پچھلے حصے میں ہم نے پہلے باب کی کچھ ان باتوں پر غور کیا تھا جو ہمیں عام طور پر نہیں بتائی جاتی ہیں۔ ہم نے پہلی پانچ آیات کو دیکھا تھا آج ہم اگلی آیات کا مطالعہ کریں گے۔ ہم نے پڑھا تھا کہ نعومی کی بہووں کا نام عرفہ اور روت تھا۔ روت محلون کی بیوی تھی۔ روت کے معنی ہیں "سہیلی ، ساتھی یا ہمراہی یا پھر خوبصورت”۔ عرفہ کے نام کے معنی ہیں "سایہ” کچھ اسکے نام کے معنی "اکڑی گردن یعنی مغرور” بھی بیان کرتے ہیں۔ انکے ناموں سے علما کو پتہ ہے کہ موآبی نام ہیں نا کہ عبرانی۔
موآب آنے کا فیصلہ الیملک کا تھا ۔ الیملک نہیں رہا اور نہ ہی نعومی کے دونوں بیٹے، اب اگر کوئی بھی فیصلہ کرنا تھا تو وہ نعومی نے ہی کرنا تھا۔اپنوں کو تو نعومی کھو بیٹھی تھی اور غیرو ں میں نعومی رہنا نہیں چاہتی تھی اسلئے جب اسے علم ہوا کہ خداوند نے اپنے لوگوں کو روٹی دی ہے تو وہ بھی اپنی دونوں بہووں کو لے کر یہوداہ کی سر زمین کو لوٹنے کے راستے پر چل پڑیں۔ واپسی کے راستے پر تینوں اکٹھی تھیں مگر پھر نعومی نے اپنی دونوں بہووں کو کہا (روت 1:8 سے 9):
اور نعومی نے اپنی دونوں بہووں سے کہا تم دونوں اپنے اپنے میکے کو جاؤ۔ جیسا تم نے مرحوموں کے ساتھ اور میرے ساتھ کیا ویسا ہی خداوند تمہارے ساتھ مہر سے پیش آئے۔ خداوند یہ کرے کہ تم کو اپنے اپنے شوہرکے گھر میں آرام ملے۔ تب اس نے انکو چوما اور وہ چلا چلا کر رونے لگیں۔
میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ اردو کلام میں پرانے عہد نامے میں جہاں پر خداوند لکھا ہے وہ عبرانی کلام میں لفظ "یہوواہ” ہے جو کہ ہمارے خدا کا نام ہے۔ نعومی نے ان دونوں کو یہوواہ کے نام میں برکت دی تھی۔ رو ت اور عرفہ نے واپس جانے سے انکار کیا مگر نعومی نے ان دونوں کا کہا کہ اسکے اور بیٹے تو ہیں نہیں جو کہ انکے شوہر بن سکیں۔
ہم نے پیدائش 38 باب میں یہوداہ کی کہانی پڑھی تھی جس میں جب اس کے بڑے بیٹے عیر کی موت بغیر اولاد کئے ہو گئی تھی تو یہوداہ نے اپنے بیٹے اونان سے کہا تھا کہ وہ اپنے بھائی کی بیوی کے پاس جائے اور دیور کا حق ادا کرے تاکہ بھائی کے نام سے نسل چلے۔ عبرانی میں اسکو "لیورت” کہتے ہیں آپ کو کلام میں اسکی تفصیل استثنا 25:5 سے 10 میں ملے گی۔ اگر کوئی اسرائیلی بنا اولاد کے مر جاتا تھا تو مرحوم کے بھائی کا فرض تھا کہ اپنے بھائی کے نام سے اولاد پیدا کرے۔ ہمارے ماڈرن زمانے میں تو اسکو اچھا نہیں سمجھا جائے گا مگر اس زمانے میں عبرانیوں کے لئے ایسا کرنا ایک عام بات تھی۔ نعومی کا جو کہ خود بھی شوہر گنوا بیٹھی تھی اسکے لئے ایسا سوچنا کچھ عجیب ہی لگتا ہو گا کہ بڑھاپے میں اولاد ہو جو کہ جوان ہو کر اپنے بھائی کے نام سے نسل پیدا کر سکے۔ ویسے تو پیدائش 38 میں ہمیں تمر کی کہانی میں پڑھنے کو ملتا ہے کہ اس نے انتظار کیا تھا مگر نعومی کی اپنی صورت حال کچھ مختلف تھی۔ اور جہاں تک بات ہے خداوند کے منصوبوں کی تو اسکے کام نرالے ہیں۔ اسکی سوچ ہماری سوچ سے بلند ہے۔
نعومی نے انھیں کہا کہ میں تمہارے سبب سے زیادہ دلگیر ہوں اسلئے کہ خداوند کا ہاتھ میرے خلاف بڑھا ہوا ہے (روت 1:13)۔نعومی جانتی تھی کہ وہ انھیں اس طرح کا آرام نہ دے پائیگی جو انھیں شوہر یا اولاد سے مل سکتا ہے۔ نعومی کی بات سن کر شاید عرفہ نے تو کچھ سوچ بچار کی ہو گئی ، تبھی وہ نعومی کو چھوڑ کر اپنے کنبے اور اپنے دیوتا کے پاس واپس لوٹ گئی مگر روت نہ مانی۔ مجھے عرفہ کا سوچ کر یشوعا کی بتائی ہوئی "بیج بونے والے کی” تمثیل(متی 13) ذہن میں آتی ہے۔ نعومی اور اسکے خاندان کو عرفہ نے تھوڑے عرصے کے لئے اپنایا۔ اور اسکے شوہر کے خاندان کا خدا اسکا خدا بن گیا۔ مگر جب شوہر نہ رہا تو دنیاوی آسائشوں کی خاطر اس نے نعومی کے ساتھ ساتھ خداوند یہوواہ کو بھی چھوڑ دیا اور ایک بار پھر سے اپنے کنبے کے ساتھ ساتھ موآب کے دیوتا کموس کو اپنا لیا۔ کموس کی حضوری میں بچوں کی قربانی چڑھانا موآبیوں کے لیے عام تھا جس سے خداوند کو سخت نفرت ہے۔ شاید عرفہ ابھی تک خداوند کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جان پائی تھی اور اسے جاننے کی حسرت بھی نہیں تھی تبھی اس نے اپنے کنبے کے دیوتا کو پھر سے اپنا لیا۔ روت نے عرفہ کی طرح واپس جانا مناسب نہیں سمجھا۔ اسکی ساس نے اسے ایک بار پھر سے سمجھایا مگر روت نےدنیاوی آسائشوں کو رد کر کے نعومی کو کہا (روت 1:16 سے 17):
روت نے کہا تو منت نہ کر کہ میں تجھے چھوڑوں اور تیرے پیچھے سے لوٹ جاؤں کیونکہ جہاں تو جائیگی میں جاؤنگی اور جہاں تو رہیگی میں رہونگی۔ تیرے لوگ میرے لوگ اور تیرا خدا میرا خدا ہوگا۔ جہاں تو مریگی میں مرونگی اور وہیں دفن بھی ہونگی۔ خداوند مجھ سے ایسا ہی بلکہ اس سے بھی زیادہ کرے اگر موت کے سوا کوئی اور چیز مجھ کو تجھ سے جدا کردے۔
روت موآبی تھی مگر اس نے اپنے دیوتاؤں کو چھوڑ کر جب اپنے شوہر محلون کو اپنایا تو ساتھ میں اسکے خاندان کے خدا کو بھی اپنایا۔ عرفہ کی طرح اس نے اپنے لئے بھلائی کی باتیں نہیں سوچی بلکہ اس نے اس فرض کو پورا کرنے کی سوچی جو اس پر لازم نہیں تھا۔ اگر وہ چاہتی تو عرفہ کی طرح جا سکتی تھی مگر نہ جانے کیا اسکو یہوواہ پاک کی بات بھائی ہو گی کہ نعومی کے لوگوں کو جانے بغیر اس نے نعومی کو، اسکے لوگوں کو اور خدا کو بھی اپنا لیا۔ یہ اسکا نجات کی طرف پہلا قدم تھا جو زبانی اقرار کی صورت میں ہوتا ہے تبھی ہمیں رومیوں 10:9 کی آیت میں خداوند کا زبان سے اقرارکرنے کا حوالہ ملتا ہے گو کہ پولس اسکو یشوعا کے اقرار کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ اس آیت میں لکھا ہے؛
کہ اگر تو اپنی زبان سے یسوع کے خداوند ہونے کا اقرار کرے اور اپنے دل سے ایمان لائے کہ خدا نے اسے مردوں میں سے جلایا تو نجات پائیگا۔
روت کے دل کو خدا جانتا تھا مگر اسکے الفاظ سن کر نعومی نے بھی اس سے بحث نہیں کی۔ مجھے کلسیوں 4:6 کی یہ آیت یاد آئی جس میں لکھا ہے؛
تمہارا کلام ہمیشہ ایسا پُر فضل اور نمکین ہو کہ تمہیں ہر شخص کو مناسب جواب دینا آجائے۔
روت جانتی تھی کہ اگر اس نے شوہر کھویا ہے تو نعومی نے بھی نہ صرف اپنا شوہر بلکہ دونوں بیٹے بھی کھوئے ہیں ۔ روت جانتی تھی کہ نعومی کے لوگ تو اسکے واپس لوٹنے پر اسکو مل جائیں گے مگر شاید اسکو سہارا دینے والا کوئی نہ ہو۔ روت نے نعومی کو صرف اچھا جواب ہی نہیں دیا تھا بلکہ اپنے کہنے پر عمل بھی کرنا پسند کیا تھا۔ بہت حد تک ممکن ہے کہ نعومی کی بنا پر روت نے خداوند پر بھروسہ کرنا سیکھ لیا تھا تبھی اس نے نعومی کے ساتھ ساتھ خداوند کو بھی اپنا لیا۔ عرفہ اور روت دو نوں ہی موآبی تھیں مگر خداوند کو اپنانے کے معاملے میں ان دونوں کا فیصلہ ایک جیسا نہیں تھا۔ متی 8:19 سے 22 میں یشوعا نے فقیہ اور ایک اور شاگرد کو اپنے پیچھے ہو لینے پر ایسا کہا؛
اور ایک فقیہ نے پاس آکر اس سے کہا ائے استاد جہاں کہیں تو جائےگا میں تیرے پیچھے چلونگا۔ یسوع نے اس سے کہا کہ لومڑیوں کے بھٹ ہوتے ہیں اور ہوا کے پرندوں کے گھونسلے مگر ابن آدم کے لئے سر دھرنے کی بھی جگہ نہیں۔ ایک اور شاگرد نے اس سے کہا ائے خداوند مجھے اجازت دے کہ پہلے جا کر اپنے باپ کو دفن کر وں۔ یسوع نے اس سے کہا تو میرے پیچھے چل اور مردوں کو اپنے مردے دفن کرنے دے۔
بہت حد تک ممکن ہے کہ یشوعا نے جو شاگرد کو کہا تھا کہ میرے پیچھے چل اور مردوں کو اپنے مردے دفن کرنے دے، اس شاگرد نے اپنے باپ کو پہلے دفن کرنے کا فیصلہ کیا ہوگا ویسے ہی جیسے کہ عرفہ نے نعومی کا بس یہیں تک ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا مگر روت کا فیصلہ شاید اس فقیہ کی طرح ہوگا جس پر یشوعا نے صاف ظاہر کر دیا تھا کہ اگر وہ یشوعا کے پیچھے پیچھے چلے گا تو اسے بھی سر دھرنے کی جگہ نہیں مل پائے گی۔ روت کا نعومی سے وعدہ کوئی چھوٹا وعدہ نہیں تھا۔ اس نے اس سے کہا (1) جہاں نعومی جائے وہاں وہ جائیگی، (2) جہاں نعومی رہیگی وہاں وہ رہیگی، (3) نعومی کے لوگ اسکے لوگ ہونگے، (4) نعومی کا خدا اسکا خدا ہوگا، (5) جہاں نعومی مریگی وہیں روت بھی مرے گی اور (6) جہاں نعومی دفن ہوگی وہیں وہ بھی دفن ہوگی۔ میں نے پہلے بھی کافی دفعہ ذکر کیا ہے کہ اردو کلام میں جہاں خداوند لکھا ہے وہ عبرانی کلام میں لفظ "یہوواہ” ہے۔ موآبی ہونے کے باوجود روت نے وعدہ موآبیوں کے دیوتا کموس کے نام سے نہیں کیا تھا بلکہ "یہوواہ” کے نام سے کیا تھا۔ اس نے غیر یہودی ہوتے ہوئے نہ صرف یہوواہ کو اپنایا بلکہ یہودیوں کو بھی۔ افسوس کہ ہمارے مسیحی نئے عہد نامے میں کی غلط تعلیم میں اتنے اندھے ہوگئے ہیں کہ وہ یشوعا کے ساتھ صرف یہوواہ کو اپنانا چاہتے ہیں مگر یہودیوں کو نہیں۔ یہوواہ کے وعدے یہودیوں سے تھے غیر یہودیوں سے نہیں۔ اگر آپ نے یہوواہ کو اپنا یا ہے مگر یہودیوں کو نہیں تو یہ مت سمجھیں کہ یہوواہ کے اپنے لوگوں سے کئے ہوئے وعدے اب آپ کے ہوگئے ہیں۔ اسکے وعدے تبھی آپ کے بھی ہونگے جب آپ خدا کے ساتھ ساتھ، مکمل یشوعا کے لوگوں کو ابھی اپنا لیں گے۔ بغیر عمل کے ایمان بے فائدہ ہے۔ ہم آگے پڑھیں گے کہ روت نہ صرف یہوواہ پر ایمان لائی بلکہ اس نے نعومی کو کہا پورا بھی کیا۔ آپ کے یشوعا کے پیچھے پیچھے ہو لینے کا فیصلہ کہاں تک کا ہے؟
نعومی کے روت کے ہمراہ واپس بیت لحم پہنچنے پر سارے شہر میں دھوم مچی اور عورتوں نے حیرانگی سے کہا "کیا یہ نعومی ہے؟” نعومی جسکے نام کا ایک مطلب "خوش گوار ” بھی ہے اس نے کہا مجھے نعومی نہیں بلکہ "مارہ” کہو جسکے معنی ہیں "تلخ” کیونکہ اسکے خیال میں خداوند خدا اسکے ساتھ تلخی سے پیش آیا تھا۔ نعومی نے خداوند کو "قادر مطلق” پکارا جو کو عبرانی زبان میں لفظ "شیدائی” ہے ۔ میں نے پیدائش کے مطالعے میں "ایل –شیدائی” کے معنی بیان کئے تھے۔ نعومی نے شکوہ کیا کہ وہ بھری پوری گئی تھی مگر خداوند اسکو خالی پھیر لایا ہے۔ اس نے یہ نہیں کہا "میری بد قسمتی۔۔۔” جیسے عموماً لوگ کہتے ہیں، نہیں وہ جانتی تھی کہ خداوند خدا ہے جو پوری دنیا کا مالک ہے اور سب کچھ اسکے اختیار میں ہے، وہی اپنے لوگوں کو اگر بھرپور دیتا ہے تو واپس بھی لے سکتا ہے۔
یہودیوں کی تعلیم کے مطابق خدا اچھا اور برا دونوں کر سکتا ہے جب کہ مسیحیوں کو تعلیم دی جاتی ہے کہ برا شیطان کرتا ہے۔یہ بات غلط نہیں ہے مگر شیطان بھی خدا کے لوگوں کے ساتھ تب تک برا نہیں کر سکتا جب تک کہ اسے خدا کی طرف سے اجازت نہ ہو اور اسکی اچھی مثال ہمیں پرانے عہد نامے میں ایوب کی کہانی میں ملتی ہے۔ نعومی جانتی تھی کہ خدا کی مرضی کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوسکتا اگر اسکے ساتھ بُرا ہوا تھا تو وہ خدا کی مرضی سے ہوا تھا۔ آپ کے خیال میں خدا کیوں لوگوں کے ساتھ بُرا کرتا ہے ؟
ہم روت کی کتاب کے دوسرے باب کا مطالعہ اگلی دفعہ کریں گے۔ میری خداوند سے آپ کے لئے یہی دعا ہے کہ آپ اسکا اقرار صرف زبان سے ہی نہ کریں بلکہ دل سے اس پر ایمان لاسکیں، یشوعا کے نام میں۔ آمین