نحمیاہ کے پچھلے مطالعہ میں ہم نے پڑھا تھا کہ نحمیاہ یروشلیم شہر کی فصیل کا اور اسکے پھاٹکوں کا سن کر رویا تھا۔ نحمیاہ غیر قوموں میں رہتا تھا مگر اسے اپنے آبائی ملک سے محبت تھی۔ میں نے پچھلے مطالعہ میں ذکر کیا تھا کہ عبرانی کیلنڈر تموز 17 روزہ کا دن ہے۔ گو کہ اس سال یہ جولائی 23 کو تھا مگر روزہ جولائی 24 کو تھا کیونکہ جولائی 23 سبت کا دن تھا۔ تموز 17 سے 9 آب تک 21 دن بنتے ہیں اور یہودی/میسیانک یہودی ان دنوں میں ماتم کی حالت میں ہوتے ہیں۔ ابھی کلام کے کیلنڈر کےمطابق ماتم کے دن چل رہے ہیں۔ شادیوں کے فنکشن یا پھر کسی بھی قسم کی خوشی کے فنکشن کو منانے سے پرہیز کیا جاتا ہے۔ لوگ سادہ کھانا کھاتے ہیں۔ نئے کپڑے خریدنے سے گریز کیا جاتا ہے اور عورتیں بناؤ سنگار سے پرہیز کرتی ہیں۔ خداوند کی ہیکل کو زیادہ سے زیادہ جاننے کی کوشش کی جاتی ہے۔ میں نے عزرا کے مطالعے میں صرف یہی بتایا تھا کہ عزرا نے ہیکل میں خداوند کی ہیکل میں خدمت کیسے کرنی ہے اور شریعت کی باتوں کو نافذ کرنے کا سکھایا تھا۔ اسکے بارے میں ہم نے زیادہ تفصیل میں نہیں پڑھا تھا۔ امید ہے کہ جب کبھی خداوند نے مجھے موقع دیا تو ان باتوں کو تفصیل میں بھی بیان کرنے کی کوشش کرونگی۔
نحمیاہ کی دعا باقی کلام میں درج تمام دعاؤں کی طرح خداوند کی بڑائی اور اسکی حمد و ثنا سے شروع ہوتی ہے۔ اس نے خداوند کو عظیم و مہیب خدا پکارا اور خداوند کو اسکے عہد کی ایک طرح سے یاد دہانی کروائی۔ یہ مطلب نہیں تھا کہ خداوند کو بنی اسرائیل سے کیا اپنا عہد نہیں یاد تھا۔ نحمیاہ 1:5 سے 11میں نحمیاہ نے اس طرح سے کہا؛
اور کہا ائے خداوند آسمان کے خداخدایِ عظیم و مہیب جو انکے ساتھ جو تجھ سے محبت رکھتے اور تیرے حکموں کو مانتے ہیں عہد و فضل کو قائم رکھتا ہے میں تیری منت کرتا ہوں۔ کہ تو کان لگا اور اپنی آنکھیں کھلی رکھ تاکہ تو اپنے بندہ کی اس دعا کو سنے جو میں اب رات دن تیرے حضور تیرے بندوں بنی اسرائیل کے لئے کرتا ہوں اور بنی اسرائیل کی خطاؤں کو جو ہم نے تیرے برخلاف کیں مان لیتا ہوں اور میں اور میرے آبائی خاندان دونوں نے گناہ کیا ہے۔ ہم نے تیرے خلاف بڑی بدی کی ہے اور ان حکموں اور آئین اور فرمانوں کو جو تو نے اپنے بندہ موسیٰ کو فرمایا کہ اگر تم نافرمانی کرو تو میں تم کو قوموں میں تتربتر کرونگا۔ پر اگر تم میری طرف پھر کر میرے حکموں کو مانو اور ان پر عمل کرو تو گو تمہارے آوارہ گرد آسمان کے کناروں پر بھی ہوں میں ان کو وہاں سے اکٹھا کر کے اس مقام میں پہنچاؤنگا جسے میں نے چن لیا ہے تاکہ اپنا نام وہاں رکھوں۔ وہ تو تیرے بندے اور تیرے لوگ ہیں جنکو تو نے اپنی بڑی قدرت اور قوی ہاتھ سے چھڑایا ہے۔ ائے خداوند! میں تیری منت کرتا ہوں کہ اپنے بندہ کی دعا پر اور اپنے بندوں کی دعا پر جو تیرے نام سے ڈرنا پسند کرتے ہیں کان لگا اور آج میں تیری منت کرتا ہوں اپنے بندہ کو کامیاب کر اور اس شخص کے سامنے اس پر فضل کر (میں تو بادشاہ کا ساقی تھا)۔
یہودی دانشوروں کا کہنا ہے کہ نحمیاہ نے یا عزرا نے جو دعا کا طریقہ اپنایا وہ ویسا تھا جیسے کہ یوم کیپور یعنی یوم کفارہ والے دن کاہن دعا کرتے تھے، یعنی تمام اسرائیل کے گناہ کا اقرار کرنا۔ نحمیاہ نے خداوند کو بنی اسرائیل سے کئے ہوئے عہد یاد دلائے۔ نحمیاہ نے اس بات کا اقرار کیا کہ انھوں نے خداوند کے حکموں کو توڑا ہے تبھی خداوند نے اپنے کہنے کے مطابق انھیں غیر قوموں میں تتر بتر کر دیا ہے۔ نحمیا ہ یا عزرا خداوند کے جن حکموں کو جانتے تھے وہ توریت میں درج تھے۔ نحمیاہ توریت کے حکموں کی نافرمانی کی بات کر رہا تھا۔ استثنا 1 سے 5 میں یوں لکھا ہے؛
اور جب یہ سب باتیں یعنی برکت اور لعنت جنکو میں نے آج تیرے آگے رکھا ہے تجھ پر آئین اور تو ان قوموں کے بیچ جن میں خداوند تیرے خدا نے تجھ کو ہنکا کر پہنچا دیا ہو انکو یاد کرے۔ اور تو اور تیری اولاد دونوں خداوند اپنے خدا کی طرف پھریں اور اسکی سب بات ان سب احکام کے مطابق جو میں آج تجھ کو دیتا ہوں اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان سے مانیں۔ تو خداوند تیرا خدا تیری اسیری کو پلٹ کر تجھ پر رحم کریگا اور پھر کر تجھ کو سب قوموں میں سے جن میں خداوند تیرے خدا نے تجھ کو پراگندہ کیا ہو جمع کریگا۔ اگر تیرے آوارہ گرد دنیا کے انتہائی حصوں میں بھی ہوں تو وہاں سے بھی خداوند تیرا خدا تجھ کو جمع کر کے لے آئیگا۔ اور خداوند تیرا خدا اسی ملک میں تجھ کو لائیگا جس پر تیرے باپ دادا نے قبضہ کیا تھا اور تو اسکو اپنے قبضہ میں لائیگا۔ پھر وہ تجھ سے بھلائی کریگا اور تیرے باپ دادا سے زیادہ تجھ کو بڑھائیگا۔
نحمیاہ کی دعا کے الفاظ ہوبہو کلام کی ان آیات پر تو نہیں تھے مگر توریت میں درج آیات پر ضرور مبنی تھے۔ مجھے نہیں پتہ کہ آپ سادہ سی دعا مانگتے ہیں یا کہ کلام کی آیات کو ذہن کو میں رکھ کر دعائیں مانگتے ہیں۔ میں کلام کی آیات کا استعمال اپنی دعا میں کرتی ہوں اسلئے جانتی ہوں کہ دعا کرتے ہوئے میرے اپنے الفاظ ہوبہو ویسے نہیں ہوتے ہیں مگر اکثر نحمیاہ کی دعا کی طرح کلام کی آیات سے ہوتے ہیں۔ نحمیاہ کی دعا استثنا 30 کی پہلی پانچ آیات اور استثنا 12:11 میں سے بھی تھی۔ استثنا 12:11 میں لکھا ہے؛
تو وہاں جس جگہ کو خداوند تمہارا خدا اپنے نام کے مسکن کے لئے چن لے وہیں تم یہ سب کچھ جسکا میں تم کو حکم دیتا ہوں لے جایا کرنا یعنی اپنی سوختنی قربانیاں اور اپنے ذبیحے اور اپنی دہ یکیاں اور اپنے ہاتھ کے اٹھائے ہوئے ہدئے اور اپنی خاص نذر کی چیزیں جنکی منت تم نے خداوند کے لئے مانی ہو۔
خداوند نے یروشلیم کو اپنے نام کے مسکن کے لئے چنا تھا۔ نحمیاہ نے اپنی دعا میں اس بات کا ذکر کیا تھا۔ میں نے اوپر دو حوالے استثنا کی کتاب سے دیئے ہیں ۔ ان کے ساتھ ساتھ چند اور حوالے بھی لکھ رہی ہوں۔ ان حوالوں کو نحمیاہ کی دعا میں دیکھیں اور سوچیں کہ نحمیاہ کو توریت کی تعلیم کا علم تھا اور اس کی دعا کس طرح سے آیات پر مبنی تھی۔ استثنا 7:8 میں ایسے لکھا ہے؛
بلکہ چونکہ خداوند کو تم سے محبت ہے اور وہ اس قسم کو جو اس نے تمہارے باپ دادا سے کھائی پورا کرنا چاہتا تھا اسلئے خداوند تمکو اپنے زورآور ہاتھ سے نکال لایا اور غلامی کے گھر یعنی مصر کے بادشاہ فرعون سے تمکو مخلصی بخشی۔
استثنا 9:26 اور 29 میں موسیٰ نے یوں کہا؛
اور میں نے خداوند سے یہ دعا کی کہ ائے خداوند خدا! تو اپنی قوم اور اپنی میراث کے لوگوں کو جنکو تو نے اپنی قدرت سے نجات بخشی اور جنکو تو زور آور ہاتھ سے مصر سے نکال لایا ہلاک نہ کر۔
آخر یہ لوگ تیری قوم اور تیری میراث ہیں جنکوتو اپنے بڑےزور اور بلند بازو سے نکال لایا ہے۔
نحمیاہ کی یہ دعا اسکے روزہ اور ماتم کے دنوں میں دن رات کی دعا تھی۔ نحمیاہ نے بادشاہ کے سامنے فضل کی دعا بھی مانگی تھی ۔ میں نے پہلے بتایا تھا کہ ساقی کا رتبہ اہم رتبہ تھا۔ زبور 106:46 میں لکھا ہے؛
اس نے انکو اسیر کرنے والوں کے دل میں انکے لئے رحم ڈالا۔
کلام ہمیں اختیار والوں کے لئے دعا کرنے کا کہتا ہے تاکہ ہم امن سے رہ سکیں۔ نحمیاہ کی دعا کا نتیجہ مثبت تھا۔ عزرا 9:9 میں بھی ہمیں اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ خداوند نے اپنے لوگوں کی خاطر بادشاہوں کے دلوں میں رحم ڈالا جسکی بنا پر خداوند کے گھر کی تعمیر کا کام مکمل ہوا تھا۔ اب نحمیاہ کی دعا یہی تھی کہ خداوند ایک بار پھر سے بادشاہ کے دل میں رحم ڈالے۔
جب جب ہم خداوند کے حکموں کی نافرمانی کرتے ہیں ہم پر مصیبتیں آتی ہیں۔ مگر جب ہم خداوند کی طرف لوٹتے ہیں تو وہ ہم پر اپنی برکتوں کے دروازے کھولتے ہیں۔ یہ بات میں پہلے بھی دوسرے آرٹیکلز میں بیان کر چکی ہوں مگر نحمیاہ کی کتاب میں ہمیں ایک بار پھر سے یہی سبق سیکھنے کو ملتا ہے۔ خداوند کی طرف لوٹنے سے مراد یہ نہیں کہ ہم اسکے سامنے اپنی شرطیں رکھیں بلکہ اسکا مطلب یہ ہے کہ ہم اسکی شرائط کے مطابق اپنی زندگی بدلیں۔اگر آپ خود کسی ایسی مصیبت میں ہیں جسکا حل آپ کو سمجھ میں نہیں آرہا تو کلام میں سے آیات کو اپنی دعا بنائیں۔ خداوند سے ان لوگوں کے لئے دعا مانگیں جن کے تلے آپ کام کرتے ہیں یا پھر اگر آپ کا رابطہ اکثر غیر قوم کے لوگوں کے ساتھ رہتا ہے تو خداوند سے دعا مانگیں کہ خداوند انکے دلوں میں آپ کے لئے رحم ڈالے تاکہ آپ امن و اطمینان کی زندگی گذار سکیں۔
ہم اگلی دفعہ نحمیاہ کے 2 باب کا مطالعہ کریں گے۔ میری آپ کے لئے یہی دعا ہے کہ خداوند آپ کے دشمنوں کے دلوں میں آپ کے لئے رحم ڈالے اور غیر قوموں کے درمیان آپ کو سرفراز کریں، یشوعا کے نام میں۔ آمین۔