچھ بات کرتے ہیں لعنتوں پر۔ اگر آپ کلام کو دھیان سے پڑھیں گے تو خدا نے اپنے احکامات کو نہ ماننے پر لعنتیں دی ہیں اور احکامات ماننے پر برکتیں۔ یعقوب خدا کا حکم مان رہا تھا کیونکہ خروج 20:12 میں لکھا ہے:
تو اپنے ماں باپ کی عزت کرنا تاکہ تیری عمر اس ملک میں جو خداوند تیرا خدا تجھے دیتا ہے دراز ہو۔
تبھی خدا نے یعقوب کو اس بات پر جھڑکا نہیں اور ملامت نہیں کی۔ خدا نے ربقہ کو بھی ایسا کرتے ہوئے جھڑکا نہیں مگر ربقہ نے خود ہی اپنے اوپر لعنت لے لی۔ کلام میں لکھا ہے ؛ امثال 18:21
موت اور زندگی زبان کے قابو میں ہیں اور جو اسے دوست رکھتے ہیں اسکا پھل کھاتے ہیں۔
اسی طرح سے متی 12:37 میں لکھا ہے:
کیونکہ تو اپنی باتوں کے سبب سے راستباز ٹھہرایا جائے گا اور اپنی باتوں کے سبب سے قصوروار ٹھہرایا جائے گا۔
ربقہ نے اپنے لیے ، بیٹے کے پیار میں بول دیا یہ بھی نہیں سوچا کہ کس قسم کی لعنت ہو سکتی ہے۔ اس سے پیشتر کے آپ ربقہ کے لیے کچھ سوچیں آپ کا اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟ آپ کتنی دفعہ اپنے اوپر لعنت کی باتیں کرتے ہیں اور کتنی دفعہ وہ باتیں کرتے ہیں جو آپ کو زندگی دے سکتی ہے؟ آپ نے بھی شاید میری طرح بہت سے ایسے الفاظ جذبات میں کہہ دیے ہونگے جو کہ تب تو شاید بہت مناسب یا پھر فلمی لگتے ہونگے مگر حقیقت میں روحانی زندگی میں آپ کے لیے مصیبت کا باعث بن رہے ہوتے ہیں۔ آپ بھی میری طرح خدا کو الزام دیتے ہونگے کہ خداوند خدا تو نے کچھ نہیں کیا!!! تو نے میری زندگی عذاب بنائی ہوئی ہے! میں تو اپنی زندگی سے اتنا /اتنی تنگ ہوں کہ مر جانا ہی بہتر ہے! میرے حالات تو کبھی ٹھیک ہونے ہی نہیں لگے!۔ ایک انکو دیکھو جو کہ زندگی میں خوش نظر آتے پھرتے ہیں اور ایک میں ہوں ایک بھی کام ڈھنگ سے نہیں ہو پاتا۔ کمزوری مجھے میں ہی ہے! یہ میرے بس کی بات نہیں!
یا پھر آپ شاید اپنے گھر میں اپنی بیوی بچوں (اور اگر عورت ہیں تو اپنے شوہر اور بچوں یا پھر شاید اور کسی قریبی رشتے دار ) کے لیے ایسا کچھ بولتے ہیں۔ سب سے نکما/نکمی یہی ہے۔ بیوقوف ہے۔ عقل نہیں ہے۔ کوئی کام ٹھیک سے نہیں کر سکتا/سکتی۔ جب دیکھو دکھ پہنچانے والے حرکتیں یا باتیں کرتے/کرتی ہیں۔ پتہ نہیں میں انھیں کب تک سنبھالوں اچھا ہوتا کہ یہ اس دنیا میں ہوتے/ہوتیں ہی نا۔ ۔۔۔۔۔ آپ شاید سمجھ ہی گئے ہیں کہ میں کیا بات کر رہی ہوں۔ میں نے پچھلے کسی آرٹیکل میں اپنے گھر والوں کے لیے زیادہ سے زیادہ برکت اور دعا دینے کا کہا تھا۔ آج میں آپ کو یہ کہہ رہی ہوں کہ اپنی زبان سوچ سمجھ کر استعمال کریں۔ اپنے آپ پر اور اپنے قریبی رشتے داروں پر لعنت بھیج بھیج کر اپنی زندگی کو اور عذاب میں نہ ڈالیں۔ ہم اس موضوع پر اگلے آرٹیکل میں بات کریں گے۔
میری خدا سے آپ کے لیے بھی وہی دعا ہے جو میں اپنے لیے کرتی آئی ہوں اور کرتی بھی ہوں۔ ائے یہواہ پاک خدا تو نے ہمارے ہونٹوں کو چھوا اور پاک کیا ہے کہ ہم تیرا نام لے سکیں اور حمد و ستایش کر سکیں۔ ہم ان میں سے نہیں بننا چاہتے جو ایک ہی منہ سے مبارکباد دیتے ہیں اور ساتھ ہی میں بد دعا بھی دیتے ہیں۔ تو نے ہمیں زندگی کا پانی دیا ہے اگر چشمے کے ایک ہی منہ سے میٹھا اور کھارا پانی نہیں نکل سکتا تو ہم جو تیرے نام سے جانے جاتے ہیں اپنے آپ کو دھوکا دیتا ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ہم تیرا پاک نام بھی لے سکتے ہیں اور ساتھ میں بد دعا دینا بھی کوئی غلط بات نہیں۔ خداوند خدا سلگا ہوا کوئلہ اپنے مذبح گاہ سےاٹھا کر ہمارے ہونٹوں کا لگا اور ہماری بدی کو ہم سے دور کر تاکہ ہمارے لب ناراستی کی باتیں نہ کہیں اور نہ ہی ہماری زبان سے فریب کی بات نکلے۔ یشوعا کے مبارک نام میں آمین۔