(پیدائش 16 باب (پہلا حصہ

image_pdfimage_print

کلام میں سے  پیدائش کا 16 باب آپ خود پڑھیں میں صرف وہی آیات لکھوں گی جس کی میں ضرورت سمجھوں گی۔

پچھلی بار ہم نے پڑھا تھا کہ خدا نے ابرام کو اسکے ایمان کے وسیلہ سے راستباز ٹھہرایا مگر  اسکا یہ مطلب نہیں تھا کہ اس نے کبھی کوئی گناہ نہ کیا تھا۔ ابرام دس برس سے کنعان کی سر زمین پر تھا اور ساری سے اسکی شادی کنعان کے ملک میں داخل ہونے سے بہت پہلے ہوئی تھی مگر اتنے برسوں کے بعد بھی وہ دونوں بے اولاد تھے۔ اس زمانے میں اولاد کا نہ ہونا ایک لعنت سمجھا جاتا تھا۔ ویسے تو کلام میں خدا نے آدم اور حوا کو یہی برکت دی تھی کہ پھلو اور بڑھو اور زمین کو معمور کرو ۔ اگر ابرام  کو خدا نے کہا تھا کہ وہ اسکو اولاد دے گا تو خدا اتنی دیر کیوں لگا رہا تھا؟ آپ کو کلام میں کتنے ہی ایسے حوالے ملیں گے جہاں لوگوں کی اولاد نہیں تھی مگر انکے دعا مانگنے سے خدا نے انکو اولاد دی اور انکی اولاد کو اپنے نیک کام کے لیے استعمال کیا۔  اگر آپ بھی اولاد کی نعمت سے ابھی تک محروم ہیں تو حوصلہ مت ہاریں کیونکہ خدا نے آپ کو جو بھی اولاد دینی ہے اس نے اسکو اپنے کام کے لیے مخصوص کر دیا ہے اسلیے آپ خدا کو کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں پورا ایمان ہے کہ تو ہمیں اولاد دے گا اور اسکو اپنے نام کے جلال کے لیے استعمال کرے گا۔  کہنے کو تو اولاد خدا ہمیں دیتا ہے مگر وہ ہمارے پاس اسکی امانت ہے۔  وہ کیسے؟

آپ نے شاید متی 25 باب میں 14 سے 30 آیات میں اس آدمی کا حال پڑھا ہوگا جس نے پردیس جاتے  وقت اپنے گھر کے نوکروں کو بلا کر اپنا مال انکے سپرد کیا۔ اس نے ایک کو پانچ توڑے دئے، دوسرے کو دو اور تیسرے کو ایک۔ آپ نے پادری صاحبان کے منہ سے اکثر اس  تمثیل کو دہ یکی کا پیغام یا اسی سے ملتے جلتے پیغام کے بارے میں بیان کرتے سنا ہوگا۔ میں خود چار بچوں کی ماں ہوں اور خدا نے  اس تمثیل کا مفہوم مجھے اپنے بچوں کے حوالے سے بھی  سمجھا یا تھا۔ اس تمثیل کو کلام میں آپ خود پڑھیں میں صرف بچوں کے حوالہ سے مطلب واضح کروں گی۔ میرے 4 بچے ہیں۔ آپ کے شاید تین، دو یا ایک ، یا پھر اس سے بھی زیادہ بچے ہوں۔

 جس نوکر کو مالک نے پانچ توڑے دئے تھے اس نے پانچ اور توڑے کمائے جس نے دو توڑے وصول کیے تھے اس نے دو اور کمائے مگر جس کو ایک ملا تھا اس نے جا کر زمین کھودی اور اس میں اپنے مالک کا روپیہ چھپا دیا۔ مالک نے پہلے دو نوکروں کو تو شاباش دی اور انھیں اور بھی بہت سی چیزوں کا مختار بنا دیا مگر جس نے پیسے دبا دیے تھے اس نے کہا خداوند میں تجھے جانتا تھا کہ تو سخت آدمی ہے اور جہاں نہیں بویا وہاں سے کاٹتا ہے اور جہاں نہیں بکھیرا وہاں سے جمع کرتا ہے۔ پس میں ڈرا اور جا کر تیرا توڑا زمین میں چھپا دیا۔ دیکھ جو تیرا ہے وہ موجود ہے۔ (متی 25:24) اسکے مالک نے اسے ڈانٹا اور کہا کہ ائے شریر اور سست نوکر تجھے میرے بارے میں علم تھا پس تجھ پر لازم تھا کہ تو ساہوکاروں کو دیتا تو میں آکر اپنا مال سود سمیت لے لیتا۔۔۔۔۔

اگر آپ خدا کا کلام خود نہیں پھیلا سکتے تو اپنے بچوں میں خدا کے کلام کا علم ڈالیں کیونکہ آگے چل کر وہ جب اپنی اولاد کو یہی کلام میں سکھائیں گے تو  کتنے اور سچائی کی راہ پر چلنے والے ہو جائیں گے۔ وہ خود خدا کا کلام پھیلانے والے بن جائیں گے  ، خدا  کی فصل پر کام کرنے والے مزدور بن جائیں گے۔

جب ساری کی اولاد نہ ہوئی تو اس نے ابرام سے کہا دیکھ خدا نے تو مجھے اولاد سے محروم رکھا ہے سو تو میری لونڈی ہاجرہ کے جا شاید اس سے میرا گھر آباد ہو۔ آپ کا کیا خیال ہے ساری نے ایسا قدم اٹھانے کا کیوں سوچا؟ کیا ساری کو نہیں پتہ تھا کہ خدا نے ابرام کو اولاد دینے کا وعدہ کیا ہے؟ یا پھر کیا ساری کا خیال تھا کہ خدا ابرام کو اولاد تو دے گا مگر اس سے نہیں اسکی نوکرانی سے؟  ابرام نے ساری کی بات مانی مگر کیوں؟  کیا وہ بھی وہی سوچ رہا تھا جو کہ ساری سوچ رہی تھی ؟  ابرام کے زمانہ میں اپنی لونڈی سے اولاد کرنا کوئی برائی نہیں سمجھی جاتی تھی ۔ ہاجرہ مصر سے لائی ہوئی  لونڈیوں میں سے تھی (پیدائش 12 )۔ یہودیوں کی روایت کے مطابق ہاجرہ، فرعون کے گھرانے کی شہزادیوں میں سے تھی جس کو فرعون نے ابرام کو دیا تھا۔ اس وقت کی روایت کے مطابق وہ چونکہ  ابرام اور ساری کی لونڈی تھی اسلئے اسکی اولاد پر بھی انکا ہی حق ہونا تھا۔ ہاجرہ سے اولاد ساری اور ابرام کا منصوبہ تھا، خدا کا نہیں ۔ امثال 16:3 میں لکھا ہے؛

اپنے سب کام خداوند پر چھوڑ دے تو تیرے ارادے قائم رہینگے۔

گو کہ پیدائش 16:3 کے اردو ترجمے کے مطابق ساری نے اپنی لونڈی  ابرام کو دی کہ اسکی بیوی بنے مگر عبرانی کلام   یہاں تک کہ اردو میں بھی  4،  5، 6،  8 اور 9 آیات یہی دکھاتی ہیں  کہ ہاجرہ ، ساری کی لونڈی ہی تھی، ابرام کی بیوی نہیں۔ جب ہاجرہ کو معلوم پڑا کہ وہ حاملہ ہے تو وہ ساری کو حقیر جاننے لگی تب ساری نے ابرام سے شکایت کی کہ جو ظلم مجھ پر ہوا ہے وہ تیری گردن پر ہے۔۔۔ خداوند میرے اور تیرے درمیان انصاف کرے۔

ساری اولاد نہ ہونے پر خوش نہیں تھی اور جب اس نے اپنے بنائے ہوئے منصوبہ پر عمل کیا تو اور زیادہ شکستہ حالت میں ہوگئی۔ کیا آپ نے کبھی ساری اور ابرام کی طرح ایسا کام کیا ہے کہ جب خدا کی طرف سے دیر ہو رہی ہو تو اپنی مدد آپ خود کرنا شروع کردیں۔ اس سے بجائے کچھ بھلا ہونے کے سب کچھ الٹا ہوتا جاتا ہے۔ صورت حال اور بھی حوصلہ شکن ہوجاتی ہے۔ہمارا خیال ہوتا ہے کہ اگر خدا ہمارے ارادوں اور منصوبوں کا  جواب نہیں دے رہا تو وہ یقیناً ہماری ہاں میں ہاں ملا رہا ہے اور یہی اسکا منصوبہ ہے۔ مگر نہیں ہم ساری کی طرح اپنے لیے ایک نئی مصیبت کھڑی کر رہے ہوتے ہیں۔

  جب ساری نے ابرام سے شکایت کی تھی تو اسکی شکایت، شکایت نہیں بلکہ ایک طرح سے  الزام لگانا تھا کہ غلطی ابرام کی ہے۔ امثال  30:21 سے 23 میں چار چیزوں کا بیان ہے جن سے زمین لرزتی ہے؛

تین چیزوں سے زمین لرزان ہے بلکہ چار ہیں جنکی وہ برداشت نہیں کر سکتی۔ غلام سے جو بادشاہی کرنے لگے۔ اور احمق سے جب اسکا پیٹ بھرے اور نامقبول عورت سے جب وہ بیاہی جائے اور لونڈی سے جو اپنی بی بی کی وارث ہو۔

ہاجرہ نے یہی حرکت کی کہ اپنی بی بی کی وارث بننے کا سوچا۔ ابرام  نے یہی مناسب سمجھا کہ ساری خود ہی اس صورت حال کو حل کرے اور وہ خود اس مسلے دور رہے۔

پیدائش 16 باب کا باقی مطالعہ ہم اگلی بار دیکھیں گے۔ خدا آپ کو برکت دے  کہ آپ اپنے ارادے اور منصوبہ بندی اسکی نگرانی میں کریں تاکہ آپ کا ہر منصوبہ کامیاب ہو۔ آمین