ہم نے پچھلے حصے میں پڑھا تھا کہ کیسے نحمیاہ نے سبت کو جو کہ خداوند کے لوگوں کے لئے ایک دائمی نشان ہے ، پھر سے پاک رکھنے کے لئے اقدامات اٹھائے تھے۔ نحمیاہ نے خداوند کے حکموں کو ایک بار پھر سے قائم کرنے کے لئے ، اپنی قوت میں جو بھی ممکن تھا وہ قائم کرنے کی کی۔
نحمیاہ نے دیکھا کہ کچھ یہودیوں نے اشدودی اور موآبی اور عمونی عورتوں سے شادیاں کی ہوئی تھیں ۔ خداوند نے اپنے لوگوں کو غیر قوموں میں شادیاں کرنے سے منع کیا ہوا ہے۔ اسکے بارے میں ہم نے عزرا کی کتاب میں بھی پڑھا تھا۔ تمام غیر قوموں کی عورتوں کا ذکر نہیں کیا گیا بلکہ یہاں صرف تین کا ذکر کیا گیا ہے۔ اشدودی، عمونی اور موآبی۔ ہم نے جب روت کی کتاب کا مطالعہ کیا تھا تو دیکھا تھا کہ روت ایک موآبی عورت تھی مگر اس نے یہوواہ پاک خداوند کو اور اسکے لوگوں کو اپنایا تھا۔ اس نے اپنے معبود کو اور اپنے لوگوں کو چھوڑ دیا تھا۔ نحمیاہ کو جو مسلہ درپیش تھا وہ یہ تھا کہ ان عورتوں نے خداوند کو نہیں اپنایا تھا اور اسی وجہ سے انکے بچے یہودی زبان میں بات نہیں کر سکتے تھے۔ انکے بچے جس قوم سے تھے وہ وہی بولی بولتے تھے۔ اشدود، فلسطین کا حصہ ہے اور یہ لوگ دجون کی پرستش کرتے تھے۔ آپ 1 سموئیل 5 باب کو پڑھ کر مزید انکے بارے میں جان سکتے ہیں۔ عمونی اور موآبی کو ن تھے اس کو جاننے کے لئے آپ پیدایش 19 باب پڑھ سکتے ہیں۔
یہودیوں کی زبان عبرانی ہے۔ گو کہ ہمیں بائبل میں کچھ حصے ارامی زبان میں بھی لکھے ملتے ہیں مگر ہیکل میں عبرانی زبان کا استعمال زیادہ تھا۔ توریت، انبیا کے صحیفے اور دعائیں عبرانی زبان میں لکھی اور پڑھی جاتی تھیں۔ تبھی نحمیاہ کو اچھا نہیں لگا کہ وہ یہودی جنہوں نے غیر قوموں میں شادیاں کی ہوئی ہیں انکے گھرانے میں عبرانی زبان نہیں بولی جاتی جو اس بات کی شہادت تھی کہ وہ خداوند کی پرستش نہیں کرتے تھے۔ اسی بنا پر نحمیاہ کو ان پر اتنا غصہ آیا کہ اس نے انکو لعنت کی اور بعض کو مارا اور انکے بال نوچے۔ اس نے انکو قسم دی کہ وہ اپنی بیٹیاں غیر قوموں کے بیٹوں کو نہ دیں اور نہ اپنے بیٹوں کے لئے اور اپنے لئے انکی بیٹیاں لیں۔ نحمیاہ نے انھیں کہا (نحمیاہ 13:26سے 27):
کیا شاہِ اسرائیل سلیمان نے ان باتوں سے گناہ نہیں کیا؟ اگر اکثر قوموں میں اسکی مانند کوئی بادشاہ نہ تھا اور وہ اپنے خدا کا پیارا تھا اور خدا نے اسے سارے اسرائیل کا بادشاہ بنایا تو بھی اجنبی عورتوں نے اسے بھی گناہ میں پھنسایا۔ سو کیا ہم تمہاری سن کر ایسی بڑی برائی کریں کہ اجنبی عورتوں کو بیاہ کر اپنے خدا کا گناہ کریں؟
نحمیاہ کو بہت اچھی طرح سے علم تھا کہ خداوند کے حکموں کو اگر توڑا جائے گا تو وہ لوگ ایک بار پھر سے خداوند کے حکموں کی خلاف ورزی کے سبب سے لعنت کا شکار ہونگے۔ سلیمان بادشاہ کی حکمت سے ہر کوئی واقف ہے مگر اپنی ان بیویوں کی وجہ سے اس نے خداوند کی پیروی ترک کی اور غیر معبودوں کے لئے بلند مقام بنائے، یہ بات ہر کوئی نہیں جانتا ۔ آپ 1 سلاطین 11 باب میں سلیمان بادشاہ کے اس گناہ کے بارے میں پڑھ سکتے ہیں۔ خداوند نے استثنا 17:17 میں بادشاہوں کے لئے حکم دیا تھا کہ ؛
اور وہ بہت سی بیویاں نہ رکھے تا نہ ہوکہ اسکا دل پھر جائے اور نہ وہ اپنے لئے سونا چاندی ذخیرہ کرے۔
نحمیاہ کے سامنے الیاسب سردار کاہن کی مثال تھی جسکے بیٹوں میں سے ایک کے بیٹے نے سنبلط کی بیٹی سے شادی کی تھی اور سنبلط خداوند کے گھر کی تعمیر کے کام میں دل سے ساتھ نہ تھا۔ نحمیاہ کو علم تھا کہ انھوں نے ایسا کر کے کہانت کو اور کہانت اور لاویوں کے عہد کو ناپاک کیا تھا۔ کیونکہ کلام مقدس کاہنوں سے متعلق خاص احکامات دیتی ہے کہ انھیں کیسا ہونا چاہیے۔ آپ احبار 21 میں یہ چند احکامات دیکھ سکتے ہیں۔
ہمارے بہت سے مسیحی آج غیر قوموں میں شادیاں کرنے کو برا نہیں سمجھتے۔ محبت کے جال میں پھنس کر وہ غیروں میں شادیاں کر بیٹھتے ہیں اور پھر پچھتاتے ہیں۔ شروع شروع میں تو مذہب کی دیوار تو میاں بیوی تک رہتی ہے مگر جب بچے پیدا ہوتے ہیں تو اور مشکل کھڑی ہوتی ہے کیونکہ ملی جلی مذہبی تعلیم کی وجہ بچے مذہب سے دور چلے جاتے ہیں۔ اگر کلام مقدس کی زبان کی بات کی جائے تو بدقسمتی سے مسیحیوں کو اتنا گمراہ کر دیا گیا ہے کہ زیادہ تر تو یہ بھی نہیں جانتے کہ ہمارے کلام کی اصل زبان عبرانی ہے۔ عبرانی زبان کو سیکھنا تو دور کی بات ہے ، وہ تو یہ بھی نہیں سمجھنا چاہتے کہ اسکی کسی بھی طرح سے کوئی اہمیت ہو سکتی ہے۔
عبرانی زبان کے لئے عبرانی میں "لاشون ہا کودیش، לשון הקודשLashon HaKodesh, ” کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جسکے معنی ہیں "مقدس زبان”۔ یہ اصطلاح صرف اور صرف بائبل کی عبرانی زبان کے لئے استعمال کی جاتی ہے نہ کہ مکمل قومی اسرائیلی زبان کے لئے۔ ہر گھرانے میں اپنی ایک زبان ہوتی ہے۔ آپ بے شک دو تین زبانیں بول سکتے ہیں مگر گھر کے لوگ آپس میں ایک دوسرے سے بات چیت کے لئے ایک زبان کا استعمال زیادہ کرتے ہیں۔ دوسری زبانوں کو سیکھنا ، سمجھنا اور بولنا غلط نہیں مگر خداوند کے گھرانے کی زبان کو نہ اپنانا غلط ہے۔ میں نے یہ بات چند سال پہلے جانی تھی اور تب سے اسی کوشش میں ہوں کہ کلام مقدس کو اسکی اصل زبان میں بھی جان سکوں۔ جب سے میں نے ایسا کیا ہے مجھے کلام کی باتوں کو گہرائی میں سیکھنے کا موقع ملا ہے۔
میرے سے اکثر سوال کیا جاتا ہے کہ آخر میں کیوں لوگوں کو شریعت کے بوجھ تلے دبانا چاہتی ہوں؟ کلام مقدس میں لکھا ہے کہ "خداوند کے احکامات بوجھ نہیں ہیں۔۔۔(1 یوحنا 5:3) اور پھر یشوعا نے بھی تو یہی کہا (متی 11:29):
میرا جوا اپنے اوپر اٹھا لو اور مجھ سے سیکھو۔ کیونکہ میں حلیم ہوں اور دل کا فروتن۔ تو تمہاری جانیں آرام پائیں گی۔
خداوند کا جوا تو ملائم ہے اور اسکا دیا ہوا بوجھ ہلکا ہے مگر انسان سوختہ روایات اصل بوجھ ہیں خداوند کے لوگوں پر۔ میں نے اوپر غیر قوموں میں شادی نہ کرنے پر بات کی مگر ساتھ ہی میں ہمیں کلام مقدس میں کافی نام ملتے ہیں جنہوں نے غیر قوموں میں شادی کی۔ انکی زندگیوں پر خداوند کی بلاہٹ تھی اور ساتھ ہی میں ایک مقصد بھی۔ کلام مقدس ان کو غیر پکارتا ہے جو کہ خداوند کو اپنانے سے انکار کر دیتے ہیں۔ ہم نے عزرا اور نحمیاہ کے مطالعے میں یہ سیکھا اور جانا ہے کہ خداوند کے لوگ اگر اپنے آپ کو عاجز کریں اور پھر سے خداوند کی طرف رجوع لائیں تو وہ انھیں صحیح وقت پر فروتنی بخشےگا۔ نئے عہد نامے کی یہ تعلیم پرانے عہد نامے کی ہی بنیاد پر ہے۔ 2 تواریخ 7:14 میں یوں لکھا ہے؛
تب اگر میرے لوگ جو میرے نام سے کہلاتے ہیں خاکسار بن کر دعا کریں اور میرے دیدار کے طالب ہوں اور اپنی بری راہوں سے پھریں تو میں آسمان پر سے سنکر انکا گناہ معاف کرونگا اور انکے ملک کو بحال کر دونگا۔
میں اپنے نحمیاہ کی کتاب کے اس مطالعے کو یہیں ختم کرتی ہوں۔ اس دعا کے ساتھ کہ خداوند ہمیں اپنے کلام کی رو سے عقل و دانائی بخشیں تاکہ ہم سچائی کا دامن پھر کبھی نہ چھوڑیں، یشوعا کے نام میں۔ آمین