آپ کلام میں سے نحمیاہ کا پہلا باب مکمل خود پڑھیں۔
اگر آپ نے میرے عزرا کے مطالعے سے متعلق آرٹیکلز نہیں پڑھے تو نحمیاہ کا مطالعہ شروع کرنے سے پہلے انکو پڑھیں کیونکہ میں نحمیاہ کی کتاب کا مختصر سا تعارف عزرا کی کتاب کے مطالعے میں کروا چکی ہوں۔
عزرا کی کتاب میں خدا کے گھر کو دوبارہ سے تعمیر کرنے کی کہانی ہے مگر نحمیاہ کی کتاب میں ہمیں یروشلیم شہر کی دیوار کی تعمیرکی کہانی پڑھنے کو ملے گی۔ روحانی طور پر دیکھا جائے تو کوئی بھی نیا ایماندار جس نے خداوند کو اپنا نجات دہندہ مانا ہو اسکو اپنے آپ کو پہلے "خداوند کا مقدس” بنانے کے لئے تیار کرنا ہے پھر اسے اپنی دیوار کھڑی کرنی ہے تاکہ دشمن آسانی سے "مقدس” کو ڈھانے کی نہ کرے۔ نحمیاہ کی کتاب میں ہم کچھ اہم باتوں کو سیکھیں گے۔
"نحمیاہ بن حکلیاہ کا کلام "، ان الفاظ سے نحمیاہ کی کتاب کا پہلا باب شروع ہوتا ہے۔ ہمں اس سے زیادہ نحمیاہ کے بارے میں تفصیل نہیں بتائی گئی مگر اسی سے اس بات کا اشارہ مل جاتا ہے کہ یہ نحمیاہ چند ان اور کلام میں درج "نحمیاہ” سے فرق ہے کیونکہ یہ نحمیاہ بن حکلیاہ ہے۔ باقی جو تھوڑا بہت ہمیں نحمیاہ کے بارے میں اس کتاب سے پتہ چلتا ہے وہ یہ ہے کہ نحمیاہ ایک یہودی تھا جو کہ قصر سوسن میں تھا۔ وہ ارتخششتا بادشاہ کا شاہی نوکر تھا۔ اسکا رتبہ کوئی چھوٹا رتبہ نہیں تھا ۔ وہ بادشاہ کے قریب ترین لوگوں میں سے تھا۔ اسکا کام بادشاہ کو مے پیش کرنا تھا۔ ہر بار مے پیش کرنے سے پہلے مے پیش کرنے والا مے میں سے ایک گھونٹ بھرتا تھا۔ بادشاہوں کے بہت سے دشمن بھی تھے جن کے لئے بادشاہ کو زہر دے کرنا مارنا آسان کام تھا۔ تبھی مے پیش کرنے والا، مے کا گھونٹ بھرتا تھا کہ کہیں مے میں زہر تو نہیں ہے۔ مے پیش کرنے والا ہر روز اور ہر بار اپنی جان کو داؤ پر لگاتا تھا۔
بیسویں برس کسلیو کے مہینے میں جب نحمیاہ قصر سوسن میں تھا۔ یہاں نحمیاہ کے بیسویں برس کی بات نہیں ہو رہی ہے بلکہ بادشاہ کی بادشاہت کے بیسویں برس کی بات چل رہی ہے۔ میں ایک اور اہم بات جو آپ کو بتاتی چلوں وہ یہ ہے کہ ہمیں اکثر کلام میں ایسے ہی الفاظ ملتے ہیں جیسے کہ نحمیاہ 1:2 میں درج "بیسویں برس” جو کہ عموماً بادشاہ کی بادشاہی کے دور کا ذکر ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایسے ہی کسی کے سوال کے جواب میں میں نے یہ بات واضح کی تھی کہ یہ کلام کی غلطی نہیں ہے بلکہ یہاں پر بادشاہ کی بادشاہت کے دور کا ذکر ہے نہ کہ عمر کا۔ ہوسکتا ہے آپ کو اس بات کی ابھی سمجھ نہ آئے کہ میں کیا کہنا چاہ رہی ہوں، مگر خیر ہم واپس نحمیاہ کے مطالعے کی طرف آتے ہیں۔ کسلیو عبرانی کلام کے کیلنڈر کے مطابق نواں مہینہ ہے جو کہ ہمارے آج کے کیلنڈر کے مطابق نومبر یا دسمبر کا مہینہ بنتا ہے۔ حنانی جو کہ نحمیاہ کے بھائیوں میں سے ایک ہے وہ اور چند اور آدمی یہوداہ سے آئے۔ نحمیاہ نے ان سے یروشلیم کے بارے میں پوچھا۔ انکے کہنے کے مطابق وہ سب جو کہ اسیری سے نکل کر یروشلیم میں رہ رہے تھے بہت مصیبت اور ذلت میں پڑے ہوئے تھے کیونکہ یروشلیم کی فصیل ٹوٹی ہوئی اور اسکے پھاٹک آگ سے جلے ہوئے تھے۔ جس شہر کی دیواریں ٹوٹی ہوئی ہوں اسکی اہمیت اس زمانے میں بہت کم ہوتی تھی کیونکہ شہر کی دیوار شہر کی حدود کو اور اس کی شان و شوکت کو بیان کرتی تھی۔ ٹوٹی دیوار اسکی خستہ حالت کو بیان کرتی تھی۔ پھاٹک کا تو آپ کو بھی علم ہے کہ کس لئے ہوتے تھے۔ پھاٹکوں کا نہ ہونا اور دیوار کا اسطرح سے ٹوٹے ہوئے ہونے کا مطلب تھا کہ انھیں کسی قسم کا تحفظ نہیں حاصل تھا۔ کوئی بھی ان پر کبھی بھی حملہ کر سکتا تھا۔ ہمیں عزرا 4:12 سے ثبوت ملتا ہے کہ یہوداہ کے گھرانے نے ضرور کوشش کی ہو گی کہ دیواروں کو تعمیر کر سکیں مگر کام مکمل نہیں ہوا تھا۔ فصیل ابھی بھی ٹوٹی ہوئی تھی۔
ویسے ہی جیسے کہ ٹوٹی دیوار اور پھاٹکوں کی غیر موجودگی شہر کے باسیوں کے لئے خطرہ کا باعث تھی ایسے ہی ایک ایماندار کے لئے جس کی روحانی دیوار اور پھاٹک خستہ حالت میں ہوں خطرے کا باعث ہے۔ ایماندار کے لئے اپنی حدود کو قائم کرنا اور اپنے بدن کے "پھاٹکوں” کو تعمیر کرنا لازم ہے۔ ایماندار کو کلام کی روح سے علم ہونا چاہیے کہ دشمن اپنی پوری کوشش کریگا کہ اس روحانی دیوار توڑ سکے تاکہ حدود کو پار کر کے خداوند کے اس مقدس کو ڈھایا جا سکے جو خداوند نے ایماندار کی زندگی میں قائم کیا ہے۔ ایماندار خداوند کے حکموں کے خلاف جس جس چیز کو اپنے بدن کے پھاٹکوں سے اندر جانے کی اجازت دے گا وہ اسکے لئے خطرے کا باعث بن جائیگا۔ امثال 25:28 میں لکھا ہے؛
جو اپنے نفس پر ضابط نہیں وہ بے فصیل اور مسمار شدہ شہر کی مانند ہے۔
اپنے لئے کلام کی روح سے حدود قائم کریں کیونکہ آپ اپنی روح کو خداوند کے کلام کے موافق ہی تابع کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کو اپنے نفس پر کوئی کنٹرول نہیں تو آپ کا حال جلد ہی مسمار شدہ شہر کی مانند ہوجائے گا جو کہ کسی بھی طرح سے خداوند کی خوشحالی ، عظم یا شان و شوکت کا ثبوت نہیں ہوگا۔
خداوند سے پیار کرنے والے ہر اس شے کو عزیز رکھتے ہیں جو خداوند کو عزیز ہے اور یروشلیم شہر خداوند کو عزیز تھا، ہے اور ہمیشہ رہیگا تبھی زبور 122:6 میں لکھا ہے؛
یروشلیم کی سلامتی کی دعا کرو۔ وہ جو تجھ سے محبت رکھتے ہیں اقبالمند ہونگے۔
نحمیاہ ، یروشلیم شہر کی حالت اور اپنے لوگوں کی حالت کا سن کر رویا۔ اس نے کئی دن تک ماتم کیا اور روزہ رکھا اور آسمان کے خدا کے حضور دعا کی۔ میں نے ملک اسرائیل اور بنی اسرائیل کے لئے دعا تو بہت دفعہ کی ہے مگر مجھے افسوس ہے کہ آج تک میں نے سوچا نہیں کہ میں نے کبھی بھی خاص یروشلیم کے نحمیاہ کی طرح روزہ نہیں رکھا۔ خداوند نے نحمیاہ کو اسیری کے ملک میں بھی اقبالمندی بخشی ہوئی تھی اور اسکی وجہ شاید یہی تھی کہ اسے ہر وہ شے عزیز تھی جو خداوند کو عزیز تھی۔ زبور 137:5 سے 6 میں لکھا ہے؛
ائے یروشلیم! اگر میں تجھے بھولوں تو میرا دہنا ہات اپنا ہنر بھول جائے۔ اگر میں تجھے یاد نہ رکھوں اگر میں یروشلیم کو اپنی بڑی سے بڑی خوشی پر ترجیح نہ دوں تو میری زبان میرے تالو سے چپک جائے۔
میں نے نحمیاہ کے اس مطالعے کو انجانے میں عبرانی کیلنڈر کے چوتھے مہینے میں شروع کیا ہے جو کہ تموز کا مہینہ ہے۔ تموز کی 17 تاریخ سے کلام کی چند اہم کہانیاں جڑی ہوئی ہیں۔ اس تاریخ کو موسیٰ نبی نے غصے سے پتھر کی وہ لوحیں توڑ دی تھیں جن پر خداوند کے احکامات درج تھے۔ اسی تاریخ کو نہ صرف پہلی ہیکل بلکہ دوسری ہیکل بھی تباہ ہوئی تھی ۔ 9 آب کو ہیکل کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا تھا۔ اسی تاریخ کو یروشلیم کی دیوار رخنہ ہوئی تھی۔ یہودی اور میسیانک یہودی لوگ اس تاریخ کو روزہ رکھتے ہیں۔ اس سال یہ روزہ جولائی 24 کو پڑ رہا ہے۔ سورج کے طلوع ہونے سے رات پڑنے تک روزہ رکھا جاتا ہے۔ جو روزہ نہیں رکھ سکتے وہ سادہ کھانا کھاتے ہیں ۔اس دن خاص دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ زکریاہ 8:19 میں ہمیں اس روزے کا ذکر ملتا ہے۔ اس میں لکھا ہے؛
کہ رب الافواج یوں فرماتا ہے کہ چوتھے اور پانچویں اور ساتویں اور دسویں مہینے کا روزہ بنی یہوداہ کے لئے خوشی اور خرمی کا دن اور شادمانی کی عید ہوگا۔ اسلئے تم سچائی اور سلامتی کو عزیز رکھو۔
زکریاہ نبی کی ان پیشن گوئیوں کا ابھی پورا ہونا باقی ہے۔ اگر پورا ہونا باقی ہے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ ہمیں یہ روزہ رکھنا چاہیے۔ میں نے اس سے پہلے کبھی یروشلیم شہر کو خاص اپنے ذہن میں رکھ کر روزہ نہیں رکھا۔ میری کوشش ہوگی کہ جب اب کی دفعہ روزہ رکھوں تو خاص یروشلیم شہر کو نحمیاہ کی طرح اپنے دل میں جگہ دے سکوں۔
آپ کو میری اس بات سے اندازہ ہو گیا ہوگا کہ میں بھی ابھی تک کلام کی بہت سی باتوں کو سیکھ رہی ہوں۔ آپ کے ساتھ میں وہ باتیں شئیر کرتی ہوں جو کہ میں جانتی ہوں یا سیکھ رہی ہوں۔ شروع کے ان سالوں میں جب میں ان باتوں کو کلام کی روح کے مطابق سیکھ رہی تھی تو چونکہ میں اکیلی تھی اور عبرانی کیلنڈر کا علم بھی کم تھا، تو اکثر ان تاریخوں کو بھول جاتی تھی۔ اب میں نے اپنے فون میں عبرانی کیلنڈر انسٹال کر لیا ہے ۔ میں جانتی ہوں کہ آپ میں سے بہت سوں کے لئے یہ باتیں نئی ہیں اور شاید آپ کا دل نہ مانے کہ آپ یہ روزہ رکھیں یا عبرانی کیلنڈر کے مطابق چلیں۔ یہ آپ کی اپنی مرضی ہے۔ میں صرف یہ کہنا چاہونگی کہ خداوند کا کلام آپ کے کیلنڈر کے مطابق تاریخوں یا واقعات کو بیان نہیں کر رہا بلکہ خدا کے دئے ہوئے کیلنڈر کے مطابق ہے۔ میری خداوند سے دعا رہے گی کہ خداوند کے لوگ اسکے کلام کے کیلنڈر کے مطابق چل سکیں کیونکہ یشوعا کی دوسری آمد کلام کے کیلنڈر کے مطابق ہونی ہے۔
ہم اگلی دفعہ اپنے نحمیاہ کے مطالعے کو جاری رکھیں گے۔ خداوند آپ کے ساتھ ہوں اور آپ کو ہمت بخشیں کہ آپ چوتھے مہینے کے اس روزہ کو رکھ سکیں۔ یشوعا کے نام میں۔ آمین