آپ کلام مقدس سے احبار 22 باب کو مکمل خود پڑھیں۔ میں صرف وہی آیات درج کرونگی جس کی ضرورت سمجھونگی۔
زیادہ تر جب ہم کلام مقدس کے آیات کو پڑھتے ہیں تو ہم کلام کے الفاظ پر اتنی توجہ نہیں دیتے جب تک خداوند کی روح ہمیں ان کی طرف توجہ نہ دلوائے۔ احبار 22:1 سے 2 میں یوں لکھا ہے؛
1اور خُداوند نے مُوسیٰ سے کہا۔ 2ہارُون اور اُس کے بیٹوں سے کہہ کہ وہ بنی اِسرائیل کی پاک چِیزوں سے جِن کو وہ میرے لِئے مُقدّس کرتے ہیں اپنے آپ کو بچائے رکھّیں اور میرے پاک نام کو بے حُرمت نہ کریں ۔ مَیں خُداوند ہُوں۔
خداوند نے بزرگ ہارون اور انکے بیٹے جو کہ کاہن تھے ،کو یہ حکم دیا کہ وہ اپنے آپ کو بنی اسرائیل کی پاک چیزوں سے جنکو وہ خداوند کے لئے مقدس کرتے ہیں اپنے آپ کو بچا کر رکھیں۔ کیونکر؟ اگر کوئی بھی رسمی طور پر ناپاک ہو جاتا تھا تو اسے خیال کرنا تھا کہ وہ مقدس چیزوں کو اپنی ناپاکیزگی کے سبب سے ناپاک نہ کرے۔ انکی ناپاکیزگی رسمی تھی مگر پھر بھی اسے خداوند کے خلاف جرم قرار دیا گیا ہے۔ چرچ تعلیم دیتے ہیں کہ اب رسمی پاکیزگی کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ ہم یشوعا کے سبب سے فضل کے دور میں ہیں اور یہ رسمی پاکیزگی کے احکامات ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئے ہیں۔ابھی چند دن پہلے میں کسی کا شئیر کیا ہوا آرٹیکل پڑھ رہی تھی جس میں انھوں نے ذکر کیا تھا کہ یشوعا کی چادر کا کنارا چھونے سے ایک ناپاک عورت جسکے بارہ برس سے خون جاری تھا پاک ہوگئی۔ نہیں وہ فوراً پاک نہیں ہوگئی تھی اسے شفا ملی تھی اور اسے رسمی پاکیزگی کے مرحلے سے پھر بھی گذرنا تھا۔ ویسے تو میں کچھ باتوں کو پہلے بھی شئیر کر چکی ہوئی ہوں مگر مختصراً پھر سے بیان کر دیتی ہوں۔
فضل سے نجات حاصل کرنے کے بعد ہمارے لئے خداوند کے احکامات پر عمل کرنا لازمی بنتا ہے۔ میں جانتی ہوں کہ اب ہیکل موجود نہیں اور بہت سے احکامات ہیکل سے اور اسرائیل کی سر زمین سے جُڑے ہوئے ہیں مگر یہودی لوگ آج بھی اپنی اولاد کو یہی سکھاتے ہیں کہ وہ کم سے کم جتنا ان حکموں کو اپنی زندگی میں اپنا سکتے ہیں انھیں اپنانا ہے اور اس پر عمل کرنا ہے کیونکہ آئیڈیا شروع سے یہی تھا ۔ میں کلام میں سے ایک مثال دے کر اپنی بات کو سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں۔ ہمیں پیدائش 1 باب کی ان آیات میں یوں لکھا ملتا ہے؛
26پِھر خُدا نے کہا کہ ہم اِنسان کو اپنی صُورت پر اپنی شبِیہ کی مانِند بنائیں اوروہ سمُندر کی مچھلیوں اور آسمان کے پرِندوں اور چَوپایوں اور تمام زمِین اور سب جان داروں پر جو زمِین پر رینگتے ہیں اِختیار رکھّیں۔ 27اور خُدا نے اِنسان کو اپنی صُورت پر پَیدا کِیا ۔ خُدا کی صُورت پر اُس کو پَیدا کِیا ۔ نر و ناری اُن کو پَیدا کِیا۔ 28اور خُدا نے اُن کو برکت دی اور کہا کہ پَھلو اور بڑھو اور زمِین کو معمُور و محکُوم کرو اور سمُندر کی مچھلیوں اور ہوا کے پرِندوں اور کُل جانوروں پر جو زمِین پر چلتے ہیں اِختیار رکھّو۔
اور پھر پیدائش 2 باب کی ان آیات میں یوں لکھا ملتا ہے؛
7اور خُداوند خُدا نے زمِین کی مِٹّی سے اِنسان کو بنایا اور اُس کے نتھنوں میں زِندگی کا دَم پُھونکا تو اِنسان جِیتی جان ہُؤا۔
8اور خُداوند خُدا نے مشرِق کی طرف عدن میں ایک باغ لگایا اور اِنسان کو جِسے اُس نے بنایا تھا وہاں رکھّا۔
خداوند نے جب انسان کو بنایا تھا تو خداوند نے اُسے باغ عدن میں رکھا تھا مگر خداوند کی انسان کے لئے برکت شروع سے یہی تھی کہ انسان پھلے، بڑھے اور زمین کو معمور و محکوم کرے اور سمندر کی مچھلیوں، ہوا کے پرندوں اور کل جانوروں پر جو زمین پر چلتے ہیں اختیار رکھے۔ باغ عد ن میں ہی رہتے ہوئے انسان زمین کو معمور نہیں کر سکتا تھا اسلئے باغ عدن کی حد تک ہی نہیں رہنا تھا۔ بے شک انسان گناہ کے سبب سے باغ عدن سے نکالا گیا اسلئے اسے سیکھنا تھا کہ خداوند کی قربت میں رہنے کا مطلب خداوند کے حکموں کو ماننا اور ان پر عمل کرنا ہے۔ یہ احکامات اسرائیل کو بوجھ تلے ڈالنے کے لئے نہیں دئیے گئے تھے بلکہ یہ سکھانے کے لئے دئیے گئے تھے کہ خداوند کے قریب آنے کے لئے پاک ہونا لازمی ہے۔ پاک اور ناپاک کا علم اور اس پر عمل اسرائیل کی سرزمین سے باہر بھی بہت سی باتوں میں ضروری تھا کیونکہ بغیر پاکیزگی کے خداوند کے قریب نہیں آیا جا سکتا۔ اور خداوند کے قریب جانے کا مطلب خالی ہیکل میں جا کر قربانیاں چڑھانا نہیں تھا۔ بے شک قربانی کا پاک جانور انسان کو خداوند کے قریب لانے کے لئے استعمال میں آتا تھا مگر قربانی چڑھانے کے لئے بھی رسمی پاکیزگی کے مرحلے سے گذرنا قربانی چڑھانے والے کے لئے لازم تھا۔ اگر کوئی رسمی طور پر اپنے آپ کو پاک نہیں کرتا تھا تو وہ قربانی چڑھانے کے لئے آگے نہیں آسکتا تھا اور کاہنوں کے لئے پاکیزگی کا معیار یا پیمانہ عام انسان سے کہیں اونچا تھا۔ اور یہی ہم اس باب میں سیکھ رہے ہیں۔
زبور 24 میں یوں لکھا ہے؛
3خُداوند کے پہاڑ پر کَون چڑھے گا
اور اُس کے مُقدّس مقام پر کَون کھڑا ہو گا؟
4وُہی جِس کے ہاتھ صاف ہیں اور جِس کا دِل پاک ہے ۔
جِس نے بطالت پر دِل نہیں لگایا
اور مکر سے قَسم نہیں کھائی۔
یہودیوں کے لئے صاف ہاتھ ہونے سے مراد رسمی پاکیزگی تھی کہ صرف دل یعنی روح ہی نہیں بلکہ جسم کی پاکیزگی کا بھی خیال رکھ کر خداوند کے سامنے حاضر ہونا چاہیے۔ اور انھی زبانی رسمی حکموں کی چھاپ ہمیں نئے عہد نامے میں بھی ملتی ہے۔ بے شک ہیکل موجود نہیں ہے مگر وہ آج بھی رسمی پاکیزگی کے بہت سے احکامات کو اپنائے ہوئے ہیں۔ نوٹ کر یں کہ 1 تمیتھیس 2:8 میں پاک ہاتھوں کو اٹھا کر دعا کا ذکر موجود ہے؛
پس مَیں چاہتا ہُوں کہ مَرد ہر جگہ بغَیر غُصّہ اور تکرار کے پاک ہاتھوں کو اُٹھا کر دُعا کِیا کریں۔
رسولوں کو رسمی پاکیزگی کی اہمیت کا احساس تھا۔ بے شک آپ تمیتھیس میں درج آیت کی تشریح روحانی پاکیزگی سے کر سکتے ہیں مگر مت بھولیں کہ جسمانی پاکیزگی کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ جیسا کہ میں اکثر کہتی آئی ہوں کہ اگر ہم اپنے ملک کے صدر کے سامنے جاتے ہوئے اپنی جسمانی اور ظاہری صفائی کا سوچ سکتے ہیں تو خداوند بادشاہ کو کیوں عام سوچنے کی کرتے ہیں۔ خداوند کا اپنے کاہنوں کو خاص ان حکموں کا دینے کا مطلب ایک مرتبہ پھر سے یہی احساس دلانا تھا کہ
احبار 22: 31سو تُم میرے حُکموں کو ماننا اور اُن پر عمل کرنا ۔ مَیں خُداوند ہُوں۔ 32تُم میرے پاک نام کو ناپاک نہ ٹھہرانا کیونکہ مَیں بنی اِسرائیل کے درمِیان ضرُور ہی پاک مانا جاؤُں گا ۔ مَیں خُداوند تُمہارا مُقدّس کرنے والا ہُوں۔ 33جو تُم کو مُلکِ مِصر سے نِکال لایا ہُوں تاکہ تُمہارا خُدا بنا رہُوں ۔ مَیں خُداوند ہُوں۔
اگر آپ سوچتے ہیں کہ خداوند نے آپ کو اپنا کاہن چنا ہے تو آپ کن رسمی حکموں کو اپنی زندگیوں میں اپنائے ہوئے ہیں؟ میرے ذہن میں حزقی ایل کی کتاب کی چند آیات آ رہی ہیں۔ آپ اپنے مطالعے کے لئے خود حزقی ایل 22 کو پڑھ کر سوچ سکتے ہیں کہ کیا ہمیں پاک اور ناپاک کی تمیز کرنا سکھائی گئی ہے۔ اگلی دفعہ ہم احبار کے 23 باب کا مطالعہ کریں گے۔ خداوند آپ کے ساتھ ہوں۔ آمین