زمرہ جات کے محفوظات: بائبل سٹڈی

image_pdfimage_print

پیدائش 3 باب (پہلا حصہ)

پیدائش کا تیسرا باب آپ کلام میں سے خود پڑھیں میں وہی حوالے لکھوں گی جسکی میں ضرورت سمجھوں۔

 اگر آپ کو یاد ہو کہ میں نے  دعائے ربانی کے مطالعے میں یشوعا اور حوا کی آزمائش کا بھی ذکر کیا تھا ۔ آپ اسکو بھی ضرور پڑھنا اگر آپ نے وہ نہیں پڑھا  کیونکہ وہ بھی ہمارے آج کے مطالعہ کا اہم حصہ ہے۔

تیسرا باب سانپ کے حوالے سے شروع ہوتا ہے۔ کلام کے مطابق سانپ کل دشتی جانوروں سے جنکو خدا نے بنایا تھا چالاک تھا۔  بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا وہ صرف ایک فرضی حصہ تھا اس کہانی کا یا کہ  اصل شیطان تھا ۔  عبرانی کلام میں سانپ کے لیے” נחש، نخاش، nachash ” کا لفظ استعمال ہوا ہے۔  جو کہ عام طور پر شیطان کے لیے استعمال ہوتا ہے۔  ربی یہی کہتے ہیں کہ یہ سانپ، شیطان تھا جس نے  عورت سے بات کی تھی۔  گو کہ یہ علم نہیں کہ سانپ کیونکر بات کر سکتا تھا  مگر اسکے بارے میں یہ ضرور لکھا ہے کہ وہ چالاک تھا۔ اور اسکا وجود تھا لہذا یہ سوچنا کہ یہ کہانی کا فرضی حصہ ہے غلط ہے۔  عبرانی لفظ ” נְחֹשֶׁת، نخوست، nachoset ” چمکتا پیتل ہے ۔ جسکا ذکر گنتی کے 21 باب میں  ہے پیتل کا سانپ، "نخاش – نخوست”۔

2کرنتھیوں 11:14 میں لکھا ہے؛

اور کچھ عجب نہیں کیونکہ شیطان بھی اپنے آپ کو نورانی فرشتہ کا ہمشکل بنا لیتا ہے۔

فرشتہ کے لیے عبرانی لفظ  "מַלְאָךְ، ملاخ ،  malakh” ہے جسکا مطلب ہے "پیغام لانے/دینے والا” مکاشفہ  12:9 میں لکھا ہے؛

اور وہ بڑا اژدہا یعنی وہی پرانا سانپ جو ابلیس اور شیطان کہلاتا ہے اور سارے جہان کو گمراہ کر دیتا ہےزمین پر گرا دیا گیا اور اسکے فرشتے بھی اسکے ساتھ گرا دیے گئے۔

اور یسعیاہ 14:12 میں لکھا ہے؛

ائے صبح کے روشن ستارے  تو کیونکر آسمان پر سے گر پڑا! ائے قوموں کو پست کرنے والے تو کیونکر زمین پر ٹپکایا گیا!

آپ کو علم ہے کہ ستارے روشن ہوتے ہیں  شیطان بھی خدا کی طرح نور کی مانند بننا چاہتا تھا۔ اس نے اپنی چالاکی کا غلط استعمال کیا اور اپنے فرشتوں سمیت آسمان سے گرا دیا گیا۔  اگر آپ یسعیاہ 14 پڑھیں گے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ وہ خدا کے تخت سے بھی اوپر اپنا تخت قائم کرنا چاہتا تھا مطلب کہ وہ خدا بننا چاہتا تھا۔ اور اسی لیے اس نے حوا کو بہکانے کا سوچا تاکہ وہ زمین کا اختیار حاصل کر سکے۔ ہم نے پہلے باب میں پڑھا تھا کہ خدا نے آدم کو زمین پر اختیار دیا تھا۔  شیطان کا مقصد اس اختیار کو حاصل کرنا تھا۔ اسے پتہ تھا کہ خدا نے آدم کو نیک و بد کی پہچان کے درخت کا پھل کھانے سے منع کیا ہے۔ ہم نے دعائے ربانی میں سیکھا تھا کہ خدا ہم پر آزمائش نہیں لاتا کیونکہ یعقوب 1:14 میں لکھا ہے کہ ہر شخص اپنی ہی خواہشوں میں کھنچ کر اور پھنس کر آزمایا جاتا ہے۔ سانپ نے عورت سے پوچھا کہ

"۔۔ کیا واقعی خدا نے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل تم نہ کھانا؟”

 کیا واقعی! ۔۔۔ یہ کہہ کر وہ عورت کے دل میں  شک  ڈالنا چاہ رہا تھا  کیونکہ اصل حکم تو خدا نے آدم کو دیا تھا لہذا اس درخت کے پھل کو نہ کھانے کے بارے میں عورت نے آدم سے سنا ہو گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خدا نے اسے بھی کہا ہو۔ مگر کلام میں اسکا ذکر موجود نہیں ہے۔ عورت نے جب شیطان کو جواب دیا تو اس نے خدا کے دئے حکم میں اضافہ کیا جسکے بارے میں خدا نے سختی سے منع کیا ہے۔ آپ امثال 30:6، استثنا 4:2 اور مکاشفہ 22:18 اور 19 آیت اپنے حوالے کے لیے دیکھ سکتے ہیں۔

عورت نے شیطان کو کہا  (پیدائش 3:3)

پر جو درخت باغ کے بیچ میں ہے اسکے پھل کی بابت خدا نے کہا کہ تم نہ تو اسے کھانا اور نہ چھونا ورنہ مر جاؤگے۔

خدا نے جب آدم کو یہ حکم دیا تھا تو اس نے کہا تھا کہ "نیک وبد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا کیونکہ جس روز تو نے کھایا تو مرا۔” عورت نے خدا کے دئے ہوئے سادہ حکم میں  "نہ چھونا” کہہ کر اضافہ کیا۔ اسکا ایک اور پہلو میں پھر کبھی بتاؤنگی۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ جب ہم کبھی کسی کو کلام کی تشریح پیش کرتے ہیں تو   اکثر ہم اپنے فہم پر تکیہ کر رہے ہوتے ہیں اور امثال 3:5  اور 6میں خاص لکھا ہے؛

سارے دل سے خداوند پر توکل کر اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔ اپنی سب راہوں میں اسکو پہچان اور وہ تیری رہنمائی کریگا۔

جب مجھے پتہ چلا تھا کہ خدا مجھے اپنے کس مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے تو میں نے اس آیت کو اپنی دعا بنا لیا تھا کیونکہ کسی زمانے میں دوسروں کو  کلام کے بارے میں دلیلیں دیتے ہوئے میں نے سوچا نہیں تھا کہ جو چیز کلام میں صاف لکھی ہے اسکو ہم نے کیسے تروڑ مروڑ دیا ہے اور اپنے ساتھ ساتھ کتنوں کو ہی خدا کے سادہ حکموں سے دور کر کے گناہ کی دلدل میں اپنے ساتھ دھکیل لیا ہے۔ جب مجھے سچائی پتہ چلی تو میں نے تو خدا سے اس بات کی معافی مانگ لی اور اب اس کوشش میں ہوں کہ لوگوں کو کلام کی سادہ سچائی دکھا  کر انکو سچائی کی طرف لاؤں۔  خدا کا کلام کہیں بھی غلط نہیں ، غلطیاں ہماری اپنی تشریح  میں ہے۔ اپنی تشریح سے خدا کے زندہ کلام میں اضافہ نہ کریں۔

کیا آپ نے خدا سے معافی مانگ لی ہے؟

نئے عہد نامے کا پولس رسول ایک فریسی تھا جسے عبرانی کلام (پرانے عہد نامے) کا گہرا علم حاصل تھا۔ جب وہ یشوعا کے پیروکاروں کو سنگسار کر رہا تھا تو وہ اپنی سوچ کے مطابق ٹھیک کر رہا تھا ستفنس کو سنگسار کرنے میں وہ بھی شامل تھا (اعمال 7:58) ( پولس کا اصل نام شاؤل ہے   اور وہ ہمیشہ شاؤل ہی رہا تھا) مگر جب خدا نے اسے سچائی دکھائی تو اس نے یشوعا کو اپنا لیا  اور پھر اسکے نام میں منادی کرنے لگا۔ آج خدا بھی آپ سے یہی کہنا چاہ رہا ہے کہ آپ اسکے دئے ہوئے سادہ حکموں میں اضافہ نہ کریں۔  اپنی پرانی راہوں کو چھوڑ کر خود کلام کو پڑھیں کیونکہ اسکا کلام زندہ کلام ہے وہ آپ کی راہنمائی ضرور کرے گا۔

ہم پیدائش کے تیسرے باب کا باقی مطالعہ اگلی دفعہ کریں گے۔

پیدائش 2 باب

آپ خود کلام میں سے پیدائش کا دوسرا باب پڑھیں میں صرف وہی آیات لکھوں گی جس کی میں ضرورت سمجھوں گی۔

پیدائش 2 باب کی پہلی تین آیات میں لکھا ہے کہ خدا نے چھ دنوں میں سب کچھ، آسمان اور زمین اور انکے کل لشکر کا بنانا ختم کیا اور ساتویں دن سارے کام سے فارغ ہوئے اور انھوں نے ساتویں دن کو برکت دی اور اسے مقدس ٹھہرایا۔ اگر آپ کو "مقدس” کا لفظی مطلب پتہ ہے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ساتواں دن باقی دنوں کی طرح نہیں بلکہ اسکو باقی عام دنوں سے علیحدہ کرکے خداوند نے خاص برکت دی ہے۔  پیدائش 2 باب پڑھنا جاری رکھیں

پیدائش 1 باب (تیسرا حصہ)

کل ہم نے "روشنی ” کی بات کی تھی۔  روشنی کا الٹ اندھیرا /تاریکی ہے۔  زبور 27:1 میں لکھا ہے؛

خداوند میری روشنی اور میری نجات ہے۔ مجھے کس کی دہشت؟ خداوند میری زندگی کا پشتہ ہے۔ مجھے کس کی ہیبت؟

زبور 119:105 ؛

تیرا کلام میرے قدموں کے لیے چراغ اور میری راہ کے لیے روشنی ہے۔ پیدائش 1 باب (تیسرا حصہ) پڑھنا جاری رکھیں

پیدائش 1 باب (دوسرا حصہ)

آپ کلام مقدس سے پیدایش کے پہلے باب کو خود پڑھیں میں صرف وہی آیات لکھونگی جس کی ضرورت محسوس کرونگی۔

پچھلی دفعہ ہم نے پیدایش کی پہلی آیت کے بارے میں بات کی تھی۔ اب بات کرتے ہیں لفظ "ایلوہیم، אלהים، Elohim” کی۔  "ایلوہیم” ، ہمارے خدا کا نام نہیں  بلکہ خداوند  کو "خدا” عزت سے کہنے کے لیے استعمال ہوا ہے، ویسے ہی جیسے کہ اردو زبان میں کسی کو تو یا تم کہنے کی بجائے "آپ” کا لفظ استعمال کیا جائے۔ الوہیم سے مراد کوئی بھی خدا ہو سکتا ہے۔ مگر پیدائش 1:1 میں اسکے استعمال کا یہ مطلب نہیں کہ واحد ازلی خداوند نے جس پر ہم ایمان رکھتے ہیں، انھوں نے آسمان اور زمین کو نہیں پیدا کیا بلکہ کسی اور خدا نے پیدا کیا ہے۔ ایلوہیم، خداوند کے "جج” اور خالق ہونے کی صفت کو بیان کرتا ہے۔  "ایلوہیم، אֱלֹהִים” عبرانی لفظ  "الوہا، Eloha ، אלוה” کی جمع ہے۔  پرانے عہد نامے میں "ایلوہیم” لفظ کئی بار استعمال ہوا ہے۔ تقریباً 250 بار یہی لفظ فرشتوں اور غیر معبودوں کے لیے استعمال ہوا ہے  اور بعض اوقات انسان کے لیے بھی۔  مثال کے طور پر خداوند نے بزرگ موسٰی کو یہ خروج 7:1 میں کہا؛

پیدائش 1 باب (دوسرا حصہ) پڑھنا جاری رکھیں

پیدائش 1 باب (پہلا حصہ)

(میں کافی عرصے کے بعد پھر سے آرٹیکلز لکھنے کا آغاز کر رہی ہوں۔ مجھے علم ہے کہ میں نے اپنے بہت سے آرٹیکلز کو اپنی کم علمی کی وجہ سے اتنا اچھا نہیں لکھا تھا۔ میں یہ تو نہیں کہوں گی کہ اب میرا علم بہت زیادہ ہے کیونکہ ابھی بھی ایک طالب علم کی طرح کلام کو مزید سیکھنے کی کوشش ہے۔ امید ہے کہ آپ ان آرٹیکلز سے کافی کچھ سیکھیں گے۔)

اس سے پیشتر کہ ہم پیدائش کے پہلے باب کا مطالعہ کریں میں پیدائش کی کتاب سے متعلق کچھ معلومات کی باتیں بیان کردوں۔ عبرانی میں پیدائش کو "بیرشیت، בְּרֵאשִׁית، Bereshit” کہتے ہیں جسکا مطلب ہے "ابتدا میں”۔ موسٰی نبی نے پیدائش کی کتاب لکھی ۔ پھر سے بیان کر دوں کہ توریت کلام مقدس کی پہلی پانچ کتابوں یعنی پیدائش، خروج، احبار، گنتی اور استثنا کو کہا جاتا ہے۔

پیدائش 1 باب (پہلا حصہ) پڑھنا جاری رکھیں

(آستر کی کتاب (نواں حصہ

اگر آپ نے آستر کی کہانی پوری نہیں پڑھی تو پہلے اسکے پچھلے حصے پڑھیں۔ میں نے شروع میں ذکر کیا تھا کہ کلام میں آستر کی کتاب میں خدا کا کہیں پر بھی ذکر نہیں ہے۔ مجھے اپنے ساتھ پیش آیا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔

مجھے یاد ہے کہ شادی سے پہلے تک اگر ہمارے گھر میں سانپ آ جاتا تو میرے والد صاحب یا کوئی نا کوئی نوکر مل کر سانپ کو مار ڈالتے تھے۔ شادی کے بعد عموماً میرے شوہر یا پھر کوئی نوکر سانپ کو گھر میں زندہ نہیں چھوڑتے تھے۔ امریکہ میں مجھے کافی عرصے تک کوئی سانپ باغیچے میں نہیں نظر آیا۔ مگر جب ہمارا کاروبار ختم ہوا اور ساتھ میں گھر بھی نہ رہا تو ہم ایک اپارٹمنٹ کمپلکس میں شفٹ ہوگئے۔ (آستر کی کتاب (نواں حصہ پڑھنا جاری رکھیں

(آستر کی کتاب (آٹھواں حصہ

آج ہم آستر کی کہانی کا باقی مطالعہ کریں گے۔

بادشاہ اخسویرس نے ہامان کو اسی سولی پر لٹکا دیا جو اس نے مردکی کے لیے تیار کی تھی اور اسی دن بادشاہ نے ہامان کو گھر آستر کو دیا۔ مردکی بادشاہ کے سامنے حاضر ہوا کیونکہ آستر نے بادشاہ کو بتا دیا تھا کہ اسکا اس سے رشتہ کیا تھا۔ بادشاہ نے ہامان کو دی ہوئی اپنی انگوٹھی واپس لے لی تھی اور مردکی کو دے دی اور آستر نے ہامان کے گھر پر مردکی کو مختار بنا دیا۔ امثال 13:22 میں لکھا ہے؛ (آستر کی کتاب (آٹھواں حصہ پڑھنا جاری رکھیں

(آستر کی کتاب (ساتواں حصہ

پچھلے مطالعے میں ہم نے پڑھا کہ کیسے ہامان کی چال مردکی کے خلاف اس پر الٹی پڑ گئی شاید اسکو سوچ کر تھوڑی تسلی ہوئی ہوگی کہ جلد ہی وہ تمام یہودیوں سے چھٹکارا پانے والا ہے۔ اسکے کے لیے دن کوئی خاص خوشی کا باعث نہیں ٹھہرا تھا صبح سے اسکے تمام ارادے اسکے خلاف کام کرتے دکھائی دے رہے تھے۔ اور اب وہ بادشاہ کے ساتھ آستر کی تیار کردہ ضیافت میں شامل ہونے لگا تھا۔ آج ہم آستر کے 7 باب سے مطالعہ شروع کریں گے۔ اگر آپ نے پچھلے حصے نہیں پڑھے تو پہلے انھیں پڑھیں تاکہ آپ کو اس کہانی کی بہتر سمجھ آسکے۔ (آستر کی کتاب (ساتواں حصہ پڑھنا جاری رکھیں

(آستر کی کتاب (چھٹا حصہ

پچھلے مطالعے میں ہم نے پڑھا کہ ہامان نے اپنی بیوی اور دوستوں کے کہنے پر مردکی کے لیے سولی بنوائی۔ سولی پر کسی کو چڑھانا ہمیشہ سے بے حرمتی کا نشان رہا ہے۔ مسیح کے سولی پر مصلوب ہونے کے بعد سے صلیب مسیحیوں کی پہچان بن گئی ہے مگر امریکہ  اور بہت سے مغربی ملکوں میں بہت سے لوگ بڑی بڑی صلیبیں اپنے گلے میں پہنتے ہیں مگر وہ لوگ بزات خود مسیحی نہیں۔ صلیب کے مختلف ڈیزائن آپ کو مختلف ثقافتوں/تہزیبوں میں نظر آئیں گے۔ کچھ ڈیزائن زمانہ قدیم کے دیوتاوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ آج کے مسیحی لوگ صلیب کی تاریخ جانے بغیر خوشی خوشی صلیب اسلیے پہنتے ہیں کہ یہ مسیح کے سولی پر مصلوب ہونے کا نشان ہے اور ہماری نجات کی علامت ہے۔ (آستر کی کتاب (چھٹا حصہ پڑھنا جاری رکھیں

(آستر کی کتاب (پانچواں حصہ

ہم نے آستر کی کتاب کے پہلے چار باب کا  پچھلے آرٹیکلز میں مطالعہ کیا  ہے۔ اگر آپ نے وہ چاروں حصے نہیں پڑھے تو آپ اس آرٹیکل کو پڑھنے سے پہلے ان چار باب کا مطالعہ پڑھیں تاکہ آپ کو آج کے مطالعے کی بہتر سمجھ آسکے۔

پچھلے باب میں ہم نے پڑھا کہ آستر نے اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر بادشاہ اخسویرس کے سامنے جانے کا فیصلہ کیا اور مردکی کو کہا کہ باقی یہودیوں کے ساتھ مل کر اسکے لیے اس بات کا روزہ رکھیں اور دعا مانگیں۔ گو کہ بادشاہ کے سامنے اسکی اجازت کے بغیر آنے کامطلب موت، کچھ سخت حکم لگتا ہے مگر اگر آپ آج کے صدر کی سوچ کے مطابق سوچیں تو یہ کوئی اتنی حیران کن بات نہیں۔ بادشاہ کو کیا خبر کہ کون اسکا دشمن نکلے اور اسکی جان پر حملہ کر دے۔ کیا آپ آستر کی طرح خوشی خوشی اس کام کو انجام دینا چاہتے ہیں جو خدا نے آپ کے ذمہ سونپا ہے چاہے اسکا نتیجہ موت ہی کیوں نہ ہو؟ (آستر کی کتاب (پانچواں حصہ پڑھنا جاری رکھیں