عبرانی لفظ و-یکرا کے معنی ہیں "اور اس نے بلایا” کیونکہ احبار 1:1 کی آیت میں ہم پڑھتے ہیں کہ خدا نے موسیٰ کو بلایا۔ ویکرا عبرانی کلام کی تیسری کتاب ہے جو کہ اردو کلام میں ہماری "احبار” کی کتاب ہے۔ میں نے شروع میں کہیں پر بیان کیا تھا کہ عبرانی کلام میں توریت کی کتابوں کے نام پہلے باب کی پہلی آیت میں درج الفاظ پر مشتمل ہیں۔ اسی طرح سے ہمارے ہفتہ وار پرشاہ کا نام بھی توریت یعنی توراہ کے پہلے حوالے کی پہلی آیت پر ہوتا ہے۔ آپ کلام میں سے ان حوالوں کو پڑھیں گے۔
پرشاہ ویےقاحیل کے ساتھ پرشاہ پیکودے ان سالوں میں اکٹھا پڑھا جاتا ہے جب عبرانی کیلنڈر میں ادار II کا مہینہ نہ ہو۔ اس کے لئے آپ کو عبرانی کیلنڈر دیکھنا پڑے گا۔ اس سال پرشاہ ویے قاحیل اور پیکودے اکٹھا پڑھا جائے گا مگر میں نے پھر بھی انکو علیحدہ ہی رکھا ہے۔ عبرانی لفظ "پیکودے کا مطلب ہے "حساب” جو کہ آپ کو خروج 38:21 میں لکھا نظر آئے گا۔ آپ یہ حوالے پڑھیں گے۔
توراہ – خروج 38:21 سے 40:38
ہاف تاراہ – 1 سلاطین 7:51 سے 8:21
بریت خداشاہ – 1 کرنتھیوں 3:16 سے 17، عبرانیوں 13:10 بعض میسیانک یہودی عبرانیوں 8:1 سے 13 پڑھتے ہیں۔
اپنی روحانی خوراک کے لئے آپ ان باتوں کو زیر غور لا سکتے ہیں۔
خداوند خدا اپنے وفادار شاگردوں سے بھی حساب لیتے ہیں۔ موسیٰ نبی کو خداوند نے مددگار دیے تھے کہ مسکن کو اس کے دئے ہوئے حکموں کے مطابق بنا سکیں۔ اگر وہ لوگ موسیٰ نبی کے آگے جواب دہ تھے تو موسیٰ نبی آگے خداوند کے۔ فلپیوں 2:3 سے 4 میں کہا گیا ہے کہ اپنے کو دوسرے سے بڑھ کر نہ سمجھو۔ آپ کے خیال میں یہ جواب دہی کس طرح سے ہمارے کردار کو نکھارتی ہے اور ہمیں ابلیس کے پھندے سے بھی بچاتی ہے؟
آپ کو خروج کے حوالے میں بار بار ایک بات نظر آئے گی "جیسا خدا نے موسیٰ کو فرمایا — بنایا”؟ تابعداری ! ویسے ہی جیسے خدا نے فرمایا۔ کیا آپ اپنے آپ کو اسرائیلی قوم سے بہتر سمجھتے ہیں؟ کیا آپ کے خیال میں آپ دوسروں سے زیادہ خدا کے تابعدار ہیں؟ نوح نے بھی تو خداوند کی ہدایات کے مطابق ہی کشتی بنائی تھی۔ اگر آپ کو موسویٰ احکامات سخت لگتے ہیں تو نوحی احکامات کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
خروج 39:43 میں لکھا ہے کہ موسیٰ نے سب کے کام کا ملاحظہ کیا اور دیکھا کہ انھوں نے کر لیا ہے جیسا خداوند نے حکم دیا تھا۔۔۔ موسیٰ نے انکو برکت دی۔کیا آپ نے سوچا ہے کہ کسی کو کسی کے کام کی شاباشی دینا کس طرح سے انکی حوصلہ افزائی کرتا ہے تاکہ وہ آگے بھی ویسے ہی محنت سے کام کر سکیں۔ آپ اپنے گھر کے لوگوں کے کتنے شکر گذار ہیں؟ کیا آپ نے کبھی انہیں انکے کام کے لئے شکریہ کہا ہے؟ کیا اپنے گھر والوں کو "شکریہ” کہنے میں آپ کی توہین ہے؟ کیا آپ کے خیال میں آپ ان سے برتر ہیں یا پھر یہ کہ وہ جو آپ کے لئے کرتے ہیں انکا فرض تھا اسلئے شکریہ کی کوئی ضرورت نہیں؟
مسکن کی چیزیں خدا کے حکموں کے مطابق بنانے کے بعد مسکن کو کھڑا کرنے کی باری آئی۔ پہلے مہینے کی پہلی تاریخ۔۔۔۔ کیا آپ نے کبھی کلام میں درج ان تاریخوں کی اہمیت جاننے کی کوشش کی ہے؟ آپ چاہیں تو میرے خروج کے ابواب پر لکھے آرٹیکلز ویب سائٹ پر پڑھ سکتے ہیں (backtotorah.com) مگر تب تک کے لئے آپ خود ان باتوں کی اہمیت کو جاننے کی کوشش ضرور کر سکتے ہیں۔
مسکن کا کام مکمل طور پر ختم ہوجانے کے بعد، مسکن خداوند کے جلال سے معمور ہوگیا۔ جس چرچ کی عمارت کی تعمیر میں اور عبادت میں خداوند موجود نہ ہوں وہ عمارت، خالی عمارت ہے اور جس چرچ کو اسکے لوگ مل کر نہ بنائیں اسکا بنانا بےکار ہے۔ یہی اس پرشاہ کا مرکزی پیغام ہے۔ بجٹ بنانا اور حساب رکھنا چاہے وہ کتنا ہی بڑا آدمی ہو یا پھر ایک ادنا انسان، خدا کے کام میں ایمانداری سے چلنا سکھاتی ہے۔ ایک گورنمنٹ سے لے کر چھوٹے ادارے تک ، سب میں حساب کتاب لازمی ہے۔ چرچ کی بات کریں تو چرچ کا پادری خداوند اور اسکے لوگوں کا جواب دہ ہے اور چرچ کے لوگ بھی ویسے ہی خداوند کے آگے جواب دہ ہیں اور پادری کے بھی ۔ کسی اور پر نکتہ چینی کرنے سے پہلے ان باتوں کو سوچیں کہ آپ خدا کے کاموں ، اسکے حکموں کو پورا کرنے اور اسکے حضور ہدیہ لانے میں کتنی دیانتداری دکھاتے آئے ہیں؟
خروج 40:17 میں موسیٰ نے خدا کا مسکن کھڑا کیا اور 1 سلاطین 8:21 میں سلیمان بادشاہ نے خدا کے عہد کا صندوق رکھنے کو ہیکل تعمیر کی۔ باپ نے جو کام کرنے کو سوچا تھا وہ خدا نے بیٹے کو کرنے کو کہا۔ خدا وند چنتے ہیں کہ کون انکا کیا کام کرے گا۔ آپ کے لئے اس میں کیا پیغام چھپا ہے؟
مسکن اور ہیکل کی تعمیر کا مقصد ایک ہی تھا کہ خدا اپنے لوگوں کے درمیان سکونت کرے۔ یوحنا 14:23 کے مطابق بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ خدا وند کی شروع سے ہی خواہش تھی کہ اپنے لوگوں کے ساتھ سکونت کریں۔ اس آیت کو پڑھیں اور سوچیں کہ آپ کس طرح سے اپنے آپ کو خداوند کے ساتھ سکونت کر نے کے قابل بنا سکتے ہیں؟
آپ عبرانیوں 8:5 کو کس طرح سے دوسروں کو سمجھا سکتے ہیں؟ پہلے قوانین پتھر پر لکھے ہوئے تھے اب دل کی تختی پر، یہی نیا عہد ہے۔ آپ اسکے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟
میری خدا سے دعا ہے کہ آپ کسی اور سے نہ سیکھیں بلکہ خود خداوند کی مدد سے خداوند کو پہچان سکیں کہ کلام کے مطابق کیا خداوندکے بارے میں سچائی ہے تاکہ آپ اس کی امت کا حصہ بن سکیں، یشوعا کے نام میں۔ آمین
موضوع: بدن کا حصہ بنیں۔ (آڈیو میسج 2018)
Topic: Be a Part of the Body. (Audio Message 2018)
کی-تیسا کے بعد کے پرشاہ کا نام "ویے-قحیل” ہے۔ مجھے اچھی طرح پتہ ہے کہ بعض عبرانی الفاظ ہمارے لئے تلفظ کرنا مشکل ہیں اور انکو یاد رکھنا اس سے زیادہ مشکل کام ہے۔ آپ کے لئے یہ تمام الفاظ نئے ہیں مگر انکو ضرور سیکھیں کیونکہ ان میں بہت سی باتوں کا گہرا معنی چھپا ہے۔ "ویے-قحیل” کا مطلب ہے "جمع کرنا”۔ کیونکہ ہمارا یہ پرشاہ اس آیت سے شروع ہوتا ہے اور موسیٰ نے بنی اسرائیل کی ساری جماعت کو جمع کرکے کہا۔۔۔۔۔ آپ کلام میں سے ان حوالوں کو پڑھیں گے۔
توراہ- خروج 35:1 سے 38:20
ہاف تاراہ- 1 سلاطین 7:13 سے 26 اور اسکی 40 سے 50 آیات
بریت خداشاہ – عبرانی 9:1 سے 10 کچھ فرقے 2 کرنتھیوں 9:6سے 11 اور 1 کرنتھیوں 3:11 سے 18
اس سبت چونکہ شبات پاراہ پڑ رہا ہے تو مفتیر میں آپ ان حوالوں کو پڑھ سکتے ہیں؛
توراہ: گنتی 19:1 سے 22
ہاف تاراہ: حزقی ایل 36:16 سے 38
ہمیشہ کی طرح ان حوالوں کو کلام سے پڑھتے ہوئے ان باتوں پر غور کریں جو کہ میں نیچے درج کرنے لگی ہوں۔
خدا وند نے بنی اسرائیل کی اس کوتاہی کو جو انھوں نے سونے کا بچھڑا بنا کر کی تھی معاف کرتے ہوئے مسکن کی تعمیر کو جاری رکھنے کے لئے مزید احکامات دئے۔ ہم نے پہلے بھی اس بات کو پڑھا تھا کہ نئے عہد نامے کے مطابق ہم خدا وند کا مقِدس ہیں۔ شاید آپ سے کوئی خطا ہوئی ہو۔ خدا ہماری خطاؤں کو معاف کرنے میں سچا اور عادل ہے وہ آپ سے اپنے مقِدس کی تعمیر کا کام درمیان میں نہیں رکوا دینا چاہتے ، وہ آپ کو مکمل طور پر اپنا مقِدس بنانے کے عمل کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔ اپنی زندگی کو خیمہ اجتماع کے تعمیر کرنے کے احکامات میں ملا کر دیکھیں کہ اب خداوند آپ کو کیا حکم دے رہے ہیں۔
نہ صرف روحانی طور پر بلکہ جسمانی طور پر بھی بنی اسرائیل اکٹھے (جمع) ہوئے کہ خداوند کے اس مسکن کو قائم کر سکیں۔ آپ اپنے چرچ کے کاموں میں کتنا حصہ لیتے ہیں؟ شاید آپ کے چرچ کی بلڈنگ مکمل طور پر تعمیر ہو چکی ہوئی ہے مگر اسکی عبادت اور اسکے روزمرہ کے کاموں میں چرچ کے لوگوں کا حصہ لینا ضروری ہے۔ آپ شاید ابھی دہ یکی یا چرچ کو نذرانہ دینے کے قابل نہیں مگر آپ چرچ کے کاموں میں کس طرح سے حصہ لے سکتے ہیں کہ آپ کی وجہ سے چرچ کے خرچے کچھ کم ہو جائیں؟ اپنے چرچ کے پادری سے بات کر کے دیکھیں ہوسکتا ہے وہ آپ کی کسی طور پر کچھ مدد لیں سکیں۔ اگر چرچ میں کوئی کام نہیں ہے تو کیا آپ خدا کے لوگوں کی زندگی میں کچھ ایسا کام کر سکتے ہیں جن سے انکی کچھ مدد ہوسکے۔ شاید یہ کام کسی بیمار کی تیمارداری ہو یا پھر ایک وقت کا کھانا مہیا کرنا ہو یا پھر کسی چھوٹے موٹے کام میں مدد کرنا ہو۔ آپ کی انہی باتوں پر خداوند آپ کو آپ کے کام کا اجر ضرور دیں گے۔کیا مرد کیا عورتیں ، خدا نے آپ کے دل پر جو بات رکھی ہے اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ اگر یہ خداوند کی طرف سے ہے تو خداوند خود آگے آپ کے لئے راستے کھولیں گے۔
خروج 35:27 سے 29 میں دیکھیں کہ بنی اسرائیل کے سرداروں کا ہدیہ کیا تھا اور عام لوگوں کا ہدیہ کیا تھا؟ آپ کی زندگی میں اسکا کیا معنی ہے؟ آپ کو کس قسم کا ہدیہ دینا چاہیے؟
خروج 36:4 سے 7 کو پڑھیں ۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے چرچ کی تعمیر میں کافی سے زیادہ ہے اور اب اور کچھ مہیا کرنے کی ضرورت نہیں؟ شاید آپ نے سنا ہو کہ چرچ لوگوں سے بنتا ہے۔ اگر عمارت خالی ہو تو ایسی عمارت کا کیا فائدہ جس میں خدا کی عبادت کے لئے لوگ نہیں۔ لوگوں کا اکٹھا مل کر مقِدس کی تعمیر میں حصہ لینا انکو کیا سیکھاتا ہے؟ اس میں آپ کے لئے کیا سبق ہے؟
میرے شوہر کے خیال میں میں بہت زیادہ نقطہ چیں ہوں۔ انکے خیال میں میں اپنے گھر کی چیزیں ڈیکوریٹ کرنے میں اور رنگوں کے توازن کو برقرار رکھنے میں فضول وقت ضائع کرتی ہوں۔ میرا جواب ہمیشہ یہی ہوتا ہے مجھے اپنے گھر کو سنورانا ہے کہ خوبصورت لگے۔ میں جب بھی مسکن کی تعمیر میں ان تمام حوالوں کو پڑھتی ہوں تو ہمیشہ یہی سوچتی ہوں کہ ان تمام باتوں کا کیا مقصد ہے۔ چھوٹی سی چھوٹی چیز کی تعمیر و تیاری میں اتنی گہری تفصیل؟ کیا آپ نے کبھی اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے؟ آپ بھی تو خدا کا مقِدس ہیں۔ کیا وہ آپ کو ویسے ہی خوبصورت نہیں دیکھنا چاہتے؟ کیا آپ اپنے پہناوئے اور اپنے اعمال پر توجہ دیتے ہیں کہ خوبصورت نظر آئیں۔ خداوند آپ کے اور میرے کردار کی ہر چھوٹی سی چھوٹی تفصیل پر توجہ دیتے ہیں۔ ان چھوٹی چھوٹی تفصیلوں کو نظر انداز نہ کریں۔
کیا آپ کو ان حوالوں میں عورتوں کا مسکن کی تعمیر میں اور خدمت میں حصہ لینے کے حوالے نظر آ رہے ہیں؟ میں بہت سے چرچ اور پادریوں کو جانتی ہوں جو کہ عورتوں کے چرچ میں بولنے کے(پادری ہونے کے) سخت خلاف ہیں اور اسکی وجہ نئے عہد نامے میں لکھے پولس رسول کے وہ حوالے ہیں جن کی تشریح وہ اپنے الفاظ میں کرتے ہیں۔ ڈگری حاصل کرنا ایک طرف اور خداوند کے حکموں کے مطابق عورتوں کا خداوند کی خدمت کرنا ۔۔۔ عورتیں کس حد تک کلیسائی کاموں میں شامل ہوسکتی ہیں ؟ کیا آپ نے کبھی خدا سے یہی سوال پوچھنے کی کوشش کی ہے کہ کلام کیا سیکھاتا ہے؟ کون صحیح ہے اور کون غلط؟ بہت سے جو مجھے جانتے ہیں وہ اس بات کا انکار نہیں کریں گے کہ میں عورتوں کے پادری بننے کی حامی نہیں کیونکہ وہ کام جو کہ خداوند نے مرد کو سونپے ہیں وہ مرد ہی انجام دے سکتے ہیں۔ کلمات برکات، جنازہ پڑھنا، مردوں کو بپتسمہ دینا یا پھر نکاح پڑھنا۔۔۔ یہ سب کام عورت کے لئے نہیں ہیں۔ عورت کو کلام کی تعلیم دینے سے نہیں روکا گیا مگر بہت سے احکامات کو پورا کرنے کا اختیار کاہن کو دیا گیا ہے کہ وہ یہ کام انجام دیں۔
ہاف تاراہ کے حوالے میں سلیمان بادشاہ کی بنائی ہوئی ہیکل کی تعمیر کا ذکر ہے۔ سونا ، چاندی اور پیتل کا بھی اس ہیکل کی تعمیر میں استعمال ہوا ویسے ہی جیسے کہ مسکن کی تعمیر میں۔ آپ کے نزدیک آپ کی کیا سب سے قیمتی چیز ہے جو آپ خدا وند کی حضوری میں دے سکتے ہیں؟ کیا آپ نے کبھی خود ہدیہ میں سے کوئی قیمتی چیز دی ہے؟ ہدیہ دیتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ یہ خداوند کے لئے کر رہے ہیں۔ ایک بار پھر سے خروج 35:5 پڑھیں۔ خداوند کے لئے آپ کا لایا ہوا ہدیہ تبھی قابل قبول ہے اگر آپ اسے خوشی سے لائیں ہیں ۔
بریت خداشاہ کا حوالہ پڑھیں۔ پاک ترین مقام میں کاہن سال میں ایک دفعہ داخل ہوتا تھا اور بغیر خون کے نہیں جاتا تھا۔ خون کیوں ضروری تھا۔آپ کے نزدیک یشوعا کے خون بہانے کا کیا معنی ہے؟
میری خدا سے دعا ہے کہ وہ مجھے اور آپ کو اپنے سچے مقِدس میں ڈھال سکے، یشوعا کے نام میں۔ آمین
ت-تزوا کے بعد کے پرشاہ کا نام "کی تیسا” ہے جس کے معنی ہیں ” جب تو کرے”۔ خدا نے موسیٰ کو بنی اسرائیل کا شمار کرنے کو کہا تھا۔ آپ کلام میں سے ان حوالوں کو پڑھیں گے۔
توراہ- خروج 30:11 سے 34:35
ہاف تاراہ- 1 سلاطین 18:1 سے 39 کچھ لوگ حزقی ایل 36:16 سے 38 آیات بھی پڑھتے ہیں۔
بریت خداشاہ- 2 کرنتھیوں 3:1 سے 18
ہمیشہ کی طرح ان حوالوں کو پڑھ کر سوچیں کہ آپ کلام میں سے کیا سیکھ سکتے ہیں۔
خدا وند نے موسیٰ کو بنی اسرائیل کے تمام مردوں کا جو کہ 20 سال یا اس سے زیادہ کے تھے انکا شمار کرنے کو کہا اور ساتھ میں حکم دیا کہ وہ نیم مشقال خداوند کے لئے نذر کریں۔ خدا وند نے دولتمند کو اس سے زیادہ دینے کو نہیں کہا اور نہ ہی غریب کو اس سے کم دینے کو کہا۔ یہ حکم تمام لوگوں کے لئے برابر کا تھا۔ یہ انکی جانوں کا کفارہ تھا۔ تمام بنی اسرائیل نے ایسا کرنا تھا گو کہ یہ حکم خدا نے موسیٰ کو کوہ سینا پر اسکے چالیس دنوں کے دوران میں دیا تھا مگر یہ گنتی 1:3 تک لاگو نہیں ہوا تھا۔ یہ مرد جنگ کے لئے بھرتی کئے جا رہے تھے اور جنگ کے دوران انسانی جان لینےکی خطا کا کفارہ پہلے سے ادا کیا جا رہا تھا۔ خروج 30:16 کو پڑھیں، آپ اس سے کیا معنی اخذ کرتے ہیں؟
خدا وند نے کہا کہ شمار کرتے وقت وہ مرد اپنی جان کا کفارہ دیں تاکہ کوئی وبا ان میں نہ پھیلے۔ آپ کے خیال میں کفارہ پہلے دینا کیوں ضروری تھا؟ مدراش کے مطابق شیطان انسان کی غلط باتوں کو نوٹ کرتا ہے اور پھر خدا کے حضور ان پر الزام لگاتا ہے تاکہ خداوند انکو سزا دیں۔ مکاشفہ 12:10 میں "بھائیوں پر الزام لگانے والے "کا ذکر ہے۔ آپ کی اس بارے میں کیا سوچ ہے؟
خداوند نے موسیٰ کو ہاتھ اور پاوں دھونے کے لئے پیتل کا حوض بنانے کو کہا تھا جسکو خیمہ اجتماع اور قربانگاہ کے بیچ میں رکھا جانا تھا تاکہ ہارون اور اسکے بیٹے اپنے ہاتھ پاؤں اس سے دھویا کریں تاکہ ہلاک نہ ہوں جب وہ قربانگاہ کے نزدیک خدمت یا قربانی چڑھانے کو آئیں۔ شاید آپ کو یاد ہو کہ یشوعا نے اپنے شاگردوں کے پاؤں دھوئے تھے عید فسح کے کھانے سے پہلے۔ کاہن کے کردار اور خیمہ اجتماع کی ان تمام باتوں کو نوٹ کریں کیونکہ جیسا کہ یشوعا نے کہا وہ توریت اور انبیا کے صحیفوں کو پورا کرنے آیا تھا نہ کہ منسوخ کرنے۔ آپ کو ان باتوں میں سے بہت سی باتیں یشوعا کی زندگی میں اور نئے عہد نامے میں نظر آئیں گی۔
خداوند نے خاص مسح کا تیل بنانے کو کہا تھا۔ کلام کے ان حوالوں کو پڑھ کر سوچیں کہ کن کن چیزوں کو اس تیل سے مسح کرنے کا کہا گیا تھا اور کیوں کہا گیا تھا؟ ان تمام کی کیا اہمیت ہے؟
خدا وند نے خاص بضلی ایل کو اپنی روح سے معمور کیا تاکہ وہ ہنر مندی کے کاموں کو ایجاد کرے ساتھ میں خداوند نے اسے ایک ساتھی بھی دیا جو کہ اسکی اس کام میں مدد کر سکے ۔ اور بھی روشن ضمیر شامل تھے۔ خدا وندنے موسیٰ کو دکھایا تھا کہ وہ خیمہ اجتماع کے لئے کیسی چیزیں بنائے مگر حقیقت میں یہ چیزیں بنانے والا اور اسکی مدد کے لئے فرق لوگ تھے جنھوں نے اس کام کو سر انجام دینا تھا۔ کلام میں سے 2 تیمتھیس 2:20 اور رومیوں 9:21 کو پڑھ کر سوچیں کہ خداوند آپ کو کیا کہنا چاہ رہے ہیں۔
خدا وند نے سبت کو اپنے اور بنی اسرائیل کے درمیان ایک نشان کے طور پر ٹھہرایا۔ آپ کے نزدیک اس دن کی کیا اہمیت ہے؟ کیا آپ اسرائیل کا حصہ ہیں یا کہ اسرائیل سے الگ؟ کیا یہ نشان آپ کے لئے بھی ہے؟
بنی اسرائیل نے موسیٰ کی غیر موجودگی میں گناہ کیا۔ خدا وند نے بنی اسرائیل کو ایک گردن کش قوم کہا ۔ کیوں؟ بنی اسرائیل نے اپنے لیے سونے کا ایک بچھڑا بنایا تھا کہ یہ انکا وہ دیوتا ہے جو انکو ملک مصر سے نکال لایا ہے ساتھ ہی میں انھوں نے اگلے دن یہوواہ کے لئے عید کا کہا۔ وہ خداوند یہوواہ کو جانتے ہوئے بھی اسکی عبادت میں دوسرے بت کو شامل کر رہے تھے۔ بنی اسرائیل کے گناہ تو ہم کلام میں پڑھ کر ان پر افسوس کرتے ہیں اور ان کے بارے میں بُرا سوچتے ہیں مگر کیا آپ اپنی زندگی میں جھانک کر دیکھ سکتے ہیں کہ آپ نے خداوند کی عبادت /عید میں کس دیوتا کو اپنی زندگی میں کھڑا کر لیا ہے؟
موسیٰ نے بنی اسرائیل سے پوچھا کہ جو خداوند کی طرف ہے وہ اسکے پاس آ جائے۔ سب بنی لاوی اسکے پاس جمع ہوگئے اور انھوں نے اس دن تین ہزار لوگوں کا قتل کیا۔ پنتکوست کی عید ، توریت کے دئے جانے کی یاد دلاتی ہے۔ بنی اسرائیل کے اس گناہ پر اگرتب 3000 ہزار جانیں ماری گئی تھیں تو اعمال 2 میں 3000 ہزار جانوں نے نجات پائی۔ کیا خدا کے کام عجیب نہیں؟
موسیٰ نے خدا وند سے کہا کہ وہ اسکو اپنی راہ دکھائیں۔ اس نے یہ بھی کہا کہ خداوند ان کے ساتھ ساتھ چلیں تاکہ انکے لوگ روی زمین کی سب قوموں سے نرالے ٹھہریں؟ چونکہ خدا وند موسیٰ کو بنام جانتے تھے اسلئے خداوند نے ان کی سنی۔ خداوند نے موسیٰ نبی پر اپنا جلال ظاہر کیا۔ موسیٰ نبی نے خداوند سے باتیں کی، چالیس دن اور چالیس رات تک ۔ اس کی بنا پر انکا چہرہ چمک رہا تھا ۔ کیا خداوند آپ سے کبھی اس طرح سے ہمکلام ہوئے ہیں کہ جب آپ لوگوں سے گفتگو کریں تو وہ جان سکیں کہ آپ نے جو بیان کیا وہ سچ ہے؟
ہاف تاراہ کے حوالے میں ایلیاہ نبی کی کہانی ہے جن کے بارے میں شاید آپ کو اچھی طرح سے پتہ ہو کہ جب ایلیاہ نبی نے خداوند سے مذبح گاہ پر آگ نازل کرنے کو کہا تھا تو خداوند نے آگ نازل کی تھی۔ لوگوں نے جب یہ دیکھا تو وہ منہ کے بل گر کر کہنے لگے کہ "خداوند وہی خدا ہے۔۔”۔ آپ نے اپنی زندگی میں کب جانا ہے کہ "خداوند (یہوواہ) ہی خدا ہے”؟
بریت خداشاہ کا حوالہ پڑھ کر سوچیں کہ کب کب خداوند نے آپ کو آپ کی مصیبتوں میں کیسے کیسے تسلی دی تھی؟ اب آپ آگے کیسے دوسروں کو ویسے ہی تسلی دے سکتے ہیں؟ ہماری ان مصیبتوں کی وجہ کیا ہے؟
میری خدا سے دعا ہے کہ وہ آپ پر اورمجھ پر اپنے فضل کو ہمیشہ قائم رکھیں اور ہمارے بیچ میں ہو کر چلیں ویسے ہی جیسے کہ موسیٰ نبی نے خدا وند سے کہا تھا۔ یشوعا کے نام میں ،آمین۔
موضوع: سونے کا بچھڑا، ہمارے بت۔ (آڈیو میسج 2018)
Topic: Golden Calf, Idols we have. (Audio Message 2018)
ہمارے اس ہفتے کے پرشاہ کا نام "تروماہ” ہے ۔ اس عبرانی لفظ کا مطلب ہے "نذر، نذرانہ” ۔ آپ کلام میں سے ان حوالوں کو پڑھیں گے۔ ہمیشہ کی طرح ان حوالوں کو پڑھتے ہوئے سوچیں کہ خدا کا کلام آپ کو ، آپ کی زندگی کے لئے کیا پیغام دے رہا ہے۔ میں غور و فکر کے لئے کچھ باتیں نیچے درج کرنے لگی ہوں۔
توراہ – خروج 25:1 سے 27:19
ہاف تاراہ- 1 سلاطین 5:26 سے 6:13
بریت خداشاہ- 2 کرنتھیوں 9:1 سے 15 اور متی 5:33 سے 37
خداوند نے موسیٰ کو حکم دیتے ہوئے کہا کہ بنی اسرائیل میں صرف تم ان ہی سے میری نذر لینا جو اپنے دل کی خوشی سے دیں۔ خداوند نے بنی اسرائیل کو مسکن بنانے کو کہا تھا اور بنی اسرائیل کو اس مسکن بنانے کے لئے نذرانہ دینا تھا۔ خداوند نے ان سے ہر طرح کی چیزیں نہیں مانگی تھیں بلکہ کچھ بہت ہی خاص چیزیں مانگی تھیں۔ نا صرف خدا نے خاص چیزیں نذرکے لئے کہیں تھی بلکہ ساتھ ہی میں دینے والے کی دل کی حالت کے بارے میں بھی خاص حکم دیا تھا کہ صرف اسی سے نذر لیں جو اپنے دل کی خوشی سے دیں۔ اب کچھ دیر کے لئے غور کریں کہ نئے عہد نامے کے مطابق ہم خدا کا مقِدس ہیں جب آپ خدا کی عبادت میں آتے ہیں تو کیا آپ خوشی خوشی اپنا وقت اسے نذر کرتے ہیں یا کہ ایک بوجھ یا روزانہ کا کام سمجھ کر اسکے حضور میں آتے ہیں؟ آپ کے خیال میں کیا وجہ ہے کہ خدا نے دل کی خوشی سے دی ہوئی نذر قبول کرنے کا حکم دیا تھا؟
خدا وندنے بنی اسرائیل سے بہت خاص چیزیں مانگی تھیں۔ بیابان میں تو یہ چیزیں میسر نہیں تھیں۔ مدراش کے مطابق زیادہ تر اشیا تو ملک مصر سے نکلتے وقت مصریوں نے بنی اسرائیل کو دی تھیں اور درخت وغیرہ کی لکڑی تو انھیں بیابان کے درختوں سے ہی ملی ہو گی۔ خدا نے بنی اسرائیل سے کچھ بھی ایسا نہیں مانگا تھا جو کہ وہ خداوند کو نہیں دے سکتے تھے۔ خداوند کے دئے ہوئے میں سے ہی انھوں نے خدا وندکونذر کیا تھا۔ ایسے ہی خداوند آپ سے بھی کچھ ایسا نہیں مانگتے جو انھیں پتہ ہو کہ آپ کے پاس میسر نہیں ہے۔ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟
خداوندنےموسیٰ کہا کہ وہ خداوند کے لئے مقِدس بنائیں تاکہ وہ انکے درمیان سکونت کریں۔ خداوند نے موسیٰ نبی کو مسکن کا نمونہ دکھایا تھا کہ انکو کیسے مسکن کو بنانا ہے۔ مسکن کی تعمیر میں بنی اسرائیل کو خاص ہدایات اور نمونے کے مطابق ہی یہ کام سر انجام دینا تھا۔ہر ایک چیز مکمل خوبصورتی سے بننی تھی۔ جیسا میں نے پہلے بیان کیا کہ ہم خدا کا مقِدس ہیں کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ خدا نے آپ کو بھی عجیب وغریب طور پر بنایا ہے۔ آپ کلام سے زبور 139 پڑھ سکتے ہیں۔ آپ کے خیال میں خدا کے نزدیک یہ سب اتنی تفصیل میں کیوں ضروری تھا؟ کیا آپ نے کبھی مسکن کی تعمیر کی تفصیل پڑھنے کی کوشش کی ہے؟ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ یہ سب تفصیلات کس مقصد کی بنا پر ہماری بائبل میں موجود ہیں؟
مسکن کے تین حصے تھے۔ آخر تین حصے ہی کیوں؟ کیا اس میں بھی کوئی خدا وندکی مصلحت ہے؟ آپ کے خیال میں یہ کس بات کی نشاندہی کرتے ہیں؟
پاک مقام اور پاک ترین مقام کے درمیان میں ایک پردہ تھا جو کہ پاک مقام کو پاک ترین مقام سے جدا کرتا تھا۔ آپ کے خیال میں خداوند نے صرف سردار کاہن کو ہی کیوں پاک ترین مقام میں داخل ہونے کی اجازت دی۔ گناہگار انسان اپنی قربانی ضرور خیمہ اجتماع میں کاہن کے پاس لا سکتا تھا ۔ ان تمام باتوں کا کیا مقصد ہے؟ یہ تمام باتیں کس طرح سے یشوعا کی زندگی اور کردار کو ان آیات میں دکھاتی ہیں؟
ہاف تاراہ کا حوالہ دیکھیں سلیمان بادشاہ نے بھی ہیکل بنائی ۔ ہیکل بنانے کا مقصد بھی یہی تھا کہ خدا وند بنی اسرائیل کے درمیان سکونت کریں؟ کیا آپ کو پتہ ہے کہ مسکن اور ہیکل کے درمیان کیا فرق ہے؟
سلیمان کی بنائی ہوئی ہیکل مسکن سے دو گنا بڑی تھی اور اسکی شان و شوکت بھی مسکن سے زیادہ تھی۔ مسکن کو بنی اسرائیل بیابان میں سفر کے دوران اکھاڑ کر دوبارہ سے جہاں بھی انکا قیام ہوتا تھا، عارضی طور پر تعمیر کر سکتے تھے ۔ اسلئے بلاشبہ سلیمان کی بنائی ہوئی ہیکل کی شان و شوکت دگنی تھی۔ خدا وندنے اپنے لوگوں کے درمیان اسی صورت میں سکونت اختیار کرنی تھی اگر وہ اسکے دئے ہوئے حکموں پر چلتے۔ پہلی ہیکل نبوکد نصر نے تباہ کی کیونکہ لوگوں نے خداوند کے حکموں کو بارہا توڑا تھا۔ اگر آپ خدا کا مقِدس ہیں تو وہ بھی آپ میں اسی صورت میں سکونت کرتے ہیں اگر آپ اسکے احکامات پر عمل کرتے ہیں۔ آپ کی اس بارے میں کیا سوچ ہے؟
بریت خداشاہ کے حوالے کو پڑھیں۔ اس حوالے میں بھی زبردستی کے طور پر نذرانہ نہیں دینے کا کہا ہے بلکہ لکھا ہے کہ خدا خوشی سے دینے والے کو عزیز رکھتا ہے۔ اور اسکی وجہ یہ بیان کی ہے” تا کہ تم کو ہمیشہ ہر چیز کافی طور پر ملا کرے اور ہر نیک کام کے لئے تمہارے پاس بہت کچھ موجود رہا کرے”۔ کیا آپ کے پاس نیک کام کے لئے بہت کچھ موجود ہے؟ آپ کی نظر میں کونسے کام نیک ہیں؟ آپ کتنا بوتے ہیں اور کتنا کاٹتے ہیں؟ آپ کے لئے کلام کا یہ حوالہ کیا معنی رکھتا ہے؟
میری خدا وند سے دعا ہے کہ وہ آپ کے دل کو تیار کرے تاکہ آپ نیک کاموں میں حصہ لیتے رہیں اور دوسروں کی زندگی میں خدا کی شکر گذاری کا باعث بن پائیں۔ شکر خدا وند کا اسکی اس بخشش پر جو بیان سے باہر ہے، یشوعا کے نام میں۔ آمین
یترو کے بعد کے پرشاہ کا نام "مِش پاتیم” ہے جسکا مطلب ہے "قوانین، احکام”۔ آپ کلام میں سے ان حوالوں کو پڑھیں گے۔
توراہ- خروج 21:1 سے 24:18
ہاف تاراہ- 2سلاطین 12:1سے 17
بریت خداشاہ- متی 17:1 سے 11 اور متی 5:38 سے 42
ہر ہفتے کے یہ حوالے ہماری اپنی روحانی زندگی کو سنوارنے میں مدد دیتے ہیں۔ جب آپ کلام میں سے ان حوالوں کو پڑھیں تو ان باتوں پر غور کریں اور خدا وند سے کہیں کہ وہ آپ کی مدد کریں تاکہ آپ کلام کو اپنی روحانی زندگی میں اپنا سکیں۔
ہر ملک کے اپنے اپنے قانون ہوتے ہیں۔ خداوند بنی اسرائیل کو ملک مصر سے نکال کر لائے تھے اور اب وہ بیابان میں تھے۔ خداوند نے انہیں دس احکامات دئے تھے مگر اسکے ساتھ ساتھ یہ اضافی احکامات بھی دئے تھے۔ ملک مصر میں بنی اسرائیل کا حاکم فرعون تھا مگر اب انکا بادشاہ خداوند تھے۔ آپ جس ملک میں بھی رہتے ہیں وہاں پر رہتے ہوئے آپ کو ملک کے قوانین پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ آپ کے خیال میں اگر یہ قوانین نہ ہوتے تو کیا لوگوں کی زندگی بہتر ہوتی؟ کیا قوانین ہونے کی بنا پر آپ کو زیادہ تحفظ حاصل ہے؟ مثال کے طور پر اگر چور کو چوری کی سزا دینے کا کوئی قانون نہ ہوتا یا پھر خون کرنے پر کسی قسم کی سزا کا قانون نہ ہوتا یا پھر مالک کا نوکر کو خدمت کرنے پر معاوضہ نہ دینے کی کوئی سزا نہ مقرر ہوتی اور آپ کے ساتھ کسی قسم کی ناانصافی ہوئی ہوتی تو آ پ قانون نہ ہونے کی صورت میں کیا کرتے؟ آخر قوانین دینے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا آپ نے اپنے ملک کے قوانین کبھی گننے کی کوشش کی ہے کہ کتنے قوانین ہیں جو کہ آپ پر نافذ ہیں؟
آپ کو ان حوالوں میں سے کون سا حکم ایسا لگتا ہے کہ وہ بہت سخت قانون ہے اور آپ شاید اسکو اپنی زندگی میں کبھی بھی نہ اپنائیں؟ کیوں اور کیوں نہیں؟
خداوند نے انہی احکامات میں اپنی عیدوں کا بھی کچھ ذکر کیا۔ میں نے کچھ پادری صاحبان کو کہتے سنا ہے کہ آپ کو اپنی زمین کے پہلے پھلوں یعنی اپنی تنخواہ میں سے پہلا حصہ خدا وندکے گھر کو دینا چاہئے۔ کیا آپ کے خیال میں وہ صحیح کہتے ہیں ؟ کیا یہ حکم شریعت کا حصہ ہے؟ اگر یہ حکم شریعت کا حصہ ہے تو کیا آپ کو ابھی بھی اس کو پورا کرنا چاہئے؟ آخر کیوں؟
جب موسیٰ نبی نے بنی اسرائیل کو خدا کے احکامات پڑھ کر سنائے تو انھوں نے کہا "کہ جو کچھ خداوند نے فرمایا ہے اس سب کو ہم کرینگے اور تابع رہینگے۔” کہنا آسان ہے کرنا بعض اواقات مشکل ہوتا ہے۔ کیا آپ بھی بنی اسرائیل کی طرح اتنی ہی سادگی سے خداوند کے حکموں کو پڑھ کر ان پر عمل کرنے کا اقرار کرتے ہیں چاہے عمل کرنا آسان ہو یا مشکل؟
ہاف تاراہ کا حوالہ پڑھ کر سوچیں کہ خداوند کی نظر میں جو کام ٹھیک ہے وہ آخر کیا ہے؟ آپ کو کس طرح سے علم ہوتا ہے کہ آپ جو کام کر رہے ہیں وہ خداوند کی نظر میں بھی ٹھیک کام ہے؟
خداوند کے گھر میں لائی ہوئی نقدی کو کن اور کس طرح کے کاموں میں استعمال کیا جا سکتا ہے؟ کیا آپ اپنی عبادت گاہ میں خوشی سے ہدیہ دینا پسند کرتے ہیں یا یہ سوچ کر دیتے ہیں کہ سب ہدیہ دے رہے ہیں تو میں بھی تھوڑا دے دوں؟ گو کہ اس میں کوئی برائی نہیں مگر اگر ہدیہ دل سے نہیں دیا گیا تو کیا وہ خداوند کی نظر میں مقبول ٹھہرتا ہے؟
خروج 21:24 کی آیت یشوعا نے متی 5:38 میں بیان کرتے ہوئے ساتھ میں کہا "لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو کوئی تیرے دہنا گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اسکی طرف پھیر دے۔” خدا وند نے خاص حکم دیا ہے کہ کوئی بھی کلام کی باتوں میں نہ تو کسی قسم کا اضافہ کرے اور نہ ہی کچھ اس میں سے گھٹائے۔ کیا یشوعا ، کلام کے احکامات کو منسوخ کر کے نیا حکم دے رہے ہیں؟ یشوعا نے جو بھی تعلیم دی وہ کوئی نئی تعلیم نہیں تھی کیونکہ اسکا بیج پرانے عہد نامے یعنی تناخ سے ہی تھا۔ پرانے عہد نامے میں سے آپ کتنی آیات کو ذہن میں لا سکتے ہیں جن میں شریر کا مقابلہ نہ کرنے کی تعلیم ہے؟ یشوعا کا ان احکامات کی اس طرح سے تشریح کرنے سے کیا مراد تھی؟
یشوعا کے شاگردوں نے بادلوں میں سے آواز کو کہتے سنا "یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں اسکی سنو۔” آپ کے لئے خدا کا یہ حکم کیا معنی رکھتا ہے؟
میری خداوند سے دعا ہے کہ وہ آپ کو اپنے احکامات، اپنی توریت پر عمل کرنے کی اہمیت سمجھا سکیں، یشوعا کے نام میں۔ آمین
پرشاہ بی-شیلاخ کے بعد کے پرشاہ کا نام ہے "یترو”۔ یترو کا لفظی مطلب "بہتات” ہے اور یہ موسیٰ نبی کے سسر کا نام تھا۔ آپ کلام میں سے ان حوالوں کو پڑھیں گے۔
توراہ- خروج 18:1 سے 20:26
ہاف تاراہ- یسعیاہ 6:1 7باب کی 6 آیات تک اور 9:5 سے6 آیات
بریت خداشاہ- متی 8:5 سے 20 آیات۔
ان حوالوں کو پڑھ کر ضرور ان باتوں کو سوچیں جو میں نیچے درج کرنے لگی ہوں کہ کیسے کلام سے ہم اپنی زندگی کو سنوار سکتے ہیں۔
موسیٰ کے سسر "یترو” نے سنا کہ کیسے خدا نے موسیٰ نبی اور اپنی قوم اسرائیل کو مصر سے نکالا اور اب وہ بیابان میں ہیں۔ خدا کے عجائب کام غیر قوموں میں مدئح سرائی کا باعث ہوتے ہیں۔ کیا آپ کا اس بات پر ایمان ہے کہ لوگ خدا کے عجائب کام دیکھ کر خدا پر ایمان لاتے ہیں؟ کیا آپ خدا پر اس وجہ سے ایمان لائے تھے کہ آپ نے اس کے عجائب کام دیکھے یا اس بنا پر ایمان رکھتے ہیں کہ آپ کا گھرانہ مسیحی ہے؟
یترو ، موسیٰ نبی کی بیوی اور بیٹوں کو اسکے پاس لایا اور جب موسیٰ نبی نے انھیں بتایا کہ خداوند نے کیا کیا بنی اسرائیل کے لئے کیا ہےتو یترو نے کہا کہ میں اب جان گیا ہوں کہ خداوند سب معبودوں سے بڑا ہے۔ پہلے یترو نے دوسروں سے سنا تھا پھر اسکو موسیٰ نبی نے بتایا کہ خداوند نے کیا کیا اسرائیلیوں کے لئے کیا۔ اپنوں کی گواہی اہمیت رکھتی ہے۔ کیا آپ اپنی گواہی صرف غیروں میں دیتے ہیں یا کہ اپنوں سے بھی بیان کرتے ہیں؟
موسیٰ نبی کے سسر نے اگلے دن موسیٰ نبی کو عدالت میں بیٹھے دیکھا کہ کیسے لوگ صبح سے شام تک آس پاس کھڑے تھے۔ موسیٰ نبی کے سسر نے انھیں مشورہ دیا کہ بجائے اس کے کہ وہ اکیلے یہ کام کریں انھیں بنی اسرائیل کے لائق لوگوں کو چننا چاہیے تاکہ چھوٹے معاملے وہ سنبھالیں اور بڑے اور مشکل معاملات موسیٰ نبی کے پاس پیش کئے جائیں۔ انکے سسر نے کہا کہ اگر تو یہ کام کرے اور خدا بھی تجھے ایسا ہی حکم دے تو تو سب کچھ جھیل سکے گا اور یہ لوگ بھی اطمینان سے جائینگے۔ کیایترو کی صلاح آپ کی نظر میں صحیح صلاح تھی؟
انسان کی جب ذمے داریاں بڑھتی ہیں تو اسکے لئے انکو اکیلے سنبھالنا مشکل ہوتا ہے۔ آپ اپنی ذمے داریوں کو کیسے پورا کر سکتے ہیں؟ کیا کوئی آپ کی مدد کرنے والا ہے جس پر آپ بھروسہ کر سکتے ہوں کہ وہ آپ کی چھوٹی چھوٹی ذمے داریاں نبھانے میں آپ کا ساتھ دے سکیں؟
خدا موسیٰ نبی کے ذریعے بنی اسرائیل سے ہم کلام ہوئے ۔ اس سے پیشتر کے وہ لاویوں کے قبیلے کو باقی قبیلوں سے جدا کر کے اپنے مقدس کام کے لئے مخصوص کرتے، خداوند نے بنی اسرائیل سے کہا ” اور تم میرے لئے کاہنوں کی ایک مملکت اور ایک مقدس قوم ہوگے۔۔۔(خروج 19:6)۔ آپ کے خیال میں اس سے خدا کی کیا مراد تھی؟ ایسا ہی کچھ پطرس رسول نے بھی کہا تھا جو کہ یہودیوں کے لئے رسول ٹھہرائے گئے تھے۔ آپ 1 پطرس 2:9 پڑھ کر سوچیں کہ خداوند کی اس سے کیا مراد تھی؟
خداوند نے موسیٰ نبی سے کہا کہ لوگ اپنے آپ کو پاک کریں اور تیسرے دن تیار رہیں کیونکہ خداوند تیسرے دن سب لوگوں کے دیکھتے دیکھتے کوہ سینا پر اُتریں گے۔ خداوند نے خاص تنبیہ کی کہ کوئی پہاڑ پر نہ چڑھے اور نہ ہی اسکے دامن کو چھوئے کیونکہ جو کوئی ایسا کرے گا ضرور مار ڈالا جائے گا۔۔۔ خداوندکے بعض احکامات بہت سخت دکھائی دیتے ہیں۔ آپ کے خیال میں کیوں خدا نے اس طرح سے کہا کہ اگر کوئی پہاڑ کے قریب آئے یا چھوئے تو ضرور مار ڈالا جائے گا؟ اگر آپ نے کبھی سائنس کے تجربوں میں حصہ لیا ہے تو آپ کو علم ہوگا کہ بعض اشیا کے لیے خاص ہدایات درج ہوتی ہیں کہ انھیں کیسے استعمال کرنا ہے کیونکہ اگر انھیں ان ہدایات کے مطابق نہ استعمال کیا جائے تو نتیجہ خطرناک ہو سکتا ہے۔ کیا آپ خداوند کی پاکیزگی کو اور انکی ذات کو سائنس کے تجربوں کونظرمیں رکھ کر سوچ سکتے ہیں؟ مت بھولیں کہ خدا وند ہیں جنہوں نے سورج ، چاند اور ستاروں جیسی چیزوں کو بنایا ۔ سورج کو چھونے کا عام انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔ چاند پر پہنچ کر بھی انسان چاند پر جی نہیں سکتا اور ستاروں کو دیکھ کر بھی ستاروں کے بارے میں زیادہ جان نہیں سکتا۔ آپ کے لئے خداوند کی ذات کیا معنی رکھتی ہے؟ کیا آپ خداوند سے ملنے کو اپنے آپ کو دنیاوی آلودگی سے پاک کرتے ہیں تاکہ آپ اسکی حضوری میں مارے نہ جائیں؟
بنی اسرائیل نے خدا وند کو دیکھا۔ آج کے دور میں بھی لوگ یشوعا سے ہم کلام ہونے کا دعوا کرتے ہیں۔ آپ کی ان باتوں کے بارے میں کیا رائے ہے؟ کیا خداوند واقعی میں کل، آج اور ابد تک یکساں خدا ہیں؟ اگر ایسا ہے تو پھر کیوں ہم ان لوگوں کی بات کا یقین کر لیتے ہیں جن کے مطابق پرانے عہد نامے میں تو خداوند کا رویہ فرق تھا مگر نئے عہد نامے میں خداوند محبت کرنے والے خداوند ہیں؟
خداوند نے بنی اسرائیل کو دس احکامات دئے۔ بنی اسرائیل نے موسیٰ نبی سے کہا کہ وہی ان سے بات کیا کرے وہ اسکی سن لیں گے مگر خدا ان سے باتیں نہ کرے تا نہ ہو کہ وہ مر جائیں۔موسیٰ نبی نے انھیں کہا تم مت ڈرو خدا وند اسلئے آئے کہ تمہارا امتحان کریں اور تمکو انکا خوف ہو تاکہ تم گناہ نہ کرو۔ آپ کے خیال میں موسیٰ نبی کی اس سے کیا مراد تھی؟ خداوند کا خوف علم کا شروع ہے (امثال 1:7)۔ کیا آپ میں خداوند کا خوف موجود ہے؟ کیا آپ اسکے علم میں اور آگے بڑھ رہے ہیں یا پھر آپ وہیں اٹکے ہوئے ہیں جہاں سے آپ نے اپنی روحانی زندگی کا آغاز کیا تھا؟
ہاف تاراہ کا حوالہ پڑھ کر سوچیں یسعیاہ نے خداوند کو دیکھا، یسعیاہ نبی کو پاک کیا گیا تھا اور جب پوچھا گیا کہ کس کو بھیجا جائے کہ لوگوں کو پیغام دے تو یسعیاہ نبی نے کہا "میں حاضر ہوں۔” کیا آپ خدا وند کے کام کو انجام دینے کے لئے پاک ٹھہرائے گئے ہیں۔ کیا آپ اسکا پیغام دوسروں تک پہنچانے کے لئے اسکی خدمت میں حاضر ہیں؟
یسعیاہ 9 باب میں مشیاخ (مسیحا) کے تولد ہونے کی پیشن گوئی کی گئی۔ جسکا نام عجیب مشیر خدای قادر ابدیت کا باپ سلامتی کا شہزادہ بتایا گیا۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ پرانے عہد نامے میں مسیحا کے بارے میں دی گئی کتنی پیشن گوئیاں پوری ہوئی ہیں اور کتنی پوری ہونا باقی ہیں؟ آپ متی 5:17 کا حوالہ بھی پڑھ کر یہ سوچنے کی کوشش کر سکتے ہیں کہ کیا کیا مسیحا کی پہلی آمد پر پورا ہوا ہے اور کیا اسکی دوسری آمد پر پورا ہونا ہے؟
متی 5:19 میں جب یشوعا نے کہا کہ جو کوئی ان چھوٹے سے چھوٹے حکموں میں سے بھی کسی کو توڑیگا اور یہی آدمیوں کو سکھائیگا وہ آسمان کی بادشاہی میں سب سے چھوٹا کہلائیگا لیکن جو ان پر عمل کریگا اور انکی تعلیم دیگا وہ آسمان کی بادشاہی میں بڑا کہلائیگا۔ آپ کے خیال میں یشوعا کن احکامات کی بات کر رہے تھے کیونکہ اس وقت تک تو لوگوں کے پاس نئے عہد نامے کا وجود تک نہیں تھا، اگر انکے پاس کچھ تھا تو وہ توریت، زبور اور انبیا کے صحیفے تھے۔ کیا پرانے عہد نامے کا احکامات، نئے عہد نامے کے احکامات سے فرق ہیں؟
میری خدا سے دعا ہے کہ وہ آپ کی مدد کریں تاکہ آپ ان پیشن گوئیوں کو گہرائی میں سمجھ سکیں جن کا پورا ہونا ابھی باقی ہے، یشوعا کے نام میں۔ آمین
پرشاہ "بو "کے بعد کے پرشاہ کا نام ہے "بی شیلاخ” جسکا معنی ہے "اس نے جانے دیا”۔ آپ کلام میں سے ان حوالوں کو پڑھیں گے۔
توراہ: خروج 13:17 سے 17:16
ہاف تاراہ: قضاۃ 4:4 سے 5:31
بریت خداشاہ: یوحنا 6:15 سے 71 آیات اور اکرنتھیوں 10:1 سے 5
خدا کا کلام زندہ کلام ہے جو کہ آپ کی رہنمائی کرتا ہے۔ میں غور و فکر کے لئے کچھ باتیں درج کر رہی ہوں تاکہ آپ ان سےمیری طرح کچھ سبق سیکھ سکیں۔
پچھلی دفعہ تو فرعون اڑ گیا تھا اور عبرانیوں کو اس نے نہیں جانے دیا مگر اب کی بار جب خدا نے تمام مصریوں کے پہلوٹھوں کو مار دیا تو اس نے انھیں جانے کی اجازت دی۔ خدا عبرانیوں کو فلستیوں کے ملک کے راستے نہیں لے کر گئے اگرچہ وہ چھوٹا راستہ تھا کیونکہ خدا نے کہا کہ یہ لوگ (عبرانی) کہیں لڑائی بھڑائی دیکھ کر واپس ملک مصر نہ لوٹ جائیں۔ آپ کے خیال میں کیوں خدا ایسا سوچ رہےتھے؟ کیا آپ کی نظر میں بعض اواقات چھوٹا راستہ ہی صحیح راستہ ہے ؟ کیا وہ چھوٹا راستہ آپ کے لئے خدا کا چنا ہوا راستہ ہے؟
بنی اسرائیل کو خدا نے لوٹ کر مجدال اور فی ہخیروت کے مقابل بعل صفون کے آگے ڈیرہ لگانے کو کہا تاکہ فرعون یہ سمجھے کہ بنی اسرائیل بیابان میں بھٹک گئے ہیں اور فرعون بنی اسرائیل کا پیچھا کرے۔ آپ کے خیال میں کیوں خدا وند ایسا چاہتے تھے کہ نہ صرف بنی اسرائیل بلکہ مصری بھی جان لیں کہ یہوواہ ہی خداوند ہے؟
جب بنی اسرائیل نے دیکھا کہ فرعون انکے پیچھے آ رہا ہے تو انھوں نے موسیٰ کو کوسا کہ وہ کیوں انھیں بیابان میں مرنے کے لئے لایا ہے کیونکہ انکے نزدیک مصریوں کی خدمت کرنا بیابان میں مرنے سے بہتر تھا۔ آپ کا بنی اسرائیل کے لئے کیا خیال ہے کہ اس وقت بیابان میں انکی زندگی بہتر تھی یا کہ ملک مصر کی غلامی میں؟ بنی اسرائیل کو بیابان میں اپنی زندگی نہیں بلکہ فرعون کو دیکھ کر موت نظر آ رہی تھی۔ انکا اس وقت کوسنا شاید ویسا ہی ہے جب ہم مشکلات میں خداوند کو کوستے ہیں۔ آپ کا اپنی زندگی کے بارے میں کیا خیال ہے کہ آپ کی زندگی گناہ کی غلامی میں بہتر ہے یا کہ خدا کے حکم کے مطابق ابھی آپ جس جگہ ہیں وہ بہتر ہے؟
موسیٰ نبی نے لوگوں سے کہا ڈرو مت ، چپ چاپ کھڑے ہو کر خداوند کی نجات کے کام کو دیکھو کیونکہ جن مصریوں کو تم آج دیکھتے ہو انکو پھر کبھی ابد تک نہ دیکھو گے۔ خدا وند تمہاری طرف سے جنگ کرے گا اور تم خاموش رہو گے۔ مگر خدا نے موسیٰ سے کہا کہ تو کیوں مجھ سے فریاد کر رہا ہے؟ بنی اسرائیل سے کہہ کہ وہ آگے بڑھیں۔ بنی اسرائیل کے آگے سمندر تھا انکے پیچھے فرعون کی فوج تھی اسلئے موسیٰ نبی نے انھیں کھڑے رہنے کا کہا تھا۔ انسان جب بھی بند راستہ دیکھتا ہے یہی سوچتا ہے کہ اب آگے کہاں قدم اٹھائے مگر خداوند کہتے ہیں آگے بڑھ۔ خدا نے موسیٰ نبی کے ذریعے سمندر کے بیچ میں بنی اسرائیل کے لئے راہ نکالی۔ اگر خداوند انکے لئے ایسا کر سکتے ہیں تو کیا وہ آپ کی زندگی کے بند راستے میں جہاں سے آگے کوئی کھلی راہ نہیں نظر آ رہی ، راہ نہیں کھول سکتے؟ کھڑے نہ رہیں آگے بڑھیں، بند راستہ خود کُھل جائے گا۔
خدا وند نے بنی اسرائیل کی بادل کے ستون سے دن کو اور رات کو آگ کے ستون میں ہو کر انکی آگے آگے چل کرمدد کی۔ اب جب فرعون کی فوج ان پر حملے کے لئے آ رہی تھی تو خدا کے بادل کا ستون بنی اسرائیل کے سامنے سے ہٹ کر انکے پیچھے جا کھڑا ہوا جسکی بنا پر فرعون کی فوج انکے قریب نہ آ پائی اور اسی ستون نے فرعون کے لشکر کو گھبرایا بھی کیونکہ انھوں نے بنی اسرائیل کا سمندر میں پیچھا کرنا شروع کیا تھا۔ جب بنی اسرائیل سمندر پار ہوگئے تو خدا وندنے موسیٰ نبی کو کہا کہ وہ اپنا ہاتھ بڑھائے تاکہ سمندر اپنی اصلی حالت میں واپس آ جائے۔ فرعون کا لشکر جو اسرائیلیوں کے پیچھے سمندر میں گیا تھا پانی میں غرق ہو گیا۔ موسیٰ نبی نے جو بنی اسرائیل سے کہا تھا کہ وہ جن مصریوں کو اب دیکھتے ہیں پھر کبھی نہ دیکھیں گے، سچ ہوگیا۔ کیا آپ کے دشمن ہیں جو کہ آپ کے پیچھے جا کر آپ پر حملہ کرنا چاہتے ہیں؟ خدا وند سے دعا مانگیں کہ وہ آپ کے دشمنوں کو ایسے ہی پانی میں ہمیشہ کے لئے غرق کردیں تاکہ آپ پھر کبھی انکو نہ دیکھیں۔
موسیٰ اور بنی اسرائیل نے خدا کی حمد میں گیت گایا۔ جب جب خدا نے آپ کو آپ کے دشمنوں پر فتح دی ہے کیا اس وقت آپ نے کبھی خدا کی حمد میں کوئی گیت گایا ہے؟ انھوں نے گیت گاتے ہوئے کہا "خداوند میرا زور اور راگ ہے۔ وہی میری نجات بھی ٹھہرا۔ وہ میرا خدا ہے۔ میں اسکی بڑائی کرونگا۔۔۔۔” کیا آپ کو پتہ ہے کہ "نجات” کو عبرانی میں کیا کہتے ہیں؟
کچھ ہی عرصہ پہلے بنی اسرائیل خدا کی حمد میں گا رہے تھے کیونکہ انھوں نے اپنے دشمنوں پر فتح حاصل کی تھی اور انکا ایمان خدا میں بڑھا تھا۔ مگر جلد ہی بیابان میں پھرتے ہوئے تین دن تک انکو کوئی پانی نہ ملا اور وہ بڑبڑانے لگے۔ مجھے بھی روح سے بھر پور ہو کر خدا کی حمد و ثنا کے بعدکچھ ہی عرصے میں پریشانی سے اکثر بڑبڑانے میں دیر نہیں لگتی۔ میں جب بھی بنی اسرائیل کی کلام میں کہانی پڑھتی ہوں تو اکثر سوچتی ہوں کہ مجھ میں ان سے زیادہ کتنی بری عادتیں ہیں۔ اب کوشش میں رہتی ہوں کہ بڑبڑانا کم کر سکوں۔ آپ اپنے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ کیا آپ بھی بنی اسرائیل کی طرح ہیں، ایک لمحہ خداوند کی تعریف میں اور دوسرا بُڑبڑانے میں؟
پانی کے بعد ایک بار پھر سے بنی اسرائیل بڑبڑائے کہ کاش کہ ہم ملک مصر میں ہی مار دئے جاتے جب ہم گوشت کی ہانڈیوں کے پاس بیٹھ کر دل بھر کر روٹی کھاتے تھے کیونکہ موسیٰ تو اس بیابان میں اسی لئےلے آیا کہ سارے مجمع کو بھوکا مارے۔ خداوند نے انکے لئےآسمان سے روٹی مہیا کی۔ خدا نے انکی آزمائش اس سے کی کہ وہ خداوندکی شریعت پر چلینگے یا نہیں۔ خداوند بنی اسرائیل کی بھلائی چاہتے تھے اور ابھی بھی یہی چاہتے ہیں۔ خداوند اپنے لوگوں کی بھلائی چاہتے ہیں۔ ہماری آزمائشیں ہماری اپنی خواہشات سے ابھرتی ہیں۔ آپ کی خواہشات کو خداوند آزمائش میں بدل دیتے ہیں کہ آپ اسکے احکامات پر چلیں گے یا نہیں۔ کیا آپ اسکے احکامات کے مطابق چل رہے ہیں اور اپنی آزمائش میں پورا اتر رہے ہیں؟
رفیدیم میں نا صرف اسرائیلیوں کو پینے کے پانی کا مسلہ در پیش ہوا بلکہ انکا عمالیقیوں سے مقابلہ بھی ہوا۔ جب خدا نے انھیں فتح دی تو موسیٰ نبی نے قربان گاہ بنائی اور اسکا نام یہوواہ نسی رکھا جسکا مطلب ہے "یہوواہ میرا جھنڈا /معجزہ ہے۔” کیا یہوواہ نسی، آپ کا بھی فتح کا جھنڈا یا معجزہ ہیں؟
ہاف تاراہ کے حوالے میں دو عورتوں کا ذکر ہے، دبورہ اور یاعیل۔ خدا نے ان دونوں عورتوں کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کیا خدا نے انھیں مردوں سے کم نہیں سمجھا۔ ہمارا معاشرہ ایسا ہے کہ زیادہ تر عورتوں کو کم تر سمجھا جاتا ہے۔ آپ کی نظر میں عورت کی کیا حیثیت ہے؟ کیا آپ خدا کی نظر سے عورتوں کو دیکھ کر انھیں اہمیت دیتے ہیں یا کہ معاشرےکے ڈر سے انھیں نیچا رکھنا چاہتے ہیں؟
خداوند نے برق کو چنا تھا کہ وہ جنگ لڑے مگر اس نے دبورہ کو کہا کہ وہ اسکے ساتھ چلے ورنہ وہ نہیں جائے گا۔ آپ کے خیال میں برق کا جو فیصلہ تھا صحیح تھا؟ کیوں اور کیوں نہیں؟
فتح حاصل کر کے دبورہ اور برق نے بھی گیت گایا۔ اسی گیت میں جنگ کی کہانی بھی ہے۔ اس کہانی کو پڑھیں اور سوچیں کہ کیسے خداوند نے انکو انکے دشمنوں سے فتح دلائی اور پھر لمبے عرصے تک ملک میں امن قائم رہا۔
بریت خداشاہ کا حوالہ پڑھیں۔ پانی اور روٹی، زندہ رہنے کے لئے دونوں ہی ضروری ہیں۔ یشوعا نے کہا کہ وہ زندگی کا پانی دیتا ہے (یوحنا 7 اور 4 باب)، وہ زندگی کی روٹی ہے (لوقا 22اور یوحنا 6 ) ۔آپ کے لئے روٹی اور پانی کیا معنی رکھتے ہیں؟
یشوعا کی باتیں یہودیوں کی سمجھ سے باہر تھیں۔ کیا آپ کو بھی کلام کی باتیں اپنی سمجھ سے باہر لگتی ہیں اور ناگوار گزرتی ہیں؟ بہت سے لوگ یشوعا کی باتوں کی بنا پر اسکو چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ کیا آپ نے کبھی خدا سے دعا کی ہے کہ وہ آپ کو توفیق بخشیں کہ وہ آپ کو کلام کی باتیں سمجھا سکیں تاکہ آپ کلام کی سچی ، کڑوی اور اچھی باتوں کو ہضم کر سکیں تاکہ یہ آپ کو ابدی زندگی دیں ؟یا کہ آپ بھی بہت سے لوگوں کی طرح اسے چھوڑ دینا چاہتے ہیں کیونکہ آپ کو اسکا کلام سن کر ماننے اور قبول کرنے کی ہمت نہیں؟
یشوعا ہماری روحانی خوراک اور روحانی پانی ہے۔ کیا آپ اسے قبول کرکے روحانی خوراک کھانا اور روحانی پانی پینا چاہتے ہیں تاکہ ایسا نہ ہو کہ آپ بھی بہت سوں کی طرح دنیا کے اس بیابان میں ڈھیر ہوجائیں؟
میری خدا سے دعا ہے کہ وہ آپ کو کلام کی سچی اور کڑوی باتوں کی اہمیت سمجھا سکیں تاکہ آپ اسکے احکامات پر پورے دل سے عمل کر سکیں، یشوعا کے نام میں۔ آمین
وی-عیرا کے بعد کا پرشاہ کا نام "بو” ہے۔ بولنے میں یہ ایسا ہی ہے جیسے کے آپ کہہ رہے ہوں "بیج کو بو”۔ اس عبرانی لفظ کا مطلب ہے "چل، جا” کیونکہ ہمارا یہ پرشاہ خروج کی اس آیت سے شروع ہوتا ہے جس میں خدا نے موسیٰ کو حکم دیا کہ وہ فرعون کے پاس جائے۔ آپ کلام میں سے ان حوالوں کو پڑھیں گے۔
توراہ- خروج 10:1 سے 13:16
ہاف تاراہ- یرمیاہ 46:13 سے 28
بریت خداشاہ- لوقا 22:7 سے 30، 1 کرنتھیوں 11:20 سے 34
ایک بار پھر سے خدا نے موسیٰ اور ہارون نبی کو فرعون کے پاس بھیجا ۔فرعون نے اپنے نوکروں کی بات سنی جو اسکو کہہ رہے تھے کہ مصر برباد ہوگیا ہے اس نے موسیٰ اور ہارون نبی کو پھر بلا بھیجا مگر کہا کہ سب نہیں جائیں گے صرف مرد جا کر خداوند کی عبادت کریں گے۔ آپ کے خیال میں فرعون نے کیا سوچ کر یہ کہا تھا؟
خدا قوت رکھتا ہے کہ تمام ہریالی کو کچھ ہی عرصے میں ختم کر ڈالے۔ ہریالی کو ختم دیکھ کر فرعون نے موسی اور ہارون سے کہا کہ وہ خداوند خدا کا اور انکا گنہگار ہے اسلئے وہ اسکا گناہ بخش کر اس موت کو اس سے دور کریں۔ مگر جیسے ہی بلا ٹلی فرعون نے پھر سے اپنا دل سخت کر لیا۔ کیا وجہ تھی کہ فرعون بار بار خدا کے حکم کی نافرمانی کرنا چاہتا تھا؟
اب تک موسیٰ اور ہارون فرعون کو بتاتے چلے آ رہے تھے کہ خداوند کیا کرنے لگے ہیں مگر اگلی بار خدا نے فرعون کو آگاہ کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ خدا نے مصر پر گہری تاریکی بھیج دی۔ بلآخر فرعون نے موسیٰ اور فرعون کو کہا کہ وہ تمام جا سکتے ہیں مگر اپنی بھیڑ بکریاں اور گائے بیل یہیں مصر میں چھوڑ کر جائیں۔ آخر کیا وجہ تھی کہ فرعون مکمل طور پر خدا کی بات کو سننے سے انکار کر رہا تھا؟ وہ کیوں چوپایوں کو ساتھ نہیں بھیجنا چاہتا تھا؟
کہا جاتا ہے کہ برائی آسانی سے نہیں چھٹتی۔ فرعون کی حرکت کی بنا پر خدا نے ابھی ایک اور بلا ان پر نازل کرنی تھی۔ فرعون نے بھی موسیٰ سے کہہ دیا تھا کہ اب وہ اسکا منہ نہیں دیکھنا چاہتا۔ کہنے کو تو فرعون ، موسیٰ نبی کو جھٹلا رہا تھا مگر وہ حقیقتاً میں خدا کو جھٹلا رہا تھا کیونکہ خدا وند فرعون سے موسیٰ نبی کے ذریعے ہمکلام ہو رہے تھے جن کو خداوند نے فرعون کے سامنے "گویا خدا ٹھہرایا” تھا۔ ہر دور میں خدا وند لوگو ں سے اپنے پیغمبروں/اپنے چنے لوگوں کے ذریعے ہمکلام ہوتے آئے ہیں۔ اکثر لوگ سوچے سمجھے بنا خدا کے لوگوں کو جھٹلاتے ہیں دراصل وہ فرعون کی طرح خدا کو جھٹلا رہے ہوتے ہیں۔کیا آپ کی زندگی میں کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ نے خدا کو جھٹلایا ہو یا انکو جن کو خداوند نے چنا ہے اپنا پیغام دینے کے لئے؟
موسیٰ نبی ، فرعون کی نظر میں تو نہیں مگر بہت سے مصری لوگوں کی نظر میں بہت بڑے بزرگ تھے۔ خداوند نے مصریوں کو اپنے لوگوں پر مہربان کیا تاکہ وہ انکو سونے چاندی کے زیور دیں۔ آپ کے خیال میں اس کی کیا ضرورت تھی کہ وہ اس طرح سے مال حاصل کرتے؟
خروج 12 باب کی شروع کی چند آیات کو یشوعا کے مصلوب کئے جانے کے ساتھ ملا کر دیکھیں اور سوچیں کہ کیسے یشوعا ہمارے لئے قربانی کا برہ ٹھہرے؟ اگر آپ کو علم نہیں اور آپ چاہیں تو میرے لکھے ہوئے آرٹیکل کو پڑھ سکتے ہیں یا پھر آڈیو میسج کو سن سکتے ہیں جو میں نے اپنی ویب سائٹ پر اس حوالے سے پوسٹ کئے ہوئے ہیں۔
خدا نے اسرائیلیوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے گھر سے خمیر باہر کر دیں۔ نئے عہد نامے کا حوالہ دیکھیں، گلتیوں 5:9، 1 کرنتھیوں 5:6 اور متی 13:33۔ کلام کی یہ آیات آپ کے لئے کیا معنی رکھتی ہیں؟
خداوند نے اسرائیلیوں کو اس رسم کو ماننے کا کہتے ہوئے کہا تھا کہ” جب تیرا بیٹا تجھ سے سوال کرے کہ یہ کیا ہے؟ تو تو اسے جواب دینا کہ خداوند ہمکو مصر سے جو گلامی کا گھر ہے بزوربازو نکال لایا۔” کیا آپ کی نظر میں عید فسح کی کوئی اہمیت ہے؟
خدا نے اسرائیلیوں کو حکم دیا کہ وہ اس بات کو اپنے اور اپنی اولاد کے لئے ہمیشہ کی رسم کرکے مانیں (خروج 12:24)۔ اب ایک دفعہ لوقا22:1 سے 19 تک پڑھ کر سوچیں کہ یشوعا نے کس قسم کی رسم کو مناتے ہوئے یہ کہا تھا "میری یادگاری میں کے لئے یہی کرو۔” آپ کے خیال میں کیا اسکی مراد عشائے ربانی سے تھی یا کہ پھر عید فسح سے؟ جی دونوں میں رسموں میں بہت فرق ہے۔
یشوعا نے کہا کہ وہ خدمت کرنے والے کی مانند ہیں۔ اگر آپ یشوعا کے پیروکاروں میں سے ہیں تو کیا آپ یشوعا کی طرح خدمت کرنے والے کی مانند ہیں؟ آپ کی نظر میں اس بات کی کیا اہمیت ہے؟
ہاف تارہ کا حوالہ پڑھیں۔ یرمیاہ 46:25 میں آمون نوکو اور فرعون اور مصر کے معبودوں کا ذکر ہے۔ کیا آپ کو پتہ ہے کہ آمون نوکو کون ہے؟ میں ابھی تو اسکی تفصیل میں نہیں جاؤں گی کیونکہ ہم خروج کے مطالعہ میں ان باتوں کو پڑھیں گے۔ خدا نے اپنے خادم کو کہا کہ "ہراسان نہ ہو کیونکہ وہ اسکے ساتھ ہے اوروہ ان تمام قوموں کو نیست و نابود کرے گا جن میں خدا نے انھیں ہانک دیا تھا۔ خدا نے کہا کہ وہ یعقوب کو مناسب تنبیہ کرے گا اور ہرگز بے سزا نہ چھوڑیگا۔” کیا خدا اپنے لوگوں کو بے سزا چھوڑتا ہے؟ کیوں اور کیوں نہیں؟
میری خدا سے دعا ہے کہ وہ آپ کے ساتھ ساتھ ہو اور جیسے وہ آپ کو مناسب تنبیہ کرے ، آپ اسکی تنبیہ پر بدی سے باز آئیں اور اسکے حکموں کو کبھی سخت نہ جانیں بلکہ خوشی سے اسکو قبول کر سکیں، یشوعا کے نام میں۔ آمین
شیموت، کے بعد کے پرشاہ کا نام ہے "وا-عیرا” (امید ہے کہ اردو میں میرا تلفظ ٹھیک ہے)۔ اس عبرانی لفظ کا مطلب ہے "اور میں ظاہر ہوا(دکھائی دیا)” کیونکہ ہمارا یہ پرشاہ خروج 6:2 آیت سے شروع ہوتا ہے جس میں خداوند نے موسیٰ نبی کو کہا کہ وہ (خدا) ابرہام، اضحاق اور یعقوب کو خدائ قادرمطلق کے طور پر دکھائی دیا۔ آپ کلام میں سے ان حوالوں کو پڑھیں گے۔
توراہ- خروج 6:2 سے 9:35
ہاف تاراہ- حزقی ایل 28:25 سے 29:21
بریت خداشاہ- مکاشفہ 16:21 اور رومیوں 9:14 سے 33
اپنی روحانی خوراک کے لئے ان حوالوں کو پڑھ کر ساتھ میں ان باتوں کو سوچیں۔
خداوند موسیٰ نبی پر ظاہر ہوئے تاکہ وہ اپنے اس عہد کو جو اس نے بنی اسرائیل سے کیا تھا پورا کر سکیں۔ خدا نے موسیٰ نبی کو بنی اسرائیل کے پاس بھیجا کہ وہ انکو بتائیں کہ خدا وند کیا کرنے لگے ہیں مگر بنی اسرائیل نے دل کی کڑھن اور غلامی کی سختی کے سبب سے موسیٰ نبی کی بات نہ سنی۔ دل کی کڑھن۔۔۔۔۔ ہم لوگ دوسروں کی غلطیوں کو تو جلد پہچان لیتے ہیں مگر کبھی اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے۔ میں کتنے ہی مسیحیوں کے منہ سے سنتی ہوں کہ بنی اسرائیل خدا کے حکموں پر نہیں چلے وغیرہ، وغیرہ۔ یہ سب سچ ہے مگر کیا ہم اپنی غلطیوں پر ایک نظر ڈال سکتے ہیں کہ کب کب ہم خدا کی بات اپنے دل کی کڑھن اور اپنے حالات کے سبب سے نہیں سنتے ؟
جب بنی اسرائیل نے موسیٰ نبی کی بات نہ سنی تو خدا نے موسیٰ نبی کو کہا کہ فرعون کو جاکر کہے کہ بنی اسرائیل کو اپنے ملک سے جانے دے۔ پر موسیٰ نبی نے خدا سے کہا بنی اسرائیل نے تو میری سنی نہیں تو فرعون کیونکر سنے گا۔ موسیٰ نبی کو بنی اسرائیل کے رویہ سے تھوڑی بہت مایوسی ضرور ہوئی ہو گی تبھی وہ اگلا قدم نہیں اٹھانا چاہتے تھے۔ کیا آپ کو بھی موسیٰ نبی کی طرح مایوسی کا سامنا ہے؟ ہمت نہ ہاریں اپنا اگلا قدم اٹھائیں، خدا آپ کے ساتھ ہے ویسے ہی جیسے کہ وہ موسیٰ نبی کے ساتھ تھے۔
آپکے خیال میں خدا نے کیوں کہا کہ وہ بنی اسرائیل کو انکے جتھوں کے مطابق ملک مصرسے نکال لائیں گے؟
آپ کے خیال میں کیوں خداوند نے موسیٰ نبی کو کہا کہ "موسیٰ فرعون کے لئے گویا خدا ٹھہرا اور ہارون اسکا پیغمبر”؟
آخر کیا وجہ تھی کہ شروع کے کچھ معجزوں کے بعد فرعون کے جادوگر اور کوئی ویسا معجزہ نہ کر سکے جیسے موسیٰ نبی اور ہارون خدا کے کہنے پر کر رہے تھے؟
ملک مصر پر خدا وندنے بلائیں نازل کرنا شروع کی ہر بار فرعون سودا کرتا کہ وہ بنی اسرائیل کو ملک مصر سے جانے دے گا "اگر” یہ بلا ملک مصر سے ٹل جائے۔ جیسے ہی بلا ٹلتی وہ اپنے کہے سے مکُر جاتا۔ شروع میں خداوند فرعون کے دل کو سخت کرتے تھے (کیا واقعی میں ایسا تھا؟) مگر بعد میں فرعون خود اپنا دل سخت کرنا شروع ہوگیا تھا۔ آپ کے خیال میں اسکی کیا وجہ ہوسکتی تھی؟
اگر بنی اسرائیل ملک مصر میں خدا کے لئے قربانی چڑھاتے تو آپ کے خیال میں بنی اسرائیل کے لئے کس قسم کا خطرہ ہوسکتا تھا ؟ آخر کیوں ملک مصر سے نکل کر قربانی چڑھانی تھی؟
سات بلائیں نازل ہونے پر کچھ مصریوں کے دل بدل گئے کیونکہ لکھا ہے کہ ” جوجو خدا کے کلام سے ڈرتا تھا(خروج 9:20)۔۔۔” آپ کے خیال میں اس سے کتنے ہی مصری بھی ملک مصر کو چھوڑنے کے لئے تیار ہوگئے ہونگے؟
فرعون نے پہلی دفعہ موسیٰ اور ہارون نبی سے کہا کہ اس نے گناہ کیا ہے( خروج 9:27) ۔ بہت سے لوگوں کو وقتی طور پر گناہ کا احساس ہوتا ہے مگر اسکے بعد جیسے ہی گناہ کا احساس انکے ذہنوں سے ہٹتا ہے وہ پھر سے دنیاوی باتوں میں مگن ہوجاتے ہیں۔ آپ کے خیال میں لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ کیا انکا ایک دفعہ کے گناہ کا احساس ،مستقبل کے گناہوں سے بچا سکتا ہے؟
لوگ اکثر کسی کی نرم دلی کو اسکی کمزوری سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ خدا نے جتنی بھی بلائیں اب تک نازل کیں، فرعون ان میں خدا کی نرم دلی کو خداوند کی کمزوری سمجھ رہا تھا ۔ فرعون کا گھمنڈ بڑھتا جا رہا تھا کہ وہ خدا کا اس طرح سے مقابلہ کرنا شروع ہوگیا تھا۔ کیا آپ بھی خدا کی طرف سے آئی مصیبت کے ختم ہونے کے بعد خدا کے حکموں سے ایک دم پھر جاتے ہیں یہ سوچ کر کہ خدا وند آپ کے خلاف اس سے زیادہ بڑھ کر کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے؟ کیا آپ بھی انجانے میں خدا کے قہر کو بھڑکا رہے ہیں؟
ہاف تارہ کا حوالہ پڑھ کر سوچیں کہ فرعون کو غلط فہمی تھی کہ دریائے نیل اس نے بنایا ہے مگر خدا نے ملک مصر کے خلاف اپنا فیصلہ سنایاکہ وہ اسکو ویران اور اجاڑ کر دیں گے۔ کتنی ہی بار ہم بھی فرعون کی طرح دھوکا کھاتے ہیں کہ ہمارے ہاتھ کا کام ہماری اپنی محنت ہے، ہمیں اپنے کام میں اپنا ہاتھ تو نظر آتا ہے مگر خدا کا ہاتھ دکھائی نہیں دیتا۔ کلام میں لکھا ہے کہ "ہلاکت سے پہلے تکبر اور زوال سے پہلے خودبینی ہے (امثال 16:18) "۔ انسان کا گھمنڈ اسکو لے ڈوبتا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ کبھی ملک مصر کی شان و شوکت تھی مگر اب وہ اپنی پرانی شان و شوکت کھو بیٹھا ہے کیونکہ حزقی ایل 29:15 میں لکھا ہے کہ وہ پھر قوموں پر حکمرانی نہ کریں اور اپنے تئیں بلند نہ کریگی۔ آپ کے لیے اس میں کیا سبق ہے؟
نئے عہد نامے میں مکاشفہ 16:21 کے مطابق ایک بار پھر سے انسان پر اولے نازل ہونے ہیں مگر لکھا ہےکہ لوگ اولوں کی آفت کے باعث خدا کی نسبت کفر بکیں گے۔ ملک مصر پر آئی بلاؤں سے خدا نے بنی اسرائیل کو محفوظ رکھا تھا۔ خدا اپنے لوگوں کو ہر قسم کی بلا سے محفوظ رکھنا جانتا ہے۔ کیا آپ خدا کے لوگوں میں شمار ہوتے ہیں؟
رومیوں کا حوالہ پڑھ کر سوچیں کہ کیا انسان ، خدا کو کسی بھی صورت میں قصور وار ٹھہرا سکتا ہے؟ چاہے فرعون یا پھر یہوداہ اسکریوتی انکی اپنی کرنی انکے آگے آئی۔ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟
انسان اپنا فیصلہ اپنی عادتوں کے مطابق کرتا ہے اور اس کا کیا ہوا فیصلہ اسکی زندگی کو روپ دیتا ہے۔ میری آپ کے لیے دعا ہے کہ خدا آپ کی عادتوں کو کلام کے موافق بدلے اور آپ کو زیادہ سے زیادہ خدا کے حکموں کے مطابق فیصلہ کرنے کی ہمت دے تاکہ آپ کی زندگی اسکے کلام کے مطابق روپ لے سکے، یشوعا کے نام میں آمین۔ شبات شلوم
آڈیو میسج سننے کے لئے پلے کے بٹن کو کلک کریں۔
موضوع: آپ خداوند کو کیسے پہچانتے ہیں؟(آڈیو میسج 2018)