خروج 20 باب (آٹھواں حصہ)

image_pdfimage_print

آج ہم دس احکامات میں سے دسویں  حکم کا مطالعہ کریں گے۔ خروج 20:17 میں دسواں حکم ایسے درج ہے۔

تو اپنے پڑوسی کے گھر کا لالچ نہ کرنا۔ تو اپنے پڑوسی کی بیوی کا لالچ نہ کرنا اور نہ اسکے غلام اور اسکی لونڈی اور اسکے بیل اور اسکے گدھے کا اور نہ اپنے پڑوسی کی کسی اور چیز کا لالچ کرنا۔

میں پیریقی اووت سے   ربی الیعزر کا کہا درج کر رہی ہوں۔ میں نے حنین وقاص خان کی اس پر اردو    ترجمہ کی ہوئی کتاب "اخلاقیات الآباء”  کا استعمال کیا ہے۔ ابوت  4:21 میں درج ہے؛

"ربی الیعازرہاقپور کہا کرتے تھے؛ حسد، لالچ اور عزت کی خواہش آدمی کو جہان سے بے دخل کر دیتی ہیں۔”

ایک اور یہودی دانشور رمبان کے کہنے کے نچوڑ کے مطابق خواہش، لالچ کی طرف دھکیلتی ہے اور لالچ، چوری کی طرف  اور  بہت حد تک ممکن ہے کہ چوری قتل میں بدل جائے۔ یہ تو خیر یہودی دانشوروں کی تعلیم ہے مگر کلام بھی ہمیں کچھ اسی قسم کی تعلیم دیتا ہے۔ یعقوب 1:14 سے 15 میں لکھا ہے؛

ہاں- ہر شخص اپنی ہی خواہشوں میں کھینچ کر اور پھنس کر آزمایا جاتا ہے۔ پھر خواہش حاملہ ہو کر گناہ کو جنتی ہے اور گناہ جب بڑھ چکا تو موت پیدا کرتا ہے۔

خواہش ، ایک سوچ جو دل میں ابھرتی ہے۔ ہمارا یہ حکم ہمیں اپنی سوچ کو قابو میں کرنے کو کہتا ہے۔  زندگی ہر بار ویسی نہیں ہوتی جیسی کہ نظر آتی ہے۔ اگر آپ نے کبھی واعظ کی کتاب نہیں پڑھی تو  میرا مشورہ ہے کہ اسے ضرور پڑھیں ۔ ہر سال اسے سکوت  کے موقع پر پڑھا جاتا ہے۔ یہ کتاب ان الفاظ سے شروع ہوتی ہے (واعظ 1:2)؛

باطل ہی باطل واعظ کہتا ہے باطل ہی باطل۔ سب کچھ باطل ہے۔

اور پھر واعظ 1:7 میں لکھا ہے؛

سب ندیاں سمندر میں گرتی ہیں پر سمندر بھر نہیں جاتا۔ ندیاں جہاں سے نکلتی ہیں اُدھر ہی کو پھر جاتی ہیں۔

لالچ کابھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ خواہشات اتنی ہوتی ہیں کہ اگر انسان قابو میں نہ رکھے تو ایک کے بعد دوسرا گناہ سرزرد ہوتا رہتا ہے۔ کبھی آپ نے سوشل میڈیا کی طرف دھیان دیا ہے؟ ٹی وی، اخبارات، انٹرنیٹ ہمیشہ اس بات کا یقین دلانے کی کوشش میں رہتے ہیں کہ آپ کی زندگی میں بہت سی آسائشات کی کمی ہے۔ آپ فیس بک پر لوگوں کی اچھی کھینچی ہوئی تصویریں دیکھتے ہیں۔  آپ کو ہمیشہ ایسا لگتا ہے کہ ان کی زندگی آپ کی زندگی سے لاکھ درجے بہتر ہے۔ بس اگر آپ کی زندگی میں کمی ہے تو ۔۔۔۔ ان لوگوں کے طرح کے کپڑوں کی، گاڑی کی، گھر کی ، گھر میں سجی چیزوں کی، انکی طرح کے لائف سٹائل کی۔۔۔۔ لسٹ کافی لمبی ہو سکتی ہے۔ جتنا زیادہ وقت آپ ان سوشل میڈیا یا ٹی وی اور اخبارات کے اشتہاروں اور پروگراموں کی طرف لگاتے ہیں تو آپ یقین جانیں کہ آپ کی زندگی میں ہمیشہ بس "اسی کی کمی” رہے گی۔ آپ نے کبھی محسوس ہی نہیں کیا ہوگا کہ یہ تمام آپ کو لالچ کی دلدل میں گھسیٹ رہے ہیں اور آپ انجانے میں خداوند کے دئے ہوئے اس حکم کو توڑ رہے ہیں۔ آپ یہ سوچنے لگ جاتے ہیں کہ خداوند نے آپ کے ساتھ انصاف نہیں کیا ۔کسی کو تو اتنی دولت دے دی ہے کہ وہ ملک ملک پھرتے ہیں اور آپ کو اتنا بھی نہیں دیا کہ اپنے ہی ملک کے کسی دوسرے شہر کی سیر کر لیں، وغیرہ وغیرہ۔ ایک یدیشی مثال ہے کہ "ہر کسی کی اپنی ایک گٹھڑی ہے۔۔” مطلب یہ بنتا ہے کہ آپ کو نہیں پتہ کہ کس کی کیا مصیبت ہے۔ لالچ کے نشے میں پڑ کر کبھی بھی غلطی سے ایسی دعا نہ مانگیں کہ خدا مجھے فلاں شخص کی طرح زندگی دے۔ آپ کو کیا پتہ کہ اس شخص کی زندگی میں کتنے بڑے مسلے مسائل ہوں۔ مجھ سے جب کبھی کوئی مخاطب ہوتا ہے اور کہے کہ میری بھی دعا ہے کہ خدا مجھے آپ کی طرح ۔۔۔ دے، تو میں اکثر کہتی ہوں میری دعا ہے کہ خدا آپ کو مجھ سے بڑھ کر دے یا مجھ سے زیادہ اچھا دے۔  اگر آپ دھیان رکھیں کہ دینے اور لینے کی قوت خداوند میں ہے تو آپ کی نظریں ہمیشہ اس پر لگی رہی گی ۔ میں آپ کو مشورہ دونگی کہ اگلی دفعہ جب آپ کچھ ایسا ویسا دیکھ رہے ہوں کہ دل میں خواہش ابھرے کہ کاش یہ میرے پاس ہو تو فوراً اپنی نظریں اس سے ہٹا لیں کچھ دیر تک ادھر اُدھر  دیکھیں یا ادھر اُدھر کا سوچیں ، اس دسویں حکم کو ذہن میں لائیں یا کلام کی کسی اور آیت کو دھیان میں لائیں اور پھر دوبارہ اس چیز کی طرف نظر ڈالیں تو آپ کو احساس ہوگا کہ آپ کی خواہش کچھ ٹھنڈی پڑ گئی ہے۔  افسیوں 5:5 میں لکھا ہے؛

کیونکہ تم  یہ خوب جانتے ہو کہ کسی حرامکاریا ناپاک یا لالچی کی جو بت پرستی کے برابر ہے مسیح اور خدا کی بادشاہی میں کچھ میراث نہیں۔

لالچ ، بت پرستی کے برابر ہے کیونکہ آپ اپنی خواہش کو اپنے دل میں خدا سے بڑھ کر جگہ دے دیتے ہیں۔  مجھے یہ تو نہیں پتہ کہ یہ کس نے کہا تھا مگر میں نے کہیں دس احکامات کے بارے میں  پڑھا تھا کہ  خاص وجہ ہے کہ یہ حکم دسواں اور آخری حکم ہے کیونکہ اگر پہلے نو حکموں پر دل سے عمل کرو تو آپ میں ویسے ہی اتنی ہمت نہیں رہنی کہ  کسی کے گھر کی طرف نگاہ جائے کہ ان کے پاس کیا ہے اور میرے پاس کیا نہیں ۔ 🙂

ویسے تو میں نے اس حکم کے بارے میں بہت مختصر سا بیان کیا ہے مگر جیسے میں نے پہلے کہا کہ ہم آگے بھی ان کا مطالعہ کریں گے۔  بنی اسرائیل نے بادل گرجتے، بجلی چمکتے اور شوفار کی آواز کو سنا اور پہاڑ سے دھواں اٹھتے دیکھا وہ کانپ اٹھے اور دور کھڑے ہوگئے۔ انھوں نے موسیٰ سے کہا کہ صرف وہی ان سے بات کیا کرے لیکن خدا ہم سے بات نہ کرے کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ مر جائیں۔ مگر موسیٰ نے انھیں بتایا کہ وہ مت ڈریں ایسا اسلئے ہے تاکہ خداوند ان کا امتحان کرے اور انھیں خداوند کا خوف ہو تاکہ وہ گناہ نہ کریں۔ لوگ تو دور کھڑے رہے مگر موسیٰ اس گہری تاریکی کے نزدیک گیا جہاں خدا تھا۔ خداوند کی عبادت کے لئے اگر بنی اسرائیل کو کسی چیز کی ضرورت تھی تو وہ مٹی کی ایک قربانگاہ تھی جس پر وہ سوختنی قربانیاں اور سلامتی کی قربانیاں چڑھا سکتے تھے مگر اور کسی بھی قسم کے بت کو گھڑنے کی ااجازت نہیں تھی۔ اگر انھیں پتھر کی قربانگاہ بنانی تھی تو وہ تراشے ہوئے پتھر سے نہیں بنائی جا سکتی تھی۔ آپ نے بغیر تراشے پتھر یقیناً دیکھیں ہونگے کوئی بھی پتھر ایک جیسا نہیں۔ آپ اگر انسانوں کو دیکھیں تو ہر ایک انسان دوسرے انسان سے مختلف ہے یہاں تک کہ ہم شکل جڑواں  لوگ بھی کیونکہ ان کی انگلیوں کے پرنٹ ایک دوسرے سے فرق ہیں۔ زبور 4:5 میں لکھا ہے؛

صداقت کی قربانیاں گذرانو اور خداوند پر توکل کرو۔

اگر ہمارے دلوں میں خداوند کا خوف نہیں تو ہم ہمیشہ گناہ کی دلدل میں پھنسے رہیں گے جس کا انجام موت ہونا ہے۔ میں اپنے خروج 20 باب کے مطالعے کو یہیں ختم کرتی ہوں۔ اس دعا کے ساتھ کہ ہمارے دل میں جو بھی خواہشات ابھریں وہ نیک اور برحق ہوں جو کہ خداوند کے نام کے جلال کا سبب بنیں۔ یشوعا کے نام میں۔ آمین