پچھلے حصے میں ہم نے نحمیاہ کے 3 باب کی پہلی چند آیات کا مطالعہ کیا تھا۔ آج ہم نحمیاہ 3:6 کی آیت سے مطالعہ شروع کریں گے۔ اس سے پیشتر کے ہم اسکو پڑھیں وہ جو کہ سوچ رہے ہیں کہ آخر کیا کرنا ہے ان پھاٹکوں کی تفصیل میں جا کر، اس آیت پر غور کریں (زبور 48:12 سے 14)؛
صیون کے گرد پھرو اور اسکا طواف کرو۔ اسکے برجوں کو گنو اسکی شہر پناہ کو خود دیکھ لو۔ اسکے محلوں پر غور کرو تاکہ تم آنے والی نسل کو اسکی خبر دے سکو۔ کیونکہ یہی خدا ابدالآباد ہمارا خدا ہے یہی موت تک ہمارا ہادی رہیگا۔
یہودی دانشور کہتے ہیں کہ توریت کے 70 چہرے ہیں۔ مطلب کے آپ کلام کو مختلف پہلوؤں سے دیکھ سکتے ہیں اور پھر بھی ہر بار کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ملے گا۔ ہم ان پھاٹکوں کا مختصر سا روحانی جائزہ لے رہے ہیں۔ ہم نے پچھلے حصے میں بھیڑ پھاٹک اور مچھلی پھاٹک کا مختصر مطالعہ کیا تھا۔ ہماری آج کی آیت پرانے پھاٹک کی مرمت کے کام سے شروع ہوتی ہے۔ علما کہتے ہیں کہ یرمیاہ39:3 میں جس "درمیانی پھاٹک” کا ذکر کیا گیا ہے وہ یہی پرانا پھاٹک ہے۔ بعض علما کے خیال میں جب کسدیوں نے یروشلیم پر حملہ کیا تھا تو شاید یہ پھاٹک مکمل تباہ ہونے سے بچ گیا تھا تبھی اسے پرانا پھاٹک کہا گیا ہے۔ اس پھاٹک کو بنانے والوں میں ہمیں سناروں اور عطاروں کا ذکر بھی ملتا ہے۔ میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ یہوداہ کے گھرانے نے مل کر فصیل کی مرمت کا کام شروع کیا تھا۔ تمام لوگ اس کام میں مہارت نہیں رکھتے تھے مگر پھر بھی انھوں نے اپنے آپ کو خداوند کے اس کام کے لئے مخصوص کیا۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ ہمیں تو یہ کام کرنا نہیں آتا ہم کیسے اسے انجام دیں؟ چونکہ ہم روحانی معنی پر غور کر رہے ہیں اسلئے سوچیں کہ کلام ہمارے بارے میں کیا کہتا ہے۔ 2 کرنتھیوں 5:17 میں لکھا ہے؛
اسلئے اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلوق ہے۔ پرانی چیزیں جاتی رہیں۔ دیکھو وہ نئی ہوگئیں۔
آپ نے اگر یشوعا کو اپنا مسیحا مانا ہے تو آپ اس میں ایک نئے مخلوق بن گئے ہیں۔ بے شک ہمارے اس پرانے پھاٹک کی طرح آپ کا جسم وہی ہو مگر خداوند آپ کو اپنی روح کے وسیلے سے ایک نیا شخص بنا رہے ہیں۔ خداوند نے آپ کی زندگی میں بھی "مرمت” کا کام شروع کیا ہوا ہے۔ آپ اپنی پرانی عادتوں کو چھوڑ کر کلام کی باتوں کو اپنا رہے ہیں۔ چونکہ آپ خداوند میں ہیں تو ہوسکتا ہے کہ خداوند آپ کو اس کام کے لئے استعمال کریں جو آپ نے پہلے کبھی نہ کیا ہو اور آپ کو اس میں مہارت حاصل نہ ہو مگر آپ کو اس کام کو انجام دینے کے لئے اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ نہیں کرنا بلکہ خداوند کے بازؤں پر بھروسہ کرنا ہے۔ وہی خداوند جس نے اس دنیا کی بنیاد حکمت سے رکھی ہر کام کو صحیح طور پر انجام دینا جانتے ہیں۔ وہی آپ کی مدد کریں گے ویسے ہی جیسے کہ خداوند نے یہوداہ کے گھرانے کی مدد کی اور انھیں ان تمام چیزوں سے نوازا جن کی انکو ضرورت پڑ سکتی تھی۔
ایک اور بات جو میرے ذہن میں آ رہی ہے وہ یہ ہے کہ یرمیاہ 6:16 میں یوں لکھا ہے؛
خداوند یوں فرماتا ہے کہ راستوں پر کھڑے ہو اور دیکھو اور پرانے راستوں کی بابت پوچھو کہ اچھی راہ کہاں ہے؟ اسی پر چلو اور تمہاری جان راحت پائے گی پر انھوں نے کہا ہم اس پر نہ چلینگے۔
اگر آپ خداوند میں ایک نئی مخلوق بنے ہیں اور اپنی جان کے لئے راحت کی تلاش میں ہیں تو وہ آپ کو کہیں اور نہیں ملے گی سوائے اسکے کہ آپ اس راستے کی طرف چلیں جو کہ واپس خداوند کی طرف لے کر جاتا ہے۔ میں اس اوپر دی ہوئی آیت کی عبرانی تفسیر میں نہیں جاؤنگی مگر یہ ضرور کہونگی کہ اچھی راہ سے مراد وہی تنگ دروازہ ہے اور وہی تنگ راہ ہے جسکے بارے میں یشوعا نے کہا تھا کہ اس سے داخل ہو۔ بعض پرانی یادیں انسان کو پستی کی طرف دھکیلتی ہیں اور بعض اچھی باتیں اسکی افزایش کے لئے اچھی ہیں۔ ان باتوں پر آپ کو غور کرنا ہے کہ کونسی پرانی باتیں آپ کے لئے اچھی ہیں اور کونسی بری۔
پرانے پھاٹک کے بعد ہم وادی کے پھاٹک کی مرمت کا پڑھتے ہیں ۔ وادی سے متعلق میرے ذہن میں یوایل 3:14 کی یہ آیت آئی؛
گروہ پر گروہ انفصال کی وادی میں ہے کیونکہ خداوند کا دن انفصال کی وادی میں آ پہنچا۔
اور یسعیاہ 22:5 میں لکھا ہے؛
کیونکہ خداوند رب الافواج کی طرف سے رویا کی وادی میں یہ دکھ اور پامالی و بیقراری اور دیواروں کو گرانے اور پہاڑوں تک فریاد پہنچانے کا دن ہے۔
ہم ان آیات کو سیاق و سباق کے حوالے سے ابھی نہیں پڑھیں گے۔ وادی کے پھاٹک جس روحانی وادی کی طرف کھلتے ہونگے اس میں سے ہر ایک انسان کو گذرنا ہے۔ وادی انسانی زندگی کے اتار چڑھاؤ کو ظاہر کرتی ہے۔ کبھی انسان دکھ و تکلیف سے گذرتا ہے اور کبھی انسان موت کے سایہ کی وادی سے گذرتا ہے مگر خدا کے پہاڑ پر چڑھنے کے لئے وادی سے گذرنا لازم ہے۔ جب اضحاق کے نوکروں نے وادی کو کھودنا شروع کیا تھا تو انھیں پانی کا سوتا ملا تھا(پیدایش 26)۔ وادی سے گذرنا، زندگی بخش پانی کو حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کرنا بالآخر برومندگی کا باعث بن جاتا ہے۔
کلام ہمیں صرف سننے کی حد تک نہیں رہنے دینا چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ ہمیں اسے اپنی زندگیوں میں اپنائیں ۔ علم بیکار ہے اگر اعمال ساتھ نہیں(یعقوب 1)۔ کوئی بھی مسیحی صرف بائبل پڑھ کر یا دن میں ایک دو بار دعا کر کے خدا کے قریب نہیں آ جاتا۔ خداوند کی قربت حاصل کرنے کے لئے اپنے اندر حلیمی پیدا کرنا لازم ہے تاکہ کلام کے مطابق زندگی بدلی جا سکے۔
وادی کے پھاٹک کے بعد ہمیں کوڑے کے پھاٹک کا ذکر ملتا ہے۔یروشلیم شہر کا کوڑا اسی پھاٹک سے باہر نکالا جاتا تھا تاکہ جلایا جا سکے۔یشوعا نے کہا (متی 15:11 اور 18 سے 20 )
جو چیز منہ میں جاتی ہے وہ آدمی کو ناپاک نہیں کرتی مگر جو منہ سے نکلتی ہے وہی آدمی کو ناپاک کرتی ہے۔
مگر جو باتیں منہ سے نکلتی ہیں وہ دل سے نکلتی ہیں اور وہی آدمی کو ناپاک کرتی ہیں۔ کیونکہ برے خیال۔ خونریزیاں۔ زناکاریاں۔ حرامکاریاں۔ چوریاں جھوٹی گواہیاں۔ بدگویئاں دل سے ہی نکلتی ہیں۔ یہی باتیں ہیں جو آدمی کو ناپاک کرتی ہیں مگر بغیر ہاتھ دھوئے کھانا کھانا آدمی کو ناپاک نہیں کرتا۔
میرے خیال سے آپ سمجھ گئے ہونگے کہ میں کیا کہنے لگی ہوں کہ ہمیں اپنے اندر سے کوڑے کو باہر نکال پھینکنا ہے۔ حیرانگی کی بات ہے کہ ہم اپنے گھر کے اندر کے کوڑے کو تو اچھی طرح سے جانتے اور پہچانتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ گھر صاف نظر آئے، کوڑا گھر کے اندر نہ ہو تاکہ بدبو نہ پیدا ہو مگر اپنی جسمانی حالت کو نہیں دیکھتے کہ ہم نے اپنے خدا کے مسکن میں کیا کوڑا جمع کیا ہوا ہے جو کہ شاید خداوند کے لئے بہت بدبو کا باعث بنا ہوا ہے۔ ہماری زندگی شاید اسکے سامنے خوش گوار خوشبو کی مانند نہیں ہے۔ ہم میں سے کتنے ہیں جو کہ کہہ سکتے ہیں ہماری زندگی خوشبو اور مقبول قربانی ہیں جو خداکو پسندیدہ ہے (فلپیوں 4:18)۔
اگلی دفعہ ہم نحمیاہ کے باقی مطالعے کو جاری رکھیں گے۔ میری خداوند سے دعا ہے کہ آپ ان باتوں پر ضرور غور کریں گے اور میری طرح اپنی پوری کوشش کریں گے کہ اپنی زندگی کو خداوند کے حضور خوشبو اور مقبول قربانی کے طور پر پیش کر سکیں۔ یشوعا کے نام میں آمین۔