اب ہم اپنے نحمیاہ 13 باب کے مطالعے کو 15 آیت سے شروع کریں گے۔ ہم نے پچھلے حصے میں پڑھا تھا کہ بنی یہوداہ نے اپنے بیچ سے ملی جلی بھیڑ کو دور کیا اور نحمیاہ نے کہانت کے انتظام کو بھی ایک بار پھر سے درست کیا۔ اس نے بدچلن کاہنوں کو ہٹا کر دیانتداروں کو مقرر کیا۔ ابھی بھی سب کچھ شریعت کے مطابق سلجھا نہیں تھا۔ نحمیاہ نے دیکھا کہ کیسے لوگوں کے دلوں میں سے سبت کی قدر اور اہمیت ختم ہوگئی ہوئی تھی کہ انھیں احساس ہی نہیں تھا کہ وہ کس طرح سے شریعت کے احکامات کو توڑ رہے تھے۔ خروج 35:2 سے 3 میں لکھا ہے؛
چھ دن کام کاج کیا جائے لیکن ساتواں دن تمہارے لئے روزِ مقدس یعنی خداوند کے آرام کا سبت ہو۔ جو کوئی اس میں کچھ کام کرے وہ مار ڈالا جائے۔ تم سبت کے دن اپنے گھروں میں کہیں بھی آگ نہ جلانا۔
سبت کے دن کو خداوند کے لئے مقدس رکھنے کو کہا گیا ہے۔ سبت والے دن خداوند نے کام کاج سے منع کیا تھا اور گھروں میں آگ جلانے سے بھی منع کیا تھا۔ بنی یہوداہ جو کام کر رہے تھے وہ کاروبار سے جڑا تھا۔ بنی یہوداہ بابل کی سرزمین سے تو نکلے مگر بابل کی رسموں کو اپنے سے نہ نکال سکے۔ انکو نحمیاہ جیسے خدا کے بندے کی مدد کی ضرورت پڑی جو ان کو اس گناہ سے نجات دلا سکے۔ نحمیاہ نے بنی یہوداہ کے امرا سے جھگڑا کیا کہ وہ کیوں یہ برا کام کر کے خداوند کے سبت کے دن کی بے حرمتی کرتے ہیں جسکی سبب سے خداوند نے ان کے باپ دادا سے ناراض ہو کر سزا دی تھی۔ نحمیاہ 13:17 سے 18 میں یوں لکھا ہے؛
تب میں نے یہوداہ کے امرا سے جھگڑکر کہا یہ کیا بُرا کام ہے جو تم کرتے اور سبت کے دن کی بے حرمتی کرتے ہو؟ کیا تمہارے باپ دادا نے ایسا ہی نہیں کیا اور کیا ہمار خدا ہم اور اس شہر پریہ سب آفتیں نہیں لایا؟ تو بھی تم سبت کی بے حرمتی کرکے اسرائیل پر زیادہ غضب لاتے ہو۔
نحمیاہ نے اس مشکل کا حل یہ نکالا کہ یروشلیم شہر کے پھاٹکوں کو اندھیرا شروع ہونے پر بند کروا دیا اور حکم دیا کہ پھاٹک بند رہیں جب تک کہ سبت کا دن نہ گذر جائے۔ شہر کے پھاٹک بند ہونے کی وجہ سے بیوپاری اور طرح طرح کے مال بیچنے والوں نے یروشلیم کے باہر دیوار کی طرف ٹکنے کی کی تاکہ لوگ ان سے مال خرید سکیں مگر نحمیاہ نے انکو غصے ہو کر کہا کہ اگر اگلی دفعہ وہ ایسا کریں گے تو وہ انہیں گرفتار کر لے گا۔ ان بیوپاریوں نے گرفتاری کے ڈر سے سبت کے دن آنا بند کر دیا۔ نحمیاہ نے لاویوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے آپ کو پاک کریں اور سبت کی تقدیس کی غرض سے پھاٹکوں کی رکھوالی کریں۔ اور ایک بار نحمیاہ نے خداوند سے دعا مانگی کہ وہ اسکے اس کام کو بھی اسکے حق میں یاد رکھے اور اپنی بڑی رحمت کے مطابق اس پر ترس کھائے۔
نحمیاہ نے جب امرا سے سبت کے معاملے میں جھگڑا کیا تھا تو اس نے ان سب کو برا بھلا کہا جو سبت کو توڑ رہے تھے۔ اس نے کہا کہ وہ جب سبت کی بے حرمتی کرتے ہیں تو اسرائیل پر زیادہ خداوند کے غضب کا سبب بنتے ہیں۔ خداوند کے احکامات کو ماننا اور اپنانا بنی اسرائیل کی صرف ذات تک نہیں محدود تھا اس کا اثر پوری قوم پر پڑتا تھا۔ اگر حکمران قوم کو صحیح راہ پر لے کر چل رہے اور پورے دل سے خداوند کے حکموں کو مان رہے ہیں تو انکے لئے برکتیں ہیں اور اگر حکمران قوم کو غلط راہ پر چلا رہی ہے اور قوم خود بھی خداوند کے حکموں کو توڑ رہی ہے تو اس صورت میں انکے لئے لعنتیں ہیں۔ خداوند کے حکموں کی خلاف ورزی کے سبب سے خداوند نے بنی اسرائیل کو ملک بدر کیا تھا اور اب جب کہ ایک بار پھر سے خداوند انھیں واپس لائے تھے تو نحمیاہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ لوگ خداوند کے حکموں کی خلاف ورزی کر کے پھر سے ملک بدر ہوں۔ چند لوگوں کی غلطی پوری قوم کے لئے لعنت کا باعث بن سکتی تھی اور ان لوگوں کے ساتھ تو حکمران بھی شامل تھے جو کہ انھیں روکنے کا کوئی راستہ نہیں نکال پائے تھے۔ اگر نحمیاہ ایسا نہ کرتا تو پوری قوم پھر سے گناہ کی دلدل میں پڑتی۔ جہاں پر چند لوگوں کی وجہ سے سبت کی بے حرمتی کی جا رہی تھی وہیں پر نحمیاہ جیسے خداوند کے لوگوں کی مدد سے ایک بار پھر سے سبت کو مقدس رکھنے کی کوشش جاری تھی۔
ہماری مسیحی قوم بھی سچی راہ سے بھٹک گئی ہوئی ہے۔ بے شک کہ ہماری مسیحی قوم بھیک نہیں مانگتی مگر ان پر "چوڑے” ہونے کا دھبا لگا ہوا ہے۔ چاہے کوئی کتنا کیوں نہ پڑھ جائے پھر بھی پاکستانی مسیحی چوڑے کہلائے جاتے ہیں۔ وجہ صرف اور صرف یہی ہے کہ انھوں نے بھی شریعت کو رد کر دیا ہے۔ نئے عہد نامے میں کہیں بھی سبت کا دن ہفتے کے آخری دن سے بدل کر اتوار ہونے کا ذکر نہیں ملے گا مگر سبت کا دن بدل کر اتوار بنا دیا گیا ہے۔ اور بعض تو یہ کہتے ہیں کہ اب سبت کو پاک ماننے کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔ حالانکہ ہمیں نئے عہد نامے میں بار بار رسولوں کا سبت کے دن کو پاک ماننے کے شواہد ملتے ہیں۔ یشوعا نے حکم دیا تھا کہ ہمیں اپنی صلیب اٹھا کر اسکے پیچھے چلنا ہے۔ مسیحیوں نے صلیب تو واقعی میں اٹھائی ہوئی ہے مگر بجائے یشوعا کے پیچھے چلنے کے جھوٹی تعلیم کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں۔ ویسے تو میں اتوار کو سبت کا دن نہیں مانتی مگر وہ جو کہ اتوار کو سبت مانتے ہیں، ان کو ہی دیکھ لیں سب کی طرح خرید و فروخت میں لگے ہوئے ہیں۔ ایک دن بھی مکمل طور پر خداوند کے لئے مقدس ماننے کا تصور نہیں۔ چرچ میں گھنٹا گذارنے کے بعد یہ خیال کیا جاتا ہے کہ خداوند پر بڑا احسان کیا ہے کہ خداوند کو اپنے پورے ہفتے میں سے ایک گھنٹا دیا ہے۔ ویسے تو ان لوگوں پر اکثر یہ گھنٹا بھی بھار لگتا ہے مگر فون کی وجہ سے یہ بھار کچھ کم ہو گیا ہے کیونکہ کم سے کم ٹیکسٹ میسجز پر دوسروں سے بات چیت تو کرتے رہتے ہیں نا! اگر ٹیکسٹینگ نہیں ہو رہی تو سوشل میڈیا تو موجود ہی ہے کہ مصروف رہیں کہ پادریوں کا بور پیغام نہ سننے پڑے۔ اکثر دوسروں کو دکھانے کے لئے چرچ جایا جاتا ہے کہ دوسروں سے ملنے ملانے کا موقع مل جائے گا ۔ اور دوسرے یہ نہیں پوچھیں گے کہ "چرچ نہیں آئے؟” خیر اسکو بھی چھوڑیں، ہر گھر میں چولھا جلتا نظر آئے گا اور کھانے پکتے دکھائی دیں گے اور ساتھ ہی میں روز مرہ کے کام کاج ہوتے دکھائی دیں گے۔ اور غیر مسیحی میوزک پورے زور شور سے بجتا سنائی دے گا۔
مسیحیوں کو تو یہ بھی نظر میں نہیں آتا کہ وہ آزادی کی نہیں بلکہ غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ وہ برکتوں تلے نہیں بلکہ خداوند کی بھیجی ہوئی لعنت کا شکار ہیں۔ اور اسکے ذمہ دار خداوند نہیں بلکہ مسیحی قوم خود ہے۔ کیونکہ مسیحی قوم کو علم نہیں کہ سبت کا دن، خداوند کے کلام کے مطابق ہفتے کا آخری دن یعنی ساتواں دن ہے ۔ انھیں یہ بھی علم نہیں ہے کہ خداوند نے سبت کے دن کے بارے میں کیا احکامات دئے ہیں۔ عاموس 8:4 سے 7 میں لکھا ہے؛
تم جو چاہتے ہو کہ محتاجوں کو نگل جاؤ اور مسکینوں کو ملک سے نیست و نابود کرو۔ اور ایفہ کو چھوٹا اور مثقال کو بڑا بناتے اور فریب کی ترازو سے دغا بازی کرتے اور کہتے ہو کہ نئے چاند کا دن کب گذرے تاکہ ہم غلہ بیچیں اور سبت کا دن کب ختم ہوگا کہ گہیوں کے کھتے کھولیں؟ تاکہ مسکین کو روپیہ سے اور محتاج کو ایک جوڑی جوتیوں سے خریدیں اور گہیوں کی پھٹکن بیچیں یہ بات سنو! خداوند نے یعقوب کی حشمت کی قسم کھا کر فرمایا ہے میں انکے کاموں میں سے ایک کو بھی ہرگز نہ بھولونگا۔
شاید زیادہ تر کو یہ آیت سمجھ میں نہ آئی ہو۔ وجہ یہ نہیں کہ اس آیت کو سمجھنا مشکل ہے وجہ یہ ہے کہ جن کو خداوند کے کلام سے کوئی لگاؤ نہیں انھیں کچھ بھی سمجھنا مشکل ہے۔ انھیں صرف اپنی پڑی ہے مگر خداوند کہتے ہیں کہ وہ انکے کاموں کو ہرگز نہیں بھولیں گے۔ حزقی ایل 20:12 کے مطابق سبتوں کو خداوند نے اپنے اور اپنے لوگوں کے درمیان نشان ٹھہرایا ہے۔ شیطان کے لئے خداوند کے لوگوں کو گمراہ کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہی ہے کہ وہ خداوند کے لوگوں کو خداوند کی سبتوں سے دور کر دے تاکہ وہ نشان مٹ جائے اور لوگ حیوان کا نشان لے لیں۔ اگر آپ کو سبت کے بارے میں علم نہیں کہ اسکو پاک رکھنے سے کیا مراد ہے تو کلام مقدس میں سے آیات کو ڈھونڈیں جو کہ سبت کو بیان کرتی ہیں تاکہ آپ دوسروں کے کہنے پر دھوکہ نہ کھائیں اور حیوان کے نشان کو تا عمر نہ اپنائے رکھیں۔ ابھی بھی وقت ہے کہ آپ خداوند کے اور اپنے درمیان قائم اس نشان کو اپنا سکیں۔
کلام کے مطابق سبت جمعے کی شام سے شروع ہوتا ہے اور ہفتے کی شام کو ختم ہو جاتا ہے۔ میں اس مطالعے کو یہیں ختم کرتی ہوں اس دعا کے ساتھ کہ آپ خداوند کی اس ہفتہ وار مقرر کردہ عید کو اپنی زندگی میں اپنا سکیں گے یشوعا کے نام سے جو کہ سبت کا مالک ہے آپ کو اپنی سبت کا آرام دے۔ شبات شلوم۔