آپ کلام میں سے خروج کا 23 باب مکمل پڑھیں۔
ابھی تک ہم نے جتنے بھی احکامات پڑھے ہیں میرا نہیں خیال کہ وہ کسی بھی طرح سے ایسے ہیں جن پر ہم عمل نہ کر سکیں۔ ہمارے خروج کا 23 باب بھی کچھ ایسے ہی احکامات بیان کرتا ہے جن پر عمل کر کے ہم خداوند کی برکتوں کے حقدار بن سکتے ہیں۔ جھوٹی بات کی گواہی نہ دینا اور ناراست گواہ نہ بننا۔۔۔۔ پہلے تو میں سوچ رہی تھی کہ ان سادہ سے حکموں کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان باتوں کا علم تو سبھی کو ہے مگر پھر خیال آیا کہ بعض باتیں انسان تب تک نہیں سمجھ سکتا جب تک کہ وہ کسی اور سے اسکی تفسیر نہ سنے۔ خروج 23:1 میں لکھا ہے؛
تو جھوٹی بات نہ پھیلانا اور ناراست گواہ ہونے کے لئے شریروں کا ساتھ نہ دینا۔
میں نے جب سے آرٹیکل لکھنا شروع کئے ہیں تب سے کوئی نہ کوئی مجھ پر الزام لگاتا آ رہا ہے کہ میں کوئی نیا فرقہ بنا رہی ہوں اور مسیحیوں کو گمراہ کر رہی ہوں۔ میں نے کرسمس اور ایسٹر پر آرٹیکل لکھے تھے اور کلام کے مطابق انکی سچائی بیان کی تھی۔ اگر آپ پادریوں سے پوچھیں گے کہ کیا یشوعا کی پیدائش 25 دسمبر کو ہوئی تھی تو زیادہ تر کا جواب یہی ہوگا کہ نہیں۔ کچھ اس بات کا اصرار کریں گے کہ چونکہ چرچ فادرز کی یسوع کی پیدائش کے بارے میں اپنی گواہی موجود ہے اسلئے یہی صحیح دن ہے۔ جن کو علم ہے کہ کلام کے مطابق 25 دسمبر سچ نہیں انکا کرسمس منانے کی وجہ یہ ہے کہ "آخر یسوع پیدا تو ہوا تھا نا! کیا ہوا اگر ہم اسکی پیدایش کا دن 25 دسمبر کو مناتے ہیں”۔ یونہی اگر ایسٹر کے بارے میں دیکھا جائے تو وہ بھی سچائی سے ہٹ کر ہے۔ یشوعا صلیب پر عید فسح والے دن مصلوب ہوا اور تین بعد مردوں میں سے پہلے پھل کے طورجی اٹھا ۔ کیا عید فسح ہر بار "مبارک جمعہ” کو پڑتی ہے؟ کیا آپ ایسا کر کے جھوٹی بات نہیں پھیلا رہے؟ کیا آپ ناراست گواہ نہیں ٹھہرے؟ نئے عہد نامے میں کہیں نہیں لکھا کہ کرسمس مناؤ یا ایسٹر مناؤ۔ اور پھر دوسروں کو اس بات کی منادی کرنا کہ یشوعا کی پیدایش 25 دسمبر کو ہوئی یا یشوعا مردوں میں سے ایسٹر والے دن جی اٹھا، جھوٹی بات پھیلانا ہے اور ناراست گواہ بننا ہے۔ چونکہ زیادہ تر لوگ کرسمس اور ایسٹر مناتے ہیں اسلئے ” بھیڑ کی پیروی کی جاتی ہے” جس سے خروج 23:2 منع کرتا ہے۔ اب کی بار جب آپ کرسمس یا ایسٹر منائیں تو ایک بار ضرور سوچیں کیا آپ سچائی کی منادی کر رہے ہیں یا پھر جھوٹے گواہ بن رہے ہیں۔
میں جب اپنے بڑے بیٹے کے ساتھ پاکستان گئی ہوئی تھی تو ایک دن میں پھل خریدنے کے لئے کسی جگہ رُکی بہت سے پھل بیچنے والے اپنی ریڑھی لگائے بیٹھے تھے۔ میں پھل دیکھ رہی تھی اور میرا بیٹا ریڑھی کھینچنے والے گدھے پر نظر لگائے ہوئے تھا۔اسکے لئے یہ ایک انوکھی بات تھی۔ میری نظر جب گدھے پر پڑی ۔گدھے کی حالت سے ہی پتہ چل رہا تھا کہ وہ صبح سے بوجھ اٹھائے کھڑا ہے اور اب تھکن سے بحال ہے۔ اسکی صحت بھی خستہ ہی لگ رہی تھی۔ وہاں پر ایک ہی پھل فروخت کرنے والا نہیں تھا بلکہ کئی تھے اور زیادہ تر کے جانوروں کی حالت ایسی ہی خستہ تھی۔ میں جانتی ہوں کہ ہم ہر کسی کو نصحیت نہیں کر سکتے مگر کلام جانوروں سے بھی اچھا سلوک رکھنے کی تعلیم دیتا ہے۔
سبت کو پاک ماننے کے حکم میں نہ صرف اپنے علاوہ نوکروں اور پردیسیوں اور جانوروں کو آرام دینے کا حکم ہے بلکہ ساتھ ہی میں زمین کو بھی ہر ساتویں سال آرام دینے کا حکم ہے۔ زمین کو سبت کا آرام دینے کا حکم ہمیں خروج 23:10 سے 11 میں نظر آتا ہے اور اسی حکم کو آپ دوبارہ احبار 25:2 سے 5 میں بھی دیکھیں گے۔ سبت کا یہ حکم دس احکامات میں سے چوتھے حکم کا ہی حصہ ہے۔ خداوند نے ہر ساتویں سال زمین کو جوتنے اور اسکا غلہ جمع کرنے سے منع کیا ہے۔ اسرائیل کی سر زمین پر یہ قانون لاگو ہوتا ہے کیونکہ احبار 25:2 میں ایسے لکھا ہے؛
بنی اسرائیل سے کہہ کہ جب تم اس ملک میں جو میں تمکو دیتا ہوں داخل ہوجاؤ تو اسکی زمین بھی خداوند کے لئے سبت کو مانے۔
زمین کو سبت کا آرام دینا اس بات کی یاد دہانی تھی کہ زمین کا مالک خداوند ہے اور انھیں اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھنا ہے جس نے انھیں یہاں آباد کیا اور وہی انکی ضروریات کو مہیا کرتا ہے۔ اور اگر وہ ایک سال زمین میں کاشت نہیں کریں گے تو بھی خداوند انکا خدا انکو انکی ضرورت کے مطابق مہیا کریں گے۔ ہم اس حکم کو احبار کی کتاب کے مطالعہ میں اور بھی پڑھیں۔
خروج 23:13 میں خداوند نے ایسے حکم دیا ہے؛
اور تم سب باتوں میں جو میں نے تم سے کہی ہیں ہوشیار رہنا اور دوسرے معبودوں کا نام تک نہ لینا بلکہ وہ تیرے منہ سے سنائی بھی نہ دے۔
خداوند نے ان احکامات کو احتیاط سے ماننے کا حکم دیا ہے اور دوسرے معبودوں کا نام تک لینے سے منع کیا ہے۔ لفظی معنوں میں اس حکم کو دیکھا جائے تو ہمارے بہت سے مسیحی لوگ بغیر سوچے سمجھے دوسرے معبودوں کا نام اپنی زبان سے لیتے ہیں اور اپنے خدا کا جلال انجانے میں غیر معبود کو دے دیتے ہیں۔ بری عادتوں کو توڑنا بہت مشکل ہوتا ہے مگر ہم اپنی بری عادتوں کو خداوند کی روح کی مدد سے ختم کر سکتے ہیں۔
جہاں اوپر اردو کلام میں "غیر معبود کا نام تک نہ لینا ” لکھا ہے وہ عبرانی کلام میں "غیر معبود کا ذکر تک نہ کرنا ” ہے۔ اگر اردو کلام کے مطابق "نام تک نہ لینا” کے حکم کو ذہن میں رکھا جائے تو پھر تو ایلیاہ نبی نے بھی اور ساتھ ہی میں بہت سے دوسرے نبیوں نے بھی یہ حکم توڑا ہے مگر جیسا کہ میں بیان کرنا چاہ رہی تھی کہ ہمیں غیر معبود کے نام میں اپنے خداوند کا جلال نہیں دینا چاہیے کیونکہ یسعیاہ 42:8 میں لکھا ہے؛
یہوواہ میں ہوں۔ یہی میرا نام ہے۔ میں اپنا جلال کسی دوسرے کے لئے اور اپنی حمد کھودی ہوئی مورتوں کے لئے روا نہ رکھونگا۔
میں اپنے اس آرٹیکل کو یہیں ختم کرتی ہوں اور اگلی دفعہ ہم اسی باب کے مطالعے کو جاری رکھیں گے۔ خداوند سے دعا ہے کہ وہ مجھے اور آپ کو ہمت بخشیں کہ ہم اسکے خلاف جھوٹے گواہ نہ بنیں اور خداوند کے نام کو جلال دے سکیں۔ یشوعا کے نام میں۔ آمین
Ameen