(پیدائش 18 باب (پہلا حصہ

image_pdfimage_print

آپ کلام میں  سے 18 باب پورا خود پڑھیں میں صرف وہی آیات لکھوں گی جس کی میں ضرورت سمجھوں گی۔

پیدائش 17 باب میں ہم نے پڑھا تھا کہ ابرہام نے اپنا اور اپنے گھرانے کے تمام مردوں بمعہ لڑکوں کا جو کہ 8 دن کے یا اس سے اوپر تھے ختنہ کروایا تھا۔ میرا نہیں خیال کہ اسکو ختنہ کرواے ہوئے کچھ زیادہ عرصہ گزرا تھا جب  اس نے اپنے سامنے تین مرد کھڑے دیکھے۔ اور اس بات کا پتہ ہمیں اس عہد سے چلتا ہے جو خداوند نے ابرہام کے ساتھ سارہ کے لیے کیا تھا۔  ابرہام نے خوش خرمی سے انکا استقبال کیا۔ عبرانی کلام میں  پیدائش 18:3 میں جہاں اردو میں "خداوند” لکھا ہے وہاں عبرانی میں "ادونے (ادونائی سے )” لکھا ہے۔  ابرہام نے انکو عزت دی۔   اسے نہیں علم تھا کہ ان میں سے دو فرشتے ہیں اور ایک خداوند (جسم میں یشوعا) خود ہے۔ اس نے  انھیں  کہا کہ وہ پاؤں دھو کر آرام کریں  اور اس دوران میں وہ انکے لیے کھانا لاتا ہے تاکہ پھر وہ آگے بڑھ سکیں۔ آپ کو علم ہے کہ پرانے زمانے میں لوگ عام طور پر پیروں پر سفر کرتے تھے جو امیر تھے وہ گدھوں ، گھوڑوں اور اونٹوں کا ستعمال کرتے تھے، جگہ جگہ آج کی طرح سفر کے دوران میں ریسٹورنٹ نہیں تھے کہ لوگ  کہیں  بھی قریبی ریسٹورنٹ میں رک کر کھانا کھا لیں ۔ جہاں وہ شہر سے کھانا نہیں خرید پاتے تھے وہاں وہ ان لوگوں سے جو کہ انکے راستے میں پڑتے تھے کھانے کی گذارش کر دیتے تھے۔ ابرہام نے انھیں خود آرام کرنے اور کھانے کی پیشکش کی ۔ اس نے انکے لیے اچھا کھانا تیار کروایا اور انکے سامنے کھانے کے لیے پیش کیا۔  عبرانیوں 13:2 میں لکھا ہے؛

مسافرپروری سے غافل نہ رہو کیونکہ اسی کی وجہ سے بعض نے بے خبری میں فرشتوں کی مہمانداری کی ہے۔

اور متی 25:31 سے 46 میں یشوعا نے  کہا کہ جب تم نے چھوٹوں میں سے کسی ایک کو بھی جب وہ بھوکا تھا تو کھانا کھلایا، جب پیاسا تھا تو پانی پلایا، پردیسی کو گھر میں اتارا، ننگے کو کپڑا پہنایا اور بیمار کی  اور قیدی کی خبر لی تو تم نے میرے لیے کیا۔

ہم اپنے مہمانوں  کی اگر اچھی خاطر گیری کرتے ہیں یا پھر جب بھی بن سکے کسی بھی غریب کی مدد کرتے ہیں تو ہم ایک طرح سے خدا کی خدمت کر رہے ہوتے ہیں۔  اور آپ کو کیا پتہ کہ کسی دن ایسے ہی آپ بھی ابرہام کی طرح حقیقت میں خدا کے لیے کچھ خاص کر دیں۔

کھانا کھانے کے بعد انھوں نے ابرہام سے سارہ کا پوچھا۔ ابرہام جہاں کھڑا تھا اسکے پیچھے  ڈیرے کا دروازہ تھا، ابرہام نے کہا وہ ڈیرے میں ہے۔ تب خدا نے ابرہام کو کہا کہ وہ پھر ابرہام کے پاس موسم بہار میں آئے گا اور اسکی بیوی سارہ کے بیٹا ہوگا۔ ساتھ ہی میں لکھا ہے کہ سارہ کی وہ حالت نہیں رہی تھی جو عورتوں کی ہوتی ہے۔  سارہ  جو دروازے کے پیچھے کھڑی سن رہی تھی  اسکو ہنسی آئی اس بات پر کہ کوئی اب اسکے بارے میں یہ بھی خیال کر سکتا ہے کہ اسکے بیٹا ہو کیونکہ اسکا خاوند بھی ضیعف تھا۔

جب خدا نے ابرہام کو کہا تھا کہ سارہ سے اسکا بیٹا ہوگا تو وہ دل میں خوشی سے ہنسا تھا مگر سارہ کو ہنسی اس لیے آئی تھی کہ وہ اپنی اور اپنے شوہر کی جسمانی حالت کو جان کر یقین نہیں کر رہی تھی۔  اسکو یہ شاید ایک مذاق لگ رہا تھا تبھی خداوند نے کہا کہ سارہ یہ کہہ کر کیوں ہنسی کہ کیا میرے جو ایسی بڑھیا ہوگئی ہوں واقعی بیٹا ہوگا؟

میں نے ایک بار پہلے بھی بات کی تھی کہ ایمان یہ ہے کہ اس  کا یقین کیا جائے جو نظر نہیں آ رہا ہوتا کیونکہ عبرانیوں 11:1 میں لکھا ہے؛

اب ایمان امید کی ہوئی چیزوں کا اعتماد  اور ان دیکھی چیزوں کا ثبوت ہے۔

آپ اپنے حالات کو دیکھ کر کیا سوچتے ہیں ؟ کلام کہتا ہے  یرمیاہ 29:11 میں کہ؛

کیونکہ میں تمہارے حق میں اپنے خیالات کو جانتا ہوں خداوند فرماتا ہےیعنی سلامتی کے خیالات۔ برائی کے نہیں تاکہ میں تم کو نیک انجام کی امید بخشوں۔

آپ اور میں اپنی کسی تکلیف کو دیکھ کر نہیں سوچ سکتے کہ خدا کوئی معجزہ کر سکتا ہے مگر خدا کہتا ہے کہ میرے خیالات تمہارے لیے سلامتی کے خیالات ہیں تاکہ میں تم کو نیک انجام کی امید بخشوں۔ میں نے آپ سے پہلے بھی اپنی بیٹی کے بارے میں ذکر کیا تھا  جو کہ چل پھر نہیں سکتی ، بات نہیں کر سکتی اور نا ہی اپنا کوئی کام خود کر سکتی ہے۔ کہنے کو تو وہ 14 سال کی ہے مگر ابھی تک دو سال  یا اس سے کم عمر بچوں کی طرح ہے۔ اسکے لیے میں نے دعائیں لکھیں تھی اس امید کے ساتھ کہ خدا میری اسکے لیے دعاوں کو سنے گا۔ میں نے اپنی امیدیں کافی دفعہ ٹوٹتے ہوئے دیکھی ہیں  مگر جب بھی لگتا تھا کہ اب امید نہیں خدا پھر سے میری امیدوں کو جگا دیتا تھا۔ کتنے ہی خدا کے خادموں نے اسکے لیے دعا بھی کی  کہ وہ بالکل ٹھیک ہوجائے مگر خدا نے ایسا ایک دم  کوئی معجزہ نہیں کیا ۔ شاید آپ میں سے کوئی اپنی جسمانی حالت یا پھر مالی حالت دیکھ کر یہی سوچ رہا ہے کہ کیا کوئی امید ہے؟ مجھے اس باب میں جو بات ہمیشہ سے اچھی لگتی ہے وہ یہ ایک جملہ ہے جو میں اپنے آپ کو اکثر یاد دلاتی ہوں۔ پیدائش 18:14؛

کیا خداوند کے نزدیک کوئی بات مشکل ہے؟ ۔۔۔۔۔۔

جب کوئی بھی خدا کے بارے میں سوچتا ہے تو پہلا خیال یہی ذہن میں آتا ہے کہ خدا وہ ہے جو کہ ہمیں نظر نہیں آتا اور اس نے ہمیں اور اس پوری دنیا کو بنایا ہے (سچ ہے)۔ وہ سب کچھ کرنے کی طاقت رکھتا ہے (یہ بھی سچ ہے) اور اگر وہ چاہے تو وہ دنیا سے تمام تکلیفیں دور کر سکتا ہے (یہ بھی بالکل سچ ہے) اور وہ میری  تکلیف دور کر سکتا ہے (حقیقت ہے)۔ یہ سچ ہے کہ خدا کے لیے کچھ مشکل نہیں۔ یہ بات مجھے ہمیشہ تسلی دیتی ہے۔ تو پھر آخر وہ کیوں نہیں کچھ کرتا؟

آج میں یہ بات آپ سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ آپ کے خیال میں خدا کیوں نہیں کچھ کرتا ہے؟ آپ اس سوال کا جواب کمنٹ میں لکھ سکتے ہیں اور اگر آپ سب کے سامنے اپنا اظہار خیال نہیں بیان کرنا چاہتے تو آپ مجھے لکھ سکتے ہیں کہ ویب سائٹ پر مت پوسٹ کروں اور وہ کمنٹس ہر کوئی نہیں دیکھے گا۔

ہم اس کے بارے میں باقی گفتگو پھر کریں گے۔ میں آپ کے  کمنٹس کا ویٹ کروں گی۔

میری آپ کے لیے یہ دعا ہے کہ خداوند خدا آپ کو بھی دکھائے کہ اس کے لیے کچھ مشکل نہیں وہ سب کچھ کرسکتا ہے تاکہ آپ اپنے ایمان میں اور مضبوط ہوتے جائیں یشوعا کے نام میں۔ آمین۔

(پیدائش 18 باب (پہلا حصہ” پر ۳ تبصرے

  1. Khuda q nahi kuch kerta hai?
    Aisa nahi hai k khuda kuch nahi ker raha hota. I believe k ho her time humare liay kuch na kuch acha ker raha hota hai per humain jab tak os ka plan pura na ho jaye kuch samjh nahi ata k kya ho raha hai. Hum os ki aqal ko nahi pohanch patay kuch mayoos ho jaty hain kuch ghalt direction mai nikal jatay hain or kuch saber se khudawnd ki as rakhty hain qk her kaam ka ak waqt rakha hai os ne or khuda jo kerta hai chaheye wo humari soch se farak ho ya woi ho ya exactly woi ho Jo hum mang ray thy duao mai wo humare huq mai bhtr he hota hai.

    1. میں معافی چاہتی ہوں کہ میں نے آپ کےاس کمنٹ کو نہیں دیکھا تھا۔ ہر ایک چیز کا وقت مقرر ہے اس میں کوئی شک نہیں ۔ آپ نے ٹائم نکال کر اپنی رائے دی۔ آپ کی رائے کا شکریہ

  2. جو بھی کر نا ہے خدا باپ نے کرنا ہے اور اُس نے ہماری سمجھ عقل کے مطابق نہیں کر نا اُ س کے اپنے بھی ارادے ہیں
    وہ زندہ خدا ہے کچھ بھی اُس کے اختیار سے باہر نہیں اُسے جب اچھا لگے گا وہ کر دے گا

تبصرے بند ہیں۔