(شریعت مسیحیوں کے لئے (دوسرا حصہ

image_pdfimage_print

میں نے  "شریعت مسیحیوں کے لئے” کے پہلے حصے میں مجھ سے کئے گئے ایک سوال کا جواب دیا تھا۔  اس حصے میں میں کچھ اور  سوالوں  کا جوب دے رہی ہوں۔  دوسرا سوال یہ تھا؛

2- رسول کس کا پرچار کرتے تھے توریت کا یا مسیح کی تعلیم کا؟

سوال تو سادہ سا ہی ہے اور جواب بھی کوئی خاص مشکل نہیں ہے ۔ رسول چاہے  آپ پرانے عہد نامے کے حوالے سے سوچیں یا کہ پھر نئے عہد نامے کے حوالے سے ، وہ تمام کے تمام خدا کے احکامات کا ہی پرچار کرتے تھے۔ یشوعا (یسوع) نے  یہودیوں سے یوحنا 5:46 میں کہا؛

کیونکہ اگر تم موسیٰ کا یقین کرتے تو میرا بھی یقین کرتے اسلئے کہ اس نے میرے حق میں لکھا ہے۔

یشوعا جب مردوں میں سے جی اٹھا  تو وہ اماؤس کی راہ کی طرف جاتے ہوئے ان دو آدمیوں کو نظر آیا جو یروشلیم میں ہوئے اس تمام ماجرے کی بات چیت کرتے ہوئے جا رہے تھے۔ یشوعا انکے ساتھ ہو لیا اور جب انھوں نے اسکے کہنے پر تمام ماجرا سنایا تو یشوعا ان سے اس طرح سے مخاطب ہوا (لوقا 24:25 سے 27):

اس نے ان سے کہا ائے نادانو اور اور نبیوں کی سب باتوں کو ماننے میں سست اعتقادو! کیا مسیح کو یہ دکھ اٹھا کر اپنے جلال میں داخل ہونا ضرور نہ تھا؟ پھر موسیٰ سے اور سب نبیوں سے شروع کرکے سب نوشتوں میں جتنی باتیں اسکے حق میں لکھی ہوئی ہیں وہ انکو سمجھا دیں۔

میں نے پچھلے حصے میں بھی یہ ذکر کیا تھا کہ یشوعا اور اسکے شاگردوں کے پاس ہماری طرح نیا عہد نامہ نہیں تھا۔ یہ سوچنا کہ نئے عہد نامے کے رسول تو یشوعا کا پرچار کرتے تھے مگر پرانے عہد نامے کے رسول توریت کا ، تو یہ سراسر حماقت ہے ۔  میں نے پچھلے حصے میں بھی اس بات کا ذکر کیا تھا کہ یشوعا وہ کلام ، یعنی توریت ہے جو کہ مجسم ہوا ایسا میں نہیں کہتی  بلکہ یوحنا 1 باب میں لکھا ہے۔  نئے عہد نامے کے رسولوں نے اپنے صحیفوں میں بیان کیا ہے کہ کس طرح سے یشوعا  نے شریعت کو پورا کیا ہے۔  اگر وہ غیر قوموں سے نکلے نئے ایمانداروں سے مخاطب تھے تو ساتھ ہی میں وہ اپنے صحیفوں میں ان سے بھی مخاطب تھے جو کہ شریعت کو جانتے تھے اور اس پر عمل کرتے تھے۔

زیادہ تر مسیحی صرف اور صرف یہ خیال کرتے ہیں کہ یشوعا نے توریت اور انبیا کے صحیفوں کو پورا کر دیا ہے اسلئے اس پر عمل کی کوئی ضرورت نہیں۔ ۔ ہمارے مسیحی چونکہ کافی عرصے سے ان لوگوں کی دی ہوئی تعلیم پر چل رہے ہیں جو نہ تو خود توریت کے بارے میں اچھی طرح جانتے ہیں اور نہ ہی  دوسروں کے حق میں بہتر سمجھتے ہیں کہ توریت کو جانیں، اسلئے افسوس اس بات کا ہے کہ مسیحیوں کو یہ بھی علم نہیں کہ کیا پورا ہوا ہے اور کیا نہیں، اور وہ جو کہ پورا ہوا ہے وہ کس طرح سے پورا ہوا  ہے۔  اگر کوئی صرف میرا ایک آرٹیکل  "عید فسح (https://backtotorah.com/?p=712) کو پڑھے تو انہیں   نئے عہد نامے اور پرانے عہدنامے کے حوالوں سمیت اس کو گہرائی میں جاننے کا موقع مل جائے گا کہ یشوعا (یسوع)  کس طرح سے  ہمارا فسح کا برہ ہے اور اس نے کس طرح سے اس عید کو پورا کیا۔  نئے عہد نامے کے رسول اگر یشوعا کی تعلیم کا پرچار کر رہے تھے تو وہ توریت کے دائرے میں ہی رہ کر ایسا  کر رہے تھے کیونکہ وہ تمام کے تمام وہ یہودی تھے جو کہ توریت  کی تعلیم سے آشنا تھے انہیں اس بات کا علم تھا   کہ خدا نے  اسکی باتوں سے ہٹ کر تعلیم دینے کی کیا سزا مقرر کی ہے۔  استثنا 18:18 سے 22 میں لکھا ہے؛

میں انکے لئے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کرونگا اور اپنا کلام اسکے منہ میں ڈالونگا اور جو کچھ مین اسے حکم دونگا وہی وہ ان سے کہیگا۔ اور جو کوئی میری ان باتوں کو جنکو وہ میرا نام لیکر کہیگا نہ سنے تو میں انکا حساب لونگا۔ لیکن جو نبی گستاخ بن کر کوئی ایسی بات میرے نام سے کہے جسکے کہنے کا میں نے اسکو حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کچھ کہے تو وہ نبی قتل کیا جائے۔ اور اگر تو اپنے دل میں کہے کہ جو بات خداوند نے نہیں کہی ہے اسے ہم کیونکر پہچانیں؟ تو پہچان یہ ہے کہ جب وہ نبی خداوند کے نام سے کچھ کہے اور اسکے کہے کے مطابق کچھ واقع یا پورا نہ ہو تو وہ بات خداوند کی کہی ہوئی نہیں بلکہ اس نبی نے وہ بات خود گستاخ بنکر کہی ہے تو اس سے خوف نہ کرنا۔

اگر آپ نئے عہد نامے کے رسولوں کی تعلیم کو سمجھ کر پڑھیں تو جانیں گے کہ انھوں نے تقریباً ہر باب میں پرانے عہد نامے کا حوالہ دیا ہے۔ انہیں علم تھا کہ  کل اور آج بلکہ ابد تک خدا یکساں ہے تو پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پرانے عہد نامے میں خدا مختلف ہو اور نئے عہد نامے میں مختلف؟

انکا تیسرا سوال یہ تھا؛

3-  رسولوں نے کس کے لئے مصیبتیں سہیں اور جانیں قربان کیں، توریت کی تعلیم کی منادی کے لئے یا مسیح کی منادی کے لئے؟ اعمال 5:28 سے 32:

مجھے یہ سوال اوپر دئے ہوئے دوسرے سوال کا حصہ ہی لگتا ہے اسلئے میں اوپر والے سوال کی زیادہ تفصیل میں نہیں گئی تھی۔  چونکہ اعمال کا حوالہ دیا ہوا ہے اسلئے میں کلام میں سے یہ حوالہ بھی  لکھ دوں۔ اعمال 5:28 سے 32

کہ ہم نے تو تمہیں سخت تاکید کی تھی کہ یہ نام لے کر تعلیم نہ دینا مگر دیکھو تم نے تمام یروشلیم میں اپنی تعلیم پھیلا دی اور اس شخص کا خون ہماری گردن پر رکھنا چاہتے ہو۔ پطرس اور رسولوں نے جواب میں کہا کہ ہمیں آدمیوں کے حکم کی نسبت خدا کا حکم ماننا زیادہ فرض ہے۔ ہمارے باپ دادا کے خدا نے یسوع کا جِلایا جسے تم نے صلیب پر لٹکا کر مار ڈالا تھا۔ اسی کو خدا نے مالک اور منجی ٹھہرا کر اپنے دہنے ہاتھ سے سر بلند کیا تاکہ اسرائیل کو توبہ کی توفیق اور گناہوں کی معافی بخشے۔ اور ہم ان باتوں کے گواہ ہیں اور روح القدس بھی جسے خدا نے انہیں بخشا ہے جو اسکا حکم مانتے ہیں۔

 میں دوسرے سوال میں ہی اس بات کا ثبوت دے چکی ہوئی ہوں  کہ یشوعا ہی کلام ہے ۔ نئے عہد نامے کے رسول پرانے عہد ناموں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ہی یہودیوں  پر یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ یشوعا کس طرح سے مسیحا ہے کیونکہ اعمال 5:42 میں یہ لکھا ہے؛

اور وہ  ہیکل میں اور گھروں میں ہر روز تعلیم دینے اور اس بات  کی خوشخبری سنانے سے یسوع ہی مسیح ہے  باز نہ آئے۔

اگر انھیں تاکید کی گئی تھی کہ یہ نام لے کر تعلیم نہ دینا تو اسکی وجہ یہ تھی کہ یہ یہودی یشوعا کو مسیحا ماننے سے ابھی تک انکار کر رہے تھے اور ہیکل کا  اختیار انکے پاس تھا وہ کسی کو بھی عبادت گاہ میں اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے تھے کہ ان باتوں کی تعلیم دیں جنکی تعلیم وہ نہیں دے رہے تھے۔ ویسے ہی جیسے کہ رومن کیتھولک چرچ کے فاردز پروٹسٹنٹ پادریوں کو اپنے چرچ  میں اور پروٹسٹنٹ پادری ، رومن کیتھولک فاردز کو اپنے چرچ میں ہر بار تعلیم دینے سے روکیں گے کچھ ایسا ہی یشوعا کے شاگردوں کے ساتھ ہو رہا تھا۔

نئے عہد کے رسول  یشوعا کے کہنے کے مطابق ہی لوگوں کو تعلیم دے رہے تھے اور وہ اسکی ان باتوں کے گواہ تھے کیونکہ لوقا 24:44 سے 48 میں ایسے لکھا ہے؛

پھر اس نے ان سے کہا یہ میری وہ باتیں ہیں جو میں نے تم سے اس وقت کہی تھیں جب تمہارے ساتھ تھا کہ ضرور ہےکہ جتنی باتیں موسیٰ کی توریت ار نبیوں کے صحیفوں اور زبور میں میری بابت لکھی ہیں پوری ہوں۔ پھر اس نے انکا ذہن کھولا تاکہ کتاب مقدس کو سمجھیں۔ اور ان سے کہا یوں لکھا ہے کہ مسیح دکھ اٹھائیگا اور تیسرے دن مُردوں میں سے جی اٹھیگا۔ اور یروشلیم سے شروع کر کے سب قوموں میں توبہ اور گناہوں کی معافی کی منادی اسکے نام سے کی جائیگی۔ تم ان باتوں کے گواہ ہو۔

پولس نے رومیوں 3:21 میں ایسے کہا؛

مگر اب شریعت کے بغیر خدا کی ایک راستبازی ظاہر ہوئی ہے جسکی گواہی شریعت اور نبیوں سے ہوتی ہے۔

سب کے سب  ہی یشوعا کے گواہ ہیں۔ اگر انھوں نے مصیبتیں اور تکلیفیں سہی ہیں  تو وہ یشوعا کی گواہی کے سبب سے سہی ہیں۔

انکا چوتھا سوال یہ تھا؛

4- موسیٰ کی شریعت کا انجام کیا ہے؟ رومیوں 10:4:

رومیوں 10:4 میں یوں لکھا ہے؛

کیونکہ ہر ایک ایمان لانے والے کی راستبازی کے لئے مسیح شریعت کا انجام ہے۔

میں نے پہلے بھی بہت دفعہ اپنے آرٹیکلز میں ذکر کیا ہے کہ ہم چونکہ ترجمہ پڑھتے ہیں اسلئے بعض اواقات  ہم کلام کا اصل مفہوم سمجھ نہیں پاتے ہیں۔ اس آیت کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ویسے تو مجھے علم ہے کہ میرے آرٹیکلز پڑھنے والوں میں انگلش زبان کوصحیح طور پر  پڑھنے، لکھنے اور سمجھنے والوں کی تعداد کم ہے مگر میں پھر بھی  کامن جوئیش بائبل (Common Jewish Bible) سےاس  آیت کو انگلش میں بھی دکھا رہی ہوں   تاکہ اگر آپ خود انگلش نہیں بھی پڑھ سکتے تو تب بھی آپ ان سے بھی پوچھ گچھ کر سکیں جو انگلش زبان  کو پڑھنے اور لکھنے میں مہارت رکھتے ہیں تاکہ جان سکیں کہ یہ میرا اپنا بیان نہیں ہے۔ اس میں اس آیت کا ایسا ترجمہ کیا گیا ہے؛

Romans 10:4

For the goal at which the Torah aims is the Messiah, who offers righteousness to everyone who trusts.

اس اوپر دی ہوئی آیت میں بھی یہی مفہوم بنتا ہے کہ شریعت کا مقصد  (تیلوس ) ایمانداروں کو مسیح  میں راستبازی سکھانا ہے۔ فٹ بال  یا ہاکی جیسی کھیل میں تو سب کو ہی علم ہے کہ "گول” کا کیا معنی ہے۔ راستباز کی زندگی میں بھی شریعت کا گول مسیح ہے۔   میں جانتی ہوں کہ علما کہتے ہیں کہ رومیوں کی کتاب یونانی زبان میں لکھی گئی ہے اسلئے میں اس لفظ "انجام” کو نئے عہد نام میں درج چند اور آیات میں بھی دکھانے لگی ہوں۔  اس کا یونانی لفظ "تیلوس، Telos ” ہے جسکا معنی "انجام ، پورا،  مقصد  یا پھر آخر” لکھا گیا ہے۔   یونانی نئے عہد نامے میں یہ لفظ 33 بار استعمال ہوا ہے۔ 1 تیمتھیس 1:5 میں  اس لفظ کو ایسے لکھا گیا ہے؛

حکم کا مقصد (تیلوس) یہ ہے کہ پاک دل اور نیک نیت اور بے ریا ایمان سےمحبت پیدا ہو۔

1 پطرس 1:9

اور اپنے ایمان کا مقصد(تیلوس)  یعنی روحوں کی نجات حاصل کرتے ہو۔

بریکٹ میں لکھے ہوئے الفاظ میرے ہیں جو کہ یونانی کلام کے مطابق ہیں اردو میں یہ ایسے نہیں لکھا گیا۔اردو کلام میں  33 میں سے دو بار اس لفظ تیلوس کو "مقصد” ترجمہ کیا گیا ہے۔ ترجمہ کرنے والا اپنی سمجھ کے مطابق جو معنی اسے بہتر لگتا ہے  وہی استعمال کرتا ہے۔  شاید آپ نے مجھے پہلے بھی کہتے ہوئے سنا ہو کہ توریت راستبازوں یعنی خدا کے لوگوں کے لئے ہے ہر ایک کے لئے نہیں ہے۔ اگر آپ کو میری یہ بات کچھ عجیب لگتی ہے تو میں اسے آپ پر اس طرح سے وضاحت کر سکتی ہوں۔  خدا پر ایمان لانے سے پہلے تک راستبازی لازم نہیں  کیونکہ رومیوں 3:28 میں لکھا ہے؛

چنانچہ ہم نتیجہ نکالتے ہیں کہ انسان شریعت کے اعمال کے بغیر ایمان کے سبب سے راستباز ٹھہرتا ہے۔

مگر ایک بار جب کوئی خدا پر ایمان لے آئے تو پھر اسکا خدا کے حکموں پر عمل کرنا لازم ہے کیونکہ جو کوئی بھی خدا سے محبت رکھتا ہے وہ اسکے حکموں پر عمل کرتا ہے   ۔ ایسا میں نہیں کلام کہتا ہے 1 یوحنا 5:2 سے 3 میں؛

جب ہم خدا سے محبت رکھتے ہیں اور اسکے حکموں پر عمل کرتے ہیں تو اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ خدا کے فرزندوں سے بھی محبت رکھتے ہیں۔ اور خدا کی محبت یہ ہے کہ ہم اسکے حکموں پر عمل کریں اور اسکے حکم سخت نہیں۔

میں پہلے بھی بیان کر چکی ہوئی ہوں کہ یشوعا کے شاگردوں کے پاس ہماری طرح نیا عہد نامہ نہیں تھا اگر انھیں خدا کے حکموں کا  کسی صورت میں پیدا تھا تو وہ پرانے عہد نامے کی صورت میں تھا ۔ اسکا ثبوت ہمیں رومیوں 15:4 سے بھی  مل جائے گا؛

کیونکہ جتنی باتیں پہلے لکھی گئیں وہ ہماری تعلیم کے لئے لکھی گئیں تاکہ صبر سے اور کتاب مقدس کی تسلی سے امید رکھیں۔

1 کرنتھیوں 10:11

یہ باتیں ان پر عبرت کے لئے واقع ہوئیں اور ہم آخری زمانہ والوں کی نصحیت کے واسطے لکھی گئیں۔

2تیمتھیس 3:14 سے 17

مگر تو ان باتو ں پر جو تو نے سیکھی تھیں اور جنکا تجھے یقین دلایا گیا تھا یہ جانکر قائم رہ کہ تو نے انہیں کن لوگوں سے سیکھا تھا۔ اور تو بچپن سے ان پاک نوشتوں سے واقف ہے جو تجھے مسیح یسوع پر ایمان لانے سے نجات حاصل کرنے کے لئے دانائی بخش سکتے ہیں۔ ہر ایک  صحیفہ جو خدا کے الہام سے ہے تعلیم اور الزام اور اصلاح اور راستبازی میں تربیت کرنے کے لئےفائدہ مند بھی ہے۔ تاکہ مرد کامل بنے اور ہر ایک نیک کام کے لئے بالکل تیار ہوجائے۔

پولس کے کہنے کے مطابق یہ یعنی پرانا عہد نامہ ؛ ہماری تعلیم کے واسطے لکھا گیا تاکہ ہم صبر سے امید رکھیں اور نصیحت اور راستبازی میں تربیت  حاصل کریں۔

رومیوں 2:12 سے 13 میں ایسے لکھا ہے؛

اس لئے کہ جنہوں نے بغیر شریعت پائے گناہ کیا وہ بغیر شریعت کےہلاک بھی ہونگے اور جنہوں نے شریعت کے ماتحت ہوکر گناہ کیا ان کی سزا شریعت کے موافق ہوگی۔ کیونکہ شریعت کے سننے والے خدا کے نزدیک راستباز نہیں ہوتے بلکہ شریعت پر عمل کرنے والے راستباز ٹھہرائے جائیں گے۔

 شاید آپ یہ سوچ رہے ہوں کہ ابرہام خدا پر ایمان لایا اور اسکا ایمان اسکے لئے راستبازی گنا گیا(رومیوں 4:3اور پیدائش/تکوین 15:6)۔ یہ سچ ہے مگر جب خدا نے اسے ختنہ کروانے کا کہا تو ابرہام نے خدا کے حکم پر عمل کیا(رومیوں 4:11)  تبھی یعقوب  نے  2:14  اور 17 میں کہا؛

ائے میرے بھائیو! اگر کوئی کہے کہ میں ایماندار ہوں مگر عمل نہ کرتا ہو تو کیا فائدہ ؟ کیا ایسا ایمان اسے نجات دے سکتا ہے؟

اسی طرح ایمان بھی اگر اسکے ساتھ اعمال نہ ہوں تو اپنی ذات میں مُردہ ہے۔

آپ یعقوب کا 2 باب پورا خود پڑھ کر بھی اس بات کو سمجھنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ توریت کی بنیاد پر تمام رسولوں اور انبیا کی تعلیم  اور لکھائی ہے۔ توریت /شریعت اور یشوعا ایک ہی ہیں تبھی عبرانیوں 1:1 سے 3 میں یشوعا کے بارے میں ایسے لکھا گیا ہے؛

اگلے زمانہ میں خدا نے باپ دادا سے حصہ بہ حصہ اور طرح بہ طرح نبیوں کی معرفت کلام کرکے۔ اس زمانہ کے آخر میں ہم سے بیٹے کی معرفت کلام کیا جسے اس نے سب چیزوں کا وارث ٹھہرایا اور جسکے وسیلہ سے اس نے عالم بھی پیدا کئے۔ وہ اسکے جلال کا پرتَو اور اسکی ذات کا نقش ہو کر سب چیزوں کو اپنی قدرت کے کلام سے سنبھالتا ہے۔

میں اس سوال کے جواب کو یہیں ختم کرتی ہوں اور دعا کرتی ہوں کہ "بیٹا” ہی آپ سے ہمکلام ہو اور آپ کو اپنے کلام کو سمجھنے میں مدد دے، یشوعا کے نام میں۔ آمین

باقی سوالوں کا جواب اگلے حصے میں دونگی۔

(شریعت مسیحیوں کے لئے (دوسرا حصہ” پر ۲ تبصرے

تبصرے بند ہیں۔