آپ کلام مقدس سے نحمیاہ 6 باب مکمل خود پڑھیں۔
ہم نے نحمیاہ کے 4 باب میں پڑھا تھا کہ سنبلط اور طوبیاہ اور جشم عربی نے دیوار کی مرمت کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی تھی ۔دشمن انکے علاوہ بھی تھے مگر خاص ان تین کانام درج ہے۔ جب انکی پہلی کوشش ناکام گئی تو انھوں نے نحمیاہ سے بدی کرنے کا ارادہ کیا اور اسے اونو کے میدان کے کسی گاؤں میں ملاقات کرنے کا کہا۔ نحمیاہ نے انھیں پیغام بھیجا کہ وہ بڑے کام میں مصروف ہے اور وہ ان سے ملنے کو نہیں آسکتا۔ آخر وہ کیوں اس کام کو روکے۔ چار دفعہ انھوں نے اسے ملنے کا یہ پیغام بھیجا اور ہر بار نحمیاہ نے یہی جواب دیا۔ امثال 27:6 میں لکھا ہے؛
جو زخم دوست کے ہاتھ سے لگیں پُر وفا ہیں لیکن دشمن کے بو سے باافراط ہیں۔
نحمیاہ کو اپنے دشمنوں کے ارادوں کا علم تھا۔ روحوں کا امتیاز ہر کوئی نہیں کر سکتا، صرف وہ جسکو خداوند نے یہ نعمت دی ہو۔تبھی عبرانیوں5:13 سے 14 میں لکھا ہے؛
کیونکہ دودھ پیتے ہوئے کو راستبازی کے کلام کا تجربہ نہیں ہوتا اسکئے کہ وہ بچہ ہے۔ اور سخت غذا پوری عمر والوں کے لئے ہوتی ہے جنکے حواس کام کرتے کرتے نیک و بد میں امتیازکرنے کے لئے تیز ہوگئے ہیں۔
نحمیاہ نے بادشاہ کے ساتھ کام کر کے یہ تجربہ حاصل کر لیا تھا کہ ہر بوسہ دینے والا شخص دوست نہیں ہوتا۔اور پھر ان دشمنوں نے تو پہلے بھی انکو ہلاک کرنے کی سوچی تھی۔ یروشلیم میں انھیں ملنے میں کیا اعتراض تھا جو وہ خاص یروشلیم سے باہر بلا رہے تھے۔دشمن اپنے ارادوں سے باز نہیں آتا مگر خداوند کے لوگوں کو یہ سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے کہ دشمن کو توجہ دینے کی بجائے خدا کی طرف توجہ دیں۔ نحمیاہ نے یہی کیا اس نے مناسب نہیں سمجھا کہ خداوند کے کام کو چھوڑ کر دشمن کو توجہ دے۔ سنبلط نے پانچویں بار فرق طریقے سے یہ پیغام پہنچایا۔ اسے نے نحمیاہ کو خط لکھ بھیجا کہ قوموں میں افواہ پھیل گئی ہوئی ہے کہ نحمیاہ اور یہودیوں کا ارادہ بغاوت کرنے کا ہے تبھی وہ شہرِ پناہ بنا رہے ہیں۔ اور نحمیاہ کا ارادہ یہوداہ کا بادشاہ بننے کا ہے جس کے لئے نحمیاہ نے نبیوں کو بھی مقرر کر لیا ہے کہ وہ کہیں کہ یہوداہ میں بادشاہ ہے۔ اسلئے وہ لوگ بادشاہ کو اطلاع کرنے والے ہیں لہذا بہتر ہے کہ نحمیاہ ان سے مل لے۔
نحمیاہ نے انھیں پیغام بھیجا کہ وہ اپنے ہی دل سے باتیں بنا رہے ہیں اور ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ سب صرف ان لوگوں کو ڈرانا چاہتے ہیں مگر خداوند نحمیاہ کو ہمت بخشے گا۔ ہمیں سمعیاہ کا نام نحمیاہ 6:10 میں ملتا ہے۔ وہ کون تھا اسکا کچھ خاص علم نہیں مگر اس بات کا اندازہ ہم ضرور لگا سکتے ہیں کہ وہ سچا نبی نہیں تھا کیونکہ سچا نبی خداوند کے احکامات سے واقف ہوتا ہے۔ سمعیاہ کو سنبلط اور طوبیاہ نے اجرت پر جھوٹی پیشنگوئی دینے کو کہا۔صرف جھوٹا نبی خداوند کے حکموں کے خلاف پیغام دے سکتا ہے۔ سمعیاہ نے یہی کیا۔ اس نے نحمیاہ کو کہا کہ وہ خداوند کی ہیکل میں چھپ جائے اور ہیکل کے دروازوں کو بند کر لے کیونکہ اسکے دشمن اسکو رات کو قتل کرنے کو آئیں گے۔ سمعیاہ کا اپنا گھر میں بند ہونا اس بات کو اجاگر کرنا تھا کہ وہ چونکہ بہت اہم راز کی بات نحمیاہ کو بتا رہا ہے اسلئے اسکی اپنی جان بھی خطرے میں ہے۔ خداوند کے مقدس میں صرف کاہن جا سکتا تھا، ایک عام آدمی نہیں۔ نحمیاہ کو خداوند کے حکموں کا علم تھا تبھی اس نے کہا کہ وہ کیوں بھاگے اور جان بچانے کو ہیکل میں گھسے؟ اگر وہ ڈر کر ایسا کام کرتا تو وہ خطا کار ٹھہرتا اور ان لوگوں نے پھر اس بات کو نحمیاہ کے خلاف استعمال کرنا تھا تاکہ اسکے اپنے یہودی لوگ اسکو ملامت کرتے۔ وہ اپنے لوگوں کا راہنما تھا اگر وہ خود ہی ان باتوں سے ڈر کر چھپ جاتا تو کون اس پر اپنا اعتقاد دکھاتا۔ نحمیاہ جان بوجھ کر خداوند کے حکم کو توڑ نا نہیں چاہتا تھا اور نہ ہی ڈر کر بھاگنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ وہ جس مقصد کے لئے آیا تھا اسے بس اپنا مقصد پورا کرنا تھا۔۔ اس نے خداوند سے فریاد کی کہ وہ ان لوگوں کو انکے کاموں کا بدلہ دے۔
میرے ذہن میں زبور 27 گونج رہا ہے۔ جسکے بارے میں میں نے اپنے دعائیہ گروپ میں بتایا تھا کہ الول کے مہینے میں اسے روز صبح شام پڑھا جاتا ہے۔ میں اسکی پہلی آیت درج کر رہی ہوں؛
خداوند میری روشنی اور میری نجات ہے۔ مجھے کس کی دہشت؟ خداوند میری زندگی کا پشتہ ہے۔ مجھے کس کی ہیبت؟
آپ سے اگر ہوسکے تو میں چاہوں گی کہ آپ کلام سے اس زبور کو پورا پڑھیں۔ نحمیاہ کو اپنے نجات دینے والے کا علم تھا اسے کسی کی دہشت نہیں تھی۔ نحمیاہ 6:15 میں لکھا ہے کہ الول کے مہینے کی پچیسویں تاریخ کو شہر پناہ بن چکی تھی۔ اگر آپ کو خداوند کی عیدوں کے بارے میں علم ہے تو پھر آپ کو خود ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ روش ہاشناہ یعنی یوم تیروعہ، یوم کیپور اور خیموں کی عید شروع ہونے سے پہلے شہر پناہ بن چکی تھی۔ یہودیوں کے دشمنوں کو اندازہ ہوگیا کہ یہ کام خداوند کی طرف سے ہوا ہے اسلئے انھیں خوف آیا۔ نحمیاہ جانتا تھا کہ اصل جلال کا مالک خداوند ہی ہے۔ نحمیاہ نے نیسان کے مہینے میں بادشاہ سے اجازت لی تھی کہ وہ یروشلیم شہر جاسکے۔ چھ مہینے بعد اس نے وہ بڑا کام انجام دیا جس کی اسکو آرزو تھی۔ اسکے تمام دشمن اپنی ہی نظر میں ذلیل ہوئے کیونکہ خداوند نے انکے تمام ارداوں پر پانی پھیر دیا۔
نحمیاہ 17 سے 19 آیات میں مختصراً یہ درج ہے کہ کیسے یہوداہ کے امیروں کی خط و کتابت سنبلط اور طوبیاہ سے رہتی تھی جو اسکے ارادوں کو مٹی میں ملانا چاہتے تھے۔ نحمیاہ کے کام مکمل کرنے سے نہ صرف خداوند کے نام کو جلال ملا بلکہ انکے دشمنوں کے دلوں میں بھی خداوند کا خوف بیٹھ گیا۔
ہم اگلی دفعہ نحمیاہ کے 7 باب کا مطالعہ کریں گے۔ میری خداوند سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے دشمنوں پر توجہ رینے کی بجائے اپنے اوپر ایمان رکھنا سکھائے تاکہ ہم کبھی دشمن کے ڈر سے خداوند کے کام کو نہ چھوڑیں، یشوعا کے نام میں۔ آمین