پیدائش کا 11 باب آپ کلام میں سے خود پڑھیں۔
اس باب میں ہمیں پتہ چلتا ہے کہ کب اور کیوں زبانیں بٹیں۔ پچھلے مطالعہ میں ہم نے نمرود کی بات کی تھی۔ پیدائش 10:10 بیان کرتی ہے کہ اسکی بادشاہی کی ابتدا ملک سنعار میں بابل اور ارک اور اکاد اور کلنہ سے ہوئی۔ اس وقت تک تمام زمین پر ایک ہی زبان اور ایک ہی بولی تھی۔ سنعار آج کے عراق میں ہے۔ان لوگوں نے آپس میں کہا (پیدائش11:3 سے 4)؛
اور انھوں نےآپس میں کہا آؤ ہم اینٹیں بنائیں اور انکو آگ میں خوب پکائیں۔ سو انھوں نے پتھر کی جگہ اینٹ سے اور چونے کی جگہ گارے سے کام لیا۔ پھر وہ کہنے لگے کہ آو ہم اپنے واسطے ایک شہر اور ایک برج جسکی چوٹی آسمان تک پہنچے بنائیں اور یہاں اپنا نام کریں۔ ایسا نہ ہو کہ ہم تمام روی زمین پر پراگندہ ہوجائیں۔
کہنے کو تو وہ یگانگت دکھا رہے تھے مگر وہ اپنا نام بنانا چاہتے تھے نہ کہ خدا کا۔ کتنے ہی مذہبی ادارے یگانگت دکھاتے ہیں مگر اسکا یہ مطلب نہیں کہ انکی یگانگت خدا کی نظر میں صحیح ہے۔ پتھر جو کہ خدا نے قدرتی طور پر وجود میں رکھا ہے اسکو چھوڑ کر انھوں نے اپنی ایجاد کردہ چیزیں استعمال کرنے کا سوچا۔ جب انھوں نے اینٹیں بنانا شروع کیں تو تب ان کے دل میں برج بنانے کا خیال آیا۔ اینٹیں بنانا پہلا قدم تھا جوانھوں نے اٹھایا اور اپنے کام کے بھروسے پر آگےبرج بنانے کا سوچا۔ اس چوتھی آیت میں "نام” کا استعمال قوت اور اختیار کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ویسے ہی جیسے کہ نمرود کہنے کو شکاری سورما تھا۔ جب خدا نے نوح اور اسکے بیٹوں کو جب برکت دی تھی تو اس نے انھیں زمین کو معمور کرنے کو کہا تھا۔ مگر ان لوگوں کی باتوں سے لگتا ہے کہ وہ ایک جگہ پر رہنا چاہتے تھے کہ تمام روی زمین پر پراگندہ نہ ہوں۔ اسلئے انھوں نے ایک شہر بنانے کی سوچی اور اتنا اونچا برج بنانا چاہتے تھے جسکی چوٹی آسمان تک پہنچے۔ شاید اسلئے کہ وہ آسمان تک چڑھ سکیں، مگر اگر آسمان تک ہی چڑھنا تھا تو پھر انھوں نے میدان میں کیوں برج بنانا شروع کیا، پہاڑ پر کیوں نہیں؟ رومیوں 1:21 میں لکھا ہے؛
اسلئے کہ اگرچہ انھوں نے خدا کو جان تو لیا مگر اسکی خدائی کے لائق اسکی تمجیدا اور شکرگذاری نہ کی بلکہ باطل خیالات میں پڑ گئے اور انکے بے سمجھ دلوں پر اندھیرا چھا گیا۔
ویسے ہی جیسے کہ حزقی ایل کے 28 باب میں صور کے بادشاہ نے کہا کہ میں خدا ہوں ؛ ویسے ہی جیسے کہ شیطان سوچتا ہے ان لوگوں نے بھی سوچا۔ آج کا انسان بھی دل میں یہی سوچتا ہے۔ ہر انسان اپنا ایک نام کمانا چاہتا ہے مگر کلام کہتا ہے (یسعیاہ 5:21)؛
ان پر افسوس جو اپنی نظر میں دانشمند اور اپنی نگاہ میں صاحب امتیاز ہیں۔
پیدائش 11:5 میں لکھا ہے کہ خداوند اس شہر اور اس برج کو جسے بنی آدم بنانے لگے دیکھنے کو اترا۔ خداوند کا زمین پر اترنا ، پرانے عہد نامے میں آپ کو اس قسم کے کئی حوالے ملیں گے۔ چونکہ انکی ایک ہی زبان تھی اسلیے وہ ایک دوسرے کو سمجھ پاتے تھے۔ ربی یہ کہتے ہیں کہ اس وقت یہ ایک زبان؛ عبرانی زبان تھی اور جب خدا نے آدم اور حوا کو بنایا تو وہ ان سے اسی زبان میں گفتگو کرتا تھا۔
خدا نے انکی زبان میں جو برج بنا رہے تھے، اختلاف ڈالا تاکہ وہ ایک دوسرے کو سمجھ نہ سکیں۔ پس خداوند نے انکو تمام روی زمین پر پراگندہ کیا سو وہ اس شہر کے بنانے سے باز آئےاور اسلئے اس شہر کا نام بابل پڑا۔ بابل جسکا مطلب ہے "اختلاف یا تذبذب”۔ نئے عہد نامے میں روح القدس جب خدا کے لوگوں پر نازل ہوئی تو وہ لوگ غیر زبانیں بولنے لگ گئے اور باقی لوگ دنگ ہو گئے کیونکہ وہ انکو اپنی زبان میں بولتا سمجھ پائے(اعمال 2)۔وہی خدا جس نے لوگوں کی زبانوں میں اختلاف ڈال کر انھیں پراگندہ کیا اب اپنے لوگوں کو روح القدس کے وسیلے سے اکٹھا کر رہا ہے۔ زبور 127:1 میں لکھا ہے ؛
اگر خداوند ہی گھر نہ بنائے تو بنانے والوں کی محنت عبث ہے۔
اب اگر آپ دوبارہ سے پیدائش 10 اور اسکی 11 آیت دیکھیں گے تو نمرود کے لیے لکھا ہے کہ وہ اسی ملک (سنعار)سے نکل کر وہ اسور میں آیا اور اس نے نینوہ شہر بنایا۔ اس نے اور شہر بھی بنائے تھے جن کا ذکر آپکو پیدائش 10 میں ملے گا۔ پیدائش 1 باب سے جو بھی نام درج ہیں وہ عبرانی نام ہیں مگر نوح کی اولاد کے بعد کے کچھ نام عبرانی نام نہیں مثال کے طور پر نمرود کا۔ قدیم عبرانی زبان میں کافی تحریرات دریافت ہوئیں ہیں جن سے کلام کی باتوں کی سچائی ثابت ہوتی ہے۔سمیری اورمصری، عبرانی زبان کی طرح قدیم زبانوں میں سے ہیں جو کہ بابل کے برج کے وقت میں ابھری تھیں۔ اسلئے انکے لکھنے کا انداز ایک سا ہی تھا، مطلب کہ تصویر نما۔
شیطان کی طرح نمرود نے بھی یہی سوچا تھا کہ وہ خدا ہے اسلئے وہ خدا کے حکم کے برخلاف چلا ۔ میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا کہ نمرود سورج دیوتا کے نام سے مشہور تھا اور اسکی بیوی آسمان کی ملکہ کے طور پر جانی جاتی تھی (یرمیاہ 7) ۔ نمرودکی بیوی نمرود کے مرنے کے بعد اپنے ناجائز تعلقات کی وجہ سے حاملہ ہو گئی۔اسکی بیوی نے مشہور کیا کہ وہ سورج کی شعاوں سے حاملہ ہوئی ہے اور کہنے کو اسکا بیٹا "تموز” نمرودکا دوبارہ جنم ہے (حزقی ایل8) مگر حقیقت اسکے برخلاف تھی۔ تموز اسکی ناجائز اولاد تھا اور اسکی ماں کا اپنا بھی اپنے بیٹےتموز سے ناجائز تعلق تھا۔ تموز ہی آپ کو شاید اپنے چرچ میں بھی ملے گا۔جی؛ میں صحیح کہہ رہی ہوں۔ اگر آپ اتوار کے دن کو سبت کا دن پاک مانتے ہیں تو آپ ابھی تک تموز کی ہی پرستش کر رہے ہیں۔ اگر آپ آسمان کی ملکہ (جسکو ماں مریم کہا جاتا ہے) کو پاک مانتے ہیں اور اس سے دعا مانگتے ہیں تو آپ ابھی تک بابل کے بتوں کی ہی پرستش کر رہے ہیں۔پرانے عہدنامے میں خدا کے لوگو ں نے بار بار خدا کو چھوڑ کربتوں کی پرستش شروع کی۔ پرانے عہد نامے کے لوگوں یا اسرائیلیوں کو برا بھلا کہنے سے پہلے آپ خود اپنے آپ کو جانچیں کہ کیا آپ کلام کے مطابق چل رہے ہیں۔کلام کو خود پڑھیں اور خدا سے کہیں کہ وہ آپ کو خود دکھائے کہ آپ کہیں انجانے میں خدا کی بجائے، خدا کے پاک نام میں بت پرستی تو نہیں کر رہے۔ اس پر ایک آرٹیکل وقار بھائی نے بھی لکھا ہے جو میں آپ کے ساتھ شیئر کروں گی تاکہ آپ خود بھی حقیقت جان سکیں۔
بابل کے اس بربج کی کہانی کے بعد سم کا نسب نامہ ہے جس میں تارح اور اسکی اولاد کا ذکر ہے، جس سے ابرام ہوا۔ ابرام کے دو اور بھائیوں کا نام بھی بتایا گیا ہے۔ ایک حاران اور دوسرا نحور۔ اس وقت تک خدا نے ابرام کا نام ابرہام نہیں رکھا تھا اسلئے میں نے ابرام لکھا ہے۔ ابرام کی بیوی ساری کی کوئی اولاد نہ تھی۔ تارح کسدیوں کے اُور میں اپنی اولاد کے ساتھ رہتا تھا۔ اس نے ابرام، اسکی بیوی اور اپنے پوتے لوط کو لے کر کنعان کی سرزمین کی طرف سفر شروع کیا مگر وہ حاران تک آئے اور وہیں رہنے لگ گئے اور وہیں تارح نے وفات پائی۔
ہم پیدائش کا باقی مطالعہ کل کریں گے۔ خداآپکو اپنی پاک زبان ، عبرانی، اپنے روح القدس کے وسیلے سےسیکھنے میں مدد کرے۔ آمین