خروج 6 باب

image_pdfimage_print

آپ کلام میں سے خروج 6 باب پورا خود پڑھیں۔

پچھلے باب کے آخر میں ہم نے پڑھا تھا کہ موسیٰ نے خدا سے کہا  کہ کیوں  خدا نے لوگوں کو دکھ میں ڈالا۔ خروج 6:1 اسی دعا کا جواب ہے ۔ خدا نے موسیٰ کو کہا کہ  اب موسیٰ دیکھیگا کہ خداوند فرعون کے ساتھ کیا کرتا ہے کہ وہ خود بنی اسرائیل کو اپنے ملک سے نکال دیگا۔

خروج 6:2 سے 3 میں ایسے لکھا ہے؛

پھر خدا نے موسیٰ سے کہا میں خداوند ہوں۔ اور میں ابرہام اور اضحاق اور یعقوب کو خدای قادر مطلق کے طور پر دکھائی دیا لیکن اپنے یہوواہ نام سے ان پر ظاہر نہ ہوا۔

ایک آدھ سال پہلے جب مجھ سے کسی نے اس آیت کے حوالے سے بات کی کہ کیا ابرہام، اضحاق اور یعقوب خداوند کو اسکے نام سے نہیں جانتے تھے تو مجھے کچھ الجھن سی محسوس ہوئی کیونکہ میں سوال کا صحیح مطلب نہیں سمجھ پائی تھی اور میں یہ ضرور جانتی تھی کہ ابرہام، اضحاق اور یعقوب، خداوند کا نام جانتے تھے۔  بعد میں جب میری نظر اس آیت پر پڑی تو تب مجھے صحیح معنی میں واضح ہوا کہ انکا  اصل سوال کیا تھا۔ اکثر غیر مسیحی /مسیحی یہ سوچتے ہیں کہ موسیٰ کو خداوند کا نام بتائے جانے سے پہلے تک ابرہام، اضحاق اور یعقوب خداوند کا اصل نام نہیں جانتے تھے۔ نہیں ، یہ سچ نہیں ہے۔ یہ تو حقیقت ہے کہ پیدائش 17:1 میں خداوند نے ابرہام سے اپنا عہد "خدای قادر یعنی ایل شیدائی” کہہ کر باندھا تھا مگر اگر آپ پیدائش 15 کو پڑھیں اور جہاں پر اردو کلام میں خداوند لکھا ہوا  اسکو عبرانی کلام میں دیکھیں تو آپ کو "یہوواہ” لکھا ہوا نظر آئیگا۔   پیدائش  کی کتاب میں ہمیں بارہا یہوواہ لکھا ہوا نظر آئیگا جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ لوگ جانتے تھے کہ خداوند کا نام "یہوواہ ” ہے۔ افسوس کہ اردو کلام یا  زیادہ تر  کلام کے ترجموں  میں ایسا نہیں ملے گا کیونکہ ترجمہ کرنے والوں نے اس کو اردو میں "خداوند” لکھا ہوا ہے نہ کہ "یہوواہ”۔

ہمیں نہ صرف اپنے خداوند کا اصل نام جاننے کی ضرورت ہے بلکہ اس کا صحیح نام لینے کی بھی ضرورت ہے۔ امثال 30:6 میں لکھا ہے؛

 تو اسکے کلام میں کچھ نہ بڑھانا۔ مبادا وہ تجھ کو تنبیہ کرے اور تو جھوٹا ٹھہرے۔

ایسا ہی آپ کو مکاشفہ 22:18 سے 19 میں بھی نظر آئیگا۔  زبور 44:20  سے 21میں لکھا ہے؛

اگر ہم اپنے خدا کے نام کو بھولے یا ہم نے کسی اجنبی معبود کے آگے اپنے ہاتھ پھیلائے ہوں۔ تو کیا خدا سے دریافت نہ کرلیگا؟ کیونکہ وہ دلوں کے بھید جانتا ہے۔

بات یہ نہیں کہ ہم "یہوواہ” کو خدا  یا خداوند نہیں کہہ سکتے مگر جب یہوواہ نے اپنا نام بتایا تھا تو وہ اسلئے تھا کہ اسکے لوگ اسکو  ذاتی طور پر جان پائیں۔ خداوند کا نام اسکے کلام سے کیوں خارج کیا گیا ہے؟ عام سوچ یہ ہے کہ عزت کے طور پر نہیں لکھا، بولا اور پڑھا جاتا ہے۔ اگر آپ نے خروج 3:15 کو پہلے غور سے نہیں پڑھا تو ایک بار پھر سے پڑھیں ۔ خداوند نے خاص کہا ” ابد تک میرا یہی نام ہے اور سب نسلوں میں اسی سے میرا ذکر ہوگا۔”  اگر آپ اسے لکھا پڑھ نہیں رہے تو اسے کیسے بولیں یا پڑھیں گے۔ آپ اسکا ذکر کس طرح سے کرتے ہیں؟ میں اس موضوع کو یہیں ختم کرتی ہوں اگر خداوند نے موقع دیا تو اس پر بھی ایک آرٹیکل لکھونگی۔

خروج 6:4 میں جو لکھا ہے اگر آپ   پیدائش 17:7 سے 8،  26:3 اور 35:11 سے 12 کو  دیکھیں گے تو تب جانیں گے کہ خداوند ان سے باندھے ہوئے اپنے عہد کی بات کر رہا تھا۔ خداوند، فرعون کو اپنا آپ "یہوواہ یعنی  میں ہوں” دکھانے   لگا تھا۔ تبھی خدا نے کہا کہ وہ انکو مصریوں کے بوجھوں کے نیچے سے نکال لائیگا اور انکی غلامی سے آزاد کریگا اور مصریوں کو بڑی بڑی سزائیں دیکر بنی اسرائیل کو رہائی دیگا ۔ وہ انھیں لے لیگا کہ اسکی قوم بن جائیں اور وہ انکا خدا ہوگا۔  اگر آپ  میرا  "عید فسح کے چار پیالے” پر آرٹیکل نہیں پڑھا تو اسے ضرور پڑھیں تاکہ جان سکیں کہ یشوعا نے شریعت یعنی توریت کی کچھ باتوں کو کیسے پورا کیا ہے۔  2 کرنتھیوں 6:16 میں ایسے لکھا ہے؛

اور خدا کے مقدِس کو بتوں سے کیا مناسبت ہے؟ کیونکہ ہم زندہ خدا کا مقدِس ہیں۔ چنانچہ خدا نے فرمایا ہے کہ میں ان میں بسونگا اور ان میں چلوں پھرونگا اور میں انکا خدا ہونگا اور وہ میری امت ہونگے۔

یشوعا نے ہمیں گناہ کی غلامی سے نکال کر موت سے رہائی بخشی تاکہ ہم اسکی امت کا حصہ بن سکیں۔

موسیٰ نے جب یہ باتیں بنی اسرائیل کو سنائیں تو انھوں نے غلامی کی سختی اور دل کے کڑھن کے سبب اسکی نہ سنی۔ ایسا صرف بنی اسرائیل ہی نہیں بلکہ عام مسیحی لوگ بھی کرتے ہیں۔ انھیں خداوند کی باتوں کا یقین نہیں آتا  مگر   انھیں اپنی عقل نئی کرنے کی ضرورت ہے (رومیوں 12:1 سے2) تاکہ خداوند کی کامل مرضی تجربے سے معلوم کر سکیں۔ اگر آپ اپنی زندگی کے اس موڑ پر ہیں کہ لگتا نہیں کہ آپ کے لئے خدا کچھ اچھا کر سکتا ہے تو آپ کو بھی اپنے آپ کو خداوند کے کلام کے مطابق بدلنے کی ضرورت ہے تاکہ آپ بھی اسکی قدرت کو اپنی زندگی میں دیکھ پائیں۔

خداوند نے بنی اسرائیل کے اس رویے کی پرواہ نہیں کی،  وہ اپنے وعدے کو پورا کرنے میں ابھی بھی قائم تھا۔ خداوند نے موسیٰ کو کہا کہ وہ جاکر فرعون سے کہے کہ بنی اسرائیل کو اپنے ملک سے جانے دے۔ خداوند کو تو نہیں مگر موسیٰ کو ضرور پرواہ تھی کہ بنی اسرائیل نے تو اسکی سنی نہیں تو پھر فرعون کیونکر اسکی سنے گا۔ مگر خداوند نے موسیٰ اور ہارون دونوں کو حکم دیا کہ وہ فرعون  کو اس بات کا حکم دیں۔  موسیٰ کا اپنے بارے میں  یہ کہنا "نامختون ہونٹ رکھتا ہوں  یا  میرے ہونٹوں کا ختنہ نہیں ہوا۔” اس سے مراد یہ تھی کہ وہ بولنے کے قابل نہیں ہے یا پھر اچھی گفتگو کرنے کی قابلیت نہیں رکھتا۔

خروج 6:14 سے 25 تک ہم وہ نام پڑھتے ہیں جو کہ  انکے (موسیٰ اور ہارون ) آبائی خاندانوں کے سردار تھے۔ ناموں کو پڑھ کر نوٹ کریں کہ بنی اسرائیل کے تمام 12 بیٹوں کا نام نہیں دیا گیا بلکہ صرف روبن، شمعون اور لاوی کا ذکر ہے مگر  زیادہ توجہ لاوی کے قبیلے کو دی گئی ہے کیونکہ موسیٰ اور ہارون، لاوی کے قبیلے سے تھے اور یہاں انھی کے آبائی خاندان کا ذکر چل رہا ہے۔  لاوی کے تین بیٹے، جیرسون، قہات اور مراری ان سے انکی تین نسلیں چلیں۔ ہم انکے بارے میں زیادہ تفصیل میں آگے پڑھیں گے۔ موسیٰ اور ہارون، قہات کے خاندان سے تھے۔ انکے باپ کا نام عمرام اور ماں کا نام یوکبد ہے۔   ہارون کے بیٹوں کا نام درج ہے مگر موسیٰ کے بیٹوں کا نہیں ۔

ان ناموں  کے بعد خروج کی کہانی کا  سلسلہ وہیں سے شروع ہوتا ہے  کہ خدا نے موسیٰ سے کہا کہ جو کچھ خدا،   موسیٰ سے کہے وہ آگے  فرعون کو کہے۔

ہم خروج کے 7 باب کا مطالعہ اگلی دفعہ کریں گے۔  میری خدا سے دعا ہے کہ وہ آپ پر بھی اپنے نام "یہوواہ”  کو لینے کی اہمیت بیان کرے ، یشوعا کے نام میں۔ آمین۔