آپ کلام میں سے خروج 31 باب مکمل خود پڑھیں۔
خداوند نے مشکان کو بنانے کے احکامات تو موسیٰ نبی کو دیئے تھے مگر جن کو مسکن کی تعمیر کے کام میں خاص حصہ لینا تھا ان سب روشن ضمیروں کے دل میں خداوند نے سمجھ ڈالی تھی کہ وہ ان سبھی چیزوں کو بنا سکیں جس کا حکم خدا نے دیا تھا۔ ان روشن ضمیروں میں سے دو کے نام خداوند نے موسیٰ نبی کو بتائے تھے ۔ ہم خروج 31:2 سے 6 میں ایسا لکھا ہوئے پڑھتے ہیں کہ خداوند نے موسیٰ نبی سے کہا؛
دیکھ میں نے بضلی ایل بن اوری بن حور کو یہوداہ کے قبیلہ میں سے نام لیکر بلایا ہے۔ اور میں نے اسکو حکمت اور فہم اور علم اور ہر طرح کی صنعت میں روح اللہ سے معمور کیا ہے۔ تاکہ ہنر مندی کے کاموں کو ایجاد کرے اور سونے اور چاندی اور پیتل کی چیزیں بنانے۔ اور پتھر کو جڑنے کے لئے کاٹےاور لکڑی کو تراشے جس سے سب طرح کی کاریگی کا کام ہو۔ اور دیکھ میں نے اہلیاب کو جو اخیسمک کا بیٹا اور دان کے قبیلہ میں سے ہے اسکا ساتھی مقرر کیا ہے اور میں نے سب روشن ضمیروں کے دل میں ایسی سمجھ رکھی ہے کہ جن جن چیزوں کا میں نے تجھ کو حکم دیا ہے ان سبھوں کو وہ بنا سکیں۔
ہم آگے خروج 35 باب میں ایک بار پھر سے بضلی ایل اور اہلیاب کا پڑھیں گے۔ اردو کلام میں جہاں "روح اللہ” لکھا ہے وہ عبرانی کلام میں "روآخ ایلوہیم, רוח אלהים، Ruach Elohim” ہے نہ کہ اللہ۔ میں ایلوہیم کے بارے میں پہلے بھی بتا چکی ہوں کہ خداوند کی تخلیقی صلاحیت کو بیان کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ بضلی ایل کے معنی ہیں ” خدا کے سایہ میں” اور اہلیاب کے معنی ہیں "باپ کا خیمہ یا باپ کے خیمہ میں”۔ مدراش کے مطابق بضلی ایل ، مریم کا پوتا تھا۔کلام مقدس میں اگر پیدایش 49:9 میں یہوداہ کے قبیلے کو شیر ببر پکارا گیا ہے تو استثنا 33 :22 میں دان کے قبیلے کو بھی ایسے پکارا گیا ہے۔ امثال 3:19 اور 20آیات میں لکھا ہے؛
خداوند نے حکمت سے زمین کی بنیاد ڈالی اور فہم سے آسمان کو قائم کیا۔ اسی کے علم سے گہراؤ کے سوتے پھوٹ نکلے اور افلاک شبنم ٹپکاتے ہیں۔
خداوند نے بضلی ایل کو حکمت، فہم اور علم کی روح دی تاکہ وہ مسکن کی تمام چیزوں کو خداوند کی عقل و سمجھ کے مطابق بنائے۔ خداوند نے بضلی ایل کو وہ ساتھی دیا جسکو موسیٰ نبی نے نہیں بلکہ خداوند نے چنا تھا۔ نہ صرف انکو بلکہ اُنکو بھی جن کے نام ہمیں کلام میں درج نہیں ملتے۔ جن چیزوں کے بنانے کا حکم خداوند نے موسیٰ نبی کو دیا تھا انکو ویسا ہی بنانے کی سمجھ خداوند نے ان میں ڈالی۔ اسی ہی باب میں ایک بار پھر سے ہم خاص خداوند کی سبتوں کو ماننے کا حکم پڑھتے ہیں۔ خداوند نے ایک بار پھر سے بنی اسرائیل کو یاد دلایا کہ یہ خداوند اور انکے درمیان پشت در پشت ایک نشان رہیگا تاکہ وہ جانیں کہ خداوند انکو پاک کرنے والا ہے۔ خداوند نے سبت کو پاک ماننے کا حکم کافی دفعہ دہرایا ہے۔ اس سے مراد یہی ہے کہ سبت کو پاک رکھنے کے حکم پر سختی سے عمل کیا جائے ورنہ جو کوئی بھی اس مقدس دن کی بے حرمتی کرے وہ ضرور مار ڈالا جائے اور جو اس میں کچھ کام کرے وہ اپنی قوم میں سے کاٹ ڈالا جائے۔ آپ خروج 31 باب کی 12 سے 17 آیات کو پڑھیں اور سوچیں کہ صرف انھی چند آیات میں خداوند نے بار بار سبتوں کو پاک ماننے کا حکم دیا ہے۔ اگر آپ سبت سے متعلق توریت کی باقی آیات کو بھی دیکھیں تو آپ جانیں گے کہ خداوند نے سبت کے دن کو پاک ماننے پر کتنا زور دیا ہے مگر بد قسمتی سے یہی ایک واحد حکم ہے جس کی ہم لوگ قدر کرنا نہیں سیکھ رہے اور نہ ہی اس دائمی نشان کو اپنی زندگی میں اپنانا چاہتے ہیں۔ خداوند نے مسکن کی بنانے کے احکامات کے دوران میں سبتوں کو پاک رکھنے کا حکم دیا۔ مسکن کی تعمیر کا کام بنی اسرائیل قوم کے لئے اہم تھا مگر خداوند انھیں سبت کے حکم کی اہمیت بتا رہے تھے کہ سبت کو پاک رکھنا لازمی ہے۔ انھیں تمام کاموں کو روک کر خداوند کے سبت میں آرام کرنا تھا۔ مسکن اسلئے بنانے کا حکم دیا گیا تھا کہ خداوند انکے درمیان (لوگوں) میں سکونت کرے اور سبت اسلئے دیا گیا کہ لوگ خداوند کے سبت میں داخل ہوں۔ ربیوں کی تشریح کے مطابق سبت کو پاک رکھنا ، مسکن کی تعمیر سے زیادہ ضروری ہے۔ چاہے کوئی بھی کام کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو، سبت کو پاک رکھنے سے بڑھ کر نہیں ہے تبھی خداوند نے سب سے پہلے سبت کو پاک ٹھہرایا تھا جیسے کہ پیدایش 2:3 میں لکھا ہے؛
اور خدا نے ساتویں دن کو برکت دی اور اسے مقدس ٹھہرایاکیونکہ اس میں خدا ساری کائنات سے جسے اس نے پیدا کیا اور بنایا فارغ ہوا۔
سبت کی صبح یہودی/میسیانک یہودی کی عبادت گاہوں میں بولی جانے والی دعاؤں میں خروج 31:16 سے 17 کو دھرایا جاتا ہے کہ بنی اسرائیل کو سبت کو پاک ماننا ہے کیونکہ یہ انکی نسلوں کے لئے ایک دائمی عہد ہے۔ یہ خداوند اور بنی اسرائیل کے درمیان ایک ابدی نشان ہے کہ خداوند نے چھ دن میں آسمان اور زمین کو بنایا اور ساتویں وہ آرام کر کے تازہ دم ہوا۔ یہودیوں نے ان آیات کو سبت کی دعا کا اس لئے حصہ بنایا تاکہ وہ اس بات پر زور دے سکیں کہ سبت خداوند کے لوگوں اور خداوند کے درمیان ایک خاص تعلق قائم کرتا ہے۔ یہودی ربی سبت کو بندشوں کا دن نہیں پکارتے بلکہ موقع کا دن پکارتے ہیں۔ یعنی کہ خداوند نے اپنے لوگوں کو موقع دیا ہے کہ وہ اپنی ساری فکریں خداوند پر ڈال دیں اور خداوند میں خوشی منا سکیں۔ اور یہ جان لیں کہ خداوند انکی تمام باتوں کی فکروں کا حل ڈھونڈ کر دے رہا ہے۔ تبھی یشوعا نے متی 11:28 سے 30 میں ایسے کہا؛
ائے محنت اٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو سب میرے پاس آؤ۔ میں تمکو آرام دونگا۔ میرا جؤا اپنے اوپر اٹھا لو اور مجھ سے سیکھو۔ کیونکہ میں حلیم ہوں اور دل کا فروتن۔ تو تمہاری جانیں آرام پائینگی۔ کیونکہ میرا جؤاملائم ہے اور میرا بوجھ ہلکا۔
اگر آپ متی 12:1 کو دیکھیں گے تو پڑھیں گے کہ اس وقت یسوع سبت کے دن کھیتوں میں سے ہوکر گیا۔ اگر آپ یشوعا کا متی 11:28 سے 30 اور 12:1 کا تعلق نہیں سمجھ پا رہے تو پھر خداوند سے دعا کریں کہ وہ آپ کو ان باتوں کو سمجھنے میں مدد دے۔
خروج 31:18 میں ہم پڑھتے ہیں کہ خداوند نےجب کوہِ سینا پر موسیٰ سے باتیں کر لیں تو موسیٰ نبی کو شہادت کی دو لوحیں دیں جو کہ پتھر کی تھیں اور خداوند کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تھیں۔ میں نے پہلے بھی کہیں بیان کیا تھا کہ توریت کو "کتوبہ، כתובה، Ketubah” کہا جاتا ہے جس سے مراد ہے نکاح نامہ، شادی کا سرٹیکیفیٹ۔ عبرانی کلام میں لوحیں جس طرح سے درج ہے وہ دو لوحیں نہیں بلکہ ایک ہی بیان کرتا ہے۔
میں اپنے اس مطالعہ کو یہیں ختم کرتی ہوں اس دعا کے ساتھ کہ میں اور آپ خداوند کے اس دائمی نشان کو اپنی زندگیوں میں قائم رکھ سکیں۔ خداوند نے چاہا تو اگلی دفعہ ہم خروج 32 باب کا مطالعہ کریں گے۔