آج ہم پیدائش 25 باب کا باقی حصہ تفصیل میں دیکھیں گے۔
اضحاق 40 برس کا تھا جب اسکی شادی ربقہ سے ہوئی۔ اضحاق نے اپنی بیوی کے لیے دعا کی کیونکہ وہ بانجھ تھی اور خدا نے اسکی دعا قبول کی۔خدا نے انکی شادی کے 20 سال کے بعد انھیں اولاد دی۔ یہ تو مجھے علم نہیں کہ اضحاق روز اپنی بیوی کے لیے دعا کرتا تھا یا کہ ایک ہی بار اس نے خدا سے ربقہ کے لیے دعا کی اور خدا نے اسکی دعا سن لی۔
تلمود (جس کو یہودی زبانی توریت کہتے ہیں )میں کہا گیا ہے کہ اگر تم کسی دوسرے کے لیے دعا کرو گے جس کی مصیبتیں اور ضروریات وہی ہیں جیسے کہ تمہاری اپنی، تو اسکے لیے دعا کرنے سے تمہاری بھی دعا سنی جائے گی۔ ہم جانتے ہیں کہ یشوعا نے کہا ” اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ۔(مرقس 12:31 اور احبار 19:18) میں اکثر لوگوں کو سمجھاتی ہوں کہ میاں بیوی جب ایک دوسرے کے لیے برکت کی دعا کرتے ہیں تو اس میں انکے اپنے لیے ہی برکت ہے۔ اگر آپ اپنی اولاد کے لیے ہر بات کے لیے دعا کرتے ہیں تو اس میں آپ کے اپنے لیے ہی برکت ہے۔ جتنا زیادہ آپ اپنے گھر والوں کے لیے برکت چاہیں گے تو وہی برکتیں آپ کے اپنے لیے بھی برکت کا باعث ہو ں گی۔ میں اپنے شوہر اور اپنی اولاد کے لیے ہر بات کی دعا کرتی ہوں کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ انکی تکلیف میری تکلیف ہے اور انکی خوشی میں میری خوشی ہے۔ اضحاق بھی جانتا تھا کہ اگر وہ اپنی بیوی کے لیے دعا مانگے گا تو خدا ضرور اسکی بیوی کو اولاد دے گا۔۔۔خدا ، اضحاق کو اولاد دے گا۔ ابرہام اور سارہ کی طرح اضحاق نے کوشش نہیں کی کہ کسی اور عورت سے اپنے لیے گھر کا وارث پیدا کرے۔ ابرہام کو اولاد کی خواہش ضرور تھی پر شاید اس نے کبھی خود سارہ کے لیے دعا نہیں کی تھی مگر اضحاق نے ربقہ کے لیے خاص دعا مانگی اور خدا نے اسکی دعا سن لی۔ ربقہ حاملہ ہوئی اور اسکے پیٹ میں دو لڑکے آپس میں مزاحمت کرنے لگے۔ دوران حمل ربقہ تکلیف میں تھی اور اسے پتہ نہیں تھا کہ خدا اسے ایک سے نہیں بلکہ دو لڑکوں سے نواز رہا تھا۔ وہ اپنی تکلیف کی وجہ جاننا چاہتی تھی وہ خداوند سے پوچھنے کے لیے گئی! مگر کہاں؟ اگر آپ کسی تکلیف میں ہیں اور آپ اسکی وجہ نہیں جانتے تو آپ خدا سے پوچھ سکتے ہیں۔آپ جہاں بھی ہیں وہیں پر سےخدا سے پوچھیں ۔ خدا نے ربقہ کو جواب دیا تھا وہ آپ کو بھی جواب دے گا۔ خدا نے ربقہ کو کہا (پیدائش 25:23):
خداوند نے اس سے کہا دو قومیں تیرے پیٹ میں ہیں اور دو قبیلے تیرے بطن سے نکلتے ہی الگ الگ ہوجائینگے اور ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ سے زورآور ہوگا اور بڑا چھوٹے کی خدمت کرے گا۔
خدا ربقہ کو بتا رہا تھا کہ اس کےدو بیٹے ہیں اور اسکے بیٹے کس طرح کے نکلیں گے۔ خدا نے اسے یہ بھی بتایا کہ بڑا چھوٹے کی خدمت کرے گا اور اس بات کا ہمیں کلام میں ثبوت 2 سموئیل 8:12 سے 14 آیات میں ملتا ہے۔ ربقہ کو الٹرا ساونڈ کروانے کی ضرورت نہیں پڑی 🙂 جب اسکے بیٹے پیدا ہوئے تو بڑے والے کا نام عیسو رکھا گیا جسکا مطلب ہے "سرخ” ؛ اسی سے ادومی قوم پیدا ہوئی ہے ۔ دوسرا بیٹا جو چھوٹا تھا اسکا نام یعقوب رکھا گیا کیونکہ وہ اپنے بھائی کی ایڑی پکڑے ہوئے تھا۔ اور یہی اسکے نام کا مطلب بھی ہے ۔ اضحاق 60 برس کا تھا جب اسکے اولاد ہوئی۔ اضحاق نے اور ربقہ نے 20 برس اولاد کی نعمت کا انتظار کیا۔ جب لڑکے بڑھے تو عیسو شکار کا ماہر تھا اور یعقوب سادہ مزاج کا تھا اور ڈیروں میں رہتا تھا جب کہ عیسو جنگلوں میں رہنا پسند کرتا تھا۔ اضحاق، عیسو کو پیار کرتا تھا اور ربقہ ، یعقوب کو۔ ربقہ کو تو علم تھا کہ خدا نے اسکے بیٹوں کے لیے کیا کہا ہے مگر اضحاق کو اس بات کا شاید علم نہیں تھا۔ دونوں میاں بیوی نے اپنی اپنی پسند کے مطابق اپنی اولاد کے ساتھ پیار دکھایا اور انکو اپنی عادتوں کے مطابق ترجیح دی۔ اضحاق اگر عیسو کی طرف داری کرتا ہوگا تو ربقہ ، یعقوب کی کرتی ہوگی۔
یعقوب نے دال پکائی اور عیسو جب جنگل سے واپس آیا تو بےدم ہورہا تھا۔ اس نے یعقوب سے کہا کہ یہ جو لال لال سا ہے مجھے کھلا دے کیونکہ میں بےدم ہو رہا ہوں۔ ادوم ، اسکا نام اسی "لال” رنگ کی بنا پر پڑا تھا۔اگلی بار جب آپ کلام پڑھتے ہوئے "ادوم یا ادومی” لفظ دیکھیں تو عیسو کو ذہن میں رکھ کر حوالے کو پڑھیں۔ یعقوب نے اس سے کہا کہ پہلوٹھے کا حق مجھے بیچ دے۔ عیسو نے کہا میں تو مرا جاتا ہوں پہلوٹھے کا حق میرے کس کام آئیگا؟ یعقوب نے اس سے قسم کھلوائی اور عیسو نے قسم کھا کر یعقوب کو پہلوٹھے کا حق بیچ دیا۔ تب یعقوب نے عیسو کو کھانے کے لیے روٹی اور دال دی ۔ عیسو کی نظر میں پہلوٹھے کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی تبھی اس نے یہ حق یعقوب کو بیچ دیا۔
اگر ہم عیسو اور یعقوب کو روحانی نظر سے دیکھیں تو عیسو "جسم” یا جسمانی خواہشوں کو ظاہر کرتا ہے اور یعقوب "روح” یعنی روحانی خواہشوں کو ظاہر کرتا ہے۔ عیسو کو پہلوٹھے ہونے کا حق خدا نے دیا تھا۔ پرانے عہد نامے میں پہلوٹھے بیٹے کی عزت زیادہ ہے۔( اسکا یہ مطلب نہیں کہ خدا چھوٹوں سے پیار نہیں کرتا۔ ہمیں داود بادشاہ کی کہانی کا بھی پتہ ہے کہ چھوٹا ہونے کے باوجود خدا نے اسے اپنے لیے چنا تھا۔) عیسو کو روح اور روحانی چیزوں کی کوئی قدر نہیں تھی۔ وہ اتنا بھی مرا نہیں جا رہا تھا کہ ایک وقت کے کھانے کے لیے اپنے پہلوٹھے ہونے کا حق جو کہ خداوند نے اسے دیا تھا، بیچ دیتا۔ ویسے بھی جب اس نے کہا کہ "وہ مرا جا رہا ہے۔۔۔” تو اسکے کہنے کا یہ مطلب تھا کہ اس کوکیا پرواہ ہے پہلوٹھے ہونے کی۔ یعقوب اسکے برعکس روحانی خواہشات رکھتا تھا جو اسکے لیے جسمانی خوہشات سے زیادہ ضروری تھیں، اسے علم تھا کہ عیسو کے لیے یہ باتیں کوئی اہمیت کے قابل نہیں اسلئے وہ پہلوٹھے کے طور پر ان باتوں کی ذمہ داری اٹھانا چاہتا تھا جو کہ روحانی طور پر ضروری تھیں۔
خدا نے آپ کو ن سے ایسے روحانی حقوق دئے ہیں جن کے لیے شاید کچھ لوگ ترستے ہوں مگر آپ کو انکی ذرا سی بھی پروا نہیں؟ کیا آپ خدا کے دئے ہوئے ان حقوق یا تحفوں کو یہ سوچ کر رد کرنا چاہتے ہیں کہ انکی کیا اہمیت ہے کیونکہ آپ کے لیے تو زندہ رہنے کے لیے اپنی جسمانی ضروریات زیادہ ضروری ہیں اور یہ آپ کے کس کام کی ہیں؟ داود بادشاہ نے زبور 122:9 میں کہا؛
خداوند اپنے خدا کے گھر کی خاطر میں تیری بھلائی کا طالب رہونگا۔
کبھی جسمانی خواہشوں کو ایک طرف کر کے روحانیت کو بھی تلاش کریں کیونکہ جس دن آپ خداوند خدا کے گھر کی خاطر بھلائی چاہیں گے خدا آپ کی جسمانی خواہشوں کو بھی پورا کردے گا۔ ہم پیدائش 25 باب کے بارے میں کچھ اور باتیں اگلی بار کریں گے۔ میری آپ کے لیے یہی دعا ہے کہ وہ آپ کو یشوعا کے نام میں اپنی دی ہوئی روحانی برکتوں کی اہمیت دکھائے اور آپ اسکی دی ہوئی برکتوں کو اپنی زندگی میں استعمال کر سکیں۔ آمین