ہم نے پچھلے حصے میں پڑھا تھا کہ نحمیاہ نے غریب یہودیوں کی مشکل کا حل نکالا ۔ وہ خاموش نہیں بیٹھا رہا۔ نحمیاہ نے مشکل کا حل شریعت کے مطابق نکالا اور پھر کاہنوں کو اس بات کا گواہ ٹھہرایا۔ نحمیاہ نے 5:13 میں کہا؛
پھر میں نے اپنا دامن جھاڑا اور کہا کہ اسی طرح سے خدا ہر شخص کو جو اپنے اس وعدہ پر عمل نہ کرے اسکے گھر سے اور اسکے کاروبار سے جھاڑڈالے ۔ وہ اسی طرح جھاڑ دیا اور نکال پھینکا جائے۔ تب ساری جماعت نے کہا آمین اور خداوند کی حمد کی اور لوگوں نے اس وعدہ کے مطابق کام کیا۔
اپنے دامن کو یوں جھاڑ کر ، نحمیاہ نے ایک طرح سے ان لوگوں پر یوں لعنت بھیج دی جو اپنے وعدے پر عمل نہ کرتے۔اس پر تمام جماعت نے آمین کہا اور خداوند کی حمد کی۔ لوگوں نے اپنے وعدے کے مطابق قدم اٹھایا۔
ایک بات جو میں نے پچھلے حصے میں نہیں بیان کی وہ یہ ہے کہاس صورت حال سے جڑا ، توریت کا یہ حکم بہت سخت لگتا ہوگا، مگر اس حکم سے مراد یہ تھی کہ امیر ، اپنی امیری میں امیر ترین نہ ہوجائے اور غریب ہمیشہ یہ نہ سوچے کہ انکے امیر بھائیوں کا فرض ہے کہ وہ ان کی مدد کریں اور اب انھیں خود کچھ محنت کرنا درکار نہیں۔ بلکہ امیروں کو غریبوں کی اس طرح سے مدد کو کہا گیا کہ وہ بالآخر اپنی غریبانہ صورت حال سے باہر نکل سکیں۔
نحمیاہ نے اپنے اور اپنے ان بھائیوں کے بارے میں ،جو کہ بادشاہ ارتخششتا کے دور میں اعلیٰ مقاموں پر تھے ،کہا کہ انھوں نے بادشاہ کو دئے جانے والے ٹیکس کے پیسوں میں سے اپنا حصہ نہ لیا۔ مگر نحمیاہ سے پیشتر جو حاکم تھے وہ ٹیکس وصول کرتے تھے۔ نحمیاہ سے پیشتر حاکموں نے اپنے حاکم ہونے کا غلط استعمال کیا۔ نہ صرف انھوں نے بلکہ انکے نوکروں نے بھی مگرنحمیاہ نے خداوند کے خوف سے ایسا نہ کیا۔ نحمیاہ اگر چاہتا تو وہ بھی اپنے اعلیٰ مقام کی وجہ سے ایسا کر سکتا تھا مگر اس نے بجائے یہ کام کرنے کے اپنے لوگوں کے لئے بھلائی کا کام کیا۔
وہ شہر پناہ کے کام میں مشغول رہا اور نہ صرف اپنے اور اپنے نوکروں کے لئے بلکہ ان لوگوں کے لئے بھی جو اسکے پاس آتے تھے انکے لئے اچھا کھانا تیار کرواتا تھا ۔ نحمیاہ اگر چاہتا تو بجائے انکے لئے اپنے پلے سے یہ کرنے کے وہ ایسا ان سرداروں سے بھی کروا سکتا تھا جو اسکے نیچے کام کرتے تھے۔ آخر کار وہ بادشاہ کے آدمیوں میں سے تھا، اسکے لئے بہت سے لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی ایسا کر سکتے تھے۔ یہ نحمیاہ کا اپنا کردار اور خدا خوفی تھی جو اسے ایسا کرنے سے روکے ہوئے تھی۔ نحمیاہ نے اپنے لئے ایسے دعا کی (نحمیاہ 5:19):
ائے میرے خدا جو کچھ میں نے ان لوگوں کے لئے کیا ہے اسے تو میرے حق میں بھلائی کے لئے یاد رکھ۔
نحمیاہ نے وہ کام کیا جو خداوند کی نظر میں بھلا تھا۔ ہم نحمیاہ کی اس دعا کو آگے بھی دیکھیں گے کہ اس پورے کام میں اسکو اگر کسی کی خوشی چاہیے تھی تو وہ اپنے خداوند یہوواہ پاک کی خوشی تھی۔ نحمیاہ کے 5 باب میں ہمیں ایک ہی قوم اور ایک ہی دین کے لوگوں کا آپس میں نامنصفانہ برتاؤ نظر آتا ہے۔ یہ مسلہ خداوند کے لوگوں میں تب بھی تھا اور آج بھی۔ خداوند کے لوگ اپنے ہی بھائیوں کے ساتھ برائی سے پیش آ رہے تھے۔ رومیوں 15:1 سے 2 میں لکھا ہے؛
غرض ہم زورآوروں کو چاہئے کہ ناتوانوں کی کمزوریوں کی رعایت کریں نہ کہ اپنی خوشی کریں۔ ہم میں ہر شخص اپنے پڑوسی کو اسکی بہتری کے واسطے خوش کرے تاکہ اسکی ترقی ہو۔
اور افسیوں 4:29 میں ایسے لکھا ہے؛
کوئی گندی بات تمہارے منہ سے نہ نکلے بلکہ وہی جو ضرورت کے موافق ترقی کے لئے اچھی ہو تاکہ اس سے سننے والوں پر فضل ہو۔
جب تک انسان اپنے فائدے کا سوچتا ہے اسے کسی اور کی پرواہ نہیں ہوتی مگر جب انسان اپنی ترقی کو نہیں بلکہ خداوند کی بادشاہت کو دھیان میں رکھے تو تب وہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی بھلائی کا بھی سوچتا ہے۔ عزرا اور نحمیاہ کی کتاب میں ہمیں اُن لوگوں کی یروشلیم واپسی کا بیان ملتا ہے جنہیں اپنے خدا سے اور اپنی سر زمین سے پیار تھا۔ وہ کہنے کو تو اپنے خداوند کے عہد کی سرزمین میں، اپنے خداوند کی طرف لوٹ آئے تھے مگر ساتھ ہی میں وہ ان باتوں کو ، ان عادتوں کو بھی اپنے ساتھ لائے تھے جو خداوند کی طرف سے نہیں تھیں۔ ابھی تک وہ مکمل خداوند میں نہیں "لوٹے” تھے۔ خداوند نے انھیں نحمیاہ اور عزرا جیسے لوگوں کی قیادت بخشی جنہوں نے خود اپنے لوگوں کے لئے ایک اچھی مثال قائم کی تاکہ دوسرے بھی انھیں دیکھ کر ویسا ہی کر سکیں۔ ان میں اگر اپنے خداوند کا خوف نہ ہوتا تو وہ بھی باقی تمام حاکموں کی طرح ہی قدم اٹھاتے۔ یہی ایک بڑا فرق ہے خداوند کے لوگوں میں اور عام لوگوں میں۔ خداوند کے لوگ جو بھی کام کرتے ہیں، خداوندکے حکموں کے مطابق خداوند کی خوشنودی کے لئے کرتے ہیں اور عام لوگ صرف اپنا سوچتے ہیں۔ہم بھی اگر خداوند کے لوگوں میں سے ہیں اور خداوند کی طرف لوٹتے ہوئے ابھی تک ہم اپنے ساتھ بہت سی دنیاوی باتوں کو اپنائے ہوئے ہیں تو وقت ہے کہ ہم ان دنیاوی باتوں کو اپنے سے دور کر سکیں اور ہر وہ کام کرنے کی کوشش کریں جو خداوند کے کلام کے مطابق ہے۔ نحمیاہ 5 باب کو ذہن میں رکھ کر میں نیچے زبور 15 لکھ رہی ہوں جس کو ہم اپنی زندگی کا حصہ بنا سکتے ہیں۔
ائے خداوند تیرے خیمہ میں کون رہیگا؟تیرے کوہِ مقدس پر کون سکونت کریگا؟ وہ جو راستی سے چلتا اور صداقت کا کام کرتا اور دل سے سچ بولتاہے۔ وہ جو اپنی زبان سے بہتان نہیں باندھتا اور اپنے دوست سے بدی نہیں کرتا اور اپنے ہمسایہ کی بدنامی نہیں سنتا۔ وہ جسکی نظر میں رذیل آدمی حقیر ہے پر جو خداوند سے ڈرتے ہیں انکی عزت کرتا ہے۔ وہ جو قسم کھا کر بدلتا نہیں خواہ نقصان ہی اٹھائے۔ وہ جو اپنا روپیہ سود پر نہیں دیتا اور بے گناہ کے خلاف رشوت نہیں لیتا۔ ایسے کام کرنے والا کبھی جنبش نہ کھائیگا۔
اگلی دفعہ ہم نحمیاہ 6 باب کا مطالعہ کریں گے۔ میری خداوند سے دعا ہے کہ آپ اسکےان لوگوں میں شمار ہوسکیں جو کبھی جنبش نہیں کھاتے، یشوعا کے نام میں۔ آمین