احبار 4 باب (پہلا حصہ)

image_pdfimage_print

آپ کلام میں سے احبار کا 4 باب مکمل خود پڑھیں۔

آج ہم خطا کی قربانی کا کچھ مطالعہ کریں گے۔ میرے ساتھ احبار 4:2 کو دیکھیں، لکھا ہے؛

بنی اسرائیل  سے کہہ کہ اگر کوئی ان کاموں میں سے جنکو خداوند نے منع کیا ہے کسی کام کو کرے اور اس سے نادانستہ خطا ہو جائے۔

اس باب میں ہم نادانستہ خطا کی قربانی کے بارے میں پڑھتے ہیں۔ خطا کے لئے عبرانی میں لفظ خطا ہی ہے۔ خطا یعنی وہ گناہ جو بُھول چوک سے ہوا ہے۔ نا چاہتے ہوئے بھی گناہ سرزرد ہوجائے تو اسکے لئے  یہ قربانی چڑھائی جاتی تھی۔ اور آج بھی یہ ہم پر عائد ہے۔  1 یوحنا 3:4 میں یوں لکھا ہے؛

جو کوئی گناہ کرتا ہے وہ شرع کی مخالفت کرتا ہے اور گناہ شرع کی مخالفت ہی ہے۔

اس آیت میں شرع سے مراد شریعت ہے۔ ویسے تو یونانی زبان میں اسکے لئے جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ "عینومی این” ہے جس سے مراد "بغیر شریعت ” کے بنتا ہے اور  یہی لفظ ہمیں یشوعا کی تعلیم میں بھی نظر آتا ہے۔ متی 7:23 میں یشوعا نے یوں کہا؛

اُس وقت میں ان سے صاف کہہ دونگا کہ میری کبھی تم سے واقفیت نہ تھی۔ ائے بدکارو میرے پاس سے چلے جاؤ۔

اس آیت میں جہاں "بدکارو” لکھا ہے وہ یونانی میں لفظ ” عینومی این ” ہے۔ اور پھر متی 24:12 میں یشوعا نے یوں کہا؛

اور بے دینی کے بڑھ جانے سےبہتیروں کی محبت ٹھنڈی پڑ جائیگی۔

یشوعا کے زمانے میں "بے دینی” سے مراد وہ تھے جو کہ توریت یعنی شریعت پر عمل نہیں کرتے تھے اوراس آیت میں  یہی یونانی میں لفظ ” عینومی این ” ہے۔ اب اگر آپ احبار 4:2 کو ذہن میں رکھ کر سوچیں کہ  خطا سے مراد وہ کام ہے جن کو خداوند نے کرنے سے منع کیا ہے اور بقول یوحنا نبی کے خط کے گناہ، شریعت کی مخالفت ہے  یعنی توریت، وہ احکامات جوکہ  خداوند نے دئے ہیں    تو پولس رسول یعنی ربی شاؤل کا رومیوں  3:20  میں لکھے کو سمجھنا مشکل نہیں جہاں یوں  لکھا ہے؛

کیونکہ شریعت کے اعمال سے کوئی بشر اسکے حضور راستباز نہیں ٹھہریگا اسلئے کہ شریعت کے وسیلہ سے تو گناہ کی پہچان  ہی ہوتی  ہے۔

اور پھر پولس رسول نے  رومیوں 7:7 میں یوں کہا؛

پس ہم کیا کہیں؟ کیا شریعت گناہ ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ بغیر شریعت کے میں تو گناہ کو نہ پہچانتا مثلاً اگر شریعت یہ نہ کہتی کہ تو لالچ نہ کر تو میں لالچ کو نہ جانتا۔

پولس رسول نے کہیں بھی شریعت کو برا نہیں کہا۔ اسکو لعنت کہنے والے خود لعنتی ہیں جو کہ خدا کے کلام کو  اپنی سوچ کے مطابق بیان کرتے ہیں۔ خداوند کی نظر میں گناہ کیا ہے اسکی پہچان ہمیں شریعت یعنی توریت سے ہوتی ہے۔ میں پہلے بھی بتا چکی ہوئی ہوں کہ توریت سے مراد "ہدایات یا تعلیم ” تو ہے مگر شریعت ہر گز نہیں۔  آپ خداوند کے حضور میں گناہ کی قربانی نہیں چڑھا سکتے اگر آپ کو علم ہی نہ ہو کہ آپ نے خداوند کے حضور "خداوند کی توریت” کے مطابق گناہ کیا ہے۔ توریت آپ کو راستباز نہیں بناتی بلکہ خداوند پر ایمان آپ کو راستباز ٹھہراتا ہے۔ آپ خداوند کے حضور میں ہدیہ دے کر چرچ جا کر ہدیہ ڈالنے کا فرض تو پورا کر سکتے ہیں مگر اگر آپ کا دل ہی ہدیہ دینے کو تیار نہیں تھا تو وہ ہدیہ خداوند کے حضور میں قابل قبول نہیں ٹھہرا۔ اور یہ بات صرف آپ اور خداوند ہی جانتے ہونگے۔  کچھ ایسا ہی خطا کی قربانی، بلکہ تمام قربانیوں کے ساتھ ہے۔ اگر آپ قربانی صرف اسلئے چڑھا رہے ہیں کہ فرض پورا کرنا ہے تو قربانی قابل قبول نہیں۔ مگر اگر یہ قربانی اسلئے چڑھائی جا رہی ہے کہ خطا کا احساس دل میں موجود تھا اور توبہ کا ارادہ بھی تو خداوندقربانی چڑھانے والے کے دل کو دیکھ کرقربانی کو قبول کرلیتے ہیں۔ میں امید کرتی ہوں کہ اب آپ کو پولس رسول کے خطوط کی آیات کی بہتر تشریح سمجھ میں آئی ہوگی۔

امید ہے کہ آپ احبار 4 باب کو کلام میں سے مکمل پڑھیں گے۔  احبار 4 باب میں درج ہے کہ قربانی چڑھانے والے کو پاک چوپائے  جو کہ بچھڑا، یا بکرا/بکری یا پھر برہ ہوسکتا تھا، اسکے سر پر اپنا ہاتھ رکھ کر  کچھ ایسا بولتے تھے ” میں جانتا ہوں کہ اس بے قصور جانور کی بجائے مجھے مرنا تھا، مگر ائے خداوند ! رحم کر کے  میری بجائے  اس بے قصور کی موت کو قبول کریں۔” میں نے اس کو ہو بہو تو نہیں لکھا مگر  کچھ ایسا ہی بولا جاتا تھا۔ اگر آپ اس بیان پر غور کریں تو آپ کو اس میں گناہ کا اقرار نظر آئیگا۔ لگے گا ایسے ہی  کہ گناہگار انسان بے قصور جانور کے ساتھ زیادتی کر رہا ہے مگر ایسا کرنے کی اجازت خداوند نے دی تھی۔

اب ان تمام باتوں کو ذہن میں رکھ کر یشوعا کی قربانی کے بارے میں سوچیں۔  میرے ساتھ 2 کرنتھیوں5:21 کو دیکھیں جہاں یشوعا کے بارے میں لکھا ہے؛

جو گناہ سے واقف نہ تھا اسی کو اس نے ہمارے واسطے گناہ ٹھہرایا تاکہ ہم اس میں ہو کر خدا کی راستبازی ہو جائیں۔

خطا؛ یعنی وہ گناہ جو نادانستہ ہوا ہے اسکی قربانی کے لئے ہماری خاطر خداوند نے یشوعا کو دے دیا۔ یوحنا کی انجیل میں ہمیں  یشوعا کے لئے دو بار "خدا کا برہ” لکھا  ہوا نظر آتا ہے۔  ان میں پہلی بار  یوحنا 1:29 میں یوں لکھا ہے؛

دوسرے دن اس نے یسوع کو اپنی طرف آتے دیکھ کر کہا دیکھو یہ خدا کا برہ ہے جو دنیا کے گناہ اٹھا لے جاتا ہے۔

یشوعا، خدا کا وہ برہ جو گناہ سے واقف نہ تھے ہمارے گناہ کی  خاطر قربان ہو گئے۔ توریت کی وجہ سے گناہ کا احساس ہوا کہ ہم کیسے خداوند کے حضور میں نادانستہ گناہ کرتے آئے ہیں کیونکہ ہم خداوند کے حکموں کو جانے انجانے توڑتے آئے ہیں۔ یشوعا کی قربانی ہمارے لئے وہ زریعہ ہے جس سے ہم اس موت سے بچ سکتے ہیں  جس کے ہم  حقدار ہیں۔ ہم یشوعا کے سر پر ہاتھ رکھ کر خداوند کے حضور میں اپنے گناہ کا اقرار کر سکتے ہیں۔   1 یوحنا 1:9 میں لکھا ہے؛

اگر  اپنے گناہوں کا اقرار کریں تو وہ ہمارے گناہوں کے معاف کرنے اور ہمیں ساری ناراستی سے پاک کرنے میں سچا اور عادل ہے۔

یاد رکھیں کہ اگر آپ نادانستہ خطا کرتے آ رہے ہیں تو خداوند آپ کو بے قصور وار نہ چھوڑیں گے۔ نادانستہ خطاؤں کا اقرار کرنا اور اسکی قربانی چڑھانا لازمی ہے۔ شکر ہو ہمارے خداوند کا جس نے اپنے اکلوتے بیٹے یشوعا کو ہماری خاطر قربان کر دیا تاکہ ہم ساری ناراستی سے پاک ہو سکیں اور اسکی راستبازی آجائیں۔ ہلیلویاہ!

ہم اپنے احبار 4 باب کے مطالعے کو اگلی دفعہ جاری رکھیں گے۔ میری خداوند سے دعا ہے کہ خداوند ہمیں  اپنے کلام کے زریعہ سچائی سے یونہی واقف کرواتے آئیں تاکہ ہم پاک ہو سکیں اور آزادی حاصل کر سکیں،  یشوعا کے نام میں۔ آمین۔