آپ کلام میں سے خروج کا 32 باب مکمل خود پڑھیں۔ میں صرف وہی آیات لکھونگی جسکی ضرورت سمجھونگی۔
ہم نے خروج 24:12 میں پڑھا تھا کہ خداوند نے موسیٰ کو اپنے پاس پہاڑ پر بلایا تھا کہ خداوند اسے پتھر کی لوحیں اور شریعت اور احکامات دے۔ اور اسی باب کی 18 آیت میں ہم نے پڑھا تھا کہ موسیٰ چالیس دن اور چالیس رات پہاڑ پر خداوند کے پاس تھا۔ بنی اسرائیل کو یہ عرصہ اتنا لمبا لگا کہ انھوں نےہارون کے پاس جا کر کہا کہ وہ انکے لئے ایک دیوتا بنائے کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ "اس مرد موسیٰ” کو کیا ہوا ہے جو انھیں ملک مصر سے نکال کر لایا تھا۔ہارون نے شاید لوگوں کے ڈر اور دباؤ کی وجہ سے ان کی بات ماننے کی سوچی۔ ہارون نے ان سے انکی بیویوں، لڑکوں اور لڑکیوں کے کانوں کی سونے کی بالیاں مانگیں کہ وہ اسے لا کر دیں تاکہ وہ انکے لئے دیوتا بنائے۔ ہارون نے سوچا ہوگا کہ بنی اسرائیل کے لوگ سونے کی بالیاں دینے سے گریز کریں گے اور اسے انھیں دیوتا بنا کر نہیں دینا پڑے گا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انھیں کیونکہ لگ رہ تھا کہ موسیٰ کو دیر لگ رہی ہے ؟ آخر کیا وجہ تھی کہ انھوں نے یہ نہیں سوچا کہ انھیں موسیٰ نبی کو ڈھونڈنا چاہیے یا تھوڑا اور انتظار کر لینا چاہیے اس سے پیشتر کہ وہ یہ کہہ سکتے کہ جانے اسے کیا ہوگیا ہے؟ انکی نظر میں موسیٰ صرف "مرد” تھا جو انھیں ملک مصر سے نکال کے لایا تھا۔ کچھ ہی عرصہ پہلے انھوں نے اپنے آپ کو پاک کر کے خداوند کی حضوری میں احکامات سنے تھے جس میں خداوند کا پہلا حکم یہ تھا کہ (خروج 20:2):
خداوند تیرا خدا جو تجھے ملکِ مصر سے اور غلامی کے گھر سے نکال لایا میں ہوں۔
پھر خروج 20:3 سے 4میں ہم پڑھتے ہیں کہ خداوند نے کہا؛
میرے حضور تو غیر معبودوں کو نہ ماننا۔ تو اپنے لئے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بنانا جو اوپر آسمان میں یا نیچے زمین پر یا زمین کے نیچے پانی میں ہے۔
مصر اور غلامی کے گھر سے نکلے ہوئے انھیں کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔ تیسرے مہینے میں خداوند نے انھیں احکامات دئے تھے اور اب چوتھا مہینہ چل رہا تھا۔ انھیں لگا کہ اگر موسیٰ کی جگہ کسی اور کو قیادت کا موقع دینا ہے تو ایسے کو دیں جو انھیں جسمانی طور پر نظر آتا رہے۔ موسیٰ صرف مصریوں کی نظر میں ہی نہیں بلکہ بنی اسرائیل کی نظر میں بھی گویا خدا تھا۔ بنی اسرائیل کو بُھلانے میں دیر نہیں لگی کہ خداوند پاک خدا انھیں ملکِ مصر سے نکال کر لائے تھے۔ وہ یہ بھی بھول گئے تھے کہ خداوند نے انھیں کسی بھی قسم کی تراشی ہوئی مورت کو بنانے سے منع کیا تھا۔
اگر تراشی ہوئی مورت بنانا منع ہے تو کیا وجہ ہے کہ مسیحیوں کے گھروں میں یسوع کی صورت میں موجود تصویریں اور دیگر اشیا موجود ہیں۔ کیا صرف بنی اسرائیل ہی اس معاملے میں گناہ گار ٹھہرائے جا سکتے ہیں؟ آپ کہیں گے کہ وہ تو صرف تصویر ہے ہم کونسا اسکے آگے سجدہ کرتے ہیں۔ سوچیں کہ کیا آپ اس تصویر کو زمین پر گرنے دیں گے یا زمین پر رکھیں گے؟ آپ نے دل ہی دل میں اس تصویر کو اتنی عزت دے دی ہوئی ہے کہ آپ اسے مقدس سمجھیں گے۔ مقدس سمجھ رہے ہیں تو یقین مانیں کہ آپ نے ایک اپنے گھر میں ایک وہ مورت کھڑی کر دی ہے جس سے خداوند نے منع کیا ہے۔ بنی اسرائیل بھی یہوواہ کو ایک تراشی ہوئی مورت کے طور پر اپنے سامنے رکھنا چاہتے تھے۔
ہارون نے تو مجبوراً ان سے سونے کی بالیوں کو لیکر بچھڑا ڈھال دیا مگر وہ کہنے لگے (خروج 32:4)
اور اس نے انکو انکے ہاتھوں سے لیکر ایک ڈھالا ہوا بچھڑا بنایا جس کی صورت چھینی سے ٹھیک کی۔ تب وہ کہنے لگے ائے اسرائیل یہی تیرا دیوتا ہے جو تجھ کو ملکِ مصر سے نکال کر لایا۔
ہارون نے اسکے آگے ایک قربانگاہ بنائی اور اس نے اعلان کر دیا کہ کل خداوند کے لئے عید ہوگی۔ دوسرے دن صبح اٹھ کر انھوں نے قربانیاں چڑھائیں۔ خداوند نے موسیٰ کو کہا کہ نیچے جا کر دیکھے کہ "تیرے لوگ جنکو تو ملک مصر سے نکال کر لایا " بگڑ گئے ہیں۔ خداوند نے مزید کہا کہ وہ اس راہ سے جسکا میں نے انکو حکم دیا تھا بہت جلد پھر گئے ہیں۔۔۔ خداوند نے کہا (خروج 32:9):
اور خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ میں اس قوم کو دیکھتا ہوں کہ یہ گردن کش قوم ہے۔
زبور 106:19 سے 20 میں لکھا ہے؛
انھوں نے حورب میں ایک بچھڑا بنایا اور ڈھالی ہوئی مورت کو سجدہ کیا۔ یوں انھوں نے خدا کے جلال کو گھاس کھانے والے بیل کی شکل سے بدل دیا۔
خداوند کے قہر کا یوں بھڑکنا واجب تھا۔ بنی اسرائیل کی نظر میں وہ بچھڑا وہ خدا تھا جس نے انھیں غلامی سے رہائی دی اور مسحیوں کی نظر میں صلیب یا وہ تصویر جو انکے گھروں میں لٹکی ہے وہ خدا بن بیٹھی ہے جس نے انکی خاطر تکلیف اٹھائی اور اپنی جان دی۔ بنی اسرائیل نے قربانیاں چڑھائیں اور بیٹھ کر کھایا پیا اور کھیل کود میں لگ گئے۔ آج کا مسیحی بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ مشکل سے دعا کی یا پھر شاید کسی کرسمس یا ایسٹر چرچ میں خداوند کی عبادت گھنٹا عبادت کی (اپنے وقت کی قربانی دی) اور اپنے لئے ضیافت کی اور پھر سے اپنی زندگی کے کھیل کود میں مشغول ہوگئے۔
خداوند کے غصے کی وجہ سے خداوند کا ارادہ بنی اسرائیل کو بھسم کرکے موسیٰ کو ایک بڑی قوم بنانا تھا مگر موسیٰ نبی نے خداوند خدا کے آگے منت کی کہ وہ ایسا نہ کرے۔ خداوند نے موسیٰ نبی کی بات پر بنی اسرائیل کو بھسم کرنے کا ارادہ بدل ڈالا۔ موسیٰ نبی جب شہادت کی دونوں لوحیں لے کر پہاڑ سے نیچے اترے تو یشوع نے جو کہ موسیٰ نبی کے ساتھ تھا، لوگوں کی للکار کی آواز سنی تو کہا کہ لشکرگاہ میں لڑائی کا شور ہو رہا ہے۔ مگر موسیٰ نبی نے کہا کہ آوازہ نہ تو فتحمندوں کا نعرہ ہے نہ مغلوبوں کی فریاد بلکہ اسے تو گانے والوں کی آواز سنائی دیتی ہے۔ جب لشکرگاہ کے نزدیک آ کر اس نے بچھڑا اور انکا ناچنا دیکھا تو تب موسیٰ کا غضب بھڑکا اور اس نے لوحوں کو اپنے ہاتھوں میں سے پٹک دیا اور توڑ ڈالا۔
موسیٰ نے اس بچھڑے کو جسے "انھوں نے” بنایا تھا آگ میں جلایا اور اسے باریک پیس کر پانی پر چھڑکا اور اسی میں اسے بنی اسرائیل کو پلوایا۔ پتھر کی لوحیں غصے میں توڑنے کی وجہ تو سمجھ آتی ہے یا پھر بچھڑے کو آگ میں جلانے کی وجہ بھی سمجھ میں آتی ہے مگر اسکو پیس کر پانی میں چھڑک کر اسی پانی میں سے بنی اسرائیل کو پلانے کی وجہ؟ شاید آپ کو سمجھ میں نہیں آتی ہو۔ گنتی کے 19 باب میں ایک سرخ بچھیا کی قربانی کا ذکر ملتا ہے جو کہ خطا کی قربانی ہے اور ناپاکی کو دور کرنے کے لئے بھی ہے۔ اس باب کو آپ کلام مقدس سے خود پڑھیں ہم گنتی کی کتاب کے مطالعے میں اسکو مزید پڑھیں گے۔
موسیٰ نبی نے اپنے بھائی ہارون سے بھی پوچھا کہ اس نے کیوں بنی اسرائیل کو اتنے بڑے گناہ میں پھنسا دیا۔ ہارون کا جواب یہ تھا کہ یہ لوگ بدی پر تُلے رہتے ہیں۔ بت پرستی کو کلام میں زناکاری کی مانند ٹھہرایا گیا ہے۔ میں نے پچھلے مطالعوں میں ذکر کیا تھا کہ توریت کو کتوبہ پکارا جاتا ہے جو کہ عبرانی لفظ ہے نکاح نامے کے لئے۔ ہمیں متی 1 میں یوسف اور مریم کی منگنی کا ذکر ملتا ہے۔ مگر اس زمانے میں یا پھر کلام میں درج منگنی سے مراد یہی ہے کہ نکاح ہو چکا ہے مگر شوہر اپنی بیوی کو ابھی گھر نہیں لایا ۔ خداوند نے جب بنی اسرائیل کو توریت دی تو وہ خداوند کے ساتھ عہد میں بندھے گئے ویسے ہی جیسے کہ میاں بیوی، نکاح کر کے شادی کے عہد میں بندھتےہیں۔ خداوند کے ساتھ عہد میں شامل ہونے کے بعد سونے کا بچھڑا بنا کر اس کو اپنا خدا ماننا، بے وفائی کرنا تھا۔ گنتی 5:11 سے 31 میں ہمیں "بیوفائی ٹیسٹ” کرنے کا حوالہ نظر آتا ہے۔ اس میں مسکن کے فرش کی گرد کو مقدس پانی میں اور غیرت کی نذر کی قربانی میں سے مٹھی بھر کر ، گھول کر اس عورت کو پینے کے لئے دیا جاتا ہے جس پر بیوفائی کا الزام لگایا گیا ہوتا ہے۔ اگر اسکا پیٹ پھول جائے اور ران سڑ جائے تو وہ عورت لعنت کا سبب بنے گی۔ کیونکہ اس نے بیوفائی کی مگر اگر کچھ نہ ہو تو وہ بیوفا نہیں۔
موسیٰ نبی نے بھی کچھ ایسا ہی "بیوفائی کا ٹیسٹ” بنی اسرائیل کو دیا۔ آپ کلام مقدس سے استثنا 13:13 سے 18 کو بھی پڑھیں۔ ہم پہلے پڑھ چکے ہیں کہ جب خداوند نے بنی اسرائیل کو ملکِ مصر سے نکالا تو ساتھ ہی میں ملی جلی بھیڑ بھی شامل ہو لی۔ موسیٰ نبی نے اپنی تفتیش ختم کر کے جیسا کہ استثنا 13:13 سے 18 میں حکم ہے انکو تلوار سے قتل کروایا جنہوں نے سونے کے بچھڑے کی پوجا کی طرف مائل ہو کر خداوند کے خلاف گناہ کیا تھا۔ بنی لاوی خداوند کی طرف تھے وہ اس گناہ میں شامل نہیں ہوئے انھوں نے تلوار اٹھائی اور اس دن لوگوں میں سے تین ہزار مردوں کا قتل کر دیا۔ پھر موسیٰ نبی نے دوسرے دن لوگوں سے کہا کہ انھوں نے بڑا گناہ کیا ہے وہ خداوند کے پاس جائیں گے کہ شاید انکے گناہ کا کفارہ دے سکیں۔
موسیٰ نبی نے خداوند سے لوگوں کے لئے معافی کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ بنی اسرائیل کا گناہ معاف کردے ورنہ موسیٰ کا نام اس میں سے جو خداوند نے لکھی ہے مٹا دے۔ خداوند انصاف کا خدا ہے۔ خداوند نے موسیٰ نبی سے کہا کہ جس نے میرا گناہ کیا ہے میں اسی کے نام کو اپنی کتاب میں سے مٹاؤں گا۔ خداوند نے کہا کہ وہ اپنے مطُالبہ کے دن انکو انکے گناہ کی سزا دیں گے۔ موسیٰ نبی کو خداوند نے کہا کہ وہ لوگوں کو اس جگہ لے جائیں جو خداوند نے انھیں بتائی ہے۔ خداوند نے ان لوگوں میں مری (وبا) بھیجی جنہوں نے یہ گناہ کیا تھا۔
میں اپنے اس مطالعے کو یہیں ختم کرتی ہوں اگلی دفعہ ہم خروج 33 باب کا مطالعہ کریں گے۔ خداوند خدا مجھے اور آپ کو ہر قسم کی بت پرستی سے دور رکھیں ، یشوعا کے نام میں۔ آمین