آپ کلام میں سے خروج کا 14 باب مکمل خود پڑھیں۔ میں وہی آیات لکھونگی جسکی ضرورت سمجھونگی۔
ہم نے خروج 13 باب کے آخری حصے میں پڑھا تھا کہ خداوند بنی اسرائیل کو دن کو راستہ دکھانے کے لئے بادل کے ستون میں اور رات کو روشنی دینے کے لئے آگ کے ستون میں ہو کر انکے آگے آگے چل رہے تھے تاکہ وہ دن اور رات دونوں میں چل سکیں۔ ہم خروج 14:2 میں پڑھتے ہیں کہ خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ وہ بنی اسرائیل کو حکم دے کہ وہ لوٹ کر مجدال اور سمندر کے بیچ فی ہخیروت کے مقابل بعل صفون کے آگے ڈیرے لگائیں۔ خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ فرعون بنی اسرائیل کے بارے میں سوچے گا کہ وہ لوگ بیابان میں راستہ بھول کر واپس آگئے ہیں۔ خداوند نے مزید کہا (خروج 14:4):
اور میں فرعون کے دل کو سخت کرونگا اور وہ انکا پیچھا کریگا اور میں فرعون اور اسکے سارے لشکر پر ممتاز ہونگا اور مصری جان لینگے کہ خداوند میں ہوں اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔
ایک بار پھر سے بتاتی چلوں کہ پرانے عہد نامے میں اردو کلام میں جہاں لفظ خداوند ہے وہ عموماً عبرانی زبان میں لفظ "یہوواہ” ہے۔ خداوند مصریوں پر ثابت کرنا چاہتے تھے کہ وہی "یہوواہ” واحد خدا ہیں۔ مگر کیا ایسا صرف مصریوں پر ہی ثابت ہونا تھا؟ بار بار خداوند نے اپنے آپ کو بنی اسرائیل پر بھی ظاہر کیا کہ وہی انکے واحد خدا "یہوواہ” ہیں۔ فرعون ابھی تک خداوند کے آگے جھکا نہیں تھا ۔ وہ یہ ہرگز نہیں ماننا چاہتا تھا کہ خداوند ہی تمام قوت و اختیار کے مالک ہیں۔ اسلئے تمام نقصان کے باوجود اس نے اور اسکے خادموں نے ایک بار پھر سے اپنے فائدے اور نقصان کا سوچا۔ انھیں احساس ہوا کہ انھوں نے بنی اسرائیل کو ایسے جانے دیکر اپنے گھاٹے کا سودا کیا ہے۔ آخر کار بنی اسرائیل قوم انکی خدمت کرتے تھے، وہ انکے بڑے بڑے شہروں کو تعمیر کرنے کا کام کرتے تھے۔ انکے جانے کے بعد یہ سب کام کون کرتا؟ یہی باتیں سوچ کر انھوں نے بنی اسرائیل کا پیچھا کرنے کی ٹھانی تاکہ وہ انھیں جبراً واپس لا سکیں۔ فرعون نے مصر کے تمام رتھ اپنے ساتھ لئے اور بہت بڑی فوج بنی اسرائیلیوں کا پیچھا کرنے کو نکلی۔
ابھی جب بنی اسرائیل فی ہخیروت کے پاس بعل صفون پر ڈیرا لگا رہے تھے تو انھیں مصری اپنا پیچھا کرتے ہوئے نظر آئے۔ فی ہخیروت کے معنی ہیں ” پانی کی گزر گاہ” یا "پانی کی گھاٹی، خلیج”۔ بعل صفون کے معنی ہیں ” جاڑے یا طوفان کا مالک”۔ یہ طوفان وہ طوفان ہے جو کہ سمندر میں اٹھتا ہے۔ یہ کوئی حادثہ نہیں تھا کہ بنی اسرائیل اس وقت وہاں موجود تھے۔ اسکی وجہ خداوند کا دیا ہوا انکو حکم تھا کہ وہاں بعل صفون کے آگے ڈیرا ڈالتے۔ ہم خروج 13:18 میں پڑھتے ہیں کہ بنی اسرائیل ملک مصر سے مسلح نکلے تھے۔ اگر تو وہ مسلح تھے تو پھر تو انھیں اس بات کا کوئی خوف نہیں ہونا چاہئے تھا کہ مصری انکا پیچھا کرتے ہوئے قریب آ رہے ہیں۔ مگر شاید ملک مصر کی غلامی میں اتنے سالوں سے رہ کر وہ بالکل بھول گئے تھے کہ مسلح ہونے کا معنی یہی بنتا تھا کہ وہ جنگ کے لئے تیار رہیں۔
میں اکثر اپنے آرٹیکلز میں ساتھ میں روحانی پیغام بھی بیان کرتی ہوں۔ بنی اسرائیل کی ملک مصر کی غلامی، ہماری گناہ کی غلامی کو ظاہر کرتا ہے۔ یشوعا نے ہمیں گناہ کی غلامی سے رہائی بخشی ہے ویسے ہی جیسے کہ یہوواہ پاک خداوند نے بنی اسرائیل کو ملک مصر کی غلامی سے رہائی بخشی۔ آپ کو اپنے ایمان میں مضبوط کرنے کے لئے خداوند نے بارہا ان جھوٹے خداؤں کو آپ کی زندگی میں بھی شکست دی ہوگی جیسے کہ خداوند نے ملک مصر کے جھوٹے خداؤں کو نیچا دکھایا تاکہ بنی اسرائیل ہمیشہ یاد رکھ سکیں کہ وہی انکا واحد خدا ہے جو تمام اختیار و قوت رکھتا ہے۔ شاید آپ بھی اپنی زندگی کے اس موڑ پر ہیں جہاں پر آپ ملک مصر کی غلامی سے نکلتے ہوئے خوشی خوشی مسلح ہوکر نکلے ہونگے ۔ آپ سوچ رہے ہونگے کہ آپ کس طرح سے مسلح ہیں۔ یاد رکھیں، گناہ کی غلامی سے نکالتے ہوئے خداوند نے آپ کو کلام مقدس سے مسلح کیا ہے۔ مگر دشمن (شیطان) کو ایک بار پھر سے اپنے پیچھے آتے ہوئے دیکھ کر آپ بھول گئے کہ آپ مسلح ہیں۔ بنی اسرائیل کی طرح آپ نے بھی شاید اپنے ہتھیار کو استعمال کرنا ابھی سیکھا نہیں۔ اسلئے بنی اسرائیل ہی کی طرح آپ کی اس مصیبت کی گھڑی میں اگر آپ کو کچھ کرنا آتا ہے تو وہ ہے، خداوند سے فریاد کرنا۔ خداوند سے فریاد کرنا غلط نہیں۔ مگربنی اسرائیل کی خداوند سے فریاد ، فریاد کم اور شکایت زیادہ لگتی ہے۔ انھوں نے موسیٰ سے کہا (خروج 14:11 سے 12):
اور موسیٰ سے کہنے لگے کیا مصر میں قبریں نہ تھیں جو تو ہمکو وہاں سے مرنے کے لئے بیابان میں لے آیا ہے؟ تو نے ہم سے یہ کیا کیا کہ ہمکو مصر سے نکال لایا؟ کیا ہم تجھ سے مصر میں یہ بات نہ کہتے تھے کہ ہمکو رہنے دے کہ ہم مصریوں کی خدمت کریں؟ کیونکہ ہمارے لئے مصریوں کی خدمت کرنا بیابان میں مرنے سے بہتر ہوتا۔
ان بنی اسرائیلیوں نے پیدا ہوتے ساتھ ہی غلامی دیکھی تھی انھیں آزادی کا نہ تو کچھ علم تھا اور نہ ہی خود کوئی دلی خواہش تھی اور اگر شاید کبھی دل میں ذرا سی بھی خواہش پیدا ہوئی تھی تو وہ مصریوں کے خوف سے ہمیشہ کے لئے دب چکی تھی۔ تبھی ملک مصر کی غلامی سے نکلتے ساتھ ہی ، مصریوں کو اپنا ایسا پیچھا کرتے دیکھ کر انھیں یہی لگا ہوگا کہ آزادی انکے لئے نہیں ہے۔ اگر انھیں زندہ رہنا ہے تو وہ مصریوں کی غلامی میں ہے اور اگر مرنا بھی ہے تو وہیں انکی غلامی میں مرنا ہے۔ انھیں بیابان میں مرنے سے بہتر یہی لگا کہ مصر یوں کی خدمت کرتے کرتے ادھر ہی قبروں میں دفن ہوجاتے۔
اپنی زندگی میں جھانک کر دیکھیں کیا آپ خداوند سے فریاد کر رہے ہیں یا کہ پھر شکایت کر رہے ہیں؟ آپ کو گناہ آلودہ زندگی سے نکلنا اچھا لگا ہے یا کہ پھر آپ اپنی پرانی زندگی یاد کر کے یہ سوچ رہے ہیں کہ وہ پرانی زندگی اس نئی زندگی سے بہتر ہے؟
موسیٰ نے بنی اسرائیل کی ایک بار پھر سے شکایت کو نظر انداز کر کے انھیں حوصلہ دیا۔ اس نے ان سے کہا (خروج 14:13 سے 14):
تب موسیٰ نے لوگوں سے کہا ڈرو مت۔ چپ چاپ کھڑے ہوکر خداوند کی نجات کے کام کو دیکھو جو وہ آج تمہارے لئے کریگا کیونکہ جن مصریوں کو تم آج دیکھتے ہو انکو پھر کبھی ابد تک نہ دیکھو گے۔ خداوند تمہاری طرف سے جنگ کریگا اور تم خاموش رہوگے۔
موسیٰ نے اپنے لوگوں کو حوصلہ دلایا کہ وہ خاموشی سے خداوند کی نجات کو کام کرتا دیکھیں کیونکہ اب وہ ان مصریوں کو پھر دوبارہ نہ دیکھیں گے کیونکہ خداوند بنی اسرائیل کی طرف سے ان سے جنگ کریگا۔ میں آپ کی صورت حال کو تو نہیں جانتی مگر میں آپ سے صرف اتنا ہی کہونگی کہ ڈریں مت ، خداوند کی نجات (یشوعا) کو اپنی زندگی میں کام کرتا دیکھیں وہی آپ کی طرف سے آپ کے دشمنوں سے لڑے گا۔ آپ اپنا ایمان اس پر قائم رکھیں۔
ہم خروج کے 14 باب کا مطالعہ اگلی دفعہ کریں گے۔ میری آپ کے لئے یہی دعا رہے گی کہ وہ آپ کے دشمنوں کا مقابلہ آپ کی طرف سے کرے تاکہ آپ انھیں پھر کبھی دوبارہ اپنے خلاف کھڑا نہ دیکھیں، یشوعا کے نام میں۔ آمین