احبار 21 باب

image_pdfimage_print

آپ کلام مقدس سے احبار 21 باب کو مکمل خود پڑھیں۔

ہم اس باب میں خاص   بزرگ ہارون اور انکے بیٹوں کو  جو کہ کاہن ہیں ، دیئے گئے حکموں کا پڑھیں گے۔ اردو کلام میں تو پہلی آیت میں لکھا نظر نہیں آتا کہ خداوند نے موسیٰ نبی کو کہا کہ "ہارون   کے بیٹوں سے ،  کاہنوں سے کہہ،  اور انکو کہہ۔۔۔۔” مگر عبرانی کلام  میں دو دفعہ لکھا ہوا ملتا ہے کہ  کاہنوں سے کہہ ، اور انکو کہہ۔۔۔ اسے بارے میں یہودی دانشور وں کے اپنے اپنے خیالات ہیں۔ کچھ کے مطابق یہ بزرگ  ہارون کے بیٹوں اور انکی آگے کی نسلوں کے لئے ہیں کچھ کے مطابق پرشاہ کیدوشیم میں درج احکامات ساتھ  ساتھ  کاہنوں کو ان احکامات  پر  بھی  خاص عمل کرنے کو کہہ رہا ہے۔ اور کچھ کے مطابق یہ بزرگ ہارون کے بیٹوں کو جو کہانت کا کام انجام دے رہے ہیں انکے ساتھ ساتھ انکو بھی جو ابھی چھوٹے ہیں اور کہانت کا کام انجام نہیں دے رہے مگر بعد میں ضرور خداوند کی خدمت میں کہانت کے کام  کو پورا کرنے کو حاضر ہونگے انکو بھی  یہ حکم دینے کو کہہ رہا ہے۔

مُردے کو چھونے کی نا پاکیزگی توریت کے مطابق  بہت بڑی نا پاکیزگی ہے۔ اسکے بارے میں میں مختصراً بتا چکی ہوں کہ مردے جسم  میں زندگی کا دم موجود نہیں۔ کاہنوں کو خداوند نے حکم دیا کہ وہ مردہ کے سبب سے اپنے آپ  کو نجس نہ کریں۔    وہ مردے کو نہیں چھو سکتے تھے  مگر اگر اپنے قریبی خونی رشتے دار کی موت واقع ہوئی ہے تو اپنے آپ کو نجس  کر سکتے تھے۔ اگر آپ نے کلام مقدس سے اس باب کو پڑھا ہے تو شاید آپ نے نوٹ کیا ہو کہ کاہن اپنے آپ کو اپنی بیوی کے موت پر بھی نجس  نہیں کر سکتے تھے جو کہ  اسرائیل کے  قبیلے سے ہی تھی۔  اس بات کی ایک  مثال ہمیں حزقی ایل 24:15 سے 18 آیات میں بھی ملتی ہے۔ کاہن صرف ماں باپ، بھائی، بیٹا یا بیٹی کے لئے  ہی اپنے آپ کو نجس کر سکتے تھے۔ بہن اگر شادی شدہ ہے تو پھر وہ اپنے آپ کو نجس نہیں کر سکتے تھے مگر اگر وہ کنواری  ہے تو اجازت تھی۔ انھیں عام لوگوں کی طرح ماتم میں  سر کے بال بکھیرنے   اور داڑھی منڈوانے سے منع کیا گیا تھا اور نہ ہی اپنے آپ کو زخمی کرنے کا حکم  تھا۔

کاہن اپنے جسم میں کسی طرح کی عیب داری کے ساتھ خداوند کے حضور میں  قربانیاں چڑھانے نہیں جا سکتے تھے انھیں حکم تھا کہ وہ پاک رہیں اور خداوند کے نام کو بے حرمت نہ کریں۔ انھیں شادی کے لئے بھی خاص حکم دیا گیا تھا کہ صرف اپنی قوم کی کنواری سے بیاہ کریں اور کسی ایسی سے بیاہ نہ کریں جو کہ فاحشہ، بیوہ، مطلقہ یا نا پاک عورت ہو۔  اس حکم کو چرچ نے بھی اپنانے کی کی ہے ۔ پولس رسول کی اس بات پر غور کریں (1 کرنتھیوں 6:16)

کیا تم نہیں جانتے کہ جو کسی سے صحبت کرتا ہے وہ اسکے ساتھ ایک تن ہوتا ہے؟ کیونکہ وہ فرماتا ہے کہ وہ دونوں ایک تن ہونگے۔

کاہنوں کے لئے یہی زیادہ مناسب ہے کہ وہ کنواری سے بیاہ کریں۔  سردار کاہن کے لئے احکامات مزید سخت ہیں وہ ماتم میں  نہ تو اپنے سر کے بال بکھرنے دے سکتے تھے اور نہ ہی اپنے کپڑے پھاڑ سکتے  تھے۔  اگر آپ متی 26:65 دیکھیں گے یا پھر مرقس 14:63 تو وہاں پر آپ کو  سردار کاہن کا اپنے کپڑے پھاڑنے کا ذکر نظر آئیگا۔ سردار کاہن کو اس بات کی بھی اجازت نہیں تھی کہ وہ   کسی بھی مردے  کی خاطر اپنے آپ کو نجس کرے یہاں تک کہ ماں باپ کی خاطر بھی نہیں اور اسکی وجہ  یہ دی گئی ہے کہ اسکے سر پر خداوند کے مسح  کا تیل ڈالا گیا تھا ۔ اسکے سر پر خدا کے مسح کرنے کے تیل کا تاج  ہے۔ جہاں تک بات  آتی ہے بال بکھیرنے کی تو میں نے سوچا کہ کپاہ کے حوالے سے بھی آپ کو بتاتی چلوں۔ بہت سے لوگوں میں کپاہ کے حوالے سے بات ہوتی ہے کہ اسکا استعمال غلط ہے۔ اسکا استعمال غلط نہیں ہے۔  احبار 21:10 یوں لکھا ہے؛

اور وہ جو اپنے بھائیوں کے درمیان سردار کاہن ہو جسکے سر پر مسح کرنے کا تیل ڈالا گیااور جو پاک لباس پہننے کے لئے مخصوص کیا گیا وہ اپنے سر کے بال بکھرنے نہ دے اور اپنے کپڑے نہ پھاڑے۔

اس آیت میں جہاں پر "بکھرنے” کا ذکر ہے وہ عبرانی میں لفظ  "יִפִרָע، یی فیرا، Yifiraہے۔   פרעFara,  فرا، کے معنی  "کھلا چھوڑ دینا یا رد کر دینا ” بھی بنتا ہے۔ احبار 10:6 میں بھی اسکا استعمال ہوا ہے اور گنتی 5:18 میں بھی۔ گنتی 5:18 میں یوں لکھا ہے؛

پھر کاہن اس عورت کو خداوند کے حضور کھڑی کر کے اسکے سر کے بال کھلوا دے اور یادگاری کی نذر کی قربانی کو جو غیرت کی نذر کی قربانی ہےاسکے ہاتھوں پر دھرے اور کاہن اپنے ہاتھ میں اس کڑوے پانی کو لے جو لعنت کو لاتا ہے۔

اس آیت میں جہاں سر کے بال "کھلوا” دینے کا ذکر ہے وہ ہمارا یہی عبرانی لفظ "فرا” ہے۔ خداوند کی حضوری میں کاہنوں کو خاص سر ڈھانک کر رکھنے کا حکم تھا۔  پگڑی یا عمامہ  کے نیچے انکے سروں پر کپاہ موجود ہوتی تھی تاکہ  ہیکل میں خدمت انجام دیتے وقت اگر غلطی سے یا ہوا سے پگڑی  گر  رہی  ہو تو بھی کاہن کا سر خداوند کی حضوری میں ننگا نہ ہو۔   شادی شدہ عورتوں کے بال  ڈھانپے ہوئے ہوتے تھے۔ کاہنوں کا سر بھی خداوند کی حضوری میں ڈھانپا ہوا ہوتا تھا۔  ڈھانپا ہوا سر اپنے اوپر خداوند کے اختیار کو ظاہر کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی آرتھوڈکس یہودی کپاہ کا استعمال کرتے ہیں۔ اور اسی ہی تعلیم کو  پولس رسول نے  1 کرنتھیوں 11 باب میں  پیش کرنے کی ہے۔ وہاں شروع کی آیات میں سر سے مراد اختیار بنتا ہے۔ میں اس پر پہلے بھی بات کر چکی ہوئی ہوں۔ مزید تفصیل میں نہیں جاؤنگی۔

احبار 21:16 سے 23 آیات میں جو حکم درج ہے اس سے آپ یہ اخذ نہیں کر سکتے کہ خداوند   ہارون  کی نسل میں ان لوگوں کو جن میں  کسی قسم کا جسمانی نقص ہے ، نا پسند کرتے ہیں ہیں۔ خداوند انکو اپنی نہایت ہی مقدس اور پاک دونوں طرح کی روٹی کھانے کو  دے رہے ہیں بس ان کو خداوند کے مذبح گاہ کے قریب آنے یا مقدس مقاموں  کے پاس آنے کی اجازت نہیں تاکہ خداوند کے مقدس مقاموں کی کسی بھی طرح سے کوئی بے حرمتی نہ ہو۔   اگر سوچا جائے  تو خداوند کاہنوں  سے یہی چاہتے تھے کہ وہ بے عیب ہوں اور  گناہ کی حالت میں نہ ہوں۔ یشوعا بے عیب تھے، گناہ سے آلودہ  عیب دار نہیں تھے۔   قربانی چڑھاتے وقت انسان جو پاک جانور خداوند کی حضوری میں لاتا تھا وہ ایسے ہی تھا جیسے کہ اس انسان کو ظاہر کر  رہا ہو۔  تبھی جب قربانی چڑھانے والے کی نظر قربانی کے پاک  اور بے عیب جانور پر پڑتی تھی تو اسے احساس ہوتا تھا کہ  وہ بے عیب جانور  اسکے عیبوں کو  خداوند کی حضوری میں ڈھانپ کر خداوند کے حضور میں قربان ہو رہا ہے۔

اگر آپ نے ان حوالوں کو پڑھا ہے تو آپ کے ذہن میں  "خداوند کی غذا” کا پڑھ کر سوال اٹھے ہونگے۔ خداوند کو  انسان کی چڑھائی ہوئی غذا کی ضرورت نہیں۔ ویسے ہی جیسے کہ بخور دان سے اٹھنے والے بخور کی خوشبو  خداوند کے حضور راحت انگیز ہے یا پھر قربانیوں  سے اٹھنے والی خوشبو ویسے ہی  خدا کی غذا کو سوچیں۔ میں نے اپنے پچھلے آرٹیکلز میں بھی ذکر کیا تھا کہ یہودیوں/میسیانک یہودیوں کی نظر میں کھانے کی میز خداوند کے مذبح کی مانند ہے جس پر سے خداوند اپنے لوگوں کو کھانا  مہیا کرتے ہیں۔  اگر آپ کے کھانے کی میز پر ناپاک غذا موجود ہے تو وہ خداوند کے ساتھ آپ کے تعلق کو کس طرح سے بیان کر سکتی ہے؟ تبھی پولس رسول نے  1 کرنتھیوں 10:18 سے 21 میں یوں کہا؛

جو جسم کے اعتبار سے اسرائیلی ہیں ان پر نظر کرو۔ کیا قربانی کا گوشت کھانے والے قربانگاہ کے شریک نہیں؟ پس میں کیا  یہ کہتا ہوں کہ بتوں کی قربانی کچھ چیز ہے یا بت کچھ چیز ہے؟ نہیں بلکہ یہ کہتا ہوں کہ جو قربانی غیر قومیں کرتی ہیں شیاطین کے لئے قربانی کرتی ہیں نہ کہ خدا کے لئے اور میں نہیں چاہتا کہ تم شیاطین کے شریک ہو۔ تم خدا وند کے پیالے اور شیاطین کے پیالے دونوں میں سے نہیں پی سکتے۔ خداوند کے دسترخوان اورشیاطین کے دسترخوان دونوں پر شریک نہیں ہوسکتے۔

اس سے پہلے کی چند آیات میں پولس رسول نے برکت کا پیالہ  اور روٹی کی بات کی ہے۔ یہ چرچ میں دی جانے والی پاک شراکت   نہیں ہے۔  چرچ میں دی جانے والی پاک شراکت صحیح نہیں ہے۔ ہر سبت پر یا خداوند کی عیدوں پر مے اور روٹی کا استعمال ہوتا ہے جس پر برکت بولی جاتی ہے۔  اگر آپ نے یو ٹیوب پر اس سے متعلق میری ویڈیو نہیں دیکھی تو میں ضرور کہونگی کہ اسے دیکھیں تاکہ آپ  جان سکیں کہ وہ  چرچ میں دی جانے والی پاک شراکت سے کس طرح سے  جدا ہے۔  پولس رسول  نے خداوند کے دسترخوان کی بات کی ہے اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ آپ کے دستر خوان پر اگر ناپاک کھانے کی اشیا موجود ہیں تو آپ برکت کی دعا بول کر اسے پاک کر سکتے ہیں غلط سوچتے ہیں۔ جس کو خداوند نے ناپاک قرار دے دیا ہے اس پر خداوند کیسے برکت دے سکتے ہیں؟

میں اپنے اس مطالعے کو یہیں ختم کرتی ہوں۔ خداوند نے چاہا تو اگلی دفعہ ہم احبار 22 کا مطالعہ کریں گے۔ خداوند  آپ کو اپنے حکموں کے وسیلے سے پاک کریں۔ شلوم