آپ کلام مقدس سے خروج 35 باب مکمل خود پڑھیں۔
خروج 35 باب میں بھی بہت سی باتیں ایسی درج ہیں جو کہ ہم نے پہلے بھی پڑھی ہیں۔ کلام مقدس میں جب بھی حکموں کو دھرایا گیا ہے تو وہ یہی بات دکھانے کے لئے ہے کہ ان باتوں کی ان حکموں کی اہمیت بہت زیادہ ہے اس لئے ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سبت کے حکم کا ہم بار بار پڑھتے آ رہے ہیں ۔ مگر اس باب میں سبت کے بارے میں حکم جس طرح سے دیا گیا ہے وہ انتہائی سخت لگتا ہے۔ ہم نے خروج 31 باب میں بھی پڑھا تھا کہ سبت کی جو بھی بے حرمتی کرے وہ مار ڈالا جائے اور جو اس میں کچھ کام کرے وہ اپنی قوم میں سے کاٹ ڈالا جائے/مار ڈالا جائے۔ جب سے خداوند نے دس احکامات دیئے ہیں ہم بار بار سبت کے بارے میں پڑھتے آ رہے ہیں۔ خروج 35 باب میں خداوند نے سبت کے دن اپنے گھروں میں آگ جلانے سے بھی منع کیا ہے۔
ایک عام مسیحی کے لئے سبت کا دن اتوار ہے جب کہ کہیں پر بھی کلام میں اتوار کے لئے سبت کا دن استعمال نہیں کیا گیا۔ اتوار، کلام مقدس میں ہفتے کا پہلا دن ہے۔ جبکہ خداوند کے حکموں کے مطابق ساتواں دن ، سبت کا دن ہے جو کہ ہمارے کیلنڈر میں ہفتے کا دن ہے۔ بہت سے مسیحیوں کو اس دن کو پاک ماننے میں مشکل پیش آتی ہے۔ وہ اسکا انکار کرتے ہیں اور نئے عہد نامہ میں سے یشوعا کی کہی ہوئی باتوں کی اپنی تشریح پیش کر کے اسکو رد کر دیتے ہیں۔ بشپ آف روم نے سبت کے دن کو اتوار میں بدل دیا اور پیساخ ( فسح) کو ایسٹر میں۔ خداوند کا کلام سختی سے منع کرتا ہے کہ کوئی بھی نہ تو ان احکامات کو بڑھائے اور نہ ہی گھٹائے۔ یہودیوں پر تو مسیحیوں کو تہمت لگانے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی مگر اپنی حرکتیں نظر انداز کر دیتے ہیں یہ کہہ کر کہ وہ فضل کے ماتحت ہیں۔ میں نے جب یو ٹیوب پر اپنی سبت کی ویڈیو پوسٹ کی تھی تو کچھ نے پوچھا تھا کہ آپ نے جو آگ والی بات کی ہے وہ کلام میں کہاں درج ہے۔ میں نے انکو کلام کا حوالہ دیا تو وہ لوگ مجھ سے بحث کرنے لگ گئے تو آپ کا کیا مطلب ہے کہ اب ہم کھانا بھی نہ پکائیں، بھوکے رہیں سبت والے دن۔
میں آپ کے ساتھ صرف اور صرف کلام کی سچائی بیان کرتی ہوں۔ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں ، کیا سمجھتے ہیں ان حکموں کے بارے میں یہ آپ روح کی ہدایت کے مطابق کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی جسمانی روح کے قابو میں ہیں تو آپ خدا کے حکموں کو کلام میں پڑھ سن کر بھی وہی کریں گے جو آپ کرنا چاہتے ہیں اور اگر آپ خداوند کی روح کی ہدایت کے موافق چلتے ہیں تو آپ وہ کرنا چاہیں گے جو خداوند کا کلام کہتا ہے۔ میں بھی پورا پورا خداوند کے حکموں پر نہیں چل پاتی مگر میری کوشش یہی رہتی ہے کہ اپنی بُری عادتیں بدل سکوں۔ خداوند نے سبت کے دن آگ جلانے سے منع کیا ہے اسلئے سبت شروع ہونے سے پہلے ہی میں کھانا پکا لیتی ہوں کہ اگلے دن مجھے کھانا نہ پکانا پڑے۔ میری اپنی پوری کوشش ہوتی ہے کہ جتنا زیادہ وقت سبت والے دن خداوند کے کلام کو سیکھنے میں گذار سکوں، گذاروں۔ یشوعا نے کہا "ابن آدم سبت کا مالک ہے۔” سبت والے دن کو اور اسکی اہمیت کو یشوعا سے بہتر کون سمجھا سکتا ہے۔ آپ خروج 16:4سے 5 آیات کو دیکھیں؛
تب خداوند نے موسیٰ سے کہا میں آسمان سے تم لوگوں کے لئے روٹیاں برساؤں گا۔ سو یہ لوگ فقط ایک دن کا حصہ بٹور لیا کریں کہ اس سے میں انکی آزمایش کرونگا کہ وہ میری شریعت پر چلینگے یا نہیں۔ اور چھٹے دن ایسا ہوگا کہ جتنا وہ لا کر پکائینگے وہ اس سے جتنا روز جمع کرتے ہیں دونا ہوگا۔
خداوند خود آپ کو دونا مہیا کرینگے اگر آپ سبت کے دن کو پاک ماننا شروع کریں گے۔سبت کے حکم کو مشکان کا کام شروع کرنے سے پہلے، دینے سے مراد یہ تھی کہ بنی اسرائیل مشکان کی تعمیر کا کام کرتے ہوئے سبت کے آرام کو نہ بھولیں۔ ایک بار پھر سے موسیٰ نبی نے بنی اسرائیل کی ساری جماعت سے ہدیہ لانے کا کہا۔ مسکن کو بنانے کا اصل کام سونے کے بچھڑے کے گناہ کے بعد کیا گیا۔ ہم بھی جب تک اپنے سے اپنے بنائے ہوئے بتوں کو دور نہیں کر دیتے تب تک اپنے آپ کو خداوند کا مسکن نہیں بنا سکتے۔ بنی اسرائیل نے مسکن کی تعمیر کے کام میں جو جو کچھ وہ کر سکتے تھے کیا۔ ہر کسی نے اپنی اپنی اوقات کے مطابق کیا۔ادنی سے بیش قیمت، وہ سب چیزیں جو مسکن کی تعمیر کے لئے درکار تھیں لائیں گئی۔ خروج 35:21 میں لکھا ہے؛
اور جس جس کا جی چاہا اور جس جس کے دل میں رغبت ہوئی وہ خیمہ اجتماع کے کام اور وہاں کی عبادت اور مُقدس لباس کے لئے خداوند کا ہدیہ لایا۔
ان مرد اور عورتوں نے صرف ہدیہ ہی نہیں دیا بلکہ جن کو حکمت عطا کی گئی تھی انھوں نے مسکن کی تعمیر کے کام میں حصہ لیا۔ میں بتاتی چلوں کہ جہاں خروج 35:31 میں روح اللہ لکھا ہے وہ اصل عبرانی کلام میں "روآخ ایلوہیم، רוח אלהים، Ruach Elohim” ہے۔ یہاں پر بھی "اللہ ” کا لفظ استعمال نہیں ہوا ہے۔ یہ صرف اردو بائبل میں لکھا ہے۔
خداوند کے لئے عبادت گاہ بنانا صرف ایک انسان کا کام نہیں ہے۔ جس جس کے دل میں رغبت پیدا ہوتی ہے وہی اس کام کو انجام دینے میں حصہ بن سکتے ہیں۔ جس جس کو خداوند نام لے کر بلائیں گے وہی اس کا کام انجام دے سکتے ہیں۔ اور اگر عبادت گاہ کو بنانے میں خداوند کے حکموں کو نظر انداز کیا جا ئے تو اس عبادت گاہ میں انسان تو مل سکتا ہے مگر خدا نہیں۔ ہماری زیادہ تر عبادت گاہیں ایسے ہی وجود میں آئیں ہیں جن کی نظروں میں خداوند کے سبت کی کوئی اہمیت نہیں۔ انکا سبت خداوند کے مقررہ دن سے ہٹ کر ہے۔ آخر کب مسیحی قوم سمجھے گی کہ سبت کو توڑنا خداوند کے اس دائمی عہد کو توڑنا ہے جس کو خداوند نے اپنے لوگوں کا نشان ٹھہرایا ہے۔
میں خروج 35 باب کو یہیں ختم کرتی ہوں اگلی دفعہ ہم خروج 36 باب کو دیکھیں گے۔ دعا ہے کہ آپ خداوند کی روح کی ہدایت کے موافق چلنے والوں میں ہوں، یشوعا کے نام میں۔ آمین۔