خروج 34 باب (دوسرا حصہ)

image_pdfimage_print

ہم نے پچھلے حصے میں خروج 34 باب کی پہلی سات آیات پر بات کی تھی۔  اب ہم اس کا آگے مطالعہ کرتے ہیں۔

خداوند نے پہلے ہی موسیٰ نبی کو کہہ دیا تھا کہ وہ بنی اسرائیل کے بیچ میں ہو کر نہیں چلیں گے مگر پھر بھی موسیٰ نبی نے خداوند کے حضور جھک کرخداوند سے منت کی کہ اگر خداوند  کے کرم کی نظر موسیٰ نبی پر ہے تو وہ انکے بیچ میں ہو کر چلیں گو کہ بنی اسرائیل گردن کش قوم ہے مگر خداوند انکے گناہوں اور خطاؤں کو بخش کر  انکو اپنی میراث کر لے۔

خداوند نے ایک بار پھر سے عہد باندھا کہ وہ   بنی اسرائیل کے سامنے ایسی کرامات کریں گے جو دنیا بھر میں اور کسی قوم میں کبھی کی نہیں گئیں۔ خداوند نے اپنا عہد بنی اسرائیل کے ساتھ باندھا کہ وہ ان  چھ قوموں، اموریوں، کنعانیوں، حتیوں اور فرزیوں اور حویوں اور یبوسیوں  کو اس ملک سے نکالیں گے  جو خداوند بنی اسرائیل کو دے رہے ہیں مگر انھیں  اس ملک کے باشندوں کے ساتھ کوئی عہد نہیں باندھنا بلکہ انکی قربانگاہوں کو ڈھا دینا ہے او ر انکے ستونوں کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا ہیں اور انکی یسیرتوں کو کاٹ ڈالنا ہے۔ اور انھیں کسی بھی دوسرے معبود کی پرستش نہیں کرنی ہوگی۔

خداوند نے ایک بار پھر سے انھیں اپنی عیدوں کو منانے کا حکم دیا۔  خداوند نے انھیں پہلوٹھے بیٹوں کا فدیہ دینے کا حکم دیا اور ایک بار پھر سے سبت  کے آرام کا کہا۔  خداوند نے انھیں ہل جوتنے اور فصل کاٹنے کے موسم میں بھی آرام کا کہا۔ ہل اگر مقرر وقت تک نہ جوتا جائے  یا فصل اگر ٹائم پر نہ کٹے تو نقصان کا اندیشہ ہے خداوند نے ایسے لمحوں میں بھی سبت کے آرام کا حکم دیا ہے۔ ہم ان میں سے بہت سے حکموں کے بارے میں پہلے بھی مختصر پڑھ چکے ہیں۔ خداوند  پہلے دی ہوئی  توریت کو ایک بار پھر سے دھرا رہے ہیں کیونکہ  بنی اسرائیل نے سونے کے بچھڑے کے گناہ میں پڑ کر  حکموں کو توڑ دیا تھا۔ مدراش کے مطابق موسیٰ نبی کے ہاتھ سے پتھر کی لوحیں اس لئے گر کر ٹوٹیں کیونکہ بنی اسرائیل کے گناہ کی وجہ سےخداوند کا جلال انکے درمیان سے اٹھ گیا اور وہ پتھر کی لوحیں انکے ہاتھ میں  اتنی بھاری ہوگئیں کہ ہاتھ  سے اٹھانا مشکل  ہوگیا۔  مجھے ایسے ہی خیال آ رہا تھا کہ پولس رسول  نے  مدراش کی تعلیم کو کیسے خوبصورتی سے بیان کیا ہے (افسیوں 3:16)

کہ وہ اپنے جلال کی دولت کے موافق تمہیں یہ عنایت کرے کہ تم اسکے روح سے اپنی باطنی انسانیت میں بہت زور آور ہوجاؤ۔

اور پھر کلسیوں 1:11 میں یوں لکھا ہے؛

اور اسکے جلال کی قدرت کے موافق ہر طرح کی قوت سے قوی ہوتے جاؤ تاکہ خوشی کے ساتھ ہر صورت سے صبر اور تحمل کر سکو۔

جب تک خداوند کا جلال ہمارے درمیان ہے ہمارے لئے اسکی  توریت (شریعت) بوجھ نہیں ۔ ہمارے اپنے گناہ ہمیں خداوند کے جلال سے محروم کر دیتے ہیں۔  ربی شاؤل (پولس رسول) نے فلپیوں 3:21 میں کہا؛

وہ اپنی اس قوت کی تاثیر کے موافق جس سے سب چیزیں اپنے تابع کرسکتا ہے ہماری پست حالی کے بدن کی شکل بدل کر اپنے جلال کے بدن کی صورت پر بنائیگا۔

 پہلے جب خداوند نے شریعت دی تھی تو  بنی اسرائیل   بادلوں کے گرجنے اور بجلی کے چمکنے اور قرنے کی آواز  اور پہاڑ سے دھوان اٹھتے دیکھا تو وہ  کانپ گئے تھے اور انھوں نے موسیٰ  نبی سے کہا تھا کہ صرف وہی ان سے باتیں کیا کرے اور وہ سن لیں گے لیکن خدا ان سے باتیں نہ کرے تا نہ ہو کہ وہ مر جائیں۔ اب کی بار جب خداوند نے پھر سے شریعت دی تو خداوند کے جلال سے  موسیٰ نبی کا چہرہ چمک رہا تھا کیونکہ وہ چالیس دن اور چالیس رات ایک بار پھر سے خداوند کی حضوری میں تھے۔ اس دفعہ بادلوں کا گرجنا، بجلی کا چمکنا یا خداوند کا شعلوں میں پہاڑ پر اترنا  یا قرنا کی آواز نہ تھی مگر  خداوند کا جلال موسیٰ نبی کے چہرے سے ظاہر تھا۔ کیونکہ خداوند کا کلام چراغ ہے۔ موسیٰ نبی کو تو علم نہ تھا کہ انکا چہرہ خداوند کے ساتھ باتیں کرنے کی وجہ سے چمک رہا تھا مگر لوگ  انکے چمکتے چہرے کو دیکھ کر انکے نزدیک آنے سے ڈرے۔

موسیٰ نبی نے ایک بار پھر سے بنی اسرائیل کو بلوا کر انکو وہ سب احکامات دئے  جو خداوند نے دئیے تھے۔ موسیٰ نبی  نے اپنے منہ پر نقاب ڈالا۔  مدراش کے مطابق موسیٰ نبی کا چہرہ تب  روشن ہوا جب خداوند کا جلال موسیٰ نبی پر ظاہر ہوا یعنی تب جب وہ چٹان کی شگاف میں کھڑے تھے۔  انکے چہرے کا چمکنا خداوند کے  جلال کی وجہ سے تھا۔  ربیوں کی تعلیم کے مطابق خداوند کا یہ جلال  تا عمر موسیٰ نبی کے چہرے پر رہا۔  انکی تعلیم کے مطابق نقاب کی وجہ سے موسیٰ نبی کے لئے اپنی روحانی زندگی کو جسمانی زندگی سے جدا کرنے میں مدد ملی۔ روزمرہ کے کام، کھانا، پینا، لوگوں سے گفتگو کرنا یا اپنے گھر والوں سے بات کرنا۔   انکے نزدیک نقطہ نچوڑ یہ تھا کہ نقاب موسیٰ نبی کی  انسانی فطرت  اور خدا پرستی کی حد بندی کو بیان کر  رہا تھا۔ یہ نقاب موسیٰ نبی اور لوگوں کے درمیان  کی حد بندی کے لئے نہیں تھا۔ خداوند نے موسیٰ نبی کو اپنے جلال  کے بدن کی صورت پر بدل دیا انکے چہرے سے خداوند کا نور منعکس تھا ۔ میرے پاس اپنے نوٹس میں لکھا نہیں کہ کہاں پر مدراش میں درج ہے کہ وہی جلال جو موسیٰ نبی کے چہرے پر تھا ، مشیاخ  (مسیح) کے آنے پر  ہر صادق کا  چہرہ  منور ہوگا۔  2 کرنتھیوں 3:7 میں لکھا ہے؛

اور جب موت کا وہ عہد جسکے حروف پتھروں پر کھودے گئے تھے ایسا جلال والا ہوا کہ بنی اسرائیل موسیٰ کے چہرے پر اس جلال کے سبب سے جو اسکے چہرے پر تھا غور نہ کر سکے حالانکہ وہ گھٹتا جاتا تھا۔ تو روح کا عہد تو ضرور ہی جلال والا ہوگا۔

آپ کلام مقدس سے 2 کرنتھیوں 3 باب مکمل خود پڑھیں۔  نئے عہد نامے کی آیات کی تشریح اکثر غلط کی جاتی ہے۔ کچھ ایسا ہی حال  2 کرنتھیوں 3 باب کے ساتھ بھی  کیا جاتا ہے۔ میرے ساتھ اس آیت پر غور کریں (2 کرنتھیوں 3:14 سے 15)

لیکن انکے خیالات کثیف ہوگئے کیونکہ آج تک پرانےعہد نامے کو پڑھتے وقت انکے دلوں پر وہی پردہ پڑا رہتا ہے اور وہ مسیح میں اٹھ جاتا ہے۔ مگر آج تک جب کبھی موسیٰ کی کتاب پڑھی جاتی ہے تو انکے دل پر پردہ پڑا رہتا ہے۔ لیکن جب کبھی انکا دل خداوند کی طرف پھریگا تو  وہ پردہ اٹھ جائیگا۔ اور وہ خداوند روح ہے اور جہاں کہیں خداوند کا روح ہے وہاں آزادی ہے۔

پردہ   سخت دل  لوگوں پر پڑا ہے جو کہ پرانا عہد نامہ /موسیٰ کی کتاب کو پڑھتے ہیں مگر انکو خداوند کے جلال پر نظر کرنے سے ڈر لگتا ہے نہ صرف یہ کہ ڈر لگتا ہے بلکہ وہ دیکھنا اور سمجھنا  بھی نہیں چاہتے۔ جب تک پردہ نہ ہٹے اور انکا دل خداوند کی طرف نہ پھرے وہ خداوند کی روح سے واقف نہیں ہو پاتے۔یہ اس باب کی  بہت ہی مختصر تشریح ہے ۔ 2 کرنتھیوں 4:6 میں لکھا ہے؛

اسلئے کہ خدا ہی ہے جس نے فرمایا کہ تاریکی میں سے نور چمکے اور وہی ہمارے دلوں میں چمکا تاکہ خدا کے جلال کی پہچان کا نور یسوع مسیح کے چہرے سے جلوہ گر ہو۔

میں اپنے اس مطالعہ کو یہیں ختم کرتی ہوں۔ اگلی دفعہ ہم خروج 35 باب کا مطالعہ کریں گے۔ خداوند آپ کے دلوں پر اپنے  نور کو چمکائے، یشوعا کے نام میں۔ آمین