آپ کلام مقدس سے احبار 20 کو مکمل خود پڑھیں میں صرف وہی آیات لکھونگی جس کی ضرورت سمجھونگی۔
اس باب کے آغاز میں خداوند نے حکم دیا کہ تمہارے ملک میں سے کوئی شخص اگر اپنے بچوں کو جھوٹے خدا مولک کو نذر کے طور پر چڑھائے تو اسے موت کے گھاٹ اتار دینا چاہیے چاہے وہ اسرائیلی ہو یا نہ ہو اسے پتھر پھینک کر مار ڈالنا چاہیے۔ مولک کا لفظ عبرانی میں یوں لکھا جاتا ہے "מלך” اس لفظ میں عبرانی اعراب کا استعمال اسے مِلک یا مولک بنا دیتے ہیں۔ عبرانی لفظ مِلک سے مراد "بادشاہ” ہے۔ مولک، عمونیوں کا دیوتا تھا۔ لوگ اس کے آگے اپنے پہلوٹھوں کو آگ میں جلا دیتے تھے یا پھر آگ پر چلواتے تھے۔
کلام مقدس میں بہت سے حوالے آپ کو مل جائیں گے جہاں لوگوں نے اپنی اولاد کو آگ پر چلوایا یا پہلوٹھے کو آگ میں جلا دیا۔آپ کو سلیمان بادشاہ کا نام بھی نظر آئے گا۔ مولک کو اپنی اولاد نذر کرنے کی وجہ خوشحالی حاصل کرنا تھا۔ آج بھی نامولود بچوں کو صرف اسلئے گرا دینے کا فیصلہ کیا جاتا ہے کہ خرچے بڑھ جائیں گے اور گھرانے کا گذارا مشکل ہو جائے گا۔ پرانے عہد نامے میں جہاں مولک کی پرستش کا ذکر ہے تو اگر آپ ان حوالوں کو غور سے پڑھیں گے تو آپ جانیں گے کہ ان لوگوں نے خداوند پاک خدا کو رد نہیں کیا تھا بلکہ خداوند کی عبادت میں ساتھ دوسرے بتوں کی پرستش بھی شامل کر دی تھی یہ سوچ کر کہ وہ خداوند کو خوش کر رہے ہیں اور کوئی اچھا کام کر رہے ہیں مگر حقیقت میں وہ خداوند کے اس حکم کے خلاف چل رہے تھے۔ اگر آپ نے احبار کے ان احکامات کو پڑھا ہے تو آپ جان چکے ہونگے کہ آج بھی ان حکموں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ تمام باتیں آج بھی ہمارے معاشرے میں موجود ہیں اور اگر ہم خداوند کے ان حکموں پر عمل نہیں کر رہے تو گناہ کی دلدل میں ہی اب تک پھنسے ہوئے ہیں۔ ان دیوتاؤں کا ایک نیا روپ ہمارے معاشرے میں آج بھی موجود ہے۔ خداوند کے کتنے ہی احکامات کو بار بار توریت میں دھرایا گیا ہے اور بار بار دھرانے کا مقصد یہی ہے کہ یہ اہم حکم ہیں ہمیں ان پر عمل کرنا ہے ورنہ خداوند اپنے لوگوں میں سے کاٹ ڈالیں گے۔
ان حکموں کو پڑھتے ہوئے نوٹ کریں کہ کیسے بت پرستی اور زناکاری کے ان حکموں کو اکٹھا آگے پیچھے بیان کیا گیا ہے۔ دونوں ہی یہ ثابت کرتی ہیں کہ اگر کوئی انسان ایسا کرتا ہے تو وہ انسان کسی ایک کے ساتھ وفادار نہیں ہے ۔ خداوند کی آنکھیں ہمیشہ وفادار انسان کی تلاش میں ہیں (2 تواریخ 16:9)۔
بہت سے بڑے بڑے حکموں میں ایک سادہ سا حکم ہے جس کو ہم اکثر دھیان میں نہیں لاتے۔ احبار 20:9 میں یوں درج ہے؛
اور جو کوئی اپنے باپ یا اپنی ماں پر لَعنت کرے وہ ضرُور جان سے مارا جائے ۔ اُس نے اپنے باپ یا ماں پر لَعنت کی ہے ۔ سو اُس کا خُون اُسی کی گردن پر ہو گا۔
ویسے تو میں نے مختصراً اسکے بارے میں احبار 19 باب میں کہا تھا کہ باپ اور ماں دونوں کی عزت برابر ہے مگر زیادہ بات نہیں کی تھی۔ میرے خیال سے اگر آج کے دور میں اگر اس حکم کو دھیان میں لایا جائے تو زیادہ تر لوگ اس حکم کی خلاف ورزی کر رہے ہیں ۔ ذرا ایک نظر رومیوں کے 1 باب کی ان آیات پر ڈالیں اور احبار 18، 19 اور 20 باب کی آیات کو ذہن میں رکھ کر سوچیں کہ کیا پولس رسول نے توریت کے حکموں کی تعلیم نہیں دی؟
26 اِسی سبب سے خُدا نے اُن کو گندی شہوَتوں میں چھوڑ دِیا ۔ یہاں تک کہ اُن کی عَورتوں نے اپنے طبعی کام کو خِلافِ طبع کام سے بدل ڈالا۔ 27اِسی طرح مَرد بھی عَورتوں سے طبعی کام چھوڑ کر آپس کی شہوَت سے مَست ہو گئے یعنی مَردوں نے مَردوں کے ساتھ رُوسِیاہی کے کام کر کے اپنے آپ میں اپنی گُمراہی کے لائِق بدلہ پایا۔ 28 اور جِس طرح اُنہوں نے خُدا کو پہچاننا ناپسند کِیا اُسی طرح خُدا نے بھی اُن کو ناپسندِیدہ عقل کے حوالہ کر دیا کہ نالائِق حرکتیں کریں۔ 29پس وہ ہر طرح کی ناراستی بدی لالچ اور بدخواہی سے بھر گئے اور حسد خُون ریزی جھگڑے مکّاری اور بُغض سے معمُور ہو گئے اور غِیبت کرنے والے۔ 30بدگو ۔ خُدا کی نظر میں نفرتی اَوروں کو بے عِزّت کرنے والے مغرُور شیخی باز بدیوں کے بانی ماں باپ کے نافرمان۔ 31بیوُقُوف عہد شِکن طبعی مُحبّت سے خالی اور بے رحم ہو گئے۔ 32حالانکہ وہ خُدا کا یہ حُکم جانتے ہیں کہ اَیسے کام کرنے والے مَوت کی سزا کے لائِق ہیں ۔ پِھر بھی نہ فقط آپ ہی اَیسے کام کرتے ہیں بلکہ اَور کرنے والوں سے بھی خُوش ہوتے ہیں۔
نوٹ کریں کہ وہ بہت سی باتیں جو ہمارے لئے بڑی نہیں خداوند کے حکم کے مطابق ” موت کی سزا” کا سبب بنتی ہیں۔ بد گوئی کرنا، دوسروں کی بے عزتی کرنا، مغروری، شیخی بازی، ماں باپ کی نافرمانی، طبعی محبت سے خالی، حسد اور مکاری۔۔۔۔ ویسے تو یہ باتیں شاید میں پہلے بھی کسی آرٹیکل میں بیان کر چکی ہوں مگر پھر بھی اس لئے دوبارہ ذکر کر رہی ہوں کہ ہمیں ان بظاہر چھوٹی چھوٹی باتوں کو چھوٹا ہرگز نہیں سمجھنا چاہیے۔ اب میرے ساتھ اس آیت پر غور کریں (احبار 20:23 سے 24اور 26)؛
تم ان قوموں کے دستوروں پر جنکو میں تمہارے آگے سے نکالتا ہوں مت چلنا کیونکہ انھوں نے یہ سب کام کئے۔ اسی لئے مجھے ان سے نفرت ہوگئی۔ پر میں نے تم سے کہا ہے کہ تم انکے ملک کے وارث ہوگے اور میں تمکو وہ ملک جس میں دودھ اور شہد بہتا ہے تمہاری ملکیت ہونے کے لئے دونگا۔ میں خداوند تمہارا خدا ہوں جس نے تمکو اور قوموں سے الگ کیا ہے۔
اور تم میرے لئے پاک بنے رہنا کیونکہ میں جو خداوند ہوں پاک ہوں اور میں نے تمکو اور قوموں سے الگ کیا ہے تاکہ تم میرے ہی رہو۔
خداوند نے اپنے لوگوں کو اپنے آئین اوراپنے احکامات دئیے ہیں تاکہ وہ خداوند کے لئے پاک ہوں۔ خداوند نے بارہا تنبیہ کی ہے کہ "تم ان قوموں کے دستوروں پر جنکو میں تمہارے آگے سے نکالتا ہوں مت چلنا۔۔۔” ہمارے مسیحی بہت سے حکموں کی خلاف ورزی بھی کرتے ہیں جیسے کہ چالیس روزوں کو تو رکھنا مگر وہ روزے جو کلام میں درج ہیں انکو نہ رکھنا۔ خداوند کی دی ہوئی عیدوں کو تو رد کرنا مگر اپنی بنائی ہوئی عیدوں کو منانا۔ جب کلام کے حوالے سے بات کرو اور ان پر واضح کرو کہ یہ غیر قوموں کے دستور تھے جن پر آپ چل رہے ہیں تو وہ کھل کر اسکی مذاحمت کرتے ہیں کہ انکا دل تو خداوند کی طرف ہے تو چاہے اگر غیر قوموں کا ہی دستور تھا تو بھی وہ یہ سب خداوند کے لئے ہی کر رہے ہیں۔ یہ بیان خداوند کے کلام کے خلاف ہے کیونکہ خداوند خود فرما رہے ہیں کہ "۔۔۔مجھے ان سے نفرت ہو گئی”۔ اب جن باتوں سے خداوند کو نفرت ہے کیا اس کو اپنی طرف سے خداوند کے لئے اپنا کر آپ اپنے لئے خداوند کی نفرت کو بڑھا نہیں رہے ہیں؟ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اگر آپ مسیح کی پیدایش کا دن تو منا رہے مگر خداوند کی عیدوں کو نہیں منا رہے تو کیسے خداوند کے اس بہت اہم حکم کی خلاف ورزی کر رہے ہیں یا پھر اگر آپ مبارک جمعہ تو قائم رکھتے ہیں تمام صلیبی کلموں کو دھراتے ہیں مگر عید فسح مسیح کی یادگاری میں نہیں منا رہے تو کیسے مسیح کے اس حکم کی خلاف ورزی کر رہے ہیں جو انھوں نے دیا کہ "میری یاد گاری میں ایسا ہی کیا کرو۔۔۔”۔ سبت کے دن کو اتوار ٹھہرایا اور خداوند کے سبت یعنی جمعہ کی شام سے ہفتہ کی شام کے پاک دن کو ٹھکرایا ہے تو کیا آپ خداوند کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کر رہے؟ خداوند کی شریعت کو جھٹلا کر آپ خداوند کو اپنا دشمن بنا رہے ہیں۔
کلام مقدس کو صرف دوسروں کی زبانی نہ سنیں بلکہ وقت نکال کر خود بھی کلام کا مطالعہ کریں اور ان آیات کی اور تفسیروں کی تفتیش کریں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ خداوند سے راہنمائی کی دعا کریں تاکہ خداوند کی روح آپ کو گائیڈ کرے کہ سچائی کو نہ صرف جان سکیں بلکہ اسکو قبول کر کے اسکو اپنی زندگی کا حصہ بھی بنا سکیں۔ بہت سے سچائی کو جان تو لیتے ہیں مگر دوسروں کے ڈر سے اسے اپنانے سے گریز کرتے ہیں۔ جو سچ ہے اسکو مضبوطی سے تھام کے رکھیں تاکہ دوسروں کے سبب سے آپ اپنی نجات ہمیشہ کے لئے نہ کھو دیں۔
ہم اگلی دفعہ احبار 21 باب کا مطالعہ کریں گے۔ خداوند آپ کے ساتھ ہوں، یشوعا کے نام میں۔ آمین