(پیدائش 25 باب (تیسرا حصہ

image_pdfimage_print

پیدائش 25 باب میں ہم نے پڑھا کہ یعقوب  نے دال پکائی تھی اور عیسو نےاس سے کھانے کے لیے جب دال مانگی تھی تو یعقوب نے اس سے پہلوٹھے ہونے کا حق یعقوب کو بیچنے کو کہا تھا۔ یعقوب خدا کی نظر میں راستباز تھا جبکہ عیسو نہیں  (رومیوں 9:13)۔ ہمارے پڑھنے میں تو ایسا لگتا ہے کہ عیسو نے کوئی بڑا گناہ نہیں کیا تھا کہ اس نے اپنے پہلوٹھے ہونے کا حق بیچ دیا تھا مگر ایک خاص وجہ ہے جس کی بنا پر لکھا ہوا ہے کہ یعقوب نے دال پکائی۔ہمیں اس بات کا علم ہے کہ جب اضحاق پیدا ہوا تھا تو ابرہام کم سے کم  100  برس کا تھا اور وہ 175 برس کا تھا جب اسکی وفات ہوئی۔ ہم نے اس باب میں یہ بھی پڑھا تھا کہ اضحاق  60 برس کا تھا جب عیسو اور یعقوب پیدا ہوئے۔   تلمود اور یہودیوں کی روایت کے مطابق جب کسی کی موت ہوتی ہے تو  انکے گھرانے میں عام طور پرقریبی رشتےدار کھانا نہیں پکاتے بلکہ دوسرے رشتےدار اور دوست وغیرہ سات دن تک کھانا  مہیا کرتے ہیں۔ سات دن  کے  افسوس کی اس رسم کو   عبرانی میں "شیوا، שבעה، Shiva ” کہتے ہیں ۔ "شیوا” کا مطلب ہے "سات ” یہ رسم مردے کو دفنانے کے بعد شروع ہوتی ہے۔

  یہودیوں کی روایت کے مطابق ابرہام کی ان دنوں موت ہوئی تھی  اضحاق اور ربقہ چونکہ ابرہام کے قریبی رشتےدار تھے اسلئے ربقہ کھانا نہیں پکا رہی تھی  مگر یعقوب نے دال پکائی۔ عیسو شکار کے لیے گیا ہوا تھا اسے صرف اور صرف اپنے میں دلچسپی تھی۔ گھرانے میں خوشی کا موقع تھا یا مرگ کا اسے ان باتوں سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ آپ کا بعض باتوں میں اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟ آپ کے لیے خاندان کی خوشی اور غمی کیا اہمیت رکھتے ہیں؟ عبرانیوں 12:16 میں لکھا ہے؛

اور نہ کوئی حرامکار یا عیسو کی طرح بےدین ہو جس نے  ایک وقت کے کھانے کے عوض اپنے پہلوٹھے ہونے کا حق بیچ ڈالا۔

عیسو یا ادوم نے اپنی باتوں سے ظاہر کر دیا تھا کہ اسے پہلوٹھے ہونے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور کھانا اسکے لیے روحانی برکتوں سے زیادہ ضروری ہے مگر پہلوٹھے کا حق لینے کے لیے جو قدم یعقوب نے اٹھایا تھا وہ بھی اس بات کی علامت تھی کہ گو کہ اسکو روحانی چیزوں کی خواہش تھی مگر اس بات کی سمجھ نہیں تھی کہ وہ اس معاملے کو بجائے خدا پر چھوڑنے کے اپنے طور پر حل کررہا تھا۔پہلوٹھے ہونے کے ناطے نہ صرف اسکو دو گنا جائداد کا حصہ ملنا تھا بلکہ ساتھ میں دوسری ذمے داریاں بھی نبھانی تھی خاص طور پر قربانی وغیرہ چڑھانے کی۔ کیونکہ موسویٰ شریعت سے پہلے تک خاندان کا سربراہ اور پھر باپ کے بوڑھے ہونے پر پہلوٹھا بیٹا قربانیاں خدا کی نذر کرتا تھا۔  بعض معاملات میں اگر معاوضہ بڑا ملتا ہے تو ساتھ  میں ذمے داریاں بھی اتنی ہی بڑھ کر ہوتی ہیں ۔  عیسو کو پہلوٹھے ہونے میں صرف  اپنا مالی فائدہ تھا مگر یعقوب روحانی باتوں کو بھی دھیان میں رکھ رہا تھا وہ ، وہ ذمے داریاں نبھانے کو بھی اپنے آپ کو تیار کر رہا تھا جو کہ زیادہ اہمیت کا باعث تھیں اور دنیاوی دولت کے ساتھ ساتھ اسے حاصل ہونی تھیں۔ 1 پطرس 2:5 میں ہمارے لیے جو کہ یشوعا پر ایمان رکھتے ہیں کہا گیا ہے کہ؛

تم بھی زندہ پتھروں کی طرح روحانی گھر بنتے جاتے ہو تاکہ کاہنوں کا مقدس فرقہ بن کر ایسی قربانیاں چڑھاؤ جو یسوع مسیح کے وسیلہ سے خدا کے نزدیک مقبول ہوتی ہیں۔

میرا اپنا خیال ہے کہ ربقہ نے ذکر کیا ہی ہوا ہو گا کہ  یعقوب گو کہ  چھوٹا ہے مگر خدا کے کہنے کے مطابق وہ پہلوٹھے کی برکت حاصل کرے گا۔ یعقوب ابھی کم عمر تھا اسکو خدا  پر شاید اتنا ایمان بھی نہیں تھا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ خدا کے خیالات ہماری طرح کے نہیں ہوتے۔ خدا کا طریقہ کار انسان کے طریقہ کار سے بالکل ہٹ کر ہے۔ انسان ہمیشہ اپنے طور پر اپنی مصیبتوں کا حل نکالنا چاہتا ہے   مگر خدا انسان کو سکھانا چاہتا ہے کہ انسان کو ہر بات کے لیے خدا پر منحصر ہونا چاہیے۔

یشوعا کے پیروکار ہونے کے ناطے ہمیں بھی کچھ حق دئے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر ؛

 ہم اس وعدے کے جو خدا نے ابرہام سے کیا،  وارث ہیں کیونکہ گلتیوں 3:29میں لکھا ہے؛

اگر تم مسیح کے ہو تو ابرہام کی نسل اور وعدہ کے مطابق وارث ہو۔

ہم یشوعا کے ہم میراث ہیں ۔رومیوں 8:16 سے 17 میں ہے؛

روح خود ہماری روح کے ساتھ مل کر گواہی دیتا ہے کہ ہم خدا کے فرزند ہیں۔ اگر فرزند ہیں تو وارث بھی ہیں یعنی خدا کے وارث اور مسیح کے ہم میراث بشرطیکہ ہم اسکے ساتھ دکھ اٹھائیں تاکہ اسکے ساتھ جلال بھی پائیں۔

 ہم ہمیشہ کی زندگی کی امید کے وارث ہیں  کیونکہ ططس 3:7 میں لکھا ہے؛

تاکہ ہم اسکے فضل سے راستباز ٹھہر کر ہمیشہ کی زندگی کی امید کے مطابق وارث بنیں۔

ہم آسمان کی بادشاہی کے وعدے کے وارث ہیں کیونکہ یعقوب 2:5 میں کہا گیا ہے؛

ائےمیرے  پیارے بھائیو! سنو۔ کیا خدا نے اس جہان کے غریبوں کو ایمان میں دولتمند اور اس بادشاہی کے وارث  ہونے کے لیے برگزیدہ نہیں کیا جسکا اس نے اپنے محبت کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے۔

یشوعا میں سب چیزیں ہماری ہیں جیسے کہ 1کرنتھیوں 3:21 سے 23 میں لکھا گیا ہے؛

پس آدمیوں پر کوئی فخر نہ کرے کیونکہ سب چیزیں تمہاری ہیں۔ خواہ پولس ہو خواہ اپلوس۔ خواہ کیفا خواہ دنیا۔ خواہ زندگی خواہ موت۔ خواہ حال کی چیزیں خواہ استقبال کی۔ سب تمہاری ہیں اور تم مسیح کے ہو اور مسیح خدا کا ہے۔

ہماری میراث غیر فانی اور بے داغ ہے کیونکہ 1 پطرس 1:4 میں لکھا ہے؛

تاکہ ایک غیر فانی اور بے داغ اور لازوال میراث کو حاصل کریں۔

عیسو کی طرح آج ہم کس قسم کا قدم اٹھا رہے ہیں ؟ کیا ہم وقتی آرام و آسائش کے لیےاُس ابدی زندگی کو جو ہمیں یشوعا میں حاصل ہو سکتی ہے ٹھوکر مار کر رد کر رہے ہیں  یا پھر ہم اپنے وقتی آرام و آسائش کو کچھ دیر کے لیے قابو میں رکھ کر ابدی زندگی حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں؟ ہم یشوعا  میں ابدی زندگی تب تک حاصل نہیں کر سکتے جب تک کہ ہم اسکی خاطر گھر بار، بھائی بہن، ماں اور بچے اور اپنا کاروبار اسکے لیے نہ چھوڑ دیں (مرقس 10:28 سے 30)۔ وقتی جسمانی ضروریات کو رد کر کے یشوعا کے پیچھے ہو لینے کا فیصلہ آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے کیونکہ ایسا نہ ہو کہ آپ بھی عیسو کی طرح اس موقع کو ہاتھ سے گنوا دیں اور پھر بار ہا  رونے پر بھی آپ کو یہ موقع کبھی نہ ملے کیونکہ عیسو کے لیے عبرانیوں 12:16 سے 17 میں ایسے لکھا ہے؛

اور نہ کوئی حرامکار یا عیسو کی طرح بے دین ہو جس نے ایک وقت کے کھانے کے عوض اپنے پہلوٹھے ہونے کا حق بیچ ڈالا۔ کیونکہ تم جانتے ہو کہ اسکے بعد جب اس نے برکت کا وارث ہونا چاہا تو منظور نہ ہوا۔ چناچہ اسکو نیت کی تبدیلی کا موقع نہ ملا گو اس نے آنسو بہا بہا کر اسکی بڑی تلاش کی۔

ہم پیدائش 25 باب کا مطالعہ یہیں ختم کرتے ہیں ۔ میری آپ کے لیے وہی دعا ہے جو میں اپنے لیے مانگتی ہوں کہ خدا آپ کو عیسو کی طرح نہ بنائے اور اس بات کا ہمیشہ احساس دلائے کہ جسمانی خواہشات وقتی ہیں مگر روحانی برکتیں ابدی ہیں۔ خدا آپ کو اور مجھے ہمیشہ روحانی برکتوں کو جسمانی خواہشات پر ترجیح دینے میں  مدد کرے تاکہ ہم  یشوعا میں اپنے روحانی حقوق کو کبھی نہ  رد کریں اور اس میں ہمیشہ کی زندگی کے وارث بن سکیں۔ آمین